زندگی کے اسباق پڑھنے،برتنےاور انسانوں کے ساتھ رہتےہوئے انہیں سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے ہمارے سامنےایسے سوال آن کھڑے ہوتے ہیں جن کے جواب کسی کتاب میں ملتے ہیں اور نہ ہی کسی رہنما کے پاس۔ ایسے بہت سے سوالوں کے جواب صرف وقت جانتا ہے,پراس وقت جواب تو ملتے ہیں لیکن سوال غیراہم ہوجاتے ہیں۔انہی سوالوں میں سے کچھ ہمارے رویوں اور جذبات کے تضادات سے جنم لیتے ہیں اور رفتہ رفتہ پورے وجود پر حاوی ہو جاتے ہیں. یہ سوال کبھی ایسا ریشم بن جاتے ہیں جس میں رقص وقتی طور پر تو بڑا دلفریب لگتا ہے لیکن ایک وقت کے بعد وہ ہمیں اپنی گرفت میں لے کر بےجان کر دیتے ہیں۔ جیسے ہم کسی کے قریب کیوں آتے ہیں؟اورکسی سے دُور کیوں بھاگتے ہیں؟
یہ بہت عام اور بےمعنی سوال ہیں جن کے جواب ایک ناسمجھ بچہ بھی دے سکتا ہے کہ ہمیں کوئی چیز اچھی لگتی ہے تو اُس کے قریب ہونا چاہتے ہیں اور بُری لگتی ہے تو دور بھاگتے ہیں۔ ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ کسی شے کی کشش کششِ ثقل کی طرح ہمیں اپنی جانب کھینچتی ہے اور کوئی ناپسندیدہ عمل ہمیں اُس سے پرے کرتا ہے.بےشک بظاہر ایسا ہی دکھتا ہے لیکن غور کیا جائے تو اصل میں کسی کا تضاد ہمیں اُس سے قربت کی خواہش عطا کرتا ہے اور اُس سے دور بھی کرتا ہے۔ قربت کی چاہ کسی بھی کشش کا بنیادی جزو ہے۔ رفتہ رفتہ قربت کے راز کھلتے ہیں توظاہری طور پر اپنائیت اور یگانگت کے ایک جیسے بہتے دھارے خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔۔۔ ظاہری خوبصورتی اپنی طرف مائل کرے تو انسان باطنی حسن کی جستجو کرتا ہے۔خوش نما رنگ ایک لمحے کو قدم روکتے تو ہیں لیکن اگر خوشبو نہ ہو تو آگے بڑھنے میں ذرا دیر نہیں لگتی۔اِسی طرح کوئی خوشبواتنی مہک آور ہوتی ہےکہ انسان اُس کی اصل کی تلاش میں ایک عالمِ بےخودی میں چل پڑتا ہے۔انسانوں کے ساتھ تعلقات میں خاص طور پر یہ آنکھ مچولی چلتی رہتی ہے۔جسمانی وجود کے ساتھ ذہن کی انفرادیت اور سوچ کی بلندی مکمل اعتماد کی بنیاد ہےنہ صرف دوسرے پر بلکہ اپنے آپ پر بھی۔۔۔ ورنہ اکثر خوبصورت چہرے قربت کے لمس کی حدت میں موم کی مانند پگھل کر اتنے بےچہرہ ہو جاتے ہیں کہ اُن کو سمیٹتے سمیٹتے پوریں سُلگنے لگتی ہیں یا پھر جب کسی کا باطن اُس کی ظاہری خوبصورتی کی تائید نہ کرے تو پھر انسان کا انسان پر سے اعتبار اُٹھ جاتا ہے۔یوں سچائی کے متلاشی انسانوں کے ہجوم میں تنہا رہ جاتے ہیں۔اہم یہ ہے کہ جسم کا تضاد کسی قدر قابلِ برداشت ہے کہ اُس موم کو اپنی مرضی کے نقش میں تو ڈھالا جا سکتا ہے لیکن روح کا تضاد انسان کو اندر باہر سے ہلا کر رکھ دیتا ہے۔
کسی کو جاننے کی کوشش اور اس کے اندر جھانکنے کی جستجو میں ہم اپنےہی وجود کی بہت سی ایسی پرتوں سے واقف ہوتے ہیں
جن کا ہم نے خواب تو کیا خیال میں بھی تصور نہیں کیا ہوتا۔ظاہر ہمارا اصل روپ ہرگز نہیں،ہمارا ظاہر موم کی طرح حالات کے سانچے میں اپنا آپ ظاہر کرتا ہے تو پانی کی طرح کسی بھی پیاسے کے ظرف کی 'اوک' میں ڈھل کراس کی تسکین کرتا
ہے۔
ہماری قربت کو لمس کے پوروں سے محسوس کرنے والے اگرچہ ہماری رگ رگ سےواقف ہوتے ہیں۔۔۔ہمیں مانتے ہیں۔۔ہمارا وجود دن کی روشنی میں اُن کی نگاہوں کے سامنے ہوتا ہے تو رات کے پہر ہماری آنکھوں میں چھپے خواب تک اُن کے سامنے عیاں ہو جاتے ہیں۔ صبح وشام ہمارے وجود کی گواہی سے ہمیں پرکھتے ہیں پھر مانتے ہیں۔لیکن!!! وہ ہمیں کبھی جان نہیں پاتے۔ہمارا اپنا آپ ہمارا ظاہر ہی نہیں ہمارا باطن بھی ہے۔۔۔ہمارا جسم ہی نہیں ہماری روح بھی ہے۔
ہمارا ظاہر اتنا بھرپور اتنا مکمل ہوتا ہے کہ ہمارے اندر کا اندر کبھی جھلکنے بھی لگے تو اکثر ہم خود بھی اُس کی پکار سے خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ہمارے ظاہر کی خواہشات اور ضروریات کی تکمیل کرنے والے اُس کو ماننے میں اتنے مگن ہوتے ہیں کہ جاننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے جب وہ جان بھی جاتے ہیں۔یہ وقت ہمارے سامنے کبھی نہیں آتا۔انسان کے نظروں سے ہٹ جانے کے بعد وہ "نظر" آتا ہے۔
اپنے رشتوں کو اُن کی زندگی میں ماننے کے ساتھ جاننے کی بھی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ جاننے کا عمل اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس طرح مثبت اور منفی پہلو کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔کیونکہ بعد میں اس کے برعکس بھی ہو سکتا ہے کہ ساری عمر سونا جان کر چڑھاوے چڑھاتے رہے بعد میں پتہ چلا کہ کھوٹ ہی کھوٹ۔ اسی طرح کبھی ظاہر کے زخم دل پر خراشں ڈالتے رہے بعد میں جانا کہ وہ تو محض بہانہ تھا کہ بقول شاعر۔۔۔ ترے دل میں تو بڑا کام رفو کا نکلا۔
جاننے اورماننے کے پیج رسہ کشی چلتی رہے تو یہی زندگی کا قرینہ ہے کہ کسی ایک طرف بھی پلڑا بھاری نہ ہونے دیا جائے۔
دوسرے ہمیں ظاہر کی آنکھ سے دیکھتے ہیں اور باطن کی آنکھ سے فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ جبکہ اپنے آپ کو باطن کی آنکھ سے دیکھنے اور ظاہر کی آنکھ کے فیصلے کو تسلیم کر لینے میں ہی نجات ہے۔
آخری بات
ہم دوسروں کے ساتھ نہیں ہوتے لیکن اُن کو نظر آ جاتے ہیں۔ہم اپنوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور اُن کو نظر نہیں
آتے،زندگی کے اسٹیج پر عافیت چاہتے ہو تو غیرمرئی رہتے ہوئے اپنا کردار نبھاتے جاؤ۔
یہ بہت عام اور بےمعنی سوال ہیں جن کے جواب ایک ناسمجھ بچہ بھی دے سکتا ہے کہ ہمیں کوئی چیز اچھی لگتی ہے تو اُس کے قریب ہونا چاہتے ہیں اور بُری لگتی ہے تو دور بھاگتے ہیں۔ ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ کسی شے کی کشش کششِ ثقل کی طرح ہمیں اپنی جانب کھینچتی ہے اور کوئی ناپسندیدہ عمل ہمیں اُس سے پرے کرتا ہے.بےشک بظاہر ایسا ہی دکھتا ہے لیکن غور کیا جائے تو اصل میں کسی کا تضاد ہمیں اُس سے قربت کی خواہش عطا کرتا ہے اور اُس سے دور بھی کرتا ہے۔ قربت کی چاہ کسی بھی کشش کا بنیادی جزو ہے۔ رفتہ رفتہ قربت کے راز کھلتے ہیں توظاہری طور پر اپنائیت اور یگانگت کے ایک جیسے بہتے دھارے خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔۔۔ ظاہری خوبصورتی اپنی طرف مائل کرے تو انسان باطنی حسن کی جستجو کرتا ہے۔خوش نما رنگ ایک لمحے کو قدم روکتے تو ہیں لیکن اگر خوشبو نہ ہو تو آگے بڑھنے میں ذرا دیر نہیں لگتی۔اِسی طرح کوئی خوشبواتنی مہک آور ہوتی ہےکہ انسان اُس کی اصل کی تلاش میں ایک عالمِ بےخودی میں چل پڑتا ہے۔انسانوں کے ساتھ تعلقات میں خاص طور پر یہ آنکھ مچولی چلتی رہتی ہے۔جسمانی وجود کے ساتھ ذہن کی انفرادیت اور سوچ کی بلندی مکمل اعتماد کی بنیاد ہےنہ صرف دوسرے پر بلکہ اپنے آپ پر بھی۔۔۔ ورنہ اکثر خوبصورت چہرے قربت کے لمس کی حدت میں موم کی مانند پگھل کر اتنے بےچہرہ ہو جاتے ہیں کہ اُن کو سمیٹتے سمیٹتے پوریں سُلگنے لگتی ہیں یا پھر جب کسی کا باطن اُس کی ظاہری خوبصورتی کی تائید نہ کرے تو پھر انسان کا انسان پر سے اعتبار اُٹھ جاتا ہے۔یوں سچائی کے متلاشی انسانوں کے ہجوم میں تنہا رہ جاتے ہیں۔اہم یہ ہے کہ جسم کا تضاد کسی قدر قابلِ برداشت ہے کہ اُس موم کو اپنی مرضی کے نقش میں تو ڈھالا جا سکتا ہے لیکن روح کا تضاد انسان کو اندر باہر سے ہلا کر رکھ دیتا ہے۔
کسی کو جاننے کی کوشش اور اس کے اندر جھانکنے کی جستجو میں ہم اپنےہی وجود کی بہت سی ایسی پرتوں سے واقف ہوتے ہیں
جن کا ہم نے خواب تو کیا خیال میں بھی تصور نہیں کیا ہوتا۔ظاہر ہمارا اصل روپ ہرگز نہیں،ہمارا ظاہر موم کی طرح حالات کے سانچے میں اپنا آپ ظاہر کرتا ہے تو پانی کی طرح کسی بھی پیاسے کے ظرف کی 'اوک' میں ڈھل کراس کی تسکین کرتا
ہے۔
ہماری قربت کو لمس کے پوروں سے محسوس کرنے والے اگرچہ ہماری رگ رگ سےواقف ہوتے ہیں۔۔۔ہمیں مانتے ہیں۔۔ہمارا وجود دن کی روشنی میں اُن کی نگاہوں کے سامنے ہوتا ہے تو رات کے پہر ہماری آنکھوں میں چھپے خواب تک اُن کے سامنے عیاں ہو جاتے ہیں۔ صبح وشام ہمارے وجود کی گواہی سے ہمیں پرکھتے ہیں پھر مانتے ہیں۔لیکن!!! وہ ہمیں کبھی جان نہیں پاتے۔ہمارا اپنا آپ ہمارا ظاہر ہی نہیں ہمارا باطن بھی ہے۔۔۔ہمارا جسم ہی نہیں ہماری روح بھی ہے۔
ہمارا ظاہر اتنا بھرپور اتنا مکمل ہوتا ہے کہ ہمارے اندر کا اندر کبھی جھلکنے بھی لگے تو اکثر ہم خود بھی اُس کی پکار سے خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ہمارے ظاہر کی خواہشات اور ضروریات کی تکمیل کرنے والے اُس کو ماننے میں اتنے مگن ہوتے ہیں کہ جاننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے جب وہ جان بھی جاتے ہیں۔یہ وقت ہمارے سامنے کبھی نہیں آتا۔انسان کے نظروں سے ہٹ جانے کے بعد وہ "نظر" آتا ہے۔
اپنے رشتوں کو اُن کی زندگی میں ماننے کے ساتھ جاننے کی بھی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ جاننے کا عمل اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس طرح مثبت اور منفی پہلو کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔کیونکہ بعد میں اس کے برعکس بھی ہو سکتا ہے کہ ساری عمر سونا جان کر چڑھاوے چڑھاتے رہے بعد میں پتہ چلا کہ کھوٹ ہی کھوٹ۔ اسی طرح کبھی ظاہر کے زخم دل پر خراشں ڈالتے رہے بعد میں جانا کہ وہ تو محض بہانہ تھا کہ بقول شاعر۔۔۔ ترے دل میں تو بڑا کام رفو کا نکلا۔
جاننے اورماننے کے پیج رسہ کشی چلتی رہے تو یہی زندگی کا قرینہ ہے کہ کسی ایک طرف بھی پلڑا بھاری نہ ہونے دیا جائے۔
دوسرے ہمیں ظاہر کی آنکھ سے دیکھتے ہیں اور باطن کی آنکھ سے فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ جبکہ اپنے آپ کو باطن کی آنکھ سے دیکھنے اور ظاہر کی آنکھ کے فیصلے کو تسلیم کر لینے میں ہی نجات ہے۔
آخری بات
ہم دوسروں کے ساتھ نہیں ہوتے لیکن اُن کو نظر آ جاتے ہیں۔ہم اپنوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور اُن کو نظر نہیں
آتے،زندگی کے اسٹیج پر عافیت چاہتے ہو تو غیرمرئی رہتے ہوئے اپنا کردار نبھاتے جاؤ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں