"ایک کالم ایک کہانی"
۔۔۔کالم "ہزار داستان" از مستنصرحسین تارڑ۔۔۔
۔۔بعنوان۔۔"ذرا انتظار کرو۔۔۔ تم بھی چپ ہو جاؤ گے ازمستنصر حسین تارڑ
بتاریخ۔۔نو دسمبر دوہزار پندرہ۔(09..12..2015 )۔
کالم سے اقتباس۔۔۔
ایک نامعلوم نثری نظم نگار نے قربت مرگ کو کچھ یوں بیان کیا ہے۔
سفید اوور کوٹوں میں کفنائے ہوئے ہسپتال کے اہلکار۔۔۔ سٹریچرپر دھکیلتے ہوئے مجھے آپریشن تھیٹر کی جانب لئے جاتے ہیں۔۔۔ نور جہاں کا ایک گیت گنگناتے۔۔۔
کی بھروسا دم دا، دم آوے نہ آوے، گنگناتے
اسی سٹریچر پر وہ مجھے واپس لائیں گے
کسی بھی حالت میں۔۔۔ زندہ یا مُردہ
میرے سر پر چھت میں نصب تیز روشنیاں
میری آنکھوں پر سے گزرتی جاتی ہیں
میں جانتا ہوں۔۔۔ میں نہیں جانتا
میری واپسی ہو گی تو کس صورت ہوگی۔۔۔
چھت میں نصب یہی روشنیاں میری آنکھوں پر سے گزریں گی۔۔۔
یا سب روشنیاں فیوز ہو چکی ہوں گی۔۔۔
میں وہاں ہوں گا جہاں کوئی چہرہ نہیں ہوتا۔۔۔
میں جانتا ہوں، میں نہیں جانتا
تب ایک ویرانہ اُن آنکھوں میں ویران ہوتا ہے
کوئی ویرانہ سا ویرانہ ہے۔۔۔
کوئی خلاء ہے، کیا ہے۔۔۔
میری ماں اُس ویرانے کے خلاء میں کھڑی ہے
وہ نہ خوش ہے نہ ناخوش۔۔۔
بہت چپ، بہت خاموش کھڑی ہے
اُس کے دوپٹے میں سے وہی مہک چلی آرہی ہے۔۔۔
جب وہ مجھے گلے سے لگاتی تھی تو آتی تھی۔۔۔
میں اُس نیم مدہوشی میں پوچھتا ہوں۔۔۔
امی، آپ یہاں کیا کر رہی ہیں،
وہ اُسی خوشی اور ناخوشی میں لپٹی اپنے ترشے ہوئے لب کھولتی ہیں۔۔۔
’’میں تمہیں دیکھنے آئی ہوں، بس اتنا کہا۔۔۔
میں آپریشن تھیٹر سے زندہ لوٹ آؤں گا، مجھے یقین ہوگیا
امی نے یہ نہیں کہا تھا کہ میں تمہیں لینے آئی ہوں۔۔۔
اگر مائیں لینے آجائیں تو کون انکارکر سکتا ہے،
پر وہ مجھے دیکھنے آئی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج شائع ہونے والے اس کالم نے مجھے گنگ کر دیا۔۔۔زندگی صرف حیرت درحیرت ہے اور کچھ بھی نہیں آخری سانس تک ہم اسے جان ہی نہیں سکتے۔نہیں جانتی کہ یہ نامعلوم نثرنگار کون ہے جس نے قربتِ مرگ کی ایسی تصویر کھینچی کہ میری آنکھ نے اس کے لفظ لفظ کی بنت کی گواہی دی ۔۔۔۔ 27 اور28 دسمبر 2014 کی رات۔۔۔۔اسلام آباد کے شفا انٹرنیشل کے آئی سی یو میں ہر منظر ویسا ہی تھا جیسا اس نظم میں دکھتا ہے حد تو یہ ہے کہ اوپر گردش کرتی روشنیاں بھی ایسی ہی تھیں۔۔ اس لمحے کو میں نے اگلے چند روز میں اس طرح لفظ میں بیان کیا۔۔۔۔
بلاگ۔۔"ایمانِ زندگی"۔سے اقتباس۔۔۔
انسانی آنکھ اور اس کےسوچنے سمجھنے کی محدود عقل کی صلاحیت کے تحت میرے خیال میں پردہ گرنے کو ہی تھا۔ ۔لیکن میں نہیں جانتی تھی کہ جو دکھائی دے رہا ہے وہ حقیقت ہوتے ہوئے بھی مکمل حقیقت نہیں۔ کچھ دیر بعد ابو کی آنکھ کھلی تو کسی اور دُنیا کا منظر ان کے سامنے تھا۔ وہ ہمیں دیکھتے ہوئے بھی نہ دیکھتے تھے اور ہمیں سنتے ہوئے بھی کسی اور کو بڑی محویت سے سن رہے تھے۔ چہرے کے تاثرات سے کبھی مسکراتے کبھی تاسف کا اظہار کرتے اور سیدھا ہاتھ بار بار وعلیکم السلام کہتے ہوئے ملانا چاہتے پھر مایوس ہو کر ہاتھ نیچے کر لیتے یا ہم ان کے بڑھے ہاتھ کو تھام لیتے۔ کچھ دیر بعد وہ ہماری دنیا میں لوٹ آئے۔ متلی کی کیفیت کے بعد جب طبیعت بحال ہوئی تو پہلے الفاظ یہ ادا کیے کہ وہ مجھے لینے آئے تھےمیں ہاتھ بڑھا رہا تھا لیکن انہوں نے ہاتھ نہیں ملایا کہ ابھی تمہارا وقت باقی ہے۔ اور میری اماں اور ابا بھی ساتھ ہی تھے۔جو مجھ سے ملنے کو بےچین تھےاماں باہیں کھول کر میرا بچہ کہہ کر بلاتی تھیں۔یہ کہتے ہوئے میرے ابو چھوٹے بچوں کی طرح اپنی ماں کو یاد کر کے ایک لمحے کو رونے لگے۔ پھر ہمیں تسلی دی کہ فکر کی کوئی بات نہیں ۔۔۔ابھی وقت نہیں آیا۔۔۔میں ابھی نہیں مروں گا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
جناب مستنصر حسین تارڑ کا آج مؤرخہ 9 دسمبر 2015 کو شائع ہونے والا یہ کالم اُن کے 6دسمبر 2015کو شائع ہونے والے کالم "میلان کندیرا کا ناول،امارٹیلیٹی، - مستنصر حسین تارڑ " کا دوسرا حصہ کہا جاسکتا ہے۔
جناب تارڑ سال 2015 میں اپنی 76 سالہ زندگی کے سب سے بڑے تجربے سے گزرے ۔اللہ کے کرم اور تقدیر کے لکھے کے مطابق وہ اس مرحلے سے بخیروخوبی سرخرو ہوئے۔ اللہ کی شکرگزاری کے احساس کے ساتھ مکمل جسمانی صحت اگر اپنوں کو تسکین دیتی ہے تو اُن کے قارئین کے لیے اُن کی ذہنی صحت خیال اور آگہی کی ایسی کہکشاؤں کی سیر کراتی ہے جس کا بیان لفظ کی گرفت میں نہیں آ سکتا۔ اس سال جناب تارڑ کی طرف سے ایک ساتھ چار کتابوں کے تحفے ملے۔۔۔۔ 1)"آسٹریلیا آوارگی"2) امریکہ کے سو رنگ3)راکاپوشی نگر اور 4) پندرہ کہانیاں
تو جہاں ان کتابوں کے متنوع موضوعات پڑھنے والوں کو اپنے دیس کی سیر کراتے ہیں، باہر کی دنیا اور اُن ممالک میں بسنے والوں کی کہانیاں کہتے ہیں وہیں جناب کی پندرہ کہانیاں ہمیں اپنے اندر کے سفر پر لے جاتی ہیں۔
جناب مستنصرحسین تارڑ کی طرف سے لفظ کی خوشبو کتاب کی صورت اور اخباری کالمزمیں تو ہمیں برسوں سے مل ہی رہی ہے لیکن سال 2015 کی خاص بات جناب تارڑ کے شائع ہونے والے کالم ہیں۔وہ اخباری کالم جو جناب کی ہر روز کی سوچ کے آئینہ دار ہیں۔
ویسے تویہی نظر آتا ہے کہ اخبار میں چھپنے والی تحریر خواہ کتنی ہی قیمتی کیوں نہ دکھتی ہو اُس کی زندگی صرف ایک روز کی ہوتی ہے۔۔۔جتنی بےچینی سے اسے گلے لگایا جاتا ہے اتنی ہی جلدی اس کی ہوس ختم ہوکر ایک بوجھ بن جاتی ہے۔لیکن نیٹ کا ایک تحفہ کاغذ پر چھپنے والے اور شام کو ردی کی نذر ہونے والے اخبار کی عزت افزائی بھی ہے۔نیٹ کی بدولت کوئی بھی کاغذی تحریر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جاتی ہے۔
جناب تارڑ کئی برس سےکالم لکھ رہے ہیں اور ان کے کالموں کے مجموعے کی صورت کئی کتابیں شائع بھی ہو چکی ہیں لیکن سال 2015 کا سب سے خاص تحفہ اُن کے اس سال شائع ہونے والے کالم ہیں۔ سال کے آغاز میں اگر انہوں نےاپنے سندھ سفر کی لفظ کشی کی اور کیا ہی خوب کی واقعی "من مور ہوا متوالا"۔ اور اس کے بعد جون میں اپنی جسمانی شکستگی کے تجربے سے گزرنے کے بعد آنے والے کالم بےمثال اور ناقابلِ فراموش ہیں۔یہ کالم کیا ہیں۔۔اپنائیت اور محبت کی ایسی سرگوشیاں ہیں کہ بقول امجداسلام امجد" تخلیے کی باتوں میں گفتگو اضافی ہے"۔۔۔جیسے کوئی ہم سخن اپنے دل ودر کے دروازے کھولے آنے والوں کو خوش آمدید کہے۔۔۔اُن کے ساتھ مٹی کے فرش پر بیٹھ کر کھلے آسمان تلے دل کی باتیں کرے یا کسی خوبصورت قالین پر گاؤ تکیہ لگائے نیم دراز ہو اور سننے والے اس کی مست مست باتوں اور دل نشین لہجے پر فدا ہوتے ہوئے اپنی زندگی وہیں بتِا دیں۔یہ کالم کوئی لیکچر یا کسی قسم کے فلسفے کا بیان نہیں بلکہ یہ بنا کسی تراش خراش یا جھجھک کے اپنے ذہن میں آنے والی خام سوچ کو دوسرے ذہنوں تک اُسی طور منتقل کرنے کی ایک کیفیت ہیں۔۔۔ایک لمس کا رشتہ ہے جو زمینی اور جسمانی فاصلوں کو رد کرتا قربت کی انتہا کو چھو کر روح سرشار کر دیتا ہے اور جسم اس لطیف احساس کی خوشبو سے اپنے سب بوجھ اتار پھینکتا ہے۔خیالِ یار میں محورقص دنیا میں قدم جمانے کو ذرا سی جگہ تلاش کر لیتا ہے۔اور یہی محبوب لکھاری کی کشش کا دائرہ ہے کہ جو ایک بار اس کے حصار میں آجائے وہ کہیں اور جانے کی خواہش کھو دیتا ہے۔
اللہ جناب مستنصرحسین تارڑ کو ذہنی اور جسمانی صحت کی تازگی کے ساتھ ہر سفر پر ثابت قدم رکھے۔آمین۔
نورین تبسم
اسلام آباد
دسمبر 9۔۔۔2015
جناب مستنصرحسین تارڑ کےتمام کالم پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔
کالمز کا لنک
کچھ خاص کالم جو میں نے ایک بلاگ " ڈیتھ ڈراپ" میں شامل کیے۔
"ڈیتھ ڈراپ ۔۔۔خواب سے حقیقت تک"
۔۔۔کالم "ہزار داستان" از مستنصرحسین تارڑ۔۔۔
۔۔بعنوان۔۔"ذرا انتظار کرو۔۔۔ تم بھی چپ ہو جاؤ گے ازمستنصر حسین تارڑ
بتاریخ۔۔نو دسمبر دوہزار پندرہ۔(09..12..2015 )۔
کالم سے اقتباس۔۔۔
ایک نامعلوم نثری نظم نگار نے قربت مرگ کو کچھ یوں بیان کیا ہے۔
سفید اوور کوٹوں میں کفنائے ہوئے ہسپتال کے اہلکار۔۔۔ سٹریچرپر دھکیلتے ہوئے مجھے آپریشن تھیٹر کی جانب لئے جاتے ہیں۔۔۔ نور جہاں کا ایک گیت گنگناتے۔۔۔
کی بھروسا دم دا، دم آوے نہ آوے، گنگناتے
اسی سٹریچر پر وہ مجھے واپس لائیں گے
کسی بھی حالت میں۔۔۔ زندہ یا مُردہ
میرے سر پر چھت میں نصب تیز روشنیاں
میری آنکھوں پر سے گزرتی جاتی ہیں
میں جانتا ہوں۔۔۔ میں نہیں جانتا
میری واپسی ہو گی تو کس صورت ہوگی۔۔۔
چھت میں نصب یہی روشنیاں میری آنکھوں پر سے گزریں گی۔۔۔
یا سب روشنیاں فیوز ہو چکی ہوں گی۔۔۔
میں وہاں ہوں گا جہاں کوئی چہرہ نہیں ہوتا۔۔۔
میں جانتا ہوں، میں نہیں جانتا
تب ایک ویرانہ اُن آنکھوں میں ویران ہوتا ہے
کوئی ویرانہ سا ویرانہ ہے۔۔۔
کوئی خلاء ہے، کیا ہے۔۔۔
میری ماں اُس ویرانے کے خلاء میں کھڑی ہے
وہ نہ خوش ہے نہ ناخوش۔۔۔
بہت چپ، بہت خاموش کھڑی ہے
اُس کے دوپٹے میں سے وہی مہک چلی آرہی ہے۔۔۔
جب وہ مجھے گلے سے لگاتی تھی تو آتی تھی۔۔۔
میں اُس نیم مدہوشی میں پوچھتا ہوں۔۔۔
امی، آپ یہاں کیا کر رہی ہیں،
وہ اُسی خوشی اور ناخوشی میں لپٹی اپنے ترشے ہوئے لب کھولتی ہیں۔۔۔
’’میں تمہیں دیکھنے آئی ہوں، بس اتنا کہا۔۔۔
میں آپریشن تھیٹر سے زندہ لوٹ آؤں گا، مجھے یقین ہوگیا
امی نے یہ نہیں کہا تھا کہ میں تمہیں لینے آئی ہوں۔۔۔
اگر مائیں لینے آجائیں تو کون انکارکر سکتا ہے،
پر وہ مجھے دیکھنے آئی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج شائع ہونے والے اس کالم نے مجھے گنگ کر دیا۔۔۔زندگی صرف حیرت درحیرت ہے اور کچھ بھی نہیں آخری سانس تک ہم اسے جان ہی نہیں سکتے۔نہیں جانتی کہ یہ نامعلوم نثرنگار کون ہے جس نے قربتِ مرگ کی ایسی تصویر کھینچی کہ میری آنکھ نے اس کے لفظ لفظ کی بنت کی گواہی دی ۔۔۔۔ 27 اور28 دسمبر 2014 کی رات۔۔۔۔اسلام آباد کے شفا انٹرنیشل کے آئی سی یو میں ہر منظر ویسا ہی تھا جیسا اس نظم میں دکھتا ہے حد تو یہ ہے کہ اوپر گردش کرتی روشنیاں بھی ایسی ہی تھیں۔۔ اس لمحے کو میں نے اگلے چند روز میں اس طرح لفظ میں بیان کیا۔۔۔۔
بلاگ۔۔"ایمانِ زندگی"۔سے اقتباس۔۔۔
انسانی آنکھ اور اس کےسوچنے سمجھنے کی محدود عقل کی صلاحیت کے تحت میرے خیال میں پردہ گرنے کو ہی تھا۔ ۔لیکن میں نہیں جانتی تھی کہ جو دکھائی دے رہا ہے وہ حقیقت ہوتے ہوئے بھی مکمل حقیقت نہیں۔ کچھ دیر بعد ابو کی آنکھ کھلی تو کسی اور دُنیا کا منظر ان کے سامنے تھا۔ وہ ہمیں دیکھتے ہوئے بھی نہ دیکھتے تھے اور ہمیں سنتے ہوئے بھی کسی اور کو بڑی محویت سے سن رہے تھے۔ چہرے کے تاثرات سے کبھی مسکراتے کبھی تاسف کا اظہار کرتے اور سیدھا ہاتھ بار بار وعلیکم السلام کہتے ہوئے ملانا چاہتے پھر مایوس ہو کر ہاتھ نیچے کر لیتے یا ہم ان کے بڑھے ہاتھ کو تھام لیتے۔ کچھ دیر بعد وہ ہماری دنیا میں لوٹ آئے۔ متلی کی کیفیت کے بعد جب طبیعت بحال ہوئی تو پہلے الفاظ یہ ادا کیے کہ وہ مجھے لینے آئے تھےمیں ہاتھ بڑھا رہا تھا لیکن انہوں نے ہاتھ نہیں ملایا کہ ابھی تمہارا وقت باقی ہے۔ اور میری اماں اور ابا بھی ساتھ ہی تھے۔جو مجھ سے ملنے کو بےچین تھےاماں باہیں کھول کر میرا بچہ کہہ کر بلاتی تھیں۔یہ کہتے ہوئے میرے ابو چھوٹے بچوں کی طرح اپنی ماں کو یاد کر کے ایک لمحے کو رونے لگے۔ پھر ہمیں تسلی دی کہ فکر کی کوئی بات نہیں ۔۔۔ابھی وقت نہیں آیا۔۔۔میں ابھی نہیں مروں گا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
جناب مستنصر حسین تارڑ کا آج مؤرخہ 9 دسمبر 2015 کو شائع ہونے والا یہ کالم اُن کے 6دسمبر 2015کو شائع ہونے والے کالم "میلان کندیرا کا ناول،امارٹیلیٹی، - مستنصر حسین تارڑ " کا دوسرا حصہ کہا جاسکتا ہے۔
جناب تارڑ سال 2015 میں اپنی 76 سالہ زندگی کے سب سے بڑے تجربے سے گزرے ۔اللہ کے کرم اور تقدیر کے لکھے کے مطابق وہ اس مرحلے سے بخیروخوبی سرخرو ہوئے۔ اللہ کی شکرگزاری کے احساس کے ساتھ مکمل جسمانی صحت اگر اپنوں کو تسکین دیتی ہے تو اُن کے قارئین کے لیے اُن کی ذہنی صحت خیال اور آگہی کی ایسی کہکشاؤں کی سیر کراتی ہے جس کا بیان لفظ کی گرفت میں نہیں آ سکتا۔ اس سال جناب تارڑ کی طرف سے ایک ساتھ چار کتابوں کے تحفے ملے۔۔۔۔ 1)"آسٹریلیا آوارگی"2) امریکہ کے سو رنگ3)راکاپوشی نگر اور 4) پندرہ کہانیاں
تو جہاں ان کتابوں کے متنوع موضوعات پڑھنے والوں کو اپنے دیس کی سیر کراتے ہیں، باہر کی دنیا اور اُن ممالک میں بسنے والوں کی کہانیاں کہتے ہیں وہیں جناب کی پندرہ کہانیاں ہمیں اپنے اندر کے سفر پر لے جاتی ہیں۔
جناب مستنصرحسین تارڑ کی طرف سے لفظ کی خوشبو کتاب کی صورت اور اخباری کالمزمیں تو ہمیں برسوں سے مل ہی رہی ہے لیکن سال 2015 کی خاص بات جناب تارڑ کے شائع ہونے والے کالم ہیں۔وہ اخباری کالم جو جناب کی ہر روز کی سوچ کے آئینہ دار ہیں۔
ویسے تویہی نظر آتا ہے کہ اخبار میں چھپنے والی تحریر خواہ کتنی ہی قیمتی کیوں نہ دکھتی ہو اُس کی زندگی صرف ایک روز کی ہوتی ہے۔۔۔جتنی بےچینی سے اسے گلے لگایا جاتا ہے اتنی ہی جلدی اس کی ہوس ختم ہوکر ایک بوجھ بن جاتی ہے۔لیکن نیٹ کا ایک تحفہ کاغذ پر چھپنے والے اور شام کو ردی کی نذر ہونے والے اخبار کی عزت افزائی بھی ہے۔نیٹ کی بدولت کوئی بھی کاغذی تحریر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جاتی ہے۔
جناب تارڑ کئی برس سےکالم لکھ رہے ہیں اور ان کے کالموں کے مجموعے کی صورت کئی کتابیں شائع بھی ہو چکی ہیں لیکن سال 2015 کا سب سے خاص تحفہ اُن کے اس سال شائع ہونے والے کالم ہیں۔ سال کے آغاز میں اگر انہوں نےاپنے سندھ سفر کی لفظ کشی کی اور کیا ہی خوب کی واقعی "من مور ہوا متوالا"۔ اور اس کے بعد جون میں اپنی جسمانی شکستگی کے تجربے سے گزرنے کے بعد آنے والے کالم بےمثال اور ناقابلِ فراموش ہیں۔یہ کالم کیا ہیں۔۔اپنائیت اور محبت کی ایسی سرگوشیاں ہیں کہ بقول امجداسلام امجد" تخلیے کی باتوں میں گفتگو اضافی ہے"۔۔۔جیسے کوئی ہم سخن اپنے دل ودر کے دروازے کھولے آنے والوں کو خوش آمدید کہے۔۔۔اُن کے ساتھ مٹی کے فرش پر بیٹھ کر کھلے آسمان تلے دل کی باتیں کرے یا کسی خوبصورت قالین پر گاؤ تکیہ لگائے نیم دراز ہو اور سننے والے اس کی مست مست باتوں اور دل نشین لہجے پر فدا ہوتے ہوئے اپنی زندگی وہیں بتِا دیں۔یہ کالم کوئی لیکچر یا کسی قسم کے فلسفے کا بیان نہیں بلکہ یہ بنا کسی تراش خراش یا جھجھک کے اپنے ذہن میں آنے والی خام سوچ کو دوسرے ذہنوں تک اُسی طور منتقل کرنے کی ایک کیفیت ہیں۔۔۔ایک لمس کا رشتہ ہے جو زمینی اور جسمانی فاصلوں کو رد کرتا قربت کی انتہا کو چھو کر روح سرشار کر دیتا ہے اور جسم اس لطیف احساس کی خوشبو سے اپنے سب بوجھ اتار پھینکتا ہے۔خیالِ یار میں محورقص دنیا میں قدم جمانے کو ذرا سی جگہ تلاش کر لیتا ہے۔اور یہی محبوب لکھاری کی کشش کا دائرہ ہے کہ جو ایک بار اس کے حصار میں آجائے وہ کہیں اور جانے کی خواہش کھو دیتا ہے۔
اللہ جناب مستنصرحسین تارڑ کو ذہنی اور جسمانی صحت کی تازگی کے ساتھ ہر سفر پر ثابت قدم رکھے۔آمین۔
نورین تبسم
اسلام آباد
دسمبر 9۔۔۔2015
جناب مستنصرحسین تارڑ کےتمام کالم پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔
کالمز کا لنک
کچھ خاص کالم جو میں نے ایک بلاگ " ڈیتھ ڈراپ" میں شامل کیے۔
"ڈیتھ ڈراپ ۔۔۔خواب سے حقیقت تک"
ایک حساس لکھنے والا اگر دیکھنا بھی جانتا ھو اور دکھانا بھی تو اس کی کہی ھوئی بات کے لیے کہنا پڑتا ھے کہ“یہ تو گویا میرے دل میں تھا“۔۔۔ آپ کی تحریر ھمیشہ مجھے یہ تاثر تو دیتی ھے مگر اپنے طور پر نہ تو میں ایسا لکھنے پر قادر ھوں نہ ایسا سوچنے پر۔۔۔ آپ کی تحریر کی خوشبو اور اس کا رنگ انوکھا متاثر کرنے والا اور بہت علیحدہ ھے۔۔۔۔۔۔اور تارڑ صاحب کے بارے میں تو لکھتے ھوئے تو آپ کی تحریر اور فکر کی سحرانگیزی کچھ اور ھی ھو جاتی ھے۔۔۔ انسانی جذبوں پر جس طرح آپ کی نگاہ میں نے اچھے اچھے لکھنے والوں میں اس طرح کا شعورنہیں دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریںآپ کے قیمتی وقت اور احساس کے لیے شکر گزار ہوں۔
جواب دیںحذف کریںرہی بات لکھنے اور سوچنے کی تو یہ محض آپ کی کسرِ نفسی ہے اور آپ کے یہ لفظ میری اس بات کی تائید کرتے ہیں بہت لکھنا یا کسی کی نظر سے اچھا لکھنا اہم نہیں ۔ اہم یہ ہے کہ جو کچھ بھی لکھا جائے وہ دل سے لکھا جائے اور کسی کے دل میں بھی اتر جائے۔