بدھ, مارچ 13, 2013

"ن والقلم "


سورۂ قلم (68) آیت 1
!ترجمہ
"نً اور قلم کی اور جو (اہل ِقلم) لکھتے ہیں اس کی قسم "
لفظ اچھے لگتے تھے لفظوں سے دوستی ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ دوستی محبت میں بدل گئی، محبت نے اپنی جہت یوں تبدیل کی کہ ایک رشتے میں اپنے آپ کو سمو لیا اورپھر"میں اورتم " اب یہ حال ہے کہ ہر گزرتا پل لفظ میں سما جائے اور ہاتھ قلم بن جائیں- بے شک یہ اللہ کا کرم ہے.سوچ کی چمک انسانوں کے قریب لائی سوچ لفظوں میں ڈھلی تو لفظ کتابوں تک لے گئے اور پھر انسان اور کتاب ایک ہو گئے۔ہرانسان کتاب اورہرکتاب دوست بنتی چلی گئی وقت گزرا تو احساس جاگا کہ انسان کتاب کا عنوان ہے تو کتاب بھی تو انسانوں کی طرف واپسی کا سندیسہ ہے پھر کتاب کےساتھ ساتھ انسانوں کو پڑھنا شروع کیا تومحسوس ہوا ایک زندہ کتاب ہی کسی زندہ کتاب کو بہتر طورپر سمجھ سکتی ہے۔
علم کتاب میں نہیں زندگی میں ہے۔۔۔ کتاب بس علم کی تلاش میں مدد دیتی ہے۔کاغذ کی خوشبو میں لفظ محسوس کرنے والے نہیں جانتے کہ انسان سے زیادہ قیمتی کتاب اور کوئی نہیں۔لیکن اس قیمت کو دینے کی اہلیت بھی ہر کسی کا نصیب نہیں ۔ کبھی تو یہ زندگی کی تپتی دھوپ میں اپنا رنگ وروپ اجاڑتی ۔۔۔کوڑیوں کے مول ۔۔۔پرانی کتابوں کے ڈھیر کے ساتھ ۔۔۔ چھٹی والے روز۔۔۔خاموش ۔۔چپ چاپ ۔۔کسی کونے میں بےجان پڑی ملتی ہے۔۔۔تو کبھی کسی عالیشان گھر کے پیش قیمت کتابوں کے ریک میں سب سے اونچی جگہ دکھتی ہے۔ دل اس کے سرورق کی خوشبو اور رنگ کی رعنائی دیکھ کر چھونے کے لیے عقل کے ہاتھ چھڑا کر ایک ضدی بچے کی طرح بےدھڑک مچلتا ہے۔
اللہ کی پاک کتاب کی طرح انسان کی کھری کتاب بھی صرف اس کی دسترس میں آتی ہے جو احساس کی پاکیزگی سے مہکتا ہے تو غرض اور تعصب کے کھوٹ اور "شک" کی ملاوٹ سے پاک بھی ہونا ہے۔
سچ کی تلاش۔۔۔ اپنے آپ کی تلاش کا محور اور رہنما اگر اللہ کی کتاب ہے تو اس کا سرا زمین سے ملتا ہے۔۔ اپنے آپ سے ملتا ہے۔۔۔ اپنے جیسے انسان سے ملتا ہے۔۔۔اور پھر مور کی طرح اپنے پاؤں کی جانب دیکھ کر افسردہ بھی ہو جاتا ہے۔
لفظ اور کتاب سے دوستی رکھنے والے اس تلخ حقیقت کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ اپنے اظہار کو لفظ کی صورت صرف اپنے پاس ہی محفوظ کیا جاسکتا ہے اور وہ بھی اپنی عمر کے محدود حصار کے اندر۔ ہمارے جانے کے بعد تو سب ردی میں چلا جاتا ہے۔ کتاب کی صورت اپنے لفظ محفوظ کرنے کی خواہش تو ہر لکھاری کے دل میں رہتی ہے۔ لیکن کتاب کی چھپائی کے اخراجات عام آدمی کے بس کی بات نہیں.کسی طرح یہ مرحلہ طے بھی ہو جائے تو کتاب کی پزیرائی بھی ہر کسی کا نصیب نہیں.کتابوں کے بنڈل کتابوں کی دکانوں پر گردآلود ہوتےتو کبھی گھرکے سٹورروم میں ان چھوئے۔۔۔اُسی طرح بندھے رہ جاتے ہیں۔ کسی کے لکھے لفظ پڑھنا اگر ذوق کی علامت ہے تو ایک ایسا شوق بھی ہے جس کی قیمت یا تو جیب سے ادا کرنا پڑتی ہے اور یا پھر وقت سے۔ آج کل کے تیزی سے بدلتے دور میں لفظ تو وہیں موجود ہے لیکن اُنہیں پڑھنے کی اقدار بدل گئی ہیں ۔اب ہمارے پاس اپنے شوق اور ذوق کی تسکین کے لیے نہ جیب میں گنجائش ہے اور نہ ہی وقت اجازت دیتا ہے۔ ضروریاتِ زندگی سے سمجھوتہ کرتے کرتے اوروقت سے بچتے بچاتے اگر اپنے شوق وذوق کے لیے کچھ مہلت حاصل بھی ہو جائے تو وقت کی چوری سے مکمل تسکین پھر بھی نہیں ملتی۔
ہر وہ چیز جو ہمارے راستے میں آئے اس کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہےجو نہ دینے والا جانتا ہے اور نہ پانے والا۔
جیسے ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے اسی طرح ہر لفظ کے سمجھنے کا بھی ایک وقت ہوتا ہے۔زندگی میں ہم بےشمار لوگوں سے ملتے ہیں ۔۔۔بےشمار لفظ ہزار بار پڑھتے ہیں لیکن کبھی وہی شخص کچھ نیا دے جاتا ہے اور وہی لفظ پہلی بار سمجھ آتا ہے جسے یاد کر کے بھی بھول چکے ہوتے ہیں۔لیکن یہ اثر کب ہوتا ہے؟کیسے ہوتا ہے؟کیوں ہوتا ہے؟ہم نہیں جانتے اور یہ بھی نہیں کہ دل سے جو بات نکلے وہ کب ؟ اور کس کے دل کو چھو جائے؟ اور کس کے لیے لکھی ؟ یہ بھی ایک عجیب راز ہے۔شخصیت اہم نہیں خیال کی خیال تک رسائی اہم ہے۔ کسی انسان کو آئیڈیل بنانا ہمیشہ دکھ تکلیف کا باعث بنتا ہے کہ مکمل کوئی بھی نہیں ہوتا ۔ ہمارے پسندیدہ شاعر،لکھاری اور ہر وہ شخص جس کا کوئی ایک حرف ہی ہمارے دل کی زبان سمجھ جائےسب اسی زمرے میں آتے ہیں۔
جس طرح کہی سے زیادہ ان کہی غور کرنے اور محسوس کرنے کے لائق ہے۔۔۔جیسے لفظ پڑھتے ہوئے اس کی اہمیت سے انکار قطعی نہیں لیکن سطروں میں چھپے مفہوم جنہیں عام زبان میں "ان بٹ وین دی لائن" کہا جاتا ہےاپنی جگہ بہت خاص ہوتے ہیں۔۔۔ہمارے لیے نہ صرف نشان منزل ثابت ہوتے ہیں بلکہ ہمیں اپنی ذات کی آگاہی اور اس پر اعتماد بھی دیتے ہیں۔دنیا میں سانس لینے کے بعد ہمارا ایک ایک عمل ایک ایک رشتہ ایک ایک تعلق ہمارے لیے ہر گھڑی ایک نیا سبق عطا کرتا ہے۔ بات صرف غور کرنے کی ہے۔ کتاب مقدس کی تلاوت ہو یا انسانوں کے مابین رہ کر انہیں جانا جانا جائے جب تک پڑھنے سے زیادہ اُن پر "تفکر" نہیں کیا جائے گا کبھی بھی "روح" تک آشنائی کی لذت حاصل نہ ہو سکے گی۔بنا سمجھے بنا جانے محض تعظیم وتکریم کے بوسے دے کر "جسم" کودنیا وآخرت سنوارنے کی خوش خبری تو مل سکتی ہے لیکن قربت کی لذت کی آسودگی کبھی حاصل نہیں ہو سکتی ۔اللہ کی کتاب جس کا موضوع "انسان" ہے اور وہ آئی ہی انسان کی رہنمائی کے لیے ہے۔اس میں انسان کی ہر الجھن کا جواب موجود ہے۔ کتاب مقدس کو پڑھتے ہوئے کہیں سے بھی دیکھیں تو رب بار بار کہتا ہے۔"تم غور کیوں نہیں کرتے۔۔۔۔ تم سوچتے کیوں نہیں۔۔۔ الواقعہ ۔۔56 سورہ ،آیت 61،62 "۔
جس روز قران پاک محض پڑھنے کی بجائے ہمارے اندر جذب ہونے لگ جائےگا مسئلے اسی وقت حل ہونے لگیں گے۔
علم کی وسعت کے سامنے گنتی کے چند سالوں کی زندگی تو بہت ہی کم ہے۔ بس کمپیوٹرکے ہوم پیج کی طرح جو سامنےآئے اسے دیکھتے رہیں اور آگے بڑھتے رہیں۔ علم نافع تو بس کتاب اللہ ہی ہے۔ لیکن انسان کے لفظ کو محسوس کرنا اور اپنی زندگی میں تبدیلی لانا بھی عین حق ہے۔
کسی بھی قاری کی آنکھ سے پڑھا سکتا ہے۔لیکن اُس کے دل کی آنکھ سے محسوس نہیں کیا جاسکتا۔ ہر پڑھنے والا اپنے ظرف کی نگاہ سے لفظ کے اندر معنوں کے گہر تلاش کرتا ہے۔وہ تحریر جس میں زندگی کے احساسات کی ترجمانی ہوتی ہو جب تک جذب نہ ہو سمجھی نہیں جا سکتی۔ اور جذب کرنا ہر ایک کے اختیار میں ہے اور نہ ہی ظرف میں۔
آخری بات
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ہمیں ٹیپ ریکارڈر نہیں بننا ۔کیونکہ ہم تو بنے بنائے سپر کمپیوٹرز ہیں جن میں سب کچھ محفوظ ہو رہا ہے۔ کسی اور کے لیے نہیں بلکہ خود ہمارے لیے۔ نہ صرف آڈیو بلکہ ویڈیو بھی۔۔۔۔ ہمارے اعضائےجسمانی سے لے کر ذہن کے چھپے گوشوں تک کے افعال وکردار سب نہ ختم ہونے والی ہارڈ ڈرائیو میں بڑی چابک دستی سے من وعن محفوظ کیے جارہے ہیں۔ اللہ ہمیں اپنے لیے بہترین زاد راہ ساتھ لے جانے کی توفیق عطا فرمائے اور سوچ سمجھ کی دولت سے مالامال کرے۔آمین
آخری بات
لفظوں سے دوستی کرو وہ تمہیں اپنے دوستوں سے ملا دیں گے۔

1 تبصرہ:

  1. یہ تحریر 3 ستمبر 2016 کو "دلیل" ویب سائیٹ پر شائع ہوئی ۔
    لنک۔۔۔
    http://daleel.pk/2016/09/03/6630

    جواب دیںحذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...