جمعرات, مئی 08, 2014

" ریڈیو کے دن"


ریڈیو کے دن۔۔۔۔رضا علی عابدی
صفحہ9۔۔۔
یہ تحریراُن تمام احباب کے لیے ہے جنہوں نے مجھے جانا اور میری محنت کو سراہا۔
اس ضخیم کتاب کا خلاصہ ایک لفظ میں کیا جائے تو وہ ایک لفظ ہے: شکریہ۔ یہ تحریر نہیں اظہار ِتشکر ہے ان بےشمارسامعین اور قارئین کے نام جو میری کوششوں کو سراہ کر میرے حوصلے بڑھاتے رہے اور جس روز میں مکمل طور پرریٹائر ہوا اس دن بالکل یوں لگا جیسے وہ سب میری ناؤ کی طنابیں کھینچ رہے تھے اور جب تک یہ ناؤ ساحل پر نہیں لگی ،انہوں نے محبت کی یہ ڈور ٹوٹنے نہیں دی۔
رضا علی عابدی
نومبر 16 ،2010۔ لندن
۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ 19۔۔۔
کسی نے لکھا کہ یہ عورتیں بازاروں میں گھومتی پھرتی ہیں ،انہیں ان کے گھروں کی چاردیواری میں بند کیا جائے۔
میں نے کہا کہ کیوں نہ آپ اپنے اندر کے وحشی کو اپنے وجود کے اندر بند کرلیں۔
ایک بار باتوں باتوں میں دین اورعقیدے کا ذکرآ گیا۔اس پر کراچی سے ایک انقلابی گھرانے کی خاتون کا خط آیا جنہوں نے خفگی کا اظہار کیا۔اس روز پندرہ منٹ کے پروگرام میں وہی ایک تنہا خط تھا اوراس کا جواب تھا۔ چند لفظوں میں وہ جواب یہ تھا کہ جس زمانے میں جادوگری کا زور تھا،اس دور کے انبیاء نے ویسے ہی معجزے دکھائے اورجب طب اور معالجے نے زورپکڑا تو اس دور کے نبی نے مریضوں کو اچھا اور مُردوں کو زندہ کرنے کے معجزے دکھائے لیکن جب علم واگہی کا دور شروع ہونے لگا اور آسمان سے پہلی آیت اتری تو اس میں پڑھنے،قلم کا اورکتاب کا ذکر تھا۔لوگ اپنے پیغمبر سے مطالبہ کرتے تھے کہ کوئی معجزہ دکھائیے تو آسمان سے صدا آتی تھی کہ یہ کتاب ہی ہمارا معجزہ ہے۔یہ بات طے ہے کہ یہودیت کی بنیاد خوف پر۔عیسائیت کی بنیاد پیار پراورکوئی مانے یا نہ مانے اسلام کی بنیاد علم پررکھی گئی۔
میرا یہ طویل جواب پاکستان کے سب سے بڑے اخبار نے حرف بہ حرف شائع کیا ،یہ الگ بات ہے کہ اخبار نے نہ میرا حوالہ دیا اور نہ میری نشرگاہ کا۔
صفحہ25۔۔۔
ہندوستان کے شہرکلکتہ میں اُردو کتابوں کی باقاعدہ چھپائی سن1803ء کے لگ بھگ شروع ہوئی۔یہ سلسلہ چل نکلا اور چھپنے والی ہرکتاب کی چھ جلدیں برطانیہ بھیجی جانے لگیں۔
یہ جلدیں انڈیا آفس،برٹش لائبریری اورآکسفورڈ،کیمبرج اسکاٹ لینڈ اورآئرلینڈ کی یونیورسٹیوں میں جمع ہونے لگیں ۔یہ جان کر حیرت ہوتی ہےکہ سمندری جہازوں میں لد کرہندوستان کی ہرکتاب برطانیہ پہنچی البتہ جو جہازراہ میں ڈوب گئے ان میں لدی ہوئی کتابیں بھی دریابُرد ہو گئیں اور اب نایاب ہیں۔
صفحہ46۔۔۔
ایک ہزار اٹھاون صفحوں کی کُلیاتِ میر تو ایسی ہے کہ دیکھا ہی کیجئیے۔اُردو چھاپہ خانہ قائم ہوئے بمشکل بارہ برس گزرے تھے کہ فورٹ ولیم کالج نے کمر باندھی اوراتنی بڑی اورضخیم کتاب چھاپ ڈالی۔بڑی تقطیع پر اس زبان کے پیچیدہ ٹائپ کو کمپوز کرنا
صفحات چھاپنا،انہیں ترتیب سے محفوظ رکھنا اور پھر اُن کی جلد بندی کرنا،یہ سب 1811ء میں آسان نہ تھا۔کتاب کی نگرانی کا فرض مرزا کاظم علی جواں،مرزا جان طپش،مولوی محمداسلم،تارنی چرن منتر اور منشی غلام اکبر کو سونپا گیا۔یہ کلیات کپتان ٹیلر کی ہدایت پراور ولیم ہنٹر،کپتان گالوے اورکپتان ٹامس روبک کے تعاون سے چھپی۔ میرنے تو چند لوگوں سے عشق کیا ہو گا،میر سے جن لوگوں نے عشق کیا،ان کا کوئی شمار ہے؟
صفحہ 47۔۔۔
جواہرِمنظوم:(1849ء) غالبیات کے ماہرکہتے ہیں کہ غالب کو انگریزی شاعری سےبھی یقیناً کوئی تعلق رہا ہےلیکن کب اور کیسے؟کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ بی بی سی کے پروگرام کتب خانہ میں تحقیق کے دوران انگریزی شاعری کا وہ اردو ترجمہ مل گیا جس کا غالب نے نہ صرف مطالعہ کیا ہوگا بلکہ اس کو درست بھی کیا ہو گا،تقریباًً ایک سو ساٹھ سال پہلے الٰٰہ آباد میں محکمہ تعلیم کے ایک سابق منشی غلام مولا نے ولایت کی کتاب سلیکشن آف انگلش پوئٹری حصہ اول کا منظوم ترجمہ کیا تھا جو اصلاح کے لیے مرزا غالب کو بھیجا گیا تھا۔ کتاب میں ساری نظمیں بچپن کے موضوع پرہیں۔دل پر اثر کرنے والا کلام ہے۔
صفحہ48۔۔۔
مثنوی عابد(1867ء) اسے الٰہ آباد کی عدالت دیوانی کے امین محمد عبداللہ خان نے انگریزی سے ترجمہ کیا تھا۔ترجمہ اتنا عمدہ تھا کہ لیفٹینٹ گورنر ولیم مور نے سنا تو ایک سو روپیہ انعام دیا اور اسے الٰہ آباد کے سرکاری چھاپہ خانے میں چھاپنے کا حکم دیا ،اس بات کو 140 سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔ مثنوی عابد آئرلینڈ کے شاعرٹامس پارٹل کی طویل نظم ہرمٹ کا منظوم ترجمہ ہے۔ حقیقتاً پڑھنے کے قابل ہے۔
صفحہ50۔۔۔
زہرِعشق(1867) سچی بات ہےکہ اس مثنوی پراردو شاعری کی یہ صنف ختم ہے۔لکھنؤ کے حکیم نواب مرزا شوق نے اس کتاب میں اپنی چارمثنویاں جمع کی ہیں: بہارِعشق،زہرِعشق،لذت ِعشق اورفریبِ عشق مگرباقی تین مثنویاں زہرِعشق کی خاک کو بھی نہیں پہنچتیں۔ جب دوسرے شاعر انجانے نگر کے شہزادوں اور پہاڑوں میں رہنے والی پریوں کی داستانیں رقم کر رہے تھے،مرزا شوق نے شہر ہی کے ایک محلے میں رہنے والے نوجوان اور کچھ مکان چھوڑ کر اسی محلے میں رہنے والے سوداگر کی بیٹی کے عشق کا قصہ اس طرح لکھا کہ لوگوں نے اپنے بیٹوں اوربیٹیوں کو حکم دے دیا کہ یہ کتاب نہ پڑھیں لیکن خوب خوب حکم عدولی ہوئی اور کہنے والے کہتے ہیں کہ اسے پڑھ کر آٹھ نو لڑکے لڑکیوں نے زہر پی کر جان دی۔ زہرعشق کا جو سب سے پرانا ایڈیشن لندن میں محفوظ ہے اسے تقریباً 145 سال پہلے نولکشور کے چھاپہ خانے نے شائع کیا تھا۔ کتاب میں شاعر نے جس طرح اپنے جذبات کھول کر بیان کیے تھے ،مصور نے بھی اس طرح ان کے جذبات کو تصویروں میں ڈھال دیا۔ کتاب چھپی تو ایک کہرام مچ گیا۔ کسی نے کہا کہ یہ دلکش شاعری کی معراج ہے۔ کسی نے حکم دیا کہ خبردار یہ کتاب شریف گھرانوں میں داخل نہ ہونے پائے۔
آج بھی حال یہ ہے کہ کسی ناشر کو اصل اٰیڈیشن کا عکس چھاپنے کی جرءات نہیں۔۔حالانکہ وقت اور زمانہ بس اب برہنہ ہوا ہی چاہتا ہے۔
صفحہ52۔۔۔
گلدستہءبیت بازی(1876ء) سولہ صفحوں کی یہ دلچسپ کتاب میرغیاث الدین نے لکھی تھی،اس بات کو اب 135 سال ہو رہے ہیں،اس میں مکمل بیت بازی ہےاور الف سے یے تک سینکڑوں شعر ہیں۔ خود غیاث کی کہی ہوئی غزلیں ہیں۔ پہلی غزل کے سارے مصرعے آ سے شروع ہو کر آ ہی پرختم ہوتے ہیں۔دوسری میں آ سے شروع ہو کر الف پر۔ تیسری میں الف سے شروع ہو کر بے پر۔چوتھی میں بے سے شروع ہو کر پ پر ختم ہوتے۔راہ میں ٹ،ڈ اور ژ تک آتے ہیں اور اس طرح یہ سلسلہ یے تک جاتا ہے۔
صفحہ100۔۔۔
کہتے ہیں کہ تاج محل کے حسن کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اسے دیکھنے کے لیے چاندنی رات میں آئے ہیں یا بھری دوپہر میں۔
اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ آپ اسے دیکھنے کس کے ساتھ آئے ہیں۔
صفحہ 132۔۔۔
میانوالی میں فولاد کا کارخانہ لگنا تھا ،نہیں لگا۔ کالا باغ ڈیم بننا تھا،نہیں بنا۔جو کچھ بھی بنا وہ جاگیرداروں کی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے بنا۔
مجھے تو یوں لگا کہ میانوالی ایک ایسی عورت ہے جو بغیرمیاں والی ہے۔
صفحہ 134۔۔۔
میں ڈیرہ غازی خان پہنچ تو گیا مگر کسی بھٹکے ہوئے اجنبی کی طرح۔
میں ان کے گھر پہنچا تو برامدے میں ایک عجیب چیز دیکھی۔میں اپنی عمر میں کھٹیا،کھاٹ،کھٹولہ،پلنگڑی اور پلنگ دیکھ چکا تھا مگر یہ تو مہا پلنگ تھا جس پر چاہے تو پورا کنبہ سو سکتا تھا۔میں نے حیرت سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟انہوں نے خوشی سے جواب دیا 'ہماچی'۔ میں نے کہا "اتنی بڑی؟" کہنے لگے یہ تو چھوٹی ہے،ہماچی کہلاتی ہے۔اس سے بھی بڑا ہماچا ہوتا ہے جس پر پورا محلہ بیٹھ سکتا ہے۔
آپ اسے ڈیرہ غازی خان کے باشندوں کا کلب کہہ سکتے ہیں۔
صفحہ140۔۔۔
حیدر آباد میں تین چیزیں کمال کی بنتی ہیں۔ربڑی،ٹین کے بہت بڑے بڑے ٹرنک اور شیشے کی نازک نازک چوڑیاں۔
صفحہ 142۔۔۔
دُنیا کی ہر داستان کا انجام ہی کہانی کی گتھیاں کھولتا ہے۔
صفحہ157۔۔۔
بڑی بڑی باتیں تو سب ہی کو یاد رہتی ہیں۔ مجھے اُن چھوٹی چھوٹی باتوں سے والہانہ لگاؤ ہے جو نہ صرف یاد رہتی ہیں بلکہ یاد آ کر خوشیاں بھی دیتی ہیں،چھوٹی چھوٹی سی۔
# Selection of Urdu Poetry 
# Hermit

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...