"مہارت"
گہرے پانیوں سےگوہرِآبدارحاصل کرنےکے لیے تیراکی میں مہارت لازمی ہے۔ پرزندگی کےسمندرمیں غوطہ زن ہوکرتیرنا ہی اصل مہارت ہے۔اس مہارت کو حاصل کرنےمیں عمربیت جاتی ہے اورہم اپنے آپ میں کبھی اتنی صلاحیت نہیں پیدا کر پاتے کہ آگے بڑھ سکیں۔ ہمارے ساتھی اوراُستاد بھی خود اعتمادی بحال کرنے میں بہت کم معاون ثابت ہوتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی کمی رہ جاتی ہے یوں ہم خواہش اورارادے کے درمیان معلّق رہتے ہیں۔
ہم میں سے بہت لوگ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔زندگی نے جو کچھ اُنہیں دیا ہےواپس لوٹانا چاہتےہیں۔اپنےتجربات دوسروں سے شئیر کرنا چاہتے ہیں۔یہ دُنیا بس ہماری آنکھیں بند ہونے تک ہی ہماری ہے۔اس کے بعد دُنیا ویسے ہی رواں دواں رہتی ہے لیکن ہم کسی اور رستے کے مسافر ہو جاتے ہیں۔ہمارے جانے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا بس ہماری خواہشیں ہمارے ساتھ دفن ہو جاتی ہیں۔اگرہماری کوئی سوچ کوئی خیال کسی کے دل ودماغ میں روشنی کی ایک چمک بن کر اُترجائے یاغوروفکر کا کوئی در وا کردے تو یہی حاصلِ زیست ہے۔
اللہ نے ہر انسان کو احسن التقویم پر پیدا کیا ہے۔۔۔انسان دنیا کا ہرکام کر سکتا ہے شرط صرف مواقع اورماحول ملنے کی ہے۔ اورہم اِسی سے ناخوش ہوکراپنی ذات کے اندرقید ہو جاتے ہیں۔ ہمیں صرف پہلا قدم اُٹھانا ہے اللہ کو اپنے ہرکام میں شریک کرنا ہے۔ یاد رہے اللہ کےساتھ کسی کو شریک نہیں کرنا بلکہ اپنےکاموں میں اللہ کی توجہ کا طلب گارہونا ہے۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ دروازے کُھلتے چلے جاتے ہیں۔۔۔ آنکھ ایک منظرسے سَیرنہیں ہو پاتی نیا منظرسامنے آجاتا ہے۔۔۔اگرکوئی راستہ بند ملتا ہے تو دوسرا دکھائی دے جاتا ہے۔
گہرے پانیوں سےگوہرِآبدارحاصل کرنےکے لیے تیراکی میں مہارت لازمی ہے۔ پرزندگی کےسمندرمیں غوطہ زن ہوکرتیرنا ہی اصل مہارت ہے۔اس مہارت کو حاصل کرنےمیں عمربیت جاتی ہے اورہم اپنے آپ میں کبھی اتنی صلاحیت نہیں پیدا کر پاتے کہ آگے بڑھ سکیں۔ ہمارے ساتھی اوراُستاد بھی خود اعتمادی بحال کرنے میں بہت کم معاون ثابت ہوتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی کمی رہ جاتی ہے یوں ہم خواہش اورارادے کے درمیان معلّق رہتے ہیں۔
ہم میں سے بہت لوگ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔زندگی نے جو کچھ اُنہیں دیا ہےواپس لوٹانا چاہتےہیں۔اپنےتجربات دوسروں سے شئیر کرنا چاہتے ہیں۔یہ دُنیا بس ہماری آنکھیں بند ہونے تک ہی ہماری ہے۔اس کے بعد دُنیا ویسے ہی رواں دواں رہتی ہے لیکن ہم کسی اور رستے کے مسافر ہو جاتے ہیں۔ہمارے جانے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا بس ہماری خواہشیں ہمارے ساتھ دفن ہو جاتی ہیں۔اگرہماری کوئی سوچ کوئی خیال کسی کے دل ودماغ میں روشنی کی ایک چمک بن کر اُترجائے یاغوروفکر کا کوئی در وا کردے تو یہی حاصلِ زیست ہے۔
اللہ نے ہر انسان کو احسن التقویم پر پیدا کیا ہے۔۔۔انسان دنیا کا ہرکام کر سکتا ہے شرط صرف مواقع اورماحول ملنے کی ہے۔ اورہم اِسی سے ناخوش ہوکراپنی ذات کے اندرقید ہو جاتے ہیں۔ ہمیں صرف پہلا قدم اُٹھانا ہے اللہ کو اپنے ہرکام میں شریک کرنا ہے۔ یاد رہے اللہ کےساتھ کسی کو شریک نہیں کرنا بلکہ اپنےکاموں میں اللہ کی توجہ کا طلب گارہونا ہے۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ دروازے کُھلتے چلے جاتے ہیں۔۔۔ آنکھ ایک منظرسے سَیرنہیں ہو پاتی نیا منظرسامنے آجاتا ہے۔۔۔اگرکوئی راستہ بند ملتا ہے تو دوسرا دکھائی دے جاتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں