جمعہ, اگست 09, 2024

" بیالیس برس بعد "

"  پہلے رابطے سے پہلی ملاقات تک"

 کل ہم نے ملنا ہے اور ان شااللہ ضرور ملنا ہے۔ کل بارش بھی ہے شاید۔ تین  دن  پہلے  بات ہوئی لیکن گذشتہ تین روز سے یادوں اور باتوں کی ایسی  جھڑی  لگی ہے کہ رُکنے میں نہیں آ رہی۔سمجھ نہیں آتا کہ چند  ساعتوں کی محدود رفاقت میں   برسوں کا احاطہ کہاں تک ممکن ہو سکے گا۔ خیر جوبھی ہے اس طرح ملنا  تہارے  کہنے  پر ہی ہے  ورنہ میرے دل کے  کسی گوشے میں  مدہم پڑتی خواہش  صرف ایک بار  تمہاری آواز سننے  تک محدود تھی۔سب سے پہلے تو  اپنی بھرپور زندگی میں سے چند لمحے دینے کا شکریہ  ،لیکن ایک شکریہ میرے لیے بھی کہ یہ وقت تم مجھے ہی نہیں بلکہ اپنے آپ کو بھی دو گی۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی  خود نہیں جیتے۔ہمارے  پاس اپنے آپ کے لیے وقت نہیں ہوتا۔ہمارے رشتے ہماری  زندگی کا رس نچوڑ لیتےہیں ۔ ہمارا سارا وقت انہیں نبھاتے گذر جاتا ہے۔یہ گلے شکوے کی بات ہرگز  نہیں ۔ہمارے  اپنے،ہماری صحت،ہماری ہمت رب کا بہت بڑا انعام ہے۔اور ہاں  یاد رکھنے کا شکریہ نہیں کہوں گی کہ  تمہارے بےاختیار ملنے کی خواہش   ہی تو میرا اپنی ذا ت پر وہ اعتماد تھا  جو رشتوں کے ہجوم میں کہیں بہت پیچھے رہ گیا تھا۔

وہ  خوشی  جس کی  تلاش میں ہم در در بھٹکتے  چلے جاتے ہیں  کبھی  اچانک سے  اس طور ملتی ہے کہ یقین ہی نہیں آتا۔ ہمارے برسوں پہلے کے دوست جن سے بات کر کے یا زندگی میں کم از کم ایک بار اُن سے مل کر زندگی کی گردش جیسے اپنا رُخ  ہی بدل گئی ہو۔   اسکول کے وہ دوست جن  کے ساتھ   کئی سال تک روزانہ   ایک جگہ اٹھنا بیٹھنا رہا ہو،وہ دوست جو یاد جزیرے میں     ہر پل ساتھ  تو رہتے تھے  لیکن ہم انہیں برسوں  سے  دنیا کی " بتی" والی گلیوں میں  خاموشی سے تلاش کرتے رہےاور جب ملے  تو یوں کہ برسوں کی دوری پل میں سمٹ آئی ۔زندگی کی بھیڑ میں   کھو کر  دل کے آئینے میں ایک دھندلے عکس  کی صورت انہوں نے آپ  کو یاد رکھا     ۔ برسوں کی دوری میں اجنبیت کا شائبہ تک نہ تھا ۔   اپنی تلاش  پر  ایک خوشگوار حیرت  یوں بھی کہ زندگی کے محاذ پر الگ الگ   سرگرم رہنے کے باوجود سوچ سفر میں اپنے دوست سے بہت کچھ قدرِمشترک   ملا حالانکہ  ایک  ساتھ  میٹرک  کرنے کے بعد ہم دونوں کی زندگیوں  کا  سفر   تین سو ساٹھ درجے  کے زاویے      پر   تھا ۔گرچہ عمر کی طویل مسافت طے کرنے کے بعد آج اس لمحے اپنے اپنے  کام  اورر ترجیحات کے اعتبار سے  الگ الگ مقام پر تھے۔ میں اگر سفر تمام ہونے کی چاپ سنتے بس ذرا دیر کو سستانے کی چاہ میں تھی تو تم نے تو ابھی پوری توانائی کے ساتھ نئی  مسافتیں طے کرنا تھیں۔  تمہیں بہت کچھ یاد نہ تھا لیکن مجھے سب یاد تھا۔ جب اسکول میں الوداعی پارٹی پر طالبات کو اشعار کی  صورت  میں  ٹائٹل دیا جاتا تھا  ۔ تمہیں   اکبر الہ آبادی کا یہ شعر ایک  پرچی پر ملا تھا

تحفۂ   شب برات   تمہیں کیا  دوں

 جانِ من  تم تو خود  پٹاخہ ہو

 اور مجھے ملنے والاشعر کچھ یوں تھا ( اس کےشاعر کا نام نہیں ملا)

 لبِ دریا شبِ مہتاب میں جب پھول کھلتے ہیں

ہمیں بےساختہ تیرا تبسم یاد آتا ہے

 حرفِ آخر

اس روز  ملنے کے کچھ وقت بعد  جب سوچا کہ کیا کھویا کیا پایا تو مدتوں بعد ملنے کی سرشاری اپنی جگہ لیکن دل پر ایک بوجھ بھی پڑ گیا  کہ زندگی سے چرائے گئے ان قیمتی  لمحات میں  ہم  اپنی ذات  سے ہٹ کر   دوسروں کی بات کیوں کرتے رہے۔ وہ جو ہمارے قریب تو رہتے ہیں لیکن ہم انہیں     دِکھتے نہیں ۔  وہ ہمیں دیکھتے تو ہیں لیکن ہمیں جانتے نہیں۔ شاید اس لیے کہ عمرمسافت  میں ملنے والے یہ تمغے ہماری پہچان    ہی نہیں بلکہ معاشرے میں ہمارے مقام کا بھی تعین کرتے ہیں۔یوں کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا کہ زندگی کے ڈرامے میں کردار نگاری  کرتے  ہم وہ بونے ہیں جو تماشائیوں کی  واہ واہ کے لیے دوسروں کے بل پر اپنا قد بلند کرنے کی سعی کرتے ہیں ۔  

" توقع"

۔"  توقع کے بطن سے ہمیشہ  دُکھ جنم لیتے ہیں۔ بےغرضی ہر تعلق کی  مضبوطی کا تعین کرتی ہے   چاہے وہ انسان سے ہو یا رب سے"۔

تعلق ہو یا رشتہ  اپنے رب سے ہو یا انسان سے،پائیداری کی بنیادی اکائی احساس ہے۔وہ احسا س جو دل کی تنہائی میں جنم لیتا ہے اور دل کو چھو لیتا ہے۔سچے دل سے اپنے  خالق کا احساس ہر رشتے کی اصلیت عیاں  کرتا چلا جاتا ہے۔

انسان کے انسان سے رشتے  صرف اور صرف ذمہ داری ہوتے ہیں جو لین دین کے محتاج ہوتے ہیں اور نا ہی رابطوں اور اظہار کے۔ ہمارا سئلہ یہ ہے  کہ ہم مقدر کے بنے رشتوں کو بوجھ سمجھتے ہیں اور خود سے بنائے تعلقات کو اہم  جانتے ہیں ۔ تعلق فقط رب سے ہے اور ہونا بھی چاہیے۔انسانوں سے صرف مراسم ہوسکتے ہیں ،اچھے رکھو گے تو اچھا پاؤ گے۔

"جسم کا فساد"

 عافیت چاہتے ہو تو اپنےجسم سے نکل جاؤ"۔

  ساراکاسارا فساد ہی جسم کا ہے۔زندگی برتتے برتتے ادھ موئے سے ہو کر جب    ہم پلٹ کر دیکھتے ہیں تو جسم سے زیادہ روح زخمی دکھائی دیتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے  رویوں  کی خاردار پگڈنڈیوں نے  احساس لیر لیر کر دیا ہو۔ لہجوں کی  سفاکیت جینے کی اُمنگ چھین لینا ہی چاہتی ہے  کہ اللہ کے کرم سے خیال کی طاقتِ پرواز  یکدم بلند ہو جاتی ہے،اتنی بلند اتنی روشن کہ سب سے پہلے تو اپنی سوچ کی حماقت  دکھائی دیتی ہے کہ جسم کا بوجھ روح کیوں اُٹھائے۔ غور کریں   بلکہ سچ کہیں تو جسم کو ذرہ   برابر بھی فرق نہیں پڑتا ، کون آیا کون گیا، اُسے اس سے کیا لینا دینا۔وہ  تو  بس سخت گیر حاکم کی طرح کبھی پیٹ گھڑی کا الارم بجاتا ہے تو کبھی  درد کی  شدت میں نیند کے  مرہم   سے کام چلاتا ہے ۔ قصہ مختصر  کہ کسی بھی مشکل صورتِ حال میں اپنے جسم سے نکل جاؤ۔ اس کے ساتھ جو ہوتا ہے ہونے دو ،اس  بےوفا کی ہمدردی   میں بچا کچا وقت برباد نہ کرو۔ اپنے سوا کسی کو بدلنے کا اختیا ر ہمارے پاس  نہیں ۔ ہر ایک کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔ یہاں تک کہ  اپنے حال کو بھی اس کے حال پر چھوڑ دو کہ جب  ہمارے پاس  اپنے حال کو بدلنے کی   قدرت بھی تو نہیں  ۔۔

"کرنیں (11)"

٭ انسانوں سے معاملات کے  ضمن میں  عمل تربیت کی نشان دہی کرتا ہے اور ردِعمل ظرف کی۔

٭زندگی میں ملنے والا ہر شخص فقط ایک سبق ہے۔یاد کر لو سمجھ جاؤ تو زندگی برتنا  سہل ہو جاتا ہے ورنہ ناسمجھی کےرٹے لگاتے رہیں اور زندگی کا خسارا بُھگتے جائیں۔

٭  وردی کوئی بھی ہو  عام  عوام کے عام لباس سے تو بہتر ہی ہوتی ہے۔بس یہ ہے کہ  وردی کی ڈیوٹی سخت اور غلطی کی سزا کبھی تو ناقابلِ معافی۔جبکہ  سادہ لباس میں خزانہ  ڈکار جاؤ  تو   جاتے جاتے بھی سیلوٹ۔

٭   سینت سینت کر رکھی   قیمتی چیزیں  ہماری زندگی میں ہمارے سامنے ہی بےقیمت ہو جاتی ہے۔

٭ زبان کا کڑوا کبھی دل کا میٹھا نہیں ہو سکتا۔

٭ گرچہ زبان لٹمس ٹیسٹ ہے ذائقوں کے باب کا لیکن  زبان کی کڑواہٹ  ہر ذائقے پر  سدا حاوی رہتی  ہے۔

٭زندگی میں ملنے والا ہر شخص محض ایک سبق ہے۔سمجھ جاؤ،یاد کر لو تو زندگی برتنا سہل ہو جاتا ہے ورنہ ناسمجھی کے رٹے لگاتے رہیں اور خسارۂ زندگی بھگتے جائیں ۔

٭ہمارے بہت سے مسائل ہماری زندگی کے ساتھ ہی ختم ہوتے ہیں۔اپنی زندگی میں اُن کے حل کی توقع بےسود ہے ۔

٭ عزت   نہ تو خدمت سے ملتی ہے اور نہ ہی  اپنی محنت کی کمائی بنا کسی غرض کے  کسی کے حوالے کر کے۔ عزت فقط احساس کا سودا ہے ۔جو ہر کسی کے نصیب میں نہیں۔ بندوں سے اس کی توقع    دُکھ  ہی دیتی ہے۔

٭ جو اچھا سوچتے ہیں وہی اچھا بولتے ہیں۔

٭ خوشیاں اور غم اپنے ہی ہوتے ہیں  ۔وہ کسی اپنے کے ساتھ کبھی بانٹۓ نہیں جاسکتے۔

٭ انسان اکیلا آیا ہے اور اُس نے اکیلے ہی جانا ہے لیکن یہ کم بخت دُنیا کہ اِس کے ہر ہر موڑ پر ایک ساتھ چاہیے۔

٭ خوشی یہ ہے کہ آپ سے  وابستہ کوئی شخص ناخوش نہ ہو۔

٭خوشی اور سکون دو  الگ الگ  احساسات ہیں تو ان کے معیار بھی جدا  ٹھہرے۔خوشی کسی  بھی چیز سے مل سکتی ہے تو سکون  صرف احساس سے۔ 

٭ہم  صرف وہی باتیں بھولتے ہیں جنہیں ہم یاد رکھنا نہیں چاہتے۔

٭ موت مہلت نہیں دیتی اور زندگی فرصت نہیں ۔

٭ زندگی کا اصول کہہ لیں یا اُتارچڑھاؤ  کہ بیج کوئی بوتا ہے اور پھل کوئی اور کھاتا ہے۔ مکان کوئی بناتا ہے اور آباد کوئی اور کرتا ہے۔۔ ہمیں تو بس زندگی کی دیہاڑی میں اپنے حصے کی مزدوری کرنا ہے۔ دوسری بات یہ کہ خوش قسمت کون اور بدقسمت کون ہم یہ فیصلہ کبھی بھی نہیں کر سکتے۔

"سنو"

سنو  !جب کسی مقام پر پہنچ جاؤ تو  شور نہ مچایا کرو ،اعلان نہ کرتے پھرو،نقارے نہ بجاؤ۔،خاموشی سے بیٹھ رہو۔ تھوڑا سستا لو اور اسے محسوس کرو۔جان لو کہ یہ فتح یہ سرشاری  بس ذرا دیر    کی تو بات ہے پھر تو واپس ہونا ہی ہے۔   

بلندیوں پر قدم جماتے سمے مہربان ساتھیوں کے سنگ گر  بدلتے منظروں کی سرخوشی تھی تو اب اُترائی کے سفر میں نظارے تو وہی ہیں لیکن نظر کا زاویہ کہیں اور ہے۔زندگی کے سفر میں یہ چڑھائی اُترائی کا کھیل بھی عجیب ہے۔جاتے ہوئے کسی کمزور سی شاخ کا  بس ذرا سا سہارا  درکار ہوتا ہے اور قدم خودہی  آگے  بڑھتے  چلے جاتے ہیں  جبکہ واپسی میں اپنے ہر قدم پر نگاہ جمانا پڑتی ہے  وگر نہ دکھائی دینے والے سہارے منہ کے بل گرانے کو کافی  ہوتے ہیں۔ آغازِسفر نئی کہانی کی شروعات  ہوا کرتا ہےجس میں میں ہم نوا  اور رہبر  ملتے ہیں تو واپسی کا سفر صرف اور صرف  اپنے وجدان کے ساتھ  طے کرنا ہوتا ہے۔جاتے ہوئے اگر کمر پر لاد  ے ضرورتوں اور خواہشوں کے بوجھ قدم شل کرتے تھے تو  واپسی  میں ایسی کسی بھی ضرورت سے بےنیاز ہو کر  فقط اپنے قدموں پر نگاہ رکھنے کی ضرورت  اہم رہ جاتی ہے۔ واپسی کا سفر ہمیشہ اُداس کرتا ہے کہ  اب کہانی کا خاتمہ ہے۔دعا بس یہ ہونی چاہیے کہ عزت کی زندگی کا اختتام بھی عزت سے ہی ہو۔ کہانی خواہ ناول کی ہو یا زندگی کی اس کا اختتام ہی اس کی کامیابی کا تعین کرتا ہے۔ بےشک ہماری زندگی کہانی  حرف بہ حرف رب کی طرف سے طے کردہ ہے لیکن یہ بھی حق ہے کہ اللہ نہ کرے اُس نے لکھا  ہو  کہ ہم نے آخر میں خود ہی اپنی زندگی کمائی  لُٹاناہے۔

" بیالیس برس بعد "

"  پہلے رابطے سے پہلی ملاقات تک"  کل ہم نے ملنا ہے اور ان شااللہ ضرور ملنا ہے۔ کل بارش بھی ہے شاید۔ تین  دن  پہلے  بات ہوئی لیکن گ...