اُردو کا حال از رضا علی عابدی۔۔۔ صفحہ 8۔۔۔
۔"یہ زبان مجھ سے نہیں مگرمیں اس زبان سے ضرور ہوں۔اس نے میرا بھلا چاہا،میں اس کا بھلا چاہتا ہوں۔یہ کوئی ادلے بدلے کا بندوبست نہیں۔یہ میرے آنگن میں بکھری ہوئی روشنی ہے اور میرے چمن میں پھیلی ہوئی خوشبو ہے،یہ میرے سینے میں دھڑکتی ہوئی زندگی کی علامت ہے،یہ میرے وجود پر برستی ہوئی ٹھنڈک اور میرے ماتھے پر رکھی ہوئی ماں کی ہتھیلی ہے۔جس طرح اس میں عربی،فارسی،ہندی،پنجابی،سندھی اور گوجری کی آمیزش ہے بالکل اسی طرح یہ زبان راحت،چین،سکون،آرام اورآسائش کا آمیزہ ہے۔
۔"یہ زبان مجھ سے نہیں مگرمیں اس زبان سے ضرور ہوں۔اس نے میرا بھلا چاہا،میں اس کا بھلا چاہتا ہوں۔یہ کوئی ادلے بدلے کا بندوبست نہیں۔یہ میرے آنگن میں بکھری ہوئی روشنی ہے اور میرے چمن میں پھیلی ہوئی خوشبو ہے،یہ میرے سینے میں دھڑکتی ہوئی زندگی کی علامت ہے،یہ میرے وجود پر برستی ہوئی ٹھنڈک اور میرے ماتھے پر رکھی ہوئی ماں کی ہتھیلی ہے۔جس طرح اس میں عربی،فارسی،ہندی،پنجابی،سندھی اور گوجری کی آمیزش ہے بالکل اسی طرح یہ زبان راحت،چین،سکون،آرام اورآسائش کا آمیزہ ہے۔
بس یہ ہے کہ یہ زبان کھلی ہوئی بانہیں مانگتی ہے۔وہ کھلی ہوں تو یہ آپ ہی آپ سینے سے لگ جاتی ہے۔
یہی اُردو کا حال ہے۔یہی ماضی اور مجھے یقین ہے ،یہی مستقبل"۔
رضا علی عابدی
2004،25 دسمبر
لندن
یہی اُردو کا حال ہے۔یہی ماضی اور مجھے یقین ہے ،یہی مستقبل"۔
رضا علی عابدی
2004،25 دسمبر
لندن
صفحہ 4۔۔۔ سارے احساس محو ہو جاتے ہیں، محبتوں کا احساس مٹائے نہیں مٹتا۔
۔۔7۔۔۔ دُنیا میں غریب نہ ہوتے تو شاید محبت بھی نہ ہوتی۔
۔۔ 14۔۔۔ سکھر کی گرمی کا یہ قصہ بھی سن لیجیے کہ باقی ملک کو کراچی کی بندرگاہ سے ملانے کے لیے تین ہزار تین سو ٹن وزنی ریل کا پل لندن سے لا کر یہاں دریا کے اوپر دوبارہ بنایا گیا اور 25 مارچ 1889ء کو گورنر بہادر اس کا افتتاح کرنے بمبئی سے تشریف لائے تو گرمی اتنی سخت تھی اور تمام سفید فام مہمانوں کے لباس اتنے دبیز تھے کہ پل کا افتتاح صبح سورج نکلنے سے پہلے کرنا پڑا۔ پھر مہمانوں نے پیدل چل کر پل کی سیر کی اور دیکھا کہ اتنے بھاری بھرکم الجھے ہوئے پیچیدہ ڈیزائن پر لندن میں بیٹھے ہوئے انجینئروں نے کتنا ذہن کھپایا ہوگا اورہندوستان میں موجود غریب مزدوروں نے کس قدر مشقت اُٹھائی ہو گی ،کہ کتنے بہت سے تو سروں پر اوزار کرنے سے مر گئے ہوں گے۔
۔۔ 48۔۔۔ وقت کا جھونکا مجھے اُڑا لے گیا اور اگلے ہی روز ایک اور مزار کے سامنے لے جا کر کھڑا کیا۔اندھیرے غار کی ٹھنڈی زمین پر رُخسار ٹیکے ایک شیر سو رہا تھا۔
ٹیپوسلطان۔
۔۔49۔۔۔ویسا ہی اندھیرا۔ ہوا میں ویسی ہی خنکی۔ دیواروں کا رنگ ویسا ہی مٹیالا۔ وہ شیرکا غار تھا۔ مقبرہ نہ تھا۔اس کے بیچوں پیچ ٹیپوصاحب کی قبر تھی۔قبر پر بڑا سا کپڑا پھیلا دیا گیا تھا جس پر شیر کی سرمئی دھاریاں بنی ہوئی تھیں۔بالکل ایسا لگا جیسے کوئی گھائل شیر زندگی کی آس چھوڑ کر غار کے ٹھنڈے فرش پر رخسار ٹیکے لیٹا ہو اور بجھی بجھی سی آنکھیں اُٹھا کر ہر آنے جانے والے کو دیکھ رہا ہو اور کہہ رہا ہو کہ تمہیں تو معلوم ہی ہو گا،میرے ساتھ دھوکا ہوا ،ورنہ میں بھی آزاد رہتا اور تم بھی ۔
۔۔63۔۔۔ میرے میزبانوں نے مجھے اس بس میں بٹھا دیا جو ایلورا کے غاروں تک لے جاتی ہے۔خدا جانے وہ کون تھا جس نے ان حیران کر دینے والی تعمیرات کو غاروں کا نام دیا۔یہ غار نہیں ہیں۔یہ سنگلاخ پہاڑوں کا کلیجہ نکال کر ان کے اندر تراشی ہوئی ایسی عبادت گاہیں ہیں کہ ان میں دُنیا بھر کی عقیدت سما جائے پھر بھی کچھ جگہ خالی رہ جائے۔
اورنگ آباد سے صرف اُنیس میل دور ایلورا میں ایک دور تک پھیلا ہوا پہاڑ کھڑا ہے جس کے نیچے اور سامنے بہت کشادہ ایک وادی ہے جو آنکھوں کو بھلی لگتی ہے اور روح میں ایک عجب تازگی سی بھرتی ہے۔
فصیل جیسے اس پہاڑ میں پہلے بودھوں نے اپنی خانقاہیں تراشیں، یہ پندرہ سولہ سو سال پرانی بات ہے۔پھر برہمنوں نے اپنے مندر بنائے جن کے درودیوار میں سو طرح کی مورتیاں تراشیں, بعض ایسی جنہیں دیکھ کر بچے اپنے بڑوں سے پوچھ رہے تھے کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔
برہمنوں کے بعد جین آئے اور انھوں نے پہاڑوں کو ایسے تراشا جیسے یہ مکھن کے بنے ہوں۔ عقیدت دل ودماغ ہی میں نہیں ،بازوؤں میں بھی کیسی شکتی بھر دیتی ہے۔
۔۔64۔۔۔وجد صاحب کا وہ فقرہ مجھے یاد رہے گا کہ جس گھر میں کتابیں اور بچے نہ ہوں وہاں جا کر دل نہیں لگتا۔
۔۔80۔۔۔ وقت پر سکیڑ کر اُڑا اور پھر سات سمندر پار جا اترا۔
میرا خواب ختم ہوا ۔
کیسا خواب تھا جو میری جاگتی آنکھوں نے دیکھا تھا۔
۔۔۔۔۔
ریل گاڑی کی کہانی۔۔۔ رضاعلی عابدی کی کتب کی زبانی اور کچھ گوگل سے۔۔۔
٭کتابیں اپنے آباء کی ۔۔ صفحہ 266 تا 268۔۔
۔۔7۔۔۔ دُنیا میں غریب نہ ہوتے تو شاید محبت بھی نہ ہوتی۔
۔۔ 14۔۔۔ سکھر کی گرمی کا یہ قصہ بھی سن لیجیے کہ باقی ملک کو کراچی کی بندرگاہ سے ملانے کے لیے تین ہزار تین سو ٹن وزنی ریل کا پل لندن سے لا کر یہاں دریا کے اوپر دوبارہ بنایا گیا اور 25 مارچ 1889ء کو گورنر بہادر اس کا افتتاح کرنے بمبئی سے تشریف لائے تو گرمی اتنی سخت تھی اور تمام سفید فام مہمانوں کے لباس اتنے دبیز تھے کہ پل کا افتتاح صبح سورج نکلنے سے پہلے کرنا پڑا۔ پھر مہمانوں نے پیدل چل کر پل کی سیر کی اور دیکھا کہ اتنے بھاری بھرکم الجھے ہوئے پیچیدہ ڈیزائن پر لندن میں بیٹھے ہوئے انجینئروں نے کتنا ذہن کھپایا ہوگا اورہندوستان میں موجود غریب مزدوروں نے کس قدر مشقت اُٹھائی ہو گی ،کہ کتنے بہت سے تو سروں پر اوزار کرنے سے مر گئے ہوں گے۔
۔۔ 48۔۔۔ وقت کا جھونکا مجھے اُڑا لے گیا اور اگلے ہی روز ایک اور مزار کے سامنے لے جا کر کھڑا کیا۔اندھیرے غار کی ٹھنڈی زمین پر رُخسار ٹیکے ایک شیر سو رہا تھا۔
ٹیپوسلطان۔
۔۔49۔۔۔ویسا ہی اندھیرا۔ ہوا میں ویسی ہی خنکی۔ دیواروں کا رنگ ویسا ہی مٹیالا۔ وہ شیرکا غار تھا۔ مقبرہ نہ تھا۔اس کے بیچوں پیچ ٹیپوصاحب کی قبر تھی۔قبر پر بڑا سا کپڑا پھیلا دیا گیا تھا جس پر شیر کی سرمئی دھاریاں بنی ہوئی تھیں۔بالکل ایسا لگا جیسے کوئی گھائل شیر زندگی کی آس چھوڑ کر غار کے ٹھنڈے فرش پر رخسار ٹیکے لیٹا ہو اور بجھی بجھی سی آنکھیں اُٹھا کر ہر آنے جانے والے کو دیکھ رہا ہو اور کہہ رہا ہو کہ تمہیں تو معلوم ہی ہو گا،میرے ساتھ دھوکا ہوا ،ورنہ میں بھی آزاد رہتا اور تم بھی ۔
۔۔63۔۔۔ میرے میزبانوں نے مجھے اس بس میں بٹھا دیا جو ایلورا کے غاروں تک لے جاتی ہے۔خدا جانے وہ کون تھا جس نے ان حیران کر دینے والی تعمیرات کو غاروں کا نام دیا۔یہ غار نہیں ہیں۔یہ سنگلاخ پہاڑوں کا کلیجہ نکال کر ان کے اندر تراشی ہوئی ایسی عبادت گاہیں ہیں کہ ان میں دُنیا بھر کی عقیدت سما جائے پھر بھی کچھ جگہ خالی رہ جائے۔
اورنگ آباد سے صرف اُنیس میل دور ایلورا میں ایک دور تک پھیلا ہوا پہاڑ کھڑا ہے جس کے نیچے اور سامنے بہت کشادہ ایک وادی ہے جو آنکھوں کو بھلی لگتی ہے اور روح میں ایک عجب تازگی سی بھرتی ہے۔
فصیل جیسے اس پہاڑ میں پہلے بودھوں نے اپنی خانقاہیں تراشیں، یہ پندرہ سولہ سو سال پرانی بات ہے۔پھر برہمنوں نے اپنے مندر بنائے جن کے درودیوار میں سو طرح کی مورتیاں تراشیں, بعض ایسی جنہیں دیکھ کر بچے اپنے بڑوں سے پوچھ رہے تھے کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔
برہمنوں کے بعد جین آئے اور انھوں نے پہاڑوں کو ایسے تراشا جیسے یہ مکھن کے بنے ہوں۔ عقیدت دل ودماغ ہی میں نہیں ،بازوؤں میں بھی کیسی شکتی بھر دیتی ہے۔
۔۔64۔۔۔وجد صاحب کا وہ فقرہ مجھے یاد رہے گا کہ جس گھر میں کتابیں اور بچے نہ ہوں وہاں جا کر دل نہیں لگتا۔
۔۔80۔۔۔ وقت پر سکیڑ کر اُڑا اور پھر سات سمندر پار جا اترا۔
میرا خواب ختم ہوا ۔
کیسا خواب تھا جو میری جاگتی آنکھوں نے دیکھا تھا۔
۔۔۔۔۔
ریل گاڑی کی کہانی۔۔۔ رضاعلی عابدی کی کتب کی زبانی اور کچھ گوگل سے۔۔۔
٭کتابیں اپنے آباء کی ۔۔ صفحہ 266 تا 268۔۔
٭ ریڈیو کے دن ۔۔۔ صفحہ 41
ایک نام، ایک ناول اورایک کہانی" اُمراؤ جان ادا (1899)"سے کون واقف نہیں۔مرزامحمد ہادی رسوا کے قلم سے نکلی اس تحریر کو ناقدین اردو زبان وادب کا پہلا باضابطہ ناول قرار دیتے ہیں۔ایک سو سولہ برس پہلے شائع ہونے والا یہ ناول اُن کتابوں میں سرِفہرست ہے جو آج تک شائع ہو رہی ہیں اور نہ معلوم کب تک شائع ہوتی رہیں گی۔
انگریز حکومت نے کوئٹہ کے راستے افغانستان تک ریلوے لائن ڈالنے کا آغاز کیا۔وہاں پٹڑیاں ڈالنے اور سرنگیں کھودنے کے لیے سروے کرنے والوں میں مرزامحمد ہادی رسوا بھی شامل تھے جو روڑکی انجنئرنگ کالج سے اوورسئیری کی سند لے کر آئے تھے اورکوئٹہ میں ملازمت کرتے تھے۔ کئی برس کے سروے کے بعد کوئٹہ سے آگے درۂ بولان میں 1886 میں ریلوے لائن بچھائی گئی۔
دُنیا کی پہلی مسافر بردار ریل گاڑی 1825 میں برطانیہ میں چلی۔اس کےبعد فرانس،امریکہ،جرمنی،روس،اٹلی،اسپین اور میکسیکو میں ریل گاڑی سے سفر کا آغاز ہوتا گیا۔ ہندوستان میں ریل کی آمد انگریزوں کے اقتدار کے ساتھ شروع ہوئی بھاپ کا پہلا انجن 22 دسمبر 1851 کو روڑکی میں چلایا گیا اور اس وقت پنجاب کے حاکم ٹامسن کےنام پر اُس کا نام ٹامسن رکھا گیا۔ ہندوستان میں سب سے پہلی مسافر ریل گاڑی 1853 میں چلی۔16 اپریل 1853 کو بمبئی میں عام چھٹی کا اعلان ہوا۔بوری بندر کے اسٹیشن پر گورنر کے بینڈ نے انگریزی دُھنیں بجائیں۔سہ پہر تین بج کر پینتیس منٹ پر پہلی گاڑی چارسو مسافروں کو لے کر چلی توراستے میں ہر رنگ ہر نسل کے بےشمار لوگوں نے خوش ہو کر تالیاں بجائیں۔گاڑی کو اکیس توپوں کی سلامی دی گئی۔اس کے ساتھ چودہ ڈبے لگائے گئےاور تین انجن اسے کھینچ رہے تھے جن کےنام سندھ،سلطان اورصاحب رکھے گئے۔یہ گاڑی تھانہ (ضلع مہاراشٹر) تک گئی تھی۔اس گاڑی نے اکیس میل کا سفر تقریباً پینتالیس سےستاون منٹ میں طے کیا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں