کہا جاتا ہے کہ اُستاد سبق دے کر امتحان لیتا ہے اور زندگی امتحان لے کر سبق دیتی ہے لیکن کچھ لوگ زندگی کی طرح ہوتے ہیں جو صبح کی پہلی کرن کی طرح ہماری ذات کے اُفق پر طلوع ہوتے ہیں۔نگاہ اُن کی چکاچوند کے سامنے ہار مان لیتی ہے۔۔۔وجود اُن کی روشنی میں جگمگا اُٹھتا ہے۔۔۔قدم اُن کے ہم قدم ہونے کو مچل جاتے ہیں۔۔۔دل دماغ برسوں کی کمائی اُن کے چرنوں میں نچھاور کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
چاہنا اور چاہے جانے کا احساس ایک نشے کی طرح یوں اپنی گرفت میں لیتا ہے کہ آنکھ اس لذت کے خمار میں بند ہوجاتی ہے۔اگلے ہی پل جب کھلتی ہے تو مایوسی۔۔۔محرومی یا جدائی کا تصور سوہانِ روح لگتا ہے۔۔۔محبت کا نشہ جاتے جاتے انسان کو توڑ کر رکھ دیتا ہے۔انسان کی حقیقت محبت اور آزمائش میں کھل کر سامنے آتی ہے۔
محبت کا سفر جہاں سے ختم ہوتا ہےآزمائش کا وہی نقطہءآغاز ہے۔آزمائش کی گھڑی میں سر پر پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے،ہمت،صبراور برداشت کے اسباق ریت پر لکھی تحریر سے زیادہ نہیں دکھتے۔بس ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہےعشق وجنوں کےدرمیان۔۔۔بلندی پستی کے بیچ۔اس پلِ صراط سے بخیروعافیت گُزر جانا ابدی کامیابی کا ضامن ہے۔یہی وقت انسان کی ساری زندگی کا حاصل ہے تواُس کی عمربھر کی کمائی مٹھی میں بند ریت کی طرح پھسلتی جاتی ہے،اس سمے ہتھیلی پرآگہی کی ریت کا ایک ننھا سا ذرہ بھی باقی رہ جائے تو انسان دوبارہ قدم جمانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔نگاہ کا زاویہ بدلنے سے غیرمحسوس انداز میں طوفانوں کے رُخ بھی بدلنے لگتے ہیں۔اپنے وجود۔۔۔ اپنے شرف کا احساس حوصلہ عطا کرتا ہے۔۔۔آنے والی ہر آزمائش کے سامنے ثابت قدم رکھتا ہے۔اپنے رب کی حکمت کے راز کھولتی سکون کی یہ کیفیت بڑی سے بڑی لذت سے بڑھ کر ہے۔یہی وہ امتحان ہے جس کے نصاب میں پاس ہونا نہ صرف لینے والے بلکہ دینے والے کے لیے بھی ساری عمر کی تپسیا کا حاصل ہے۔ اور یہ امتحان نہیں انعام ہےان کے لیے جو بہت خاص ہوں۔ کہ رب کائنات کسی پر اس کی استطاعت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا
!حرفِ آخر
محبت ہو یا آزمائش صرف اُن کا مقدر ہے جو اس کے اہل ہوں۔۔۔ لیکن!!! ان میں سے بھی بہت خاص وہ ہوتے ہیں جو اپنی محبت کو آزمائش جانیں اور آزمائش کی گھڑیوں میں اپنے خالق کی محبت ورحمت کو یاد رکھیں۔
محبت اور آزمائش کی حقیقت ہم نہیں جان سکتے۔۔۔کیا خبر کہ جسے محبت سمجھ رہے ہوں وہ آزمائش ہو اور جو آزمائش دکھتی ہے وہ قربت کی راہ پر پہلا قدم ہو۔
چاہنا اور چاہے جانے کا احساس ایک نشے کی طرح یوں اپنی گرفت میں لیتا ہے کہ آنکھ اس لذت کے خمار میں بند ہوجاتی ہے۔اگلے ہی پل جب کھلتی ہے تو مایوسی۔۔۔محرومی یا جدائی کا تصور سوہانِ روح لگتا ہے۔۔۔محبت کا نشہ جاتے جاتے انسان کو توڑ کر رکھ دیتا ہے۔انسان کی حقیقت محبت اور آزمائش میں کھل کر سامنے آتی ہے۔
محبت کا سفر جہاں سے ختم ہوتا ہےآزمائش کا وہی نقطہءآغاز ہے۔آزمائش کی گھڑی میں سر پر پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے،ہمت،صبراور برداشت کے اسباق ریت پر لکھی تحریر سے زیادہ نہیں دکھتے۔بس ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہےعشق وجنوں کےدرمیان۔۔۔بلندی پستی کے بیچ۔اس پلِ صراط سے بخیروعافیت گُزر جانا ابدی کامیابی کا ضامن ہے۔یہی وقت انسان کی ساری زندگی کا حاصل ہے تواُس کی عمربھر کی کمائی مٹھی میں بند ریت کی طرح پھسلتی جاتی ہے،اس سمے ہتھیلی پرآگہی کی ریت کا ایک ننھا سا ذرہ بھی باقی رہ جائے تو انسان دوبارہ قدم جمانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔نگاہ کا زاویہ بدلنے سے غیرمحسوس انداز میں طوفانوں کے رُخ بھی بدلنے لگتے ہیں۔اپنے وجود۔۔۔ اپنے شرف کا احساس حوصلہ عطا کرتا ہے۔۔۔آنے والی ہر آزمائش کے سامنے ثابت قدم رکھتا ہے۔اپنے رب کی حکمت کے راز کھولتی سکون کی یہ کیفیت بڑی سے بڑی لذت سے بڑھ کر ہے۔یہی وہ امتحان ہے جس کے نصاب میں پاس ہونا نہ صرف لینے والے بلکہ دینے والے کے لیے بھی ساری عمر کی تپسیا کا حاصل ہے۔ اور یہ امتحان نہیں انعام ہےان کے لیے جو بہت خاص ہوں۔ کہ رب کائنات کسی پر اس کی استطاعت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا
!حرفِ آخر
محبت ہو یا آزمائش صرف اُن کا مقدر ہے جو اس کے اہل ہوں۔۔۔ لیکن!!! ان میں سے بھی بہت خاص وہ ہوتے ہیں جو اپنی محبت کو آزمائش جانیں اور آزمائش کی گھڑیوں میں اپنے خالق کی محبت ورحمت کو یاد رکھیں۔
محبت اور آزمائش کی حقیقت ہم نہیں جان سکتے۔۔۔کیا خبر کہ جسے محبت سمجھ رہے ہوں وہ آزمائش ہو اور جو آزمائش دکھتی ہے وہ قربت کی راہ پر پہلا قدم ہو۔
بہت خوب!
جواب دیںحذف کریںمحبت اور آزمائش کی حقیقت ہم نہیں جان سکتے۔۔۔کیا خبر کہ جسے محبت سمجھ رہے ہوں وہ آزمائش ہو اور جو آزمائش دکھتی ہے وہ قربت کی راہ پر پہلا قدم ہو۔