زندگی کتاب ہر لمحہ نئے سبق دیتی ہے،جتنا بڑا کام ہو گا اُتنا ہی بڑا سبق ملے گا۔ ہم پچھلے اسباق سے صرفِ نظر کرتے ہوئے آنے والے اسباق کے اشتیاق میں بس ورق پلٹتے جاتے ہیں اور سمجھ کچھ نہیں آتا۔ ہر لمحہ ملنے والے اسباقِ زندگی سمندروں کی طرح لامحدود وسعت رکھتے ہیں۔۔۔ظاہری آنکھ سے دیکھنے میں شیریں اور برتنے میں کھارے۔زندگی کے سبق کبھی زندگی گزار کر سمجھ آتے ہیں تو کبھی زندگی پڑھ کر۔
سبق ملنا اور بات ہے سمجھ میں آنا اور بات۔جو سبق امتحان میں نہیں آئے گا اُسے سمجھنے میں وقت ضائع نہ کرو۔جو سبق جس وقت مل جائے،جس وقت سمجھ آجائے، اُسی وقت کو غنیمت جانو۔
کچھ طالبِ علم سبق اچھی طرح یاد کرنے کے لیے اُسے بار بارلکھتے ہیں اور کچھ ایک بار لکھتے ہیں اوربار بارپڑھتے ہیں۔یہ پرچے کی تیاری کے بنیادی اُصول ہیں- امتحان کب سے جاری ہے۔ پرچہ کسی وقت بھی واپس لیا جاسکتا ہے۔اس لیے جتنا جلد سمجھ کر بےشک چند لفظ ہی لکھ دیئے جائیں کافی ہے۔ یہ کاتبِ تقدیر کا کام ہے کہ وہ ہمارے تھوڑےلکھے کو بہت جانے ورنہ صفحے کے صفحے کالے کر دیئے جائیں تو پھر بھی پاس ہونے کی کوئی گارنٹی نہیں۔
ہمیں اپنے پرچے کو صرف ممتحن کے سامنے ہی پیش کرنا چاہیے کہ یہ راز ونیاز کی باتیں ہیں۔۔۔ اپنی کم مائیگی ،کم علمی کا اعتراف ہے۔ لیکن کیا کیا جائے۔۔۔ یہ بھی ایک اہم سبق ہے کہ جس گھاٹی سے گزریں اُس کے پیچ وخم سے پیچھے آنے والوں کو آگاہ کیا جائے کہ ہم بھی تو کسی جانے والے سے رہنمائی لے رہے ہیں۔ کسی کی نیکی کسی کے تجرباتِ زندگی ایک قرض ہوتے ہیں۔اگر ہمارا وقت ہماری سوچ اجازت دے تو لوٹانا ایک فرض بن جاتا ہے۔ یہ فرض اگر خلوصِ نیّت سے ادا کیا جائے تو اللہ اس کام میں برکت ڈال دیتا ہے۔ اورپھر جلوے ہی جلوے۔۔۔وقت ہی وقت۔
یوں بھی وقت تو ہمیشہ سے ہے لیکن ہم خود ہی گُزر جاتے ہیں۔ اورساری زندگی یہی رونا رہتا ہے کہ ہمیں وقت ہی نہیں ملا۔۔۔ہمارا وقت گزر گیا۔۔۔ہم جو چاہتے تھے وہ کر نہ سکے۔۔۔جو چاہت تھی وہ تشنہ رہ گئی۔۔۔اپنی پیاس بُجھا نہ سکے تو کس طور کسی اور کو سیراب کرتے۔۔۔- ہم تو خود اپنی ذات کی تکمیل کے لیے دردر بھٹکتے رہے ہم کس طرح دوسرے کو مکمل کرتے۔۔۔ہمیں تو کسی نے سہارا نہ دیا ہم کیوں کر کسی کی لاٹھی بنتے۔ ہمیں صرف اُس وقت سے ڈرنا چاہیے جب ہمارے سامنے ہماری کہانی رکھی جائے گی اور ساری وضاحتیں رد کر دی جائیں گی پھر ہمارے پاس کسی سوال کا کوئی جواب نہ ہو گا۔
۔"اللہ اُس وقت سے بچائے"- اس لیے دُنیا میں ہراُس سوال کا جواب یاد کر لو جس کا آگے سامنا ہو گا۔ سبق لکھنا،پڑھنا اور یاد کرنا بہت آسان ہےقابلیت صرف اُس کو سمجھنے اورعمل کرنے میں ہے۔ وقت کا سبق وقت پر سمجھ آجائے تو پرچہ حل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔سبق سمجھ آ جائے تو بتاتے ہوئے ڈر اس بات کا ہوتا ہے کہ پھر جلد امتحان دینا پڑتا ہے۔۔۔۔امتحان جتنا جلد ہو جائے اچھا ہے کہ تیاری تو آخری سانس تک مکمل نہیں ہو پاتی۔
حرفِ آخر
زندگی کہانی چند لفظوں میں کہہ بھی دی جائے لیکن چند لفظوں میں سمجھائی نہیں جا سکتی ۔ زندگی سمجھنے سے زیادہ برتنے کی چیز ہے۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کتابِ زندگی سمجھنے میں ساری عمر گذار دیتے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ زندگی آخری صفحے کے آخری حرف سے پہلے سمجھ آ ہی نہیں سکتی۔ زندگی کی پہچان جس لمحے آنکھ میں اُترتی ہے تو انسان ایک کائنات چھوڑ کر دوسری کائنات کے سفر پر روانہ ہونے کو ہوتا ہے۔
سبق ملنا اور بات ہے سمجھ میں آنا اور بات۔جو سبق امتحان میں نہیں آئے گا اُسے سمجھنے میں وقت ضائع نہ کرو۔جو سبق جس وقت مل جائے،جس وقت سمجھ آجائے، اُسی وقت کو غنیمت جانو۔
کچھ طالبِ علم سبق اچھی طرح یاد کرنے کے لیے اُسے بار بارلکھتے ہیں اور کچھ ایک بار لکھتے ہیں اوربار بارپڑھتے ہیں۔یہ پرچے کی تیاری کے بنیادی اُصول ہیں- امتحان کب سے جاری ہے۔ پرچہ کسی وقت بھی واپس لیا جاسکتا ہے۔اس لیے جتنا جلد سمجھ کر بےشک چند لفظ ہی لکھ دیئے جائیں کافی ہے۔ یہ کاتبِ تقدیر کا کام ہے کہ وہ ہمارے تھوڑےلکھے کو بہت جانے ورنہ صفحے کے صفحے کالے کر دیئے جائیں تو پھر بھی پاس ہونے کی کوئی گارنٹی نہیں۔
ہمیں اپنے پرچے کو صرف ممتحن کے سامنے ہی پیش کرنا چاہیے کہ یہ راز ونیاز کی باتیں ہیں۔۔۔ اپنی کم مائیگی ،کم علمی کا اعتراف ہے۔ لیکن کیا کیا جائے۔۔۔ یہ بھی ایک اہم سبق ہے کہ جس گھاٹی سے گزریں اُس کے پیچ وخم سے پیچھے آنے والوں کو آگاہ کیا جائے کہ ہم بھی تو کسی جانے والے سے رہنمائی لے رہے ہیں۔ کسی کی نیکی کسی کے تجرباتِ زندگی ایک قرض ہوتے ہیں۔اگر ہمارا وقت ہماری سوچ اجازت دے تو لوٹانا ایک فرض بن جاتا ہے۔ یہ فرض اگر خلوصِ نیّت سے ادا کیا جائے تو اللہ اس کام میں برکت ڈال دیتا ہے۔ اورپھر جلوے ہی جلوے۔۔۔وقت ہی وقت۔
یوں بھی وقت تو ہمیشہ سے ہے لیکن ہم خود ہی گُزر جاتے ہیں۔ اورساری زندگی یہی رونا رہتا ہے کہ ہمیں وقت ہی نہیں ملا۔۔۔ہمارا وقت گزر گیا۔۔۔ہم جو چاہتے تھے وہ کر نہ سکے۔۔۔جو چاہت تھی وہ تشنہ رہ گئی۔۔۔اپنی پیاس بُجھا نہ سکے تو کس طور کسی اور کو سیراب کرتے۔۔۔- ہم تو خود اپنی ذات کی تکمیل کے لیے دردر بھٹکتے رہے ہم کس طرح دوسرے کو مکمل کرتے۔۔۔ہمیں تو کسی نے سہارا نہ دیا ہم کیوں کر کسی کی لاٹھی بنتے۔ ہمیں صرف اُس وقت سے ڈرنا چاہیے جب ہمارے سامنے ہماری کہانی رکھی جائے گی اور ساری وضاحتیں رد کر دی جائیں گی پھر ہمارے پاس کسی سوال کا کوئی جواب نہ ہو گا۔
۔"اللہ اُس وقت سے بچائے"- اس لیے دُنیا میں ہراُس سوال کا جواب یاد کر لو جس کا آگے سامنا ہو گا۔ سبق لکھنا،پڑھنا اور یاد کرنا بہت آسان ہےقابلیت صرف اُس کو سمجھنے اورعمل کرنے میں ہے۔ وقت کا سبق وقت پر سمجھ آجائے تو پرچہ حل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔سبق سمجھ آ جائے تو بتاتے ہوئے ڈر اس بات کا ہوتا ہے کہ پھر جلد امتحان دینا پڑتا ہے۔۔۔۔امتحان جتنا جلد ہو جائے اچھا ہے کہ تیاری تو آخری سانس تک مکمل نہیں ہو پاتی۔
حرفِ آخر
زندگی کہانی چند لفظوں میں کہہ بھی دی جائے لیکن چند لفظوں میں سمجھائی نہیں جا سکتی ۔ زندگی سمجھنے سے زیادہ برتنے کی چیز ہے۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کتابِ زندگی سمجھنے میں ساری عمر گذار دیتے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ زندگی آخری صفحے کے آخری حرف سے پہلے سمجھ آ ہی نہیں سکتی۔ زندگی کی پہچان جس لمحے آنکھ میں اُترتی ہے تو انسان ایک کائنات چھوڑ کر دوسری کائنات کے سفر پر روانہ ہونے کو ہوتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں