سلیم کوثر
تاریخ پیدائش ۔۔اگست 1947
بمقام ۔۔پانی پت (ہندوستان)۔
شعری مجموعے۔۔۔
٭محبت اِک شجر ہے - 1994
٭خالی ہاتھوں میں ارض وسماء - 1980
٭یہ چراغ ہے تو جلا رہے - 1987
٭ذرا موسم بدلنے دو - 1991
٭دنیا مری آرزو سے کم ہے۔2007
میرا انتخاب ۔۔۔
۔"ذرا موسم بدلنے دو " سے نوے مصرعوں کی ایک طویل نظم
"دُکانِ گریہ"
پوچھنے والے تجھے کیسے بتائیں آخر
دکھ عبارت تو نہیں،جو تجھے لکھ کر بھیجیں
یہ کہانی بھی نہیں ہے کہ سنائیں تجھ کو
نہ کوئی بات ہی ایسی کہ بتائیں تجھ کو
زخم ہو تو تیرے ناخن کے حوالے کر دیں
آئینہ بھی تو نہیں ہے کہ دکھائیں تجھ کو
تو نے پوچھا ہے مگر کیسے بتائیں تجھ کو
یہ کوئی راز نہیں جس کو چھپائیں تو وہ راز
کبھی چہرے کبھی آنکھوں سے چھلک جاتا ہے
جیسے آنچل کو سنبھالے کوئی اور تیز ہوا
جب بھی چلتی ہے تو شانوں سے ڈھلک جاتا ہے
اب تجھے کیسے بتائیں کہ ہمیں کیا دکھ ہے
جسم میں رینگتی رہتی ہے مسافت کی تھکن
پھر بھی کاندھوں پہ اٹھائے ہوئے حالات کا بوجھ
اپنے قدموں سے ہٹاتے ہوئے سائے اپنے
جس کو بھی دیکھیئے چپ چاپ چلا جاتا ہے
کبھی خود سے کبھی رستوں سے الجھتا ہے مگر
جانے والا کسی آواز پہ رکتا ہی نہیں
ڈھونڈنا ہے نیا پیرائے اظہار ہمیں
استعاروں کی زباں کوئی سمجھتا ہی نہیں
دل گرفتہ ہیں طلسماتِ غمِ ہستی سے
سانس لینے سے فسوں قریۂ جاں ٹوٹتی ہے
اک تغیر پس ہر شے ہے مگر ظلم کی ڈور
ابھی معلوم نہیں ہے کہ کہاں ٹوٹتی ہے
تو سمجھتا ہے کہ خوشبو سے معطر ہے حیات
تو نے چکھا ہی نہیں زہر کسی موسم کا
تجھ پہ گزرا ہی نہیں رقصِ جنوں کا عالم
ایسا عالم جہاں صدیوں کے تحیر کا نشہ
ہر بچھڑی ہوئی ساعت سے گلے ملتا ہے
اس تماشے کا بظاہر تو نہیں کوئی سبب
صرف محسوس کرو گے تو پتا چلتا ہے
ایک دھن ہے جو سنائی نہیں دیتی پھر بھی
لَے بہ لَے بڑھتا چلا جاتا ہے ہنگامِ ستم
کُو بہ کُو پھیلتا جاتا ہےغبارِمن وتو
روح سے خالی ہوئے جاتے ہیں جسموں کے حرم
وقت بےرحم ہے ہم رقص برہنہ ہیں سبھی
اب تو پابند سلاسل نہیں کوئی پھر بھی
دشت مژگاں میں بھٹکتا ہوا تاروں کا ہجوم
صفحہ لب پہ سسسکتی ہوئی آواز کی لَو
دیکھ تو کیسے رہائی کی خبر کرتی ہے
روزن وقت سے آغاز سفر کرتی ہے
بے خبر رہنا کسی بات سے اچھا ہی نہیں
تو کبھی وقت کی دہلیز پہ ٹھہرا ہی نہیں
تو نے دیکھے ہی نہیں حلق امروز کے رنگ
گرمی وعدہ فردا سے پگھلتے ہوئے لوگ
اپنے ہی خواب کی تعبیر میں جلتے ہوئےلوگ
بھوک اور پیاس کی مری ہوئی فصلوں کی طرح
پرعزم کی لکیروں سے ابھرتے ہوئے لوگ
امن کے نام پر بارود بھری دنیا میں
خاص خشک کی مانند بکھرتے ہوئے لوگ
روز جیتے ہوئےاور روز ہی مرتے ہوئے لوگ
زندگی فلم نہیں ہے کہ دکھائیں تجھ کو
تو نے پوچھا ہے مگر کیسےبتائیں تجھ کو
کوئی محفوظ نہیں اہل تحفظ سے یہاں
رات بھاری ہے کہیں اور کہیں دن بھاری
ساری دنیا کوئی میدان سا لگتی ہے ہمیں
جس میں اک معرکہ سود و زیاں جاری ہے
پاؤں رکھے ہوئے بارود پر سب لوگ جہاں
اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے پروانۂ شب
آستینوں میں چھپائے ہوے مہتاب کوئی
اپنی گردن میں لیے اپنے گریبان کا طوق
نیند میں چلتے ہوئے دیکھتے ہیں خواب کوئی
اور یہ سوچتے رہتے ہیں کہ دیواروں سے
شب کے آثار ڈھلے,صبح کا سورج ابھرا
دور افق پار پہاڑوں پہ چمکتی ہوئی برف
نئے سورج کی تمازت سے پگھل جائے گی
اور کسی وقفہ امکان سحر میں اب کہ
روشنی سارے اندھیروں کو نگل جائے گی
دیکھیئے کیسے پہنچتی ہے ٹھکانے پہ کہیں
دور اک فاختہ اڑتی ہے نشانے پہ کہیں
آ کے یہ منظر خون بستہ دکھائیں تجھ کو
تو نے پوچھا ہے مگر کیسےبتائیں تجھ کو
کوئی گاہک ہی نہیں جوہر آئندہ کا
چشم کھولے ہوئے بیٹھی ہے دکانِ گریہ
اور اسی منظر خون بستہ کے گوشے میں کہیں
سر پہ ڈالے ہوے اک لمحۂ موجود کی دھول
تیرے عشاق بہت خاک بسر پھرتے ہیں
وقت کب کھینچ لے مقتل میں گواہی کے لیے
دست خالی میں لیے کاسہ سر پھرتے ہیں
پوچھنے والے تجھے کیسے بتائیں آخر
دکھ عبارت تو نہیں جو تجھے لکھ کر بھیجیں
دکھ تو محسوس ہوا کرتا ہے
چاہے تیرا ہو یا میرا دکھ ہو
آدمی وہ ہے جسے جیتے جی
صرف اپنا نہیں سب کا دکھ ہو
چاک ہو جائے جو اک بار ہوس کے ہاتھوں
جامہ عشق دوبارہ تو نہیں سلتا ہے
آسمان میری زمینوں پر جھکا ہے لیکن
تیرا اور میرا ستارہ ہی نہیں ملتا ہے
۔۔۔۔۔
میرا انتخاب ۔۔۔میری ڈائری سے
میں خیال ہوں کسی اورکا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سرِآئینہ مرا عکس ہے پسِ آئینہ کوئی اور ہے
میں کسی کے دست طلب میں ہوں تو کسی کے حرف دعا میں ہوں
میں نصیب ہوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے
عجب اعتبار و بےاعتباری کے درمیاں ہے زندگی
میں قریب ہوں کسی اور کے مجھے جانتا کوئی اور ہے
مری روشنی ترے خدوخال سے مختلف تو نہیں مگر
تو قریب آ تجھے دیکھ لوں تو وہی ہے یا کوئی اور ہے
تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی مجھے دوستوں کا پتہ نہیں
تری داستاں کوئی اور تھی مرا واقعہ کوئی اور ہے
وہی منصفوں کی روایتیں وہی فیصلوں کی عبارتیں
مرا جرم تو کوئی اور تھا پر مری سزا کوئی اور ہے
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا، نہیں دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
جو مری ریاضتِ نیم شب کو سلیم صبح نہ مل سکی
تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے
تاریخ پیدائش ۔۔اگست 1947
بمقام ۔۔پانی پت (ہندوستان)۔
شعری مجموعے۔۔۔
٭محبت اِک شجر ہے - 1994
٭خالی ہاتھوں میں ارض وسماء - 1980
٭یہ چراغ ہے تو جلا رہے - 1987
٭ذرا موسم بدلنے دو - 1991
٭دنیا مری آرزو سے کم ہے۔2007
میرا انتخاب ۔۔۔
۔"ذرا موسم بدلنے دو " سے نوے مصرعوں کی ایک طویل نظم
"دُکانِ گریہ"
پوچھنے والے تجھے کیسے بتائیں آخر
دکھ عبارت تو نہیں،جو تجھے لکھ کر بھیجیں
یہ کہانی بھی نہیں ہے کہ سنائیں تجھ کو
نہ کوئی بات ہی ایسی کہ بتائیں تجھ کو
زخم ہو تو تیرے ناخن کے حوالے کر دیں
آئینہ بھی تو نہیں ہے کہ دکھائیں تجھ کو
تو نے پوچھا ہے مگر کیسے بتائیں تجھ کو
یہ کوئی راز نہیں جس کو چھپائیں تو وہ راز
کبھی چہرے کبھی آنکھوں سے چھلک جاتا ہے
جیسے آنچل کو سنبھالے کوئی اور تیز ہوا
جب بھی چلتی ہے تو شانوں سے ڈھلک جاتا ہے
اب تجھے کیسے بتائیں کہ ہمیں کیا دکھ ہے
جسم میں رینگتی رہتی ہے مسافت کی تھکن
پھر بھی کاندھوں پہ اٹھائے ہوئے حالات کا بوجھ
اپنے قدموں سے ہٹاتے ہوئے سائے اپنے
جس کو بھی دیکھیئے چپ چاپ چلا جاتا ہے
کبھی خود سے کبھی رستوں سے الجھتا ہے مگر
جانے والا کسی آواز پہ رکتا ہی نہیں
ڈھونڈنا ہے نیا پیرائے اظہار ہمیں
استعاروں کی زباں کوئی سمجھتا ہی نہیں
دل گرفتہ ہیں طلسماتِ غمِ ہستی سے
سانس لینے سے فسوں قریۂ جاں ٹوٹتی ہے
اک تغیر پس ہر شے ہے مگر ظلم کی ڈور
ابھی معلوم نہیں ہے کہ کہاں ٹوٹتی ہے
تو سمجھتا ہے کہ خوشبو سے معطر ہے حیات
تو نے چکھا ہی نہیں زہر کسی موسم کا
تجھ پہ گزرا ہی نہیں رقصِ جنوں کا عالم
ایسا عالم جہاں صدیوں کے تحیر کا نشہ
ہر بچھڑی ہوئی ساعت سے گلے ملتا ہے
اس تماشے کا بظاہر تو نہیں کوئی سبب
صرف محسوس کرو گے تو پتا چلتا ہے
ایک دھن ہے جو سنائی نہیں دیتی پھر بھی
لَے بہ لَے بڑھتا چلا جاتا ہے ہنگامِ ستم
کُو بہ کُو پھیلتا جاتا ہےغبارِمن وتو
روح سے خالی ہوئے جاتے ہیں جسموں کے حرم
وقت بےرحم ہے ہم رقص برہنہ ہیں سبھی
اب تو پابند سلاسل نہیں کوئی پھر بھی
دشت مژگاں میں بھٹکتا ہوا تاروں کا ہجوم
صفحہ لب پہ سسسکتی ہوئی آواز کی لَو
دیکھ تو کیسے رہائی کی خبر کرتی ہے
روزن وقت سے آغاز سفر کرتی ہے
بے خبر رہنا کسی بات سے اچھا ہی نہیں
تو کبھی وقت کی دہلیز پہ ٹھہرا ہی نہیں
تو نے دیکھے ہی نہیں حلق امروز کے رنگ
گرمی وعدہ فردا سے پگھلتے ہوئے لوگ
اپنے ہی خواب کی تعبیر میں جلتے ہوئےلوگ
بھوک اور پیاس کی مری ہوئی فصلوں کی طرح
پرعزم کی لکیروں سے ابھرتے ہوئے لوگ
امن کے نام پر بارود بھری دنیا میں
خاص خشک کی مانند بکھرتے ہوئے لوگ
روز جیتے ہوئےاور روز ہی مرتے ہوئے لوگ
زندگی فلم نہیں ہے کہ دکھائیں تجھ کو
تو نے پوچھا ہے مگر کیسےبتائیں تجھ کو
کوئی محفوظ نہیں اہل تحفظ سے یہاں
رات بھاری ہے کہیں اور کہیں دن بھاری
ساری دنیا کوئی میدان سا لگتی ہے ہمیں
جس میں اک معرکہ سود و زیاں جاری ہے
پاؤں رکھے ہوئے بارود پر سب لوگ جہاں
اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے پروانۂ شب
آستینوں میں چھپائے ہوے مہتاب کوئی
اپنی گردن میں لیے اپنے گریبان کا طوق
نیند میں چلتے ہوئے دیکھتے ہیں خواب کوئی
اور یہ سوچتے رہتے ہیں کہ دیواروں سے
شب کے آثار ڈھلے,صبح کا سورج ابھرا
دور افق پار پہاڑوں پہ چمکتی ہوئی برف
نئے سورج کی تمازت سے پگھل جائے گی
اور کسی وقفہ امکان سحر میں اب کہ
روشنی سارے اندھیروں کو نگل جائے گی
دیکھیئے کیسے پہنچتی ہے ٹھکانے پہ کہیں
دور اک فاختہ اڑتی ہے نشانے پہ کہیں
آ کے یہ منظر خون بستہ دکھائیں تجھ کو
تو نے پوچھا ہے مگر کیسےبتائیں تجھ کو
کوئی گاہک ہی نہیں جوہر آئندہ کا
چشم کھولے ہوئے بیٹھی ہے دکانِ گریہ
اور اسی منظر خون بستہ کے گوشے میں کہیں
سر پہ ڈالے ہوے اک لمحۂ موجود کی دھول
تیرے عشاق بہت خاک بسر پھرتے ہیں
وقت کب کھینچ لے مقتل میں گواہی کے لیے
دست خالی میں لیے کاسہ سر پھرتے ہیں
پوچھنے والے تجھے کیسے بتائیں آخر
دکھ عبارت تو نہیں جو تجھے لکھ کر بھیجیں
دکھ تو محسوس ہوا کرتا ہے
چاہے تیرا ہو یا میرا دکھ ہو
آدمی وہ ہے جسے جیتے جی
صرف اپنا نہیں سب کا دکھ ہو
چاک ہو جائے جو اک بار ہوس کے ہاتھوں
جامہ عشق دوبارہ تو نہیں سلتا ہے
آسمان میری زمینوں پر جھکا ہے لیکن
تیرا اور میرا ستارہ ہی نہیں ملتا ہے
۔۔۔۔۔
میرا انتخاب ۔۔۔میری ڈائری سے
میں خیال ہوں کسی اورکا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سرِآئینہ مرا عکس ہے پسِ آئینہ کوئی اور ہے
میں کسی کے دست طلب میں ہوں تو کسی کے حرف دعا میں ہوں
میں نصیب ہوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے
عجب اعتبار و بےاعتباری کے درمیاں ہے زندگی
میں قریب ہوں کسی اور کے مجھے جانتا کوئی اور ہے
مری روشنی ترے خدوخال سے مختلف تو نہیں مگر
تو قریب آ تجھے دیکھ لوں تو وہی ہے یا کوئی اور ہے
تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی مجھے دوستوں کا پتہ نہیں
تری داستاں کوئی اور تھی مرا واقعہ کوئی اور ہے
وہی منصفوں کی روایتیں وہی فیصلوں کی عبارتیں
مرا جرم تو کوئی اور تھا پر مری سزا کوئی اور ہے
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا، نہیں دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
جو مری ریاضتِ نیم شب کو سلیم صبح نہ مل سکی
تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے
چاک ہو جائے جو اک بار ہوس کے ہاتھوں..
جواب دیںحذف کریںجامہ عشق دوبارہ تو نہیں سلتا ہے..
آسمان میری زمینوں پر جھکا ہے لیکن..
تیرا اور میرا ستارہ ہی نہیں ملتا ہے..