جمعرات, دسمبر 24, 2015

"یقینِ زندگی(2)"

گذشتہ سے پیوستہ۔۔
٭یقینِ زندگی(1)۔
http://noureennoor.blogspot.com/…/12/Father-Life-Kahani.html 
٭یقینِ زندگی (2)۔دوسرا اور آخری حصہ۔۔۔ 
دل کی باتیں۔۔۔
زندگی کے اس نئے موڑ پر کڑی محنت ومشقت سے حاصل ہونے والی مالی آسودگی دل کے اُن نرم ونازک دروازوں پر دستک دینے لگی برسوں جنہیں بےخبری کی میخوں سے بند کر رکھا تھا۔دن بھر کام کے بعد رات گئے اپنے ہم مشرب دوستوں کے ساتھ واپسی کا سفر ساری تھکان اُتار دیتا،کبھی پیدل،کبھی کرائے کی سائیکل پر جاتے ہوئے چلتے چلتے راستے میں شعروشاعری کی محفلیں ہوتیں،اس زمانے کے بہت سے احباب آگے چل کر علم وفن کی دنیا میں نامور ہوئےجن میں فلمسٹار آغاطالش اورحبیب نے فلم کی دنیا میں نام کمایا اور کچھ ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوگئے۔بعد کی زندگی میں آرام نصیب ہوا تو یہ یادیں ایک کسک بن کر ٹیس دیتیں۔اس برسوں پرانی بوسیدہ صفحوں اور مٹتے حروف والی چھوٹی سی ڈائری میں حمدیہ نعتیہ اشعار کے ساتھ ساتھ ، قائدِ اعظم ،خان لیاقت علی خان،پاکستان کے بارے میں خوبصورت شاعرانہ اظہاراور محبت وعشق کے جذبات کی جھلکیاں ملتی ہیں تو ساتھ زمانے کی تلخیاں بھی حالِ دل کہتی نظر آتی ہیں۔ 
ڈائری سے انتخاب ۔۔۔
٭ایک غزل ۔۔۔۔1956 بزم ادب راولپنڈی میں پڑھی۔ 
اب تو کچھ ایسی طبیعت ہو گئی شادمانی سے بھی نفرت ہو گئی
اب اُنہیں دل سے بھلاؤں کس طرح اُن کی یاد اب تو عبادت ہو گئی
مری خاموشی کا باعث کچھ نہیں یعنی چُپ رہنے کی عادت ہو گئی
کھیل سمجھا تھا میں حسن وعشق کو کھیل سے یوں ہی حقیقت ہو گئی
اِک قیامت تھی محبت کی خلش رفتہ رفتہ یہ بھی راحت ہو گئی
یاد اُن کی بن گئی دردِ جگر
زندگی غاز کی قیامت ہو گئی
۔۔۔
٭غزل ۔۔۔جو ایک مشاعرے میں پڑھی۔ 
"بھیک"
کہتا ہے کون تجھ سے مسرت کی بھیک دے تو میرے دل کو دردِ محبت کی بھیک دے
حیرت کی بھیک ملتی رہی اُس کو آج تک میری نظر کو آج زیارت کی بھیک دے
میں بھی غمِ حبیب سے کر لوں ذرا سا پیار مجھ کو زمانہ تھوڑی سی فرصت کی بھیک دے
غازی میں اس سے قصۂ غم کہہ کے دیکھ لوں
اِک بار وہ اگر مجھے خلوت کی بھیک دے 
مقصدِ زندگی۔ 
اگلے دس برسوں میں شادی ہو گئی،بچے ہوئے،باعزت روزگار اور معاشرے میں نمایاں مقام بھی حاصل ہوا۔زندگی شاید اسی رفتار سے چلتی رہتی لیکن اُن کی اُفتادِ طبع کو جیسے دنیا کے ہر آسمان کو چھونے کی تمنا تھی۔ سب سے پہلے تو یورپی ممالک میں قسممت آزمائی کی ٹھانی۔یہ زندگی پر اُن کا حق بھی تھا کہ ممکن حد تک اپنے وسائل میں رہتے ہوئے آگے سے آگے بڑھا جائے۔وہ بخوبی جانتے تھے کہ انسان پانی کا بلبلہ ہے لیکن پانی کی زندگی چلتے رہنے میں ہی ہے۔ایک جگہ ٹھہر جائے تو وہی پانی غلاظت اور بدبو میں تبدیل ہو جاتا ہے جسے ری سائیکل کر کے کام تو چلایا جا سکتا ہے لیکن اپنی پیاس نہیں بجھائی جا سکتی۔اس وقت جیب ہوائی سفر کی متحمل نہ تھی تومغربی سرحد سے گزر کر ایران کے راستے جرمنی تک کا سفر کیا اور راستے میں آنے والے ہرملک ہر شہر سے کچھ نہ کچھ سیکھتے چلے گئے۔زندگی کا یہ پہلا ایڈونچر حقائق جانتے ہوئے چند ماہ بعد وطن واپسی پر ختم ہوا۔لیکن ہارنا فطرت نہ تھی۔
اس سفر کی یاد دلاتا ایک خط۔۔۔ جو سُسر حاجی عبدالمعبود صاحب کو لکھا ۔۔۔


ستر کی دہائی اور مالی دھچکے۔۔۔۔ 
ستر کی دہائی کے آغاز میں اپنے کلینک کے قریب کچھ جگہ حاصل کی اور شیشے کے برتن بنانے والے ایک چھوٹے سے کارخانے کی بنیاد رکھی۔ 1971 میں سانحہ تقسیمِ پاکستان کے بعد یہ دور پاکستان کی سیاسی اور معاشرتی زندگی کا بدترین دور تھا۔ایک طرف روٹی،کپڑا،مکان کا نعرہ لگا کر معاشرے میں غریبوں کی عزتِ نفس بحال کرنے کا عزم لے کر کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والے کامیاب سیاست دان نے گدھےگھوڑے کو ایک تانگے میں جوت دیا۔۔اُس دور میں حکومتِ وقت نے غریب مزدور کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔اس غریب مزدور کی حالت تو چار دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی ویسی ہی ہے بلکہ اس سے بھی بدتر ہو چکی لیکن اُس کی حالت کو کیش ان مزدوروں کے نمائندوں نے خوب کرایا۔
صنعتوں کو قومیانے یعنی سرکاری تحویل میں لینے کا اعلان کیا ہوا کہ مزدور رہنما شیر ہو گئے اور مالک چوہے بن گئے۔ مزدور تنظیمیں اسی دور کی پیداوار ہیں جن کے غلیظ ثمرات ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔آج کے دور میں نہ صرف صنعتوں بلکہ ہر سرکاری ادارے میں یونین کے اراکین کی شان کا تصور صرف واقفِ حال ہی بیان کر سکتے ہیں،بیرونِ ملک ہوائی سفر کے لیےٹکٹوں کی بندربانٹ سے لے کر محکمے میں نوکری کرنے تک اور تنخواہوں میں اضافے کے مطالبوں سے کام کے اوقاتِ کار تک سب اُن کی ایک ہڑتال کی مار ہے۔
اُس دور میں اُس چھوٹے سے کارخانے کے مزدور رہنماؤں نے اپنے جائزوناجائز مطالبے ایک ہی پلیٹ میں رکھ کر کام کرنے سے انکار کر دیا۔گلاس فیکٹری بند اور مقدمات شروع ہوگئے۔ پھر چشمِ فلک کے ساتھ اس ڈاکٹر نے وہ وقت بھی دیکھا جب اس کے اپنے ملازمین اس کے خلاف جلوس نکالتے اوراُس کے فرضی جنازے کے ساتھ ہائے ہائے کرتے گزرتے جا رہے تھے۔
روایتی تعصب۔۔۔۔ 
پہلی غلطی اس ڈاکٹر کی اپنی تھی کہ اس نے فیکٹری میں ملازمین رکھتے وقت مقامی لوگوں کو ترجیح دی۔ان مقامی افراد نے اس کی ترقی کبھی بھی دل سے قبول نہ کی۔ وہ اس سے علاج کراتے وقت ایک مرید کی طرح نگاہیں جھکا رکھتے کہ اس کے ہاتھ میں بڑی شفا تھی۔۔۔وہ مریض کی چال ڈھال سے مرض جانچ لیتا اور اس کے مزاج اور حیثیت کے مطابق دوا دیتا۔کبھی تو صرف اس سے بات کر کے ہی مریض کی آدھی بیماری دور ہو جاتی۔ پیسہ عام انسان ہونے کے ناطے اُس کی ضرورت تو تھا لیکن طلب نہیں۔غریب کی عزتِ نفس اہم تھی کہ زندگی کی اس تلخ شراب کا ذائقہ اُس نے چکھا ہی نہیں بلکہ اپنی رگ رگ میں اس زہر کو اُتارا بھی تھا۔اسی لیے معاشرے کے شرفاء بلکہ غرباء بھی اس کے دروازے پر شانہ بہ شانہ ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگاتے پہنچتے۔وہ رات گئے سرجھکائےاپنے کام میں مصروف رہتا۔بڑے بوڑھے اس ڈاکٹر کے دیوانے تھے جو اپنی خوش مزاجی سے دل جیت لیتا تھا۔مائیں جھولی بھر بھر دعائیں دیتیں اور درد سے بلکتے بچے اس کے لہجے اور انداز سے تسکین پا جاتے۔ ڈاکٹر جی اے خان کے نام سے معروف ہونے والا  یہ مسیحا بعدازاں سب کے لیے "جیا" کے نام سے محترم ہوتا چلا گیا۔
پناہ گیر۔۔۔۔ 
فیکٹری  چلنے میں اصل رُکاوٹ یہاں کے جدی پشتی مقامی افراد تھے۔کسی خاص علاقے کے تعصب سے قطع نظر وہ ازلی تکبر جو ہر علاقے کے بڑے یا طاقتور کے ذہن میں فتور کے سانپ کی طرح سدا کلبلاتا ہے۔تخیل اور حقائق کے امتزاج سے بننے والا دنیا کا واحد نظریاتی خطہ بھی اسی نفسانفسی کی لپیٹ میں تھا۔یہاں کے رہنے والے ہجرت کر کے آنے والوں کو کسی حد تک جگہ دینے پر آمادہ ضرور تھے لیکن یہ ہجرتِ مدینہ کے بعد مہاجرین اور انصار کا دور نہ تھا۔ معاشرے میں ذات برادری اور زن،زر،زمین کی جڑیں دور تک پھیلی ہوئی تھیں۔ قصہ مختصر وہ اپنی زبان میں اس مسیحا کو"پناہ گیر"کہتے اور چالیس برس سے زائد کی اس مزدوری میں ایذا پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔اس وقت فیکٹری سے ہاتھ دھونا پڑے،اُس کے مقدمات بھی ہار گئے اور اگلے کئی برسوں تک دن بھر کی محنت کی کمائی بقایا جات کی ادائیگی کی نذر ہوتی رہی۔ 
مقدمات اور پیشیاں۔۔۔۔

مقدمات کی بات کروں تو یہ الگ ایک ناقابلِ یقین داستان ہے اور قانون اندھا ہوتا ہے کے محاورے پر مہر ثبت کرتی ہے۔ کلینک کی چھوٹی سی دُکان ایک بڑی سڑک پر تھی اور اس کے پیچھے کسی مقامی کا گھر تھا۔اس نے شاید منت کی ہو کہ مجھے اپنے گھر میں داخل ہونے کے لیے گھوم کر جانا پڑتا ہےمجھے سامنے سے کچھ راستہ دے دیں۔گزرنے کا راستہ دیا تو اس نے وہاں دروازہ لگا لیا۔ برسوں بعد جب اس دکان کو گرا کر نئی تعمیر کرنا چاہی تو اس شخص نے اپنے راستے پر حقِ ملکیت کا دعوٰی کر دیا۔ قانون ہمیشہ کی طرح اندھا تھا کئی سال پیشی درپیشی کے بعد وہ غاصب مقدمہ جیت گیا۔ لیکن ایک مقدمہ رب کے حضور بھی تھا جس کا فیصلہ یوں آیا کہ جلد ہی مقدمہ جیتنے والے کا انتقال ہو گیا اور دنیا نے دیکھا کہ جس راستے کے لیے وہ برسوں لڑتا رہا اس ڈاکٹر کو سرِعام بےعزت کرتا رہا وہ راستہ اتنا چھوٹا تھا کہ اس کے جنازے کی چارپائی اس میں سے نہ نکل سکتی تھی۔یہ مکافاتِ عمل تھا۔
چالباز اور قبضہ گروپ اگر ایک بات جان گئے تھے کہ یہ ڈاکٹر نہ کسی سے ڈرتا ہے اور نہ ہی اسے جھکایا جا سکتا ہے اور نہ خریدا جا سکتا ہے لیکن وہ اس کی ایک کمزوری سے بھی واقف تھے کہ یہ صرف اور صرف اپنے بل بوتے پر کھڑا ہے اور اس کے آگے پیچھے کسی خاندان کا سہارا بھی نہیں۔ برسوں ان سازشوں کا مقابلہ کرتے گذر گئے۔یہاں تک کے جب اسی چھوٹی دکان کو گرا کر پلازہ کی شکل دی تو اس خاکی کی یہ بلندی ناقابلِ برداشت ہو گئی۔تعمیر کے دوران بنی ہوئی دیوار گرا دی جاتی تو کبھی سامان چوری ہو جاتا۔ بددیانت ملازمین تو شروع سے ملتے رہے جو کام سیکھنے کے بعد اپنی دکان کھول کر بیٹھ جاتے اور ڈاکٹر کے نام کی تختی ڈھٹائی اور دھڑلے سے لگائی جاتی۔یہ تو بہت معمولی سے دھوکے تھے ابھی تو کشکول وقت میں ان کے لیے نہ جانے کیسے کیسے لرزا دینے والے ناجائز مقدمات کے دفتر کھلنا باقی تھے۔
ان میں سے ایک کی کچھ جھلکیاں کہ اس مقدمے نے سب خواب الٹ پلٹ کر کے رکھ دئیے۔ چار منزلہ پلازہ کی تعمیر مکمل ہوئی تو باقاعدہ منصوبہ بندی سے دھوکے باز ملازمین کو ساتھ ملا کر ممنوعہ ادویات رکھوا دی گئیں۔اگرچہ محض ایک رات میں ہی اس سازش کا پردہ چاک ہو گیا اور اخبار میں بھی ان جھوٹے ڈرگ انسپکٹرز کی خبر لگ گئی۔ مقدمہ چلتا رہا، اس سے باعزت سرخرو ہوئے، دشمنوں کو منہ کی کھانا پڑی لیکن ڈاکٹری کی پریکٹس سے کنارہ کش ہو گئے۔
اس کے بعد کافی عرصہ پہلے خریدی گئی کئی کنال زمین کا ایک عجیب وغریب پیچیدہ مقدمہ پیش آیا جب اُن کے مرنے کے سرٹیفیکیٹ کے ساتھ فرضی بیوہ اور بیٹا زمین بیچ کرغائب ہو گئےاور خریدنے والوں نے فوراً زمین آگے بیچ دی۔ یہ مقدمہ جان کا روگ بن گیا،عدالت میں جج کے سامنے جا کر بیان بھی دیا کہ میں آپ کے سامنے زندہ کھڑا ہوں میرا یقین کریں لیکن اب پتہ چلا قانون کے ساتھ منصف بھی اندھے ہوتے ہیں۔ان کو صاحب مقدمہ کی زندگی کے ثبوت کے لیے مقدمے میں شامل فرضی رشتہ دار گواہ بھی درکار تھے۔یہ مقدمہ زندگی کےکئی سال مالِ غنیمت کی طرح چاٹ گیا اور آخری سانس تک لاحل رہا کہ قبضہ گروپ بااثر اور قانون بےاختیار تھا۔
ہر بار کیچڑ میں گر کر کنول کے پھول کی مانند اس انسان نے اپنی شناخت پر حرف نہ آنے دیا اور نہ ہی ایمان میں تھڑدلی دکھائی۔زندگی کی ہر بھیانک ذلت کوخندہ پیشانی اور خاموشی سے قبول کر کے فراغت کو اپنی زندگی میں اپنی مرضی سے صبح شام کرنے کی ایک نعمت جانا۔۔۔واقعی یہ ظاہری ذلت ایک ابدی نعمت کا اشارہ بھی تھی کہ کوئی بھی ڈاکٹر اور وہ بھی اپنی ذاتی پریکٹیس کرنے والا آخری سانس تک ریٹائر ہونے کا تصور نہیں کر سکتا۔ معمول کی سالانہ تعطیلات تو دور کی بات ہفتہ وار چھٹی بھی کام کا بوجھ بڑھا دیتی ہے۔ یہی اُن کے ساتھ ہوا۔ 1968 میں افغانستان کے راستے یورپ کے سفر کے علاوہ ساری زندگی انہوں نے اپنے محور سے باہر قدم نہ رکھا۔عید بقرعید کی چھٹی یا کسی بہت ہی قریبی عزیز کے غم یا خوشی کے علاوہ اُن کا کوئی حلقۂ احباب نہ تھا۔وہ دوست بھی خواب ہوئے جن کے ساتھ خوابوں کی باتیں ہوتی تھیں۔لیکن اول روز سے وہ اپنے خاندان کی اہمیت سے واقف تھے۔ ہفتے کے چھ دنوں میں بچوں کی پڑھائی اور ہر قسم کی ضروریات کی ذمہ داری اُن کی اہلیہ عمدہ طریقے سے نبھاتیں تو چھٹی کا روز وہ اپنی بچیوں کے نام کرتے۔ اللہ نے ان کو چار بیٹیوں سے نوازا اور وہ ہمیشہ بیٹی کی آمد کا استقبال خاندان میں مٹھائی بانٹنے سے کرتے۔ اللہ نےدو تندرست بیٹے بھی دیےلیکن وہ چند ماہ کی زندگی گزار کر نمونیے کی وجہ سے انتقال کر گئے۔جیتا رہا تو ایک بیٹا جو پیدائشی ذہنی معذور تھا(یہ بیٹا ماں کے جانے کے تین سال بعد تک جیتا رہا لیکن باپ کےجانے کے دو ماہ بعد ہی چل بسا)۔ 
یادگار یادیں۔۔۔ 
بات چھٹی کے روز کی ہو رہی تھی جسے اس زمانے میں بچیاں "سنڈے منانا "کہتیں۔ یہ دن روز عید کی طرح بھرپور اور ہر بار منفرد گزرتا۔ دوپہر کا کھانا اگر ایک شاہی ضیافت کی طرح ہوتا تو شام اور رات کو باہر گھومنا پھرنا لازمی تھا۔ یہ  سن ستر اور اسی کے درمیانی عرصے  کی کہانی ہے جب سینما دیکھنا ایک صاف ستھری تفریح ہوا کرتا تھا۔   نئی  آنے والی فلم کی بکنگ کرا دی جاتی۔وقت پر پہنچتے اور لمبی قطاروں سے بچ کر نکلتے ہوئے تاریک سینما میں ٹارچ کی روشنی میں رہنمائی کرنے والے کے ساتھ بچے بڑے شان سے اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھ جاتے۔ چھوٹے بچوں کو گھر میں کسی بڑے کے پاس چھوڑ دیا جاتا۔ درمیانی وقفے میں ہال روشن ہو جاتا تو ڈیڑھ گھنٹے کی تاریکی اور خاموشی کے بعد اپنے آس پاس اجنبی چہروں کا اژدہام اور شور دیکھنا ایک عجیب ہی احساس تھا۔ چائے اور ٹھنڈی بوتلوں کے کھٹا کھٹ کھلنے کی آوازیں بچوں کو چاق وچوبند کر دیتیں۔انٹرویل میں روشنی ہوتے ہی بہت سے شناسا چہرے بھی نظر آتے۔ پنڈی میں کمیٹی چوک کےقریب "موتی محل" سینما میں فلم دیکھنے کا اور ہی لطف تھا جب کسی گانے کے دوران اسٹیج پر پوشیدہ موتی والا پردہ دھیرے ٓدھیرے گرنے لگتا اور گانے کے بول کے ساتھ موتیوں کی ریفلیکشن عجیب سماں باندھ دیتی۔فلم ختم ہونے کے بعد کبھی اسکوٹر پر تو کبھی ٹیکسی میں گھر لوٹتے۔اکثر یوں بھی ہوتا کہ واپسی پر صدر میں بابو بازار سے تکے اور سیخ کباب کھائے جاتے یا پھر بنک روڈ پر اوپری منزل پر واقع آئس کریم پارلر میں اپنی پسندیدہ آئس کریم "ٹوٹی فروٹی"۔۔۔کیا شاہانہ احساس ہوتا جب ہر ایک کو اس کے اپنے پیالے میں میوے ڈال کر آئس کریم سرو کی جاتی۔پارلر کا مالک جہاں اپنے روایتی گاہکوں کی خاطر کرتا وہیں بچیوں سے خوش گپیاں بھی چلتی رہتیں۔انہی یادوں میں ایک یاد اسلام آباد میں آبپارہ مارکیٹ کے"کامران کیفے"کی بھی ہے۔ اسلام آباد ہمیشہ سے ڈاکٹر صاحب کے خوابوں کا شہر رہا۔راولپنڈی میں شروع سے رہائش اور روزگار ہوتے ہوئے انہوں نے وہاں کبھی بھی اپنا ذاتی گھر بنانے کا تصور نہ کیا۔اس دور میں گھر بنانے کے وسائل تو نہ تھے لیکن پنڈی سے صرف "کامران کیفے"کے خوابناک فیملی روم میں کھانا کھانے آتےاورڈھلتی رات میں گھر لوٹتے۔ 
اُسی دور کی اسلام آباد کی سیر کی یادوں میں"بری امام"کے مزار پر جانا ہے تو شکرپڑیاں،روز گارڈن اور راول ڈیم بھی ایک خوبصورت شام کہانی ہوا کرتے۔
اپنا گھر۔۔۔اپنی چھت۔۔۔۔ 
سن 78 میں اسلام آباد کے نیم آباد سیکٹر میں زمین لی تو اپنی والدہ کو دکھانے لے گئے۔ گھنا جنگل اور بےآباد سی جگہ دیکھ کر والدہ نے گہرے تاسف کا اظہار کیا کہ میرا بچہ اس جنگل میں کیسے رہے گا۔والدہ اگلے برس برین ہیمریج سے انتقال کر گئیں۔اس سے پہلے 1973 میں والد صاحب بیٹے کے سر پر چھت دیکھے بنا ایک کرائے کے گھر میں وفات پا چکے تھے۔دو برس کی دن رات محنت کے بعد1980 میں گھر کی تعمیر مکمل ہوئی اوراسی سال مارچ میں شفٹ ہو گئے۔
اُنہوں نےخواہشوں،چاہتوں،ضرورتوں کی اینٹوں اور حقوق وفرائض کے مضبوط سیمنٹ سے جوڑ کراور اپنے خون پسینے کی نمی سے اس تاج محل کو سربلند کیا۔ اس خواب گھر کی ایک ایک اینٹ، ایک ایک تار اور ایک  ایک روشنی ان کے ناآسودہ خوابوں کا عکس بھی تھی۔ دنیا کے سفر اور اپنے وطن میں جہاں بھی گئے،روشن مکانوں اور خوبصورت چیزوں کےعکس حسرت یا مضبوط ارادے سے ہی سہی دل میں محفوظ کرتے رہے اور جب اللہ نے موقع دیا تو اپنے گھر میں چھوٹی چھوٹی خواہشیں پوری کیں۔گھر کے نقشے میں ذرا ذرا سی باریکیوں کو ذہن میں رکھا تو گھر کو ضرورت اور آرائش کی بہت سی انوکھی اشیاء سے سجایا۔ برسوں سے دیکھا جانے والا خواب اب حقیقت کا روپ دھار چکا تھا۔ لیکن بےزمینی کے دکھ جو روح میں اتر گئے تھے ہمیشہ درد دیتے رہے اور زندگی کی نعمتوں کے شکر کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ شکر اس بات کا ادا کرتے کہ اللہ نے سر پر اپنی چھت عطا کی۔لیکن اپنی محنت اور اللہ کے فضل وکرم سے تعمیر کردہ یہ حفاظتی قلعہ بھی اُن کے وجود کو انسان کا انسان پر اعتماد دینے سے قاصر تھا۔انہوں نے ساری زندگی لوگوں کی پروا نہ کی،جو چاہا وہ سوچا اور جو سوچا وہ پا لیا۔لیکن یہ چاہنے سے پانے تک کا سفر ایک جبرِ مسلسل تھا ایک سفرِپل صراط۔۔۔جس میں کہیں اُن کے خوابوں کی شفاف اور روشن آنکھوں کو بےمہر انسان حرص وہوس کی جلتی سلائیاں پھیر کر نابینا کرنے کے درپے رہے تو کبھی تقدیر کا سفاک قلم ہر منزل کے اختتام پر بند گلی کا لیبل چسپاں کرتا رہا۔ 
تلخیاں اور سختیاں۔۔۔ 
سر چھپانے کو ٹھکانہ میسر آیا تھا لیکن زندگی کی سختیاں اور اذیتیں کسی طرح ساتھ چھوڑنے پر آمادہ نہ تھیں آرام ملا تو بس اتنا کہ پورے دن کی بجائے دوپہر کے بعد کلینک جانے لگےاور رات گئے تک اپنا کام کرتے۔۔سواری کے نام پر وہی ویسپا اسکوٹر گرمی سردی میں ساتھ دیتا،ہر روز کئی میل کا فاصلہ طے کرتے۔ بارشوں کی جھڑی میں زیرو پوائنٹ کا پل سہارا دیتا تو شدت کی سردی میں دو دو دستانےاور ڈفل کوٹ پہنتے(جو جرمنی کے سفر کی یادگار تھا)۔واپسی پر صدر کی مخصوص بیکری سے کھانے کی چیزوں سے لدے پھندے آتے۔اپنے وسائل میں رہتے ہوئے انہوں نے دنیا کی ہر نعمت ہر لذت اپنی بچیوں کو کھلانے کی کوشش کی۔رات کا یہ ایڈونچر اکثر بھیانک حد تک مہنگا بھی پڑتا رہا۔دو یا تین بار اسکوٹر پارک کر کے بیکری میں داخل ہوئے تو  وہ پیچھے سے چوری ہو گیا۔ اب سوچا جائے تو دل لرزتا ہے کہ رات کے اس پہر کیا حالت ہوتی ہو گی اور کس طرح گھر پہنچتے ہوں گے۔کئی بار دن بھر کی کمائی کا بٹوہ بھی چوری ہوا۔ایک بار اسکوٹرچوری ہوا تو چند دن بعد کہیں کھڑا مل گیا،ایک مریض نے پہچان کر اطلاع دی۔اسی طرح بٹوہ بیکری میں گرا تو یہ آخری گاہک تھے۔اگلی صبح بیکری کھلنے سے پہلے پہنچ گئے تو بٹوہ سامنے پڑا تھا۔ 
بٹوہ چوری ہونے کا واقعہ اکلوتی بہن کی بارات والے روز بھی پیش آیا۔ یہ سن  1971کی بات ہے، جب  دوسرے شہر سے آنے والی بارات خوب دھوم دھڑکے سے گھر پہنچی تو اسی وقت قریبی سینما میں بھی شو ختم ہوا (جسے شو ٹوٹنا بھی کہا جاتا تھا ) اور بہت سے اجنبی باراتیوں کا روپ دھارے شامل ہوگئے۔ سب سمجھے کہ بارات بہت بڑی ہے۔ وہ  حساب کتاب کا زمانہ نہیں تھا  کہ  گنتی کر کر کے مہمان  بلائے جاتے تھے اور نہ ہی  "پر پرسن" کے تحت " کیٹرنگ" ہوتی تھی ۔بلکہ بڑی بارات قابلِ فخر سمجھی جاتی تھی۔سو اس "بڑی بارات" میں جیب کتروں  کو حرام کی کمائی کا خوب موقع ملا  اور تاک کرکالی شیروانی پہنے  دلہن کے بڑے بھائی کو نشانہ بنایا۔
مارشل لاء اور اسلام آباد کے رنگ۔۔۔ 
ناکامی اگر قدم روکتی تھی تو اگلے پل کامیابی زندگی پر مان قائم رکھتی۔ انسان ہونے کے ناطے مایوسی اور پریشانی لازمی امر تھا لیکن ان کی طبعی خوش مزاجی جلد غالب آ جاتی۔ اسلام آباد میں رہتے ہوئے چھٹی کے دن کی بہاریں بھی انوکھی تھیں۔وہ سینما بینی تو ختم ہوئی کہ نئی دہائی میں مارشل لاء کے بعد سیاسی ماحول کے ساتھ ساتھ کلچربھی بدل گیا۔تفریح کے انداز بدلے تو گھر گھر وی سی آر کی بدولت نہ صرف فلم بینی کا ذوق ختم ہوا بلکہ خاص وعام کے لیے ہر قسم کی فلم کی راہ ہموار ہو گئی اور اخلاق واقدار کی راہ کھوٹی ہوتی چلی گئی۔
اُس دور میں ٹویوٹا کرولا کی 73 ماڈل ری کنڈیشن گاڑی خریدی اور اپنی ذاتی گاڑی سے ہی گاڑی چلانا سیکھی۔ سو اب چھٹی کا دن جی بھر کر سیر وسیاحت میں گزرتا۔ اسلام آباد سے باہر قریب قریب کے سارے شہر اور"ہل اسٹیشن" کھنگال ڈالے۔ اس زمانے میں اسلام آباد نمائشوں کا شہر بھی تھا۔ کبھی صنعتی نمائش لگتی تو مہینوں جاری رہتی۔ کبھی لوک ورثہ تو کبھی پھولوں کی نمائش،غرض کہ زندگی کے ہر رنگ سے خوشی تلاشتے۔بڑی بیٹی کا شوق دیکھتےہوئے اور اپنے پرانے شوق کا درد چھپاتے اسے مشاعروں پر لے جاتے۔بچوں کےتعلیمی مدارج کے دوران پڑھائی کےحوالے سے اگرچہ ان کی نگرانی نہ ہونے کے برابر تھی کہ یہ محاذ ان کی اہلیہ نے بخوبی سنبھالا ہوا تھا لیکن تعلیم کوان کی زندگی میں ہمیشہ سے اولیت حاصل رہی۔بچیوں کوتعلیم کی سہولیات فراہم کرنے میں انہوں نے کوئی کمی نہ کی۔اُن کی آئندہ زندگی کے فیصلوں میں بھی ممکن انسانی حد تک بہتر سے بہترین کا خیال رکھا۔2003 میں اپنی اہلیہ کے ساتھ پہلی اورآخری بار "سفرِ حج" اختیار کیا اور مکمل سکون اور اطمینان کے ساتھ واپس آئے۔قسمت کا چکر کہ یہ اطمینان بھی وقتی ثابت ہوا اور سال 2005کے دسمبر میں اہلیہ کو جسم کے دائیں حصے پر فالج کا حملہ ہوا اور یوں زندگی کے اگلے برس گاڑی کے دوسرے پہئیے کے آدھے حصے کے ساتھ گزر گئے یہ اور بات کہ اس باہمت خاتون نےخدمت اور محنت میں رتی برابر بھی کمی نہ آنے دی اور نہ ہی اپنے لیے گھر میں کسی قسم کی سہولت کا بوجھ ڈالا۔ 
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا"۔"
زندگی کا ہر رنگ نہ صرف قریب سے دیکھا بلکہ موت اور حیات کی کشمکش ذاتی طور پر بھی کئی بار محسوس کی۔۔۔ایک بار تو موت کا فرشتہ یوں چھو کر گزر گیا کہ یقین ہی نہیں آتا تھا۔ تقریباً چالیس سال پرانی بات ہے کہ ایک شادی کی دعوت پر شہر سے باہر جانا ہوا۔کھانے کے بعد ویگن میں سوار ہوئے تو اچانک ایک جاننے والے نے چلتی گاڑی روکنے کےلیے عجلت میں ہاتھ دیا بلکہ ابھی تو جسمانی بوجھ ہلکا کرنے کے بعد اس کا ایک ہاتھ کمربند کے ساتھ مصروف تھا شاید اسے منزل پر پہنچنے کی بہت جلدی تھی۔ڈاکٹر صاحب نے کھسک کر اس کے لیے بمشکل جگہ بنائی۔ویگن کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک خوفناک حادثے کا شکار ہو گئی، مسافر شدید زخمی ہوئے اور صرف ایک جاں بحق ہوا۔۔۔وہی شخص جو آخری لمحوں میں سوار ہوا تھا۔جی ٹی روڈ پر اپنے پورے خاندان کے ساتھ شدید ترین حادثے کا ایک اور واقع بھی پیش آیا ۔ 1983 میں نئی گاڑی لینے کے محض چند ماہ بعد  عیدِقرباں کے اگلے روز دوسرے شہر میں بہن کے گھر جا رہے تھے کہ اچانک گاڑی بےقابو ہو کر کئی قلابازیاں کھاتے ہوئے  پلٹ  گئی۔ لوگ جمع ہو گئے ،گاڑی سیدھی کی۔ سب کو نکالا۔اللہ کا شکر ہے کہ معمولی خراشوں کے سوا  سب سلامت رہے۔
چالیس سے پچاس سال کے سفرِمسیحائی میں انہوں نے ہزاروں کی تعداد میں بڑوں اور بچوں کی نبض پر ہاتھ رکھا۔زندگی کی پہلی سانسوں سے آخری دموں تک وہ اُن کے رازداں رہےاور خود اپنے لیے ساری عمر جسمانی بیماری کے حوالے سے سوائے دو بار کبھی کسی ڈاکٹر کے پاس نہ گئے۔دوسری اورآخری بار مرض الموت میں جبکہ پہلی بار بائیس برس پرانی بات ہے جب روزمرہ کے کاموں میں دقت اور چلنے پھرنے میں آنکھ کے پریشر کا مسئلہ بڑھ گیا تو الشفا آئی ٹرسٹ میں دکھانے کے بعد "کالاموتیا" تشخیص ہوا۔ چند دن ہسپتال میں داخل رہنا پڑا۔آپریشن کامیاب تو ہو گیا لیکن ایک آنکھ کی بینائی مکمل طور پر ختم ہو چکی تھی اور دوسری میں تقریباً پچیس فیصد باقی رہی۔ ڈاکٹروں نے واضح الفاظ میں بتا دیا کہ اب آپ کو ساری زندگی اسی پچیس فیصد "نور" کے ساتھ جینا ہے اورآنکھ کے ساتھ آئندہ کسی قسم کی سرجری آپ کو ہمیشہ کے لیے اس بچی کچی بینائی سےمحروم بھی کر سکتی ہے۔پھر وہ اسی"نور"کے ساتھ بائیس سال یوں جئیے کہ زندگی کے آخری چند روز تک گاڑی چلاتے رہے اور کبھی اندازے کی معمولی غلطی کے سوا کوئی بڑا حادثہ پیش نہ آیا۔ بات بصارت کی ضرور تھی لیکن اہم بات بصیرت کی تھی۔چار بیٹیوں اور ایک معذور بیٹے کا باپ ہونے کے ناطے گھر اور باہر کے سارے کام ان کی اور صرف ان کی ذمہ داری تھے۔
آج کے آزاد خیال معاشرے میں بڑی آوازیں اٹھتی ہیں کہ بیٹا اور بیٹی برابر ہوتے ہیں ان میں کوئی فرق نہیں بےشک دونوں نعمتیں اللہ کی مرضی سے والدین کا نصیب بنتی ہیں لیکن تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ بیٹی کے ماں باپ کے کاندھے ہمیشہ ذمہ داریوں کے بوجھ سے جھکے رہتے ہیں۔اس بات کے حق یا مخالفت میں ہزار دلائل کو تو چھوڑیں لیکن صرف ایک معمولی بات بھی بہت معنی رکھتی ہے۔ایک بیٹی کتنی ہی فرماں بردار اور لائق فائق کیوں نہ ہو لیکن رات کے وقت وہ باہر تنہا کبھی نہیں نکل سکتی اسے ایک مرد کا سہارا درکار ہے چاہے وہ اس کا ذہنی معذور بھائی ہی کیوں نہ ہو۔لڑکیوں والے گھروں میں عام طور پرکوئی مرد ملازم بھی نہیں رکھاجاتا۔
یوں بچپن کے معصوم سالوں میں سودے لانے کا جو سلسلہ شروع ہوا تو زندگی کے آخری دن کے کچھ گھنٹوں پہلے تک بھی اسی طرح جاری رہا بےشک اس نظر کے ساتھ گاڑی چلانا بےوقوفی کی حد تک اندھی خوداعتمادی کے سوا کچھ نہ تھا لیکن اپنی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی،گھریلوضرورتوں اور ذاتی خواہشات کے لیے آخری سانس تک کسی کا محتاج نہ ہونا اور اللہ کا انہیں اس کڑے امتحان میں سرخرو کرنا دیکھنے والوں کے استہزاء کے منہ پر طمانچہ تھا۔
"مرض الموت۔۔۔۔4 جنوری 2015 بمطابق 12 ربیع الاول"
جس طرح شان سے جئیے کہ گر گر کر سنبھلتے رہے اور اللہ نے ہمیشہ دینے والا ہاتھ بلند رکھا،اسی طرح وقتِ آخر بھی بےمثال تھا کہ گھر سے باہر نہ کسی عزیز واقارب نے ان کے دکھ یا بیماری کی خبر سنی اور حد تو یہ کہ دیوار کے ساتھ جڑے پڑوسی جو صبح شام سے باخبر ہوتے ہیں انہیں بھی ہمیشہ ہنستا مسکراتا چہرہ ہی ملا۔۔لفظ "بیمار" یا سبب بیماری نہ صرف ان کی زندگی میں کبھی ان کے نام کے ساتھ جڑا اور نہ ہی ہمیشہ کے لیے چلے جانے کے بعد اُن کے ذکر کے ساتھ کسی کے سامنے کہنے کا جواز مل سکا۔ وہ ساری عمر لوگوں کے رویوں سےاور ان کی خصلت سے شاکی رہے لیکن اپنے رب سے اُن کا ربط عجیب تھا۔۔۔بظاہر رب سے شکوہ کرنا اگرناشکرگزاری دکھتا تو رب کی عطاؤں پر اُن کا کامل یقین دیکھنے والوں کو شش وپنج میں مبتلا کر دیتا۔ ان کی زندگی کے آخری لمحات کا نچوڑ یہی تھا کہ اللہ سے جو گمان کرو گے وہی ملے گا۔ ان کے مالک نے اپنے خاص کرم کے صدقے زندگی میں تو پےدرپے مسائل اور مشکلات برداشت کرنے کا حوصلہ دیا ہی لیکن جاتے ہوئے اپنی نظر میں اور جانے کے بعد دوسروں کی نظر میں ان کا مقام ہر قسم کے شک وشبے سے بالاتر رکھا۔واپسی کے سفر میں بچیوں کی پریشانی دیکھ کر تسلی دیتے ہوئے صرف دو باتوں کی کامل یقین کی حد تک یقین دہانی کرائی کہ میں ہرگز کٹی پھٹی حالت میں مجبور وبےکس ہو کر واپس نہیں جاؤں گا اور جس روز جاؤں گا وہ عام نہیں بلکہ خاص دن ہو گا اور اس کے ساتھ پورے یقین سے  زور دے کر کہا کہ اس روز زمین سے لے کرآسمان تک روشنی ہی روشنی ہو گی۔ہم آنکھوں دیکھی حقیقت بھی  سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔لیکن  ابو کی کہی ہوئی بات 12 ربیع الاول کے حوالےسے سچ ثابت ہوئی۔اللہ نے دنیا میں دنیا والوں کے سامنے ان کے گمان پورے کیے۔اللہ اپنی بارگاہ میں بھی ان سےرحم وکرم کا معاملہ کرے۔غلطیوں اور گناہوں سے درگزر کرتے ہوئے اپنے مقربین میں خاص جگہ عنایت فرمائے آمین۔
آخری دنوں اور آخری لمحات کا احوال ایک برس پہلے کے تحریر کردہ درج ذیل بلاگز میں ہے،ان کے لنک لیبل "میرے ابو" کے تحت پڑھے جا سکتے ہیں۔ 
٭امیدِ زندگی
٭ایمانِ زندگی
٭سویا ہوا محل
٭ غازی کی باتیں
٭مرکزِثقل ۔
نورین تبسم
گیارہ بجے رات 
دسمبر 24۔۔۔2015
بمطابق 12 ربیع الاول 1437 ہجری
اسلام آباد
  

1 تبصرہ:

  1. آپ کے محترم والد صاحب کی ڈائری پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا رہا کہ میں اپنے والد صاحب کی آپ بیتی پڑھ رہا ہوں ۔ کیا کیا یاد کرا دیا ۔

    جواب دیںحذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...