اس وقت سے میں ڈرتا ہوں
جب وقت سے میں ڈر جاؤں
"لاحاصل"
جیوے پاکستان،جیون ساگر (اتنے بڑے جیون ساگر میں تونے پاکستان دیا۔۔۔گلوکار،الن فقیر) سے لے کر میرا پیغام پاکستان کے خالق جناب جمیل الدین عالی ایک شاعرِبےمثل ہی نہیں بلکہ ایک سچے کھرے پاکستانی بھی تھے جنہوں نے 1951 میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے سرکاری ملازمت اختیار کی ۔یہ وہ دور تھا جب وسائل نہ ہونے کے برابر پر جذبہ ہمت اور لگن انمول اور بےمحابا تھی۔ جمیل الدین عالی کی ایک پہچان" ببول کے کانٹے" بھی ہیں جو آپ اس دور میں فائلوں پر کامن پنوں کی جگہ استعمال کرتے۔ جتنی عزت سے آپ نے یہ کانٹےسمیٹے اتنی ہی خوشبو اور رس سےآپ کا لہجہ ہمیشہ مہکتا رہا۔
دوہےلکھتے اور تحت اللفظ پڑھتے ہوئے اردو شاعری میں ایک نئے اسلوبِ بیان کی بنیاد بھی رکھی۔۔۔"انسان“کے نام سے پندرہ ہزار اشعار کی طویل نظم جس کو وہ اپنا لکھا ہوا منظوم ڈراما بھی کہتے تھے۔ یہ رزمیہ نظم ایک مکمل کتاب اورایک شاہکار تخلیق ہےجس میں انہوں نے انسان کے تمام پہلوؤں کی عکاسی کی،جن میں مذاہبِ عالم، نفسیات، فلسفہ،ادب اخلاقیات، جمالیات، سائنس، اور تاریخ جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔
جمیل الدین عالی کی شاعری سے انتخاب۔۔۔۔
اب جو یہ میرے بغیر انجمن آرائی ہے
لوگ کہتے ہیں کہ تم کو میری یاد آئی ہے
یہ جو عالی ہے یہ شاعر نہیں سودائی ہے
یہ تو سچ ہے ہے مگر آگے تری رسوائی ہے
میرے شکووں پہ نہ جا میں تو وہی ہوں جس نے
بارہا ترکِ محبت کی قسم کھائی ہے
خود بھی گمنام رہیں اُن کو بھی گمنام رکھیں
ہائے وہ لوگ جنہیں نازِ شکیبائی ہے
ہاں بھلا ترے خدوخال کو ہم کیا سمجھیں
دل میں یوں ہی تری تصویر اتر آئی ہے
ان کو آزردہ بھی کرتے نہیں بنتی ورنہ
اپنی باتوں پہ بھلا کس کو ہنسی آئی ہے
ہم نے صحرا میں بھی رہ کر جو پکارا ہے تجھے
کتنے غنچوں کے چٹکنے کی صدا آئی ہے
اہلِ شہر،اہلِ چمن،اہلِ قفس خیر تو ہے
کیا خبر بھی نہیں آئی کہ بہار آئی ہے
میری ہنگامہ پسندی پہ نہ الزام رکھو
شاید اِک یہ بھی علاج غمِ تنہائی ہے
۔۔۔۔۔۔
عالی" جی اب آپ چلو تم اپنے بوجھ اٹھائے
ساتھ بھی دے تو آخر پیارے کوئی کہاں تک جائے
جس سورج کی آس لگی ہے شاید وہ بھی آئے
تم یہ کہو خود تم نے اب تک کتنے دیے جلائے
اپنا کام ہے صرف محبت باقی اس کا کام
جب چاہے وہ روٹھے ہم سے جب چاہے من جائے
کیا کیا روگ لگے ہیں دل کو کیا کیا اب کے بھید
ہم سب کو سمجھانے والے،کون ہمیں سمجھائے
ایک اسی امید پہ ہیں سب دشمن دوست قبول
کیا جانے اس سادہ روی میں کون کہاں مل جائے
جب تم سب ہو سچے سادھو،میں بھی سچا سادھو ہوں
ایک غریب اکیلا پاپی کس کس سے شرمائے
اتنا بھی مجبور نہ کیجو ورنہ ہم بھی کہہ دیں گے
او عالی پر ہنسنے والے! تو عالی بن جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔
کب تم بھٹکے کیوں تم بھٹکے کس کس کو سمجھاؤ گے
اتنی دور تو آپہنچے ہو اور کہاں تک جاؤ گے
اس چالیس برس میں تم نے کتنے دوست بنائے ہیں
اب جو عمر بچی ہے اس میں کتنے دوست بناؤ گے
بچپن کے سب سنگی ساتھی آخر کیوںکر چھوٹ گئے
کوئی یار نیا پوچھے تو اس کو کیا بتلاؤ گے
جو بھی تم نے شہرت پائی جو بھی تم بدنام ہوئے
کیا یہی ورثہ اپنے پیارے بچوں کو دے جاؤ گے
اس جوشِ خود آگاہی میں آگے کی کیا سوچی ہے
شعر کہو گے،عشق کرو گے،کیا کیا ڈھونگ رچاؤ گے
عالی کس کو فرصت ہوگی ایک تمہی کو رونے کی
جیسے سب یاد آجاتے ہیں تم بھی یاد آ جاؤ گے
۔۔۔۔۔۔۔
اب عالی جی اہلِ سخن کی صحبت سے گھبراتے ہیں
جب کہیں بیٹھنا ہی پڑ جائے گیت پرانے گاتے ہیں
گیت پرانے سوہنے لیکن کب تک گائے جاؤ گے
ایک سے بول اور ایک سی لَے سے کن رس بھی تھک جاتے ہیں
یہ سب شکوے سر آنکھوں پر،لیکن یارو! سوچو تو
ایسے خوش گویانِ سخن کیوں چپ ہو کر رہ جاتے ہیں
کچھ تو ایسے جرم تھے جن کا رنگ کچھ ایسا گہرا ہے
لوگ جتائیں یا نہ جتائیں، یہ خود سے شرماتے ہیں
کچھ ناکام ارادوں نے بھی ہمت توڑ کے رکھ دی ہے'
کچھ اپنی کم مائیگیوں کے خوف سے بھی گھبراتے ہیں
نوعمری میں عشق کی گلیاں اندھےپن سے مل نہ سکیں
اور اب جاتی عمر کے سائے کوسوں دور بھگاتے ہیں
بےتقصیر وہ جیون ساتھی ایسا ساتھ نبھاتی ہے
اس کو کوئی بھی دکھ دینے کے دھیان سے ہی تھراتے ہیں
اب جو بھولے بھٹکے کوئی دعوتِ شوق آ جاتی ہے
کیا کیا وعدے،کیا کیا وہم اور کیا کیا دھیان ستاتے ہٰیں
ایسی نیند بھی لے نہیں سکتے جس سے اٹھنا مشکل ہو
بھولے بھالے چاہنے والے بچے روز جگاتے ہیں
جب سے چین میں گھوم آئے ہیں بےچینی سی رہتی ہے
کیا کچھ پایا،کیا نہیں،پایا کچھ بھی کہہ نہیں پاتے ہیں
جس دنیا کے خواب کتابوں اور قصوں میں دیکھے تھے
وہ نہ ملی اور یہ سب کو وہی خواب دکھاتے ہیں
۔۔۔
میری ڈائری سے۔۔
جس میں جناب جمیل الدین عالی کے مارچ 1986 کے دستخظ ثبت ہیں تو اسی صفحے پر تقریباً انتیس سال بعد اُن کے بیٹے راجو جمیل کے دستخظ بھی ہیں۔
عالی جی کو خوبصورت خراجِ تحسین، اور عمدہ اشعار کا انتخاب۔۔۔ عالی جی اور راجو جمیل کے ایک صفحے پر آٹوگراف بھی دلچسپ ھیں۔۔۔ عالی جی نے پاکستان کے حوالے سے جو شاعری کی ھے اس میں ایک بلا کی سرشاری و مستی ھے جو پڑھنے والے کو بھی اُسی کیفیت اور شعور میں لے جاتی ھے جو وطن اور اس کی مٹی کی خوشبواور اس میں بسنے والوں کی دھڑکنوں سے معمور ھے۔۔۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریں