جمعہ, مئی 16, 2014

"کرنیں (2) "

"خوشی"
٭ خوشی  سکون کی وہ دولت ہے جو کسی  بھی وقت  کہیں سے  بھی مفت تو مل سکتی ہے لیکن اُس کو لُوٹا نہیں جا سکتا۔یہ بھیک مانگ کر تو مل سکتی ہے لیکن کسی سے چھین کر حاصل نہیں کی جا سکتی۔اور جو  کسی کی خوشی  لوٹنے کی کوشش کرتے  ہیں یا اُسے لُوٹ کا مال  سمجھتے ہیں اُن کے ہاتھ خوشی آتی ہے اور نہ  سکون کی دولت۔
٭خوشی دراصل اندر کے سکون کا نام ہی تو ہے ،اس دنیائے رنگ وبو میں جس کی تلاش کی سعی ہی کی جا سکتی ہے۔لیکن یہ سعی بھی ہر ایک کا نصیب نہیں۔ اور کامل خوشی کی گرفت تو فانی انسان کی فانی زندگی کی دسترس میں ممکن ہی نہیں۔
٭ خوشی دوسرے میں نہیں اپنے آپ میں تلاش کرو۔
٭ خوشی نظر کے لمس سے رنگ کی پہچان سے نہیں بلکہ ذات کے یقین سے رنگ کی پرکھ کا نام ہے۔
٭انسان کی مٹی میں خوشی کی جڑیں جتنی گہری ہوتی جاتی ہیں دُکھ کی کونپلیں اُتنی ہی تیزی سے نمودار ہونے لگتی ہیں۔
۔۔۔۔
"دُکھ"
٭دکھ لباس کی مانند ہیں کوئی ان کو اوڑھ لیتا ہے تو کسی کے اندر یوں اُتر جاتے ہیں کہ روشنی کی ردا بدن کے زخم چھپا دیتی ہے۔
۔۔۔۔
"محبت اور عقیدت"
محبت قربت کا نام ہے اورعقیدت پوجا کا۔عقیدت اندھی ہوتی ہے محبت نہیں ۔ محبت تو بذات خود تکمیل کا نام ہے اس میں کسی قسم کی خامی کی گنجائش ہی نہیں۔محبت عقیدت میں ڈھل جائے تو بڑا مسئلہ ہو جاتا ہے کہ پھرمحبت میں لین دین اور نفع نصان کا کھاتہ کھل جاتا ہے۔ محبت "ایکو" ہے اور کچھ بھی نہیں ۔محبت کا اعجاز یہ بھی کہ بن مانگے تحفے ملتے جاتے ہیں۔ عقیدت میں تو چڑھاوے چڑھاتے جاؤ پھر بھی اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ نذر قبول ہو کہ نہ ہو۔
٭عقیدت کی انتہا مایوسی پر ختم ہوتی ہےاور محبت کی انتہا قربانی پر۔عقیدت کب محبت میں بدل جائے اور محبت کب عقیدت کا روپ دھار لے  ہم نہیں جانتے۔اور ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ جسے محبت سمجھ رہے ہوں وہ عقیدت ہو اور جسے عقیدت کا نام دے کر سجدے کر رہے ہو وہ محبت کی انتہا ہو۔
٭عقیدت میں آنکھیں بند ہو جاتی ہیں محبت میں آنکھ کھل جاتی ہے۔
۔۔۔۔
"سچائی"
سچائی خوشبو کی طرح ہے کبھی نہ کبھی اس کی مہک کہیں نہ کہیں ضرور اپنا اثر چھوڑتی ہے۔
خوشبو اپنا راستہ خود بناتی ہے یہ صرف وقت کی طاقت ہے جو راستہ دیتا بھی ہے اور راستہ روکتا بھی ہے۔
خوشو کوئی بھی ہو چرائی نہیں جاسکتی خود ہی ہرطرف پھیل جاتی ہے۔اب جس کا جتنا ظرف ہے وہ اسی طوراس سے فیض یاب ہوتا ہے۔جس کا جو حصہ ہے وہ اسے مل کر ہی رہتا ہے چاہے رسائی کی لذت ہو یا نارسائی کا کرب۔
۔۔۔۔
"عورت مرد"
٭عورت زمین ہے،مٹی ہے،کھیتی ہے،کان(مائن)ہے،لباس ہے،ڈونر ہے۔۔۔کچھ نہ کچھ دیتی ہے۔مرد کھدائی کرتا ہے،محنت کرتا ہے،تن ڈھانپتا ہے،جسم وجاں کی توانائی پاتا ہے۔۔۔ہمیشہ کچھ نہ کچھ حاصل کرتا ہے چاہے وہ نہ بھی ہو جس کی خواہش کی لیکن جو بھی ملے اپنی مزدوری کا حاصل جان کر سنبھالنے کی سعی کرتا ہے۔
٭جو عورت یا مرد صرف جسمانی تقاضوں کے ساتھ جیتے ہیں وہ زیادہ خوش رہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔
 ٭انسان جتنا تنہا ہوتا ہے اتنی ہی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔۔۔اپنے کردار کے متعلق ۔۔۔ صرف خود کو مطمئن کرنےکے لیے۔
۔۔۔۔
 ٭ راضی با رضا رہنے کا اعجازکنواں خود چل کر پیاسے کے پاس آ جائے۔۔۔ کنواں کون اور پیاسا کون۔۔۔ اس راز کی کھوج پیاسے کو سیراب ہو کر بھی تشنہ رکھتی ہے۔

,۔۔۔۔
٭دیوانگی منزل تک پہنچا تو دیتی ہے لیکن منزل کا شعور صرف عقل ہی فراہم کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔
٭فطرت کو بدلا  نہیں جا سکتا لیکن سمجھا  تو جاسکتا ہے۔فطرت کو عزت دی جا سکتی ہے اور ہم عزت دینا نہیں جانتے یہی اصل المیہ ہے۔
۔۔۔۔
دنیا میں بےغرض کچھ نہیں کہیں بھی نہیں،یہ بہت اہم بات ہے لیکن ہم کبھی نہیں سمجھتے اور نہ مانتے ہیں۔
۔۔۔۔۔
ہم زندگی کے آئی سی یو میں اُکھڑتی سانس لیتے پل دوپل کے مہمان ہیں ۔ایسے میں سکون کی آکسیجن مل جائے تو جی اُٹھتے ہیں سانسوں کی روانی کچھ بہتر ہو جاتی ہے،اُس کا خمارایک عادت بن کر پورے وجود پر چھا جاتا ہے۔ لیکن آکسیجن کبھی قید نہیں ہوسکی، یہ بےکراں،لامحدود تو ہے ہرایک کے لیے لیکن اس کی اہمیت اورخاصیت سے ہم میں سے اکثرلاعلم ہی رہتے ہیں
۔۔۔۔۔
پریشان انسان جب ہو جب مسئلے کا حل ہو اور پھربھی مسئلہ حل نہ ہو رہا ہو۔جن مسئلوں کے حل وقت کے سوا کسی کے پاس نہ ہوں انہیں وقت پر ہی چھوڑ دینا چاہیے۔
۔۔۔۔
زندگی میں ہم ہر ایک ماؤنٹ ایورسٹ سر نہیں کر سکتے کہیں نہ کہیں سے تو واپس آنا پڑتا ہے؎ بجائے اس کے کہ واپس کر دیا جائے خود ہی اپنی اہلیت کو پہچان کر پلٹا جائے۔
۔۔۔۔۔
ہمیں جس کی تلاش ہو وہ مل جائے لیکن کیا ہم بھی اس کی تلاش ہیں یا نہیں ؟۔۔۔یہ بہت اہم سوال ہے۔
۔۔۔۔
 ہر احساس کے لیے سب سے بنیادی چیز وقت ہے۔۔۔مکمل وقت۔
۔۔۔۔
ضروری نہیں جس سے ذہن مل جائے وہ ہمارے جسم کی طلب بھی پوری کر سکتا ہو۔
۔۔۔۔
یہ صرف ساتھ کا کمال ہوتا ہے کہ وہ کسی لمس کو بار آور کر دے یا بانجھ رہنے دے۔
۔۔۔۔
 ۔::جتنا مل جائے اسے قبول کر لینا چاہیے شاید یہ بھی ہماری اوقات سے زیادہ ہو ہم رب کے گناہ گار بندے ہیں اس کا فضل سب عیب چھپا لیتا ہے۔
۔۔۔۔
محبوب راستہ دیتا ہے راستہ روکتا نہیں۔۔۔ سہارا دیتا ہے دربدر نہیں کرتا۔ ::

۔۔۔۔
حرام کی کمائی حرام کھانے والوں کو ہی راس آتی ہے۔ ::
۔۔۔۔
سب کیا دھرا مٹی ہوجاتا ہے۔۔۔کبھی مٹی میں مل کر ۔۔۔کبھی مٹی کا مادھو بن کر۔ ::
۔۔۔۔
ہم جانتے بہت کچھ ہیں لیکن یقین نہیں کرتے۔اسی لیے خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں۔ ::
۔۔۔۔
 ہم ساری عمر سونا جان کر پتھر جمع کرتے ہیں۔ ضرورت پڑے تو پتہ چلتا ہےکھوٹ ہی کھوٹ۔ ::
۔۔۔۔

٭محبت نہ ملے تو انسان ٹوٹ جاتا ہےاور پسند نہ ملے تو دل ٹوٹ جاتا ہے۔
۔۔۔۔
٭کبھی محبت کی گہرائی کا اندازہ نہ ہونا ہی ڈوبنے سے بچا لیتا ہے۔
۔۔۔۔
٭ کچھ قیمتی چیزیں ہم کبھی نہیں خرید سکتے اور کچھ قیمتی چیزیں ہمیں بن مانگے مل جاتی ہیں۔جو قیمتی چیزیں بن مانگے مل جائیں بدقسمتی سے ہم انهیں" قیمتی"کے زمرے میں رکهتےہی نہیں۔
۔۔۔۔
٭ چراغ روشنی کے لیے ہے لیکن جو چراغ اپنے گھر کی تاریکی نہ دور کر سکے وہ چاہےجگ کو منور کرے لیکن تاسف اور ناقدری کا گرہن ہمیشہ اس کے ساتھ لگا رہتا ہے۔
۔۔۔۔

 ٭آزادی اپنی حد پہچانتے ہوئے اُس کے اندر پروازکرنےکا نام ہے۔
۔۔۔
ہمیں صرف یہ دیکھنا ہے کہ کیا کہا جا رہا ہے۔اس بات سے قطع ِنظر کہ کون کہہ رہا ہے۔اتنی سی بات  اگر سمجھ آ جائےتو  ہر  طرف راستے ہی راستے ہیں اور نہ ماننا چاہیں تو اپنی ذات کے سِوا کچھ دِکھائی نہ دے گا۔ 

3 تبصرے:

  1. جسم ایک حقیقت ہے جب تک جسم کو نہ جانیں روح تک رسائی ممکن نہیں۔
    خوبصورت

    جواب دیںحذف کریں
  2. آزادی اپنی حد پہچانتے ہوئے اُس کے اندر پروازکرنےکا نام ہے۔

    بہت خوب :)

    جواب دیںحذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...