بدھ, مارچ 20, 2013

" محبت اور پہچان "

 محبت اور پہچان "
محبت اصل میں کیا ہے ؟ محبت اکائی ہے۔۔۔ توحید ہے تو ہم ایک کے ہو کر بھی بے قرار کیوں رہتے ہیں ؟ محبوب سامنے ہے تو پھر کس کی تلاش؟ کیا یہ ہمارے اندر کا کھوٹ ہے جس پر ظاہری لبادے ہمیں اپنی ہی نگاہوں سے اوجھل کیے جا رہے ہیں- یہ سب ایک حد تک درست ہے پرایسا کچھ بھی نہیں ہے-
محبت سب سے پہلے اپنی پہچان کا نام ہے۔۔۔ اپنے محبوب کی پہچان کا علم ہے۔۔۔ محبوب کو جان جاؤ تو ملنے والی ہرمحبت میں اُس کی جھلک ملتی ہے- ہرمحبت اُس سے قریب کر دیتی ہے- محبوب وہی ہے جو حقیقت میں خواب وخیال سے دُور ہوتا ہے۔۔۔ پرخواب وخیال کی دُنیا میں اُس سے بڑی حقیقت اورکوئی نہیں۔۔۔جس رنگ میں چاہو محسوس کر لو جو سوچو کہہ دو اور یہ سرشاری اُس کی دُوری کی کسک پر حاوی ہو جاتی ہے-
ہماری محبتیں گلاب کے پھول کی مانند ہوتی ہیں جو ہمارے آنگن سے باہر کہیں مہکتا ہے۔اور یہی بنیادی وجہ اُس سے دوری کےاحساس کی بھی ہے-
دل کے رشتے دل میں ہی رہ جاتے ہیں ۔۔۔دل کی ڈال میں دل سے لگے۔ جن کو بغاوت کر کے کسی طرح باہر لانے کی کوشش کی جائے تو مرجھانے لگتے ہیں۔شاخ سے ٹوٹا پھول کہاں تک وقت کی گردش کا مقابلہ کر سکتا ہے۔اُس کی نرمی۔۔۔اُس کا لمس صرف وہی محسوس کرتا ہے جس کے مقدر میں اترے۔زمانے کی آنکھ کی دسترس سے دور اُن کی اپنی دُنیا ہے۔ ہاں! اُن کی خوشبو ضرور دل سے نکل کر پورے بدن کو گل وگلزار بنا دیتی ہے۔انسان کو اپنے اس اعزاز کا ادراک ہو جائے تو اس کے اندر ایک نئی روح بیدار ہوتی ہے۔۔۔ایسی توانائی اورعزم عطا کرتی ہے کہ جو ناممکن کو ممکنات میں تبدیل کر دیتی ہے۔۔۔ لینے کی فکر سے بےنیاز کر کے محبت کی خوشبو داتا بناتی ہے۔۔۔ تو کہیں اُس کی تخلیقی صلاحیتوں کو مہمیز کرتی ہے۔۔۔کرب اور نارسائی کے دکھ میں لپٹی یہ ان چھوئی مہک  رنگوں اور لکیروں کی زبان میں کینوس پر اُترتی ہے۔۔۔تو کہیں سُروں کی لَےلفظوں کی موسیقیت میں ڈھل کر حال ِدل بیان کرتی ہے اور یوں  دیکھنے اور سُننے والے سر دُھنتے ہیں۔یہ احساس تخیّل کی بُلندیوں کو چھو جائے تو دُنیائے ادب کے شاہکار سامنے آتے ہیں۔جسم وجاں میں آکسیجن بن کر دوڑ جائے تو شوق ِ سفر کو مہمیز کرتا ہے اورانسان تلاشِ دوست میں ہمالیہ سر کر لیتا ہے- کبھی نارسائی کا کرب دردر بھٹکاتا ہے تو وہ ٹھوکریں کھاتا اپنے آپ کو فریب دیتا اللہ کے راستے پر چل پڑتا ہے - کبھی ایک خوابِ پریشاں جان کر ساری زندگی نظریں چُراتا ہے۔
بات صرف "اُس کی پہچان کی ہے اپنی پہچان کی ہے"اگر یہ خوشبو اصلی گلاب کی ہو تو اُس کی مہک اُس کی تازگی کبھی ساتھ نہیں چھوڑتی۔۔۔وہ بگڑے کام سنوارتی جاتی ہے۔۔۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ ہم اُس خوشبو کو قید کرنے کے تمنائی ہوتے ہیں۔اسی لیے ناآسودگی کی تپش میں جلتے ہیں - جان کر بھی نہیں جانتے کہ خوشبو کبھی گرفت میں نہیں آسکی - وہ پھول کی آغوش میں قرار پاتی ہے- پھول اگر گرفت میں آبھی جائے تو اپنی مہک کھو دیتا ہے کہ اُس کی نمو مٹی میں ہےاور خوشبو تو سانجھی ہوتی ہے - یہ پارس کی طرح ہے جو چھونے والے کو سونا بنا دیتا ہے پر اپنی شناخت پر حرف نہیں آنے دیتا ۔
"محبت کی خوشبو جہاں جس رنگ میں ملے اپنی ذات کے یقین کے ساتھ اُس کو محسوس کرنے میں دیر نہ کرو کہ وہ تمہاری طلب ہے اور تم اُس کی پہچان ہو۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...