ہفتہ, نومبر 28, 2015

"گرہ در گرہ"

مرد اور عورت کے بیچ بہت سے رشتے اور گرہ درگرہ تعلق ہوتے ہیں۔ہر رشتہ ایک دوسرے رشتے میں خود کو بدلتا ہوا اور ہرتعلق ایک اور نامعلوم سمت کی جانب سفر کرتا ہوا۔ہررشتے کی بنیاد اگرجسمانی تعلق سے سر اُبھارتی ہے تو ہر تعلق کی جڑیں ذہنی وقلبی رشتے سے پھوٹتی ہیں۔رشتے جسمانی ہم آہنگی کی بدولت قائم ہوتے ہیں تو تعلق ذہنی ہم آہنگی کے بغیر کبھی پروان نہیں چڑھ سکتے۔جسمانی تعلق کا ہم صرف ایک شخص کے حوالے سے ایک ہی مطلب نکالتے ہیں اسی لیے لکھنے میں ہچکچاہٹ بھی محسوس کرتے ہیں ورنہ دیکھا جائے تو انسان کے دوسرے انسانوں سے صرف جسم بانٹنے کے رشتے ہی تو ہوتے ہیں جو ہر رشتے کی بنیاد رکھتے ہیں۔ اجنبی مرد اورعورت شادی کےتعلق کے بعد جب ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں تو مرد کے حوالے سے ماں،بہن اور بیٹی کے رشتے وجود میں آتے ہیں اسی طرح عورت کی زندگی میں باپ، بھائی اور بیٹے کا رشتہ کبھی ختم نہ ہونے والا تعلق بن جاتا ہے۔
۔"رشتے محبت تو دے سکتے ہیں لیکن آسودگی ہمیشہ تعلق سے ملتی ہے چاہے وہ ذہنی ہو یا جسمانی"۔
مقدر کےرشتے ہمیشہ بنے بنائے ملتے ہیں ہمارا ان کی بنت پر  کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ ۔۔اُن کے لیےکوئی بھاگ دَوڑنہیں۔۔۔جِگ سا پزل کی طرح ایک دوسرے سے جُڑتے ہوئے۔۔۔ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ۔ تعلُق ہمیشہ اپنے دائرے سے باہر قائم کیا جاتا ہے۔ اس میں اپنی جگہ تلاش کرنا پڑتی ہے۔۔۔ ایک دوسرے کو جگہ دینی ہوتی ہے۔اس کے لیے جاننا معنی نہیں رکھتا،حسب نسب،بڑائی چھوٹائی اس کا کوئی معیارنہیں۔یہ ایک نگاہ کا کمال ہےجوجسم کے پاراترے تو بظاہربےجوڑ تعلق دُنیا کے کامیاب ساتھ بن جاتے ہیں۔اگر یہ نگاہ روح پر پڑ جائے توانسان تکمیلِ ذات کے اُس مقام پرجا پُہنچتا ہے جہاں دنیا کی ہر خوشی معمولی دکھائی دیتی ہے۔
رشتے صرف ایک بات پر فوقیت رکھتے ہیں ہےاور وہ ہے"اعتماد "انسان رشتے پراندھادُھند اعتماد کرتا ہے جبکہ تعلق پرکبھی اعتبارنہیں آتا۔زندگی کے اس سفرمیں مات ہوتی ہے تو رشتوں کے ٹھکرائے ہوئے ساری عمر سسکتے رہتے ہیں،بےچین رہتے ہیں۔اگر تعلق دھوکا دے جائے تو اگرچہ ادھورے تو رہ جاتے ہیں لیکن اپنے اندر سے شانت ہوتے ہیں کہ ہمیں کون سا اعتبار آیا تھا۔
انسانی فہم کے یقین کے ساتھ بظاہر ذہنی ہم آہنگی جسمانی سے زیادہ ضروری دکھتی ہےکہ اول اگر ہو تو دوسری خودبخود مطمئن    ہو جاتی ہےاگراس بات کو حتمی مان لیا جائے تو پھرذہنی ہم آہنگی والے رشتے ناکام کیوں ہو جاتے ہیں ؟اورمکمل جسمانی ہم آہنگی اور محبت کے باوجود انسان کی تلاش کیوں جاری رہتی ہے؟کیا یہ محض انسان کے کردار کی خرابی ہے؟یہ بہت اہم سوال ہے جن کا جواب جاننا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم اسے محض اپنے کردار کی کجی کہہ کر دامن نہیں چھڑا سکتے۔
سرسری نگاہ سے جائزہ لیا جائے تو مردعورت خواہ کاغذ کے بندھن میں ساتھ رہیں یا کسی ان دیکھے تعلق کی ڈور میں بندھ جائیں ایک دوسرے کی ضرورت بن جاتے ہیں۔وہ اپنی اپنی ضرورتیںِ،خواہشیں ،حسرتیں اور جبلتیں ہرانداز میں ایک دوسرے کے حوالے کرنے کو بھی آزاد ہوتے ہیں۔جسمانی تعلقات اور ذہنی رشتے قائم کرنا انسانی فطرت اور جبلت کاحصہ ہے جس میں محبت اور کشش کو ایک اہم عنصر سمجھا جاتا ہے۔چاہ کی ڈور میں گندھے ایسے جذبے ہیں جن کے سرے تلاش کرنا اکثراوقات ناممکن دکھتا ہے۔جسمانی ہم آہنگی اور محبت دو متضاد چیزیں ہیں۔اسی طرح محبت کے بغیر محض ذہنی ہم آہنگی فقط اپنے آپ کو دھوکا دینے یا راہِ فرار اختیار کرنے کی بات ہے۔درحقیقت ذہنی ہم آہنگی کا بُت ٹوٹنے کے بعد انسان کسی کو کچھ کہنے کے قابل نہیں رہتا۔مکمل جسمانی آسودگی ذہنی تعلق کے بنا صرف تھکن اور بوجھ ہے اور صرف ذہنی قربت ایسے ریشمی دھاگوں کا فریب بن جاتی ہے جس کی گرہوں کو کھوجتے انگلیاں تھکنے لگتی ہیں لیکن کہیں سے فرار کے سرے نہیں ملتے۔ایسی جامد خاموشی روح کو اپنے حصار میں جکڑتی ہے کہ انسان کسی کو پکارنے کے قابل رہتا ہےاور نہ اپنے آپ سے کچھ کہنے کی ہمت رکھتا ہے۔اس بات کو جناب اشفاق احمد نے اپنی کتاب "سفردرسفر(صفحہ67)" میں یوں بیان کیا۔
۔"جب انسانوں کے درمیان جسم کی محبت ہو تو وہ ایک دوسرے کی طرف مقناطیس کی طرح کھچنے لگتے ہیں جب ان میں آگہی اور دانش کی قدر مشترک ہوتو وہ لمبی سیروں ،لمبے راستوں اور لمبے سفر کے ساتھی بن جاتے ہیں اور جب ان کی محبت میں روحانیت کا ابر اُتر آئے تو وہ بستروں کے انبار میں دو معصوم بچوں کی طرح ٹانسے کی چادریں بن جاتے ہیں جس سے ان کی رہائی مشکل ہو جاتی ہے وہ یا تو چیخ چیخ کر مدد کرنے والوں کو بلاتے ہیں یا دم گھٹنے سے مر جاتے ہیں"۔
اِسی اُلجھن میں زندگی سرکتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ تعلقات خواہ کسی بھی انسان سے کسی بھی سطح پر کیوں نہ ہوں کچھ وقت گزرنے کے بعد اپنی اصل میں بےرنگ ہو جاتے ہیں۔اکثراوقات ذہنی ہم آہنگی بھی ذہنی لاتعلقی میں بدلتے دیر نہیں لگاتی۔
اسباقِ زندگی کے رٹے لگاتے لگاتے ساری عمرعمرِرائیگاں کی طرح گزار کر انسان آخر میں خالی ہاتھ خالی ذہن رہ جاتا ہے۔محبت نفرت،غرض بےغرضی ہر چیز بےمعنی دکھتی ہے۔اس سمے اگر ہم ذہن ودل کی کشادگی کے ساتھ اس فانی دنیا میں فانی جذبوں کی رمز سمجھنے کی کوشش کریں تو دکھائی دیتا ہے کہ بحیثیت انسان ہمارے دوسرے انسانوں سے گر جسمانی رشتے ہیں تو محبت کے تعلق بھی ہوتے ہیں لیکن ان سے ہٹ کر ایک احساس کا تعلق بھی ہوتا ہے جسے ہم مانتے تو ہیں لیکن سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں۔احساس کا یہ تعلق جسمانی اور ذہنی ہم آہنگی سے بھی بہت آگے ہے۔حد تو یہ ہے کہ احساس کی قربت کی خوشبو وقت اور فاصلوں کے حساب کتاب کی بھی پابند نہیں اورنہ ہی جنسِ مخالف کی جانب فطری کشش اس کا سبب بنتی ہے۔مجازی تسکین کے اس احساس کو سمجھنے کے لیے ہمیں مالک ِحقیقی اور انسان کے اسی ربط پر غور کرنا ہے جس کی وضاحت قران پاک کی کئی آیات میں ملتی ہےاور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں کبھی اپنے جسمانی اور روحانی رشتوں کا تقابل نہیں کرنا ورنہ شدید قسم کی الجھن کا شکار ہو جائیں گے۔ہرجذبے،ہراحساس کو سمجھنا اور ہر رشتے میں توازن برقرار رکھنا  نہ صرف ہمارے سکون  بلکہ اس کی بقا کے لیے بھی ضروری ہے۔
کچھ رشتے یا تعلق ہم بہت ناپ تول کر بناتے ہیں اورکچھ بغیرکسی حساب کتاب کے خود ہی بن جاتے ہیں۔خون کے تعلق سے جُڑے اٹوٹ رشتے ہوں یا روح کی تسکین کا حاصل غیرمرئی تعلق،وقت کی کسوٹی سب بھید کھول دیتی ہے۔رشتے روگ بن جائیں تو زندگی چاٹ جاتے ہیں اور تعلق روگ بن جائے تو مقصدِ حیات سے دُور کر دیتا ہے۔
 رشتے ایک بار قائم ہو جائیں تو پھر اُن کو نبھانا پڑتا ہے،سنوارنا پڑتا ہے،بہلانا پڑتا ہے،نکھارنا پڑتا ہے۔یہ زندگی کے وہ  دھاگے ہیں جو اُلجھ جائیں تو اُن کو بڑے رسان سے ایک ایک کر کے الگ کرنا پڑتا ہے کہ  جتنے ریشمی دِکھتے ہیں اُتنے ہی نازک بھی ہوتے ہیں،جتنے کُھردرے لگتے ہیں اُتنا ہی زخمی بھی کر سکتے ہیں،جتنے بکھرے ملتے ہیں اُتنا ہی اُن کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔بہرحال زندگی کی تصویر کی بُنت  ہموار  نقوش سے کرنا ہے تو ان دھاگوں کے سروں کو تلاش کرنے میں ہی عافیت ہے جبکہ تعلقات میں ایسا نہیں ہوتا اُن کے الجھے سِرے اگر سنور نہ رہے ہوں تو وقت کی چادر میں ڈھانپے بھی جا سکتے ہیں ،اُن کو بعینٰہہ اِسی طرح چھوڑ کر بھی اپنے ساتھ رکھا جا سکتا ہے یا پھر جتنا جلد ہوسکے کنارہ کشی کا اختیار بھی اپنے پاس رہتا ہے بغیر کسی جھجھک کے۔
حرفِ آخر

مقدر سے بنے والے رشتے چیزوں کی طرح ہوتے ہیں۔ بنانے سے پہلے خواہ کتنی ہی چھان پھٹک کر لو، عمر کے تجربے سے جانچ لو،رنگ ونقش کی ضمانت کی قسمیں اُٹھوا لو۔جب تک قریب سے برتنے کی نوبت نہیں آتی۔سب ہوائی اور فرضی باتیں ہی رہتی ہیں۔اصل امتحان تو یہ ہے کہ زندگی کے سودے میں سب خسارا جاننے،سمجھنے کے بعد کبھی تو اپنی زندگی کی قیمت پر،کبھی خود سے وابستہ خونی رشتوں کے سکون کی خاطر"آخری حد" تک سمجھوتے کا کڑوا گھونٹ امرت جان کر پینا ہے۔ بس "آخری حد" کی سمجھ ہی زندگی کہانی کی کامیابی کی ضمانت ہے۔خواہ یہ آخری حد زندگی کے آخری سانس تک چلے۔

4 تبصرے:

  1. گرہیں کب گرہیں رہتی ہیں بس جوتدبرکیا ساری بات کُھل گئیں - کتاب ہدایت موجود ہے ہرتعلق ہر رشتے کےلیے بتانے کےلیے -دین تو نام ہی توازن کاہے ہمیں تو حکم ہی اعتدال کا دیا گیا - اس تحریر کی تعریف یا تبصرہ ممکن نہیں آفاقی سچائی کی آئینہ دار ہے یہ- جزاک اللہ

    جواب دیںحذف کریں
  2. ذہن کی بہت سی گرہیں کھولتی بہت خوبصورت تحریر ۔۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. بہت خوبصورت اور بہت نکتہ رس
    اسی آیت پہ میری بهی ایک پوسٹ ہے .....

    جواب دیںحذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...