ہفتہ, نومبر 12, 2016

"ابنِ انشاء کی بزمِ انشاء "

"احوالِ محفل"
  اس سال 2016 میں ستمبر سے اکتوبر کے دوران  فیس  بک  کے ادبی گروپ" بزم یارانِ اُردو ادب "میں جناب ابنِ انشاء کو بطور مزاح نگار  خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے"بزم انشاء"سجائی گئی۔
وہ ابنِ انشاء جن کا نام ذہن میں آتے ہی شہرِدل میں"چاند نگر" کی چاندنی اُترتی ہے تو احساس"دلِ وحشی" کی طرح کچی اور پکی عمر کا تفاوت بھول کر"اس بستی کے اِک کوچےمیں"رقص کرنے کو مچلتا ہے۔وہ جو کہتے ہیں نا کہ پہلی نظر اور پہلا احساس رگِ جاں میں یوں رچ بس جاتا ہے کہ بعد میں ہزار کوشش کر لیں وہ کبھی اپنی جگہ نہیں چھوڑتا۔ سو ابنِ انشاء کے لفظ کی خوشبو سے ربط ان برسوں کی کہانی ہے جسے کچی عمر کہا جاتا ہے لیکن!یہ سچ ہے کہ کچی عمر کی بارشیں روح وجسم پر لگنے والے پکے رنگ تاعمر نہیں مٹا پاتیں چاہےوہ محبتوں کی حدت کے ہوں یا نفرتوں کی شدت کے۔
ابنِ انشاء کی شاعری جہاں قاری کوخواب،اداسی اورنغمگی کے چاندنگر میں لے جاتی ہے وہیں اُن کی مزاح نگاری،سفرنامہ نگاری،بچوں کے لیے لکھی نظمیں،کالم اور تراجم ہمیں عجب جہانِ حیرت کی سیرکراتے ہیں۔
محض اکیاون سال (1927.1978)کی عمرِفانی میں وہ پڑھنے والوں کے لیے زندہ ادب تخلیق کر گئے۔ابنِ انشاء کی ہمہ گیر شخصیت کی طرح اُن کی تحاریر کی بھی کئی جہت ہیں۔ شاعری کے نقشِ اول سے شروع ہونے والا سفر سفرناموں،مزاحِ،ذاتی خطوط اور پھر اخباری کالمز کی سمت جا نکلتا ہے۔جناب ابنِ  انشاء نے اپنے دردِدل کو اگر "چاندنگر"،"اس بستی کے اِک کوچے میں" اور  "دلَ ِوحشی" کا جامہ پہنایا  تو آنکھ میں اترنے والی نمی کو خوبی سے کیموفلاج کرتے ہوئے  "آپ سے کیا پردہ"(اخباری کالم )،"خمارِگندم" (مضامین) اور"اُردو کی آخری کتاب"(طنزیہ مضامین)  میں معاشرے کی کمیوں  کجیوں کو شستہ طنز ومزاح  کے قالب میں پیش کیا۔ابنِ انشاء کا مزاح ہر دورمیں اسی دور کی کہانی کہتا محسوس ہوتا ہے،اُن کے مزاح اور اس سے بڑھ کر لطیف طنز کی ایک اور خاص بات اُس کی گہرائی اور کم سے کم الفاظ میں کاری وار کرنا ہے۔شاعری اور مزاح نگاری  کے ساتھ ساتھ آپ کے تحریر کردہ  منفردسفرنامے "چلتے ہو تو چین کو چلیے،دُنیا گول ہے،نگری نگری پھرا مسافر، آوارہ گرد کی ڈائری اورابنِ بطوطہ کے تعاقب میں" پڑھنے والوں کو نئی دنیاؤں کی سیر کراتے ہیں تو  دوستوں اور احباب کو لکھے گئےخطوط "خط انشاء جی کے" خوبصورت نثرنگاری اورنامور ادیبوں کے ساتھ خاص ربط کی کہانی کہتے ہیں۔
محترمہ بانوقدسیہ "راہِ رواں"  میں لکھتی ہیں " وہ مثبت شیشوں کی عینک" لگائے رکھتے تھے"۔۔۔۔ یہ بات سوفیصد درست ہے تو اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ابنِ انشاء کے  قریب رہنے والےعینک کے بغیر  دیکھتے تو ایک اُداس، دل گرفتہ  اورناکام شخص دکھائی دیتے جس کی خانگی زندگی گرپےدرپے ناکامیوں سے عبارت تھی تو ادبی زندگی میں خوب سے خوب تر کی جستجونے چین سے بیٹھنے نہ دیا۔ اور"عشقِِ انشاء" کے کیا کہنے،ناکامیءعشق تو ان کے  کلام میں سوز وگداز  کی بنیاد ٹھہری۔ زندگی کے بچاس برسوں میں ایک بھرپور ادبی زندگی جینے والے اپنے عزیز دوست سے کہا کرتے کہ مجھے کسی نے نہیں پہچانا اور میرے بعد بھی  کون مجھے جانے گا۔۔۔
"بزم ِانشاء میں طرزِانشاء"۔۔۔
اپنے محبوب شاعر اور منفرد مزاح نگار کی یاد نگاری کرتے ہوئے بزم کے ساتھیوں کو"طرزِانشاء"میں طنزیہ یا مزاحیہ لکھنے کی دعوت دی گئی۔لکھنے والوں نےمعاشرے پر طنز کرتے ہوئے دل کھول کر لکھا  تو  سراہنے والوں نے بھی کُھل کر داد دی ۔
بزم انشاء طرز انشاء سے ہوتے ہوئے بزمِ مزاح نگاری" تک جا پہنچی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے رنگ سچے تھے کہ یہ ان احباب کی نوکِ قلم بلکہ کی پیڈ پر تھرکتی انگلیوں کی جُنبش سے وجود میں آئے تھے جو نہ تو مستند لکھاری ہونے کے دعوےدار تھے اور نہ ہی کسی غرض کے تحت اپنا احساس لکھتے تھے۔ وہ ایک پلیٹ فارم پر لکھاری ہونے کی عزت محسوس کرتے ہوئے معاشرتی رویوں کے گرداب اور سیاست کے حمام کی غلاظتوں کے بارے میں بلاجھجکے لکھتے چلے گئے۔ بس ایک ذرا سی کسک یہ رہی کہ جب ابنِ انشاء کی  مزاحیہ تحاریر یا طرزِتحریر کا حوالہ تھا تو جو بات انشاء جی نے سو سے بھی کم الفاظ میں کہی اسے کہنے میں یارانِ ادب نے "ہزار"الفاظ خرچ کر ڈالے۔بزم انشاء کے حوالے سے جہاں نہ صرف ابنِ انشاء کی تحاریر بلکہ ابنِ انشاء کے بارے میں  کئی خوبصورت  تحاریر پڑھنے کو ملیں وہیں  بہت سے لکھنے والوں کے لفظ سے شناسائی ہوئی اور  اردو زبان وادب کی محبت نے اپنا رنگ خوب جمایا۔
بزمِ انشاء میں ہم ایسے کچھ بےنام مبصر بھی تھے جو نامِِ انشاء کی کشش میں کشاں کشاں چلے آئے تو پہلے مرحلے میں اپنا تعارف اپنے انداز اور اپنے الفاظ میں سپردِقلم  کرنے کی گزارش کی گئی۔۔۔
بزمِ انشاء میں تعارف۔۔۔
"گرملنا چاہیں تو مجھ سے ملیے"
یہ دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ مجھے اپنے تعارف کا مرحلہ درپیش ہے۔تین برس پہلےکی بات ہے کہ اردو بلاگر ہونے کے ناطے ایک سوال نامہ "نورین تبسم سے شناسائی" ارسال کیا گیا جس کے جواب  پڑھنے والوں سے میرا پہلا تعارف ٹھہرے۔
"میں اور میں"
اس شہرِ خرد میں کہاں ملتے ہیں دِوانے
پیدا تو کرو اس سے ملاقات عزیزو
نام:نورین تبسم
سکونت:اسلام آباد
مقام: ماں
اہلیت:اہلیہ
مصروفیات:وہ تمام مصروفیات جو عام عورت کی ساری توانائی نچوڑ لیتی ہیں پھر بھی اسے کہا جاتا ہے کہ اس نے دنیا میں کچھ نہیں کیا۔
میں ایک بہت عام عورت ہوں ویسی ہی جیسے ہم اپنے آس پاس چلتے پھرتے دیکھتے ہیں۔میرا نہ کوئی ادبی پس منظر، کوئی ادبی حوالہ اور نہ ہی ادب کے حوالے سے "ڈگری" ہے،میں مستند لکھاری بھی نہیں۔ بس اپنی سوچ کو لفظ کا لباس پہنانے کی سعی کرتی ہوں۔جب سےانٹرنیٹ پر بلاگ کی جدید "سلائی مشین تک رسائی ہوئی تو تراش خراش پر ذرا سی توجہ ہے ورنہ بچوں کی استعمال شدہ کاپیوں کے دستیاب خالی صفحوں سے لے کر ان کے امتحانی پرچوں کے پچھلے سادہ اوراق سے "آمد" کی بےخودی میں لفظ کے" گڑیا پٹولے" کاٹنے اور "چُھپانے" کا سفر شروع ہوا۔ سامنے صرف اور صرف میری اپنی ذات تھی اور اب بھی ہے،کیوں نہ ہو۔۔۔پہلے ہم اپنے تن ڈھانپنے کا سامان تو کر لیں پھر کسی اور جانب نگاہ کریں۔
ہاں!!!عام کہنا لکھنا کسرِنفسی ہرگز نہیں کسی کاعام یا خاص دِکھنا صرف ہماری نگاہ کا ہیرپھیر ہے۔کبھی ہمارے ساتھ،ہمارے پاس اور ہمارے سامنے رہنے والے بھی ہمیں جان نہیں پاتے،سرسری گذر جاتے ہیں تو کبھی کہیں کوئی پل دو پل کو ملتے ہیں اور ان کہی بھی سن لیتے ہیں۔
اظہارِ ممنونیت۔۔۔
بزمِ انشاء کے میزبان جناب خرم بقا  نے  اس بزم میں "مہمانِ اعزازی" کی جگہ دی اور مجھ سے  میرا  ہلکا پھلکا تعارف بھی  لکھنے کو کہا  گیا اور میں جانے کیا کیا لکھتی چلی گی۔اورجو خرم بقا لکھتے ہیں!!!بس کیا بتائیں کیا نہ بتائیں کہ پڑھتے ہوئے کانوں سے دھواں نکلنے لگتا ہے اور انسان گھبرا کر آس پاس دیکھنے لگتا ہے کہ کسی کو دکھائی تو نہیں دے رہا۔ان سے شکوہ کرو تو کہتے ہیں "بہت ملفوف لکھتا ہوں ۔۔۔۔۔۔مزاح میں ایسا کرنا پڑتا ہے"۔ پھر پوچھتے ہیں یوسفی (مشتاق احمدیوسفی) کو آپ نے مکمل پڑھا ہے؟ اگر پڑھتیں تو مجھ سے یہ شکایت نہ کرتیں۔ شفیق الرحمٰن کی بات کرو تو کہتے ہیں،شفیق الرحمان کا مزاح یوسفی کے مقابلے  میں "نرسری رائم" ہے۔
"اب کیا کیا جائے کچھ لوگ پکی عمر میں بھی کچے ہی رہتے ہیں اور یا پھر کندذہن کہ نرسری رائم پر ہی ان کی سوئی اٹک جاتی ہے"
 ابنِ انشاء کی نظم سے اختتام کرتی ہوں
"کچھ رنگ ہیں "( دلِ وحشی ۔۔۔ابنِ انشاء)
کچھ لوگ کہ اودے ،نیلے پیلے ، کالے ہیں
دھرتی پہ دھنک کے رنگ بکھیرنے والے ہیں
کچھ رنگ چرا کے لائیں گے یہ بادل سے
کچھ چوڑیوں سے کچھ مہندی سے کچھ کاجل سے
کچھ رنگ بسنت کے رنگ ہیں رنگ پتنگوں کے
کچھ رنگ ہیں جو سردار ہیں سارے رنگوں میں
کچھ یورپ سے کچھ پچھم سے کچھ دکھن سے
کچھ اتر کے اس اونچے کوہ کے دامن سے
اک گہرا رنگ ہے اکھڑ مست جوانی کا
اک ہلکا رنگ ہے بچپن کی نادانی کا
کچھ رنگ ہیں جیسے پھول کھلے ہوں پھاگن کے
کچھ رنگ ہیں جیسے جھپنٹے بھادوں ساوں کے
اک رنگ ہے برکھا رت میں کھلتے سیئسو کا
اک رنگ ہے بر ہات میں ٹپکے آنسو کا
یہ رنگ ملاپ کے رنگ یہ رنگ جدائی کے
کچھ رنگ ہیں ان میں وحشت کے تنہائی کے
ان خون جگر کا رنگ ہے گلگوں پیارا بھی
اک وہی رنگ ہمارا بھی ہے تمہارا بھی
۔۔۔۔۔۔
ابنِ انشاء کی شاعری کے حوالے سے میرے احساس کے رنگوں کی جھلکیاں
  بلاگز "پھروہی دشت"اور"کیوں نام ہم اُس کا بتلائیں" میں ملتی ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...