ہفتہ, دسمبر 19, 2015

"یقینِ زندگی (1) "

" بڑے لوگ۔۔۔بڑی کہانیاں" 
بڑے لوگ صرف وہی نہیں جو بڑے بڑے کام کر کے دُنیا سے رُخصت ہو جائیں۔۔۔۔بڑے لوگ وہ بھی نہیں جو آسمانِ دُنیا پر چاند ستاروں کی طرح جھلملاتے ہیں۔۔۔اپنی روشنی سے جگ کو منور کرتے ہیں اور جاتے ہوئے کُل عالم کو اُداس اور تنہا کر جاتے ہیں۔۔۔بڑے لوگ صرف وہی نہیں جن کی زندگی کا لمحہ لمحہ انسان کے عزم اور ارادے کی جیتی جاگتی مثال ہوا کرتا ہے اور مر کر بھی اُن کا فیضان جاری رہتا ہے۔اِن کی تعلیمات آنے والے زمانوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوتی ہیں۔بڑے لوگ وہی نہیں جو بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں۔۔۔دُنیا فتح کرتے ہیں اور یا پھر اپنی صلاحیتوں کے منفی استعمال سےدُنیا اُجاڑ دیتے ہیں۔
ہر "بڑا یا چھوٹا" ایک سے انداز میں سانس لیتا ہوا دُنیا میں آتا ہے اور "بڑے چھوٹے" کی تمیز سے ماورا سب کی آخری سانس بھی ایک سے انداز میں نکلتی ہے۔ سانس آنے اور سانس جانے کے درمیان کا عرصہ انسان کا دُنیا میں کردار اس کا مقام اور سب سے بڑھ کر اس کا نام طے کرتا ہے۔ بہت سے لوگ اپنی زندگی میں ہی گمنام ہوجاتے ہیں اور جانے کے بعد تو حرفِ غلط کی طرح مٹ جاتے ہیں۔ بڑے لوگوں کی زندگی کی اگر چھوٹی چھوٹی کہانیاں بھی بہت اہمیت رکھتی ہیں تو چھوٹے لوگوں کی زندگی میں بھی کئی بڑی کہانیاں چھپی ہوتی ہیں۔ کبھی یہ کہانیاں ادب کا حصہ بن کر امر ہو جاتی ہیں تو کبھی سدا ان کہی ان سنی رہ جاتی ہیں۔
پیدائش اور موت کی سمجھ میں آکر بھی نہ سمجھ میں آنے والی پیچیدہ کہانی سے قطع نظر دُنیا میں آنے کے بعد انسان حالات وواقعات کے عجب جہانِ حیرت سے گزرتا ہے۔کبھی بےخبری میں زندگی گزر جاتی ہےتو کبھی زندگی اُسے یوں گزارتی ہے کہ اندر سے کوئی چیخ اُٹھتا ہے۔۔۔
زندگی جبرِمسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جُرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
پسِ تحریر۔۔۔
دُنیا کو سرائےفانی کہا گیا اور انسان کو مسافرِشب۔۔۔وہ بھی جو صرف پل دوپل کو سانس لینے رُکے۔عمر کے محدود برسوں کا یہ سفر ہر سانس میں ایک نئی کہانی کہتا ہے۔انسان کے وجود پر یہ سفردو طرح سے رقم ہوتا ہے۔شیرخوارگی سے بُڑھاپے تک کا جسمانی سفرجس سے ہرانسان یکساں طور پر گزرتا ہے۔زندگی کے مہربان نامہربان موسموں کا ذائقہ چکھتا ہے۔۔۔تقدیر کے لکھے کو نہ چاہتے ہوئے نہ مانتے ہوئے بھی سمجھوتے کرتا ہے اور وقتِ مقرر تک اپنا کردار ادا کر کے رُخصت ہو جاتا ہے۔
آغاز واختتام۔۔۔ 
یہ کہانی ہے اس شخص کی جس کی دنیاوی زندگی کی کتاب چارجنوری سال 2015 بمطابق اسلامی سال 1436 ہجری بتاریخ بارہ ربیع الاول کو پروردگارِعالم کی طرف سے بند کر دی گئی۔اِس کتابِ دنیا کے آخری اوراق جو ظاہری آنکھ کی نگاہ سے گزرے اورحسبِ استطاعت اس احساس کو لفظ کی زبان دے کر بلاگ میں کسی حد تک محفوظ کرنے کی سعی بھی کی گئی۔
عجیب کہانی ہے یہ بھی کہ پڑھنے والے آخری صفحات (ایمان زندگی ) پڑھ چکے،انجام سے واقف ہیں کوئی تجسس بھی نہیں۔حد تو یہ ہے کہ گرچہ کتاب زندگی بند ہو چکی پر اوراقِ زندگی پلٹے جا رہے ہیں شاید اس لیے کہ کچھ قرض باقی ہیں۔۔۔۔۔۔ 
سال 2015 یکم جنوری کی پہلی صبح اس سلسلے کی پہلی تحریر " امیدِ زندگی" پوسٹ کی اور اب سال 2015 کی آخری شامیں "یقین زندگی" کے نام۔۔۔۔
وہ یقین جو خاکی کو گرنےکے بعد سنبھلنے کا حوصلہ دیتا ہے۔۔۔ وہ یقین جو آس کی ٹوٹتی ڈور پر امید قائم رکھتا ہے۔۔۔وہ یقین جو کمزور پڑتے انسان کے ایمان کو تقویت دیتا ہےاور وہ یقین جو ڈولتے قدموں کو زمین پر ثابت قدم رکھتا ہے۔ وہ یقین جو خزاں میں بہار کی خبر دیتا ہے تو زندگی کی ڈھلتی شاموں میں صبحِ نو کی تازگی کا شعور بھی بیدار کرتا ہے۔ 
پیدائش ۔۔۔۔ 
یہ کہانی گذشتہ صدی میں تیس کی دہائی میں پیدا ہونے والے اُس شخص کی ہےجس کے والدین اپنے چھ بچوں کی پےدرپے موت کے صدمے سے بےحال تھے۔ اللہ دیا خان سہارن پور کے افغانی حسب نسب رکھنے والے دبنگ خان تھے۔ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے لیکن اولاد کی نعمت سے محروم۔ بچے پیدا ہوتے لیکن زیادہ عرصہ جی نہ پاتے۔پریشان حال باپ ایک ولی اللہ کے مزار پر گئےوہاں ایک بزرگ ملے،انہوں نے اداسی کی وجہ دریافت کی،پھر تسلی دیتے ہوئے دعا دی کہ اب تمہارے ہاں جو بچہ پیدا ہو گا وہ لمبی عمر پائے گا پھر مجھ سے یہیں آکر ملنا( بعد میں بہت تلاش کیا لیکن وہ بزرگ نہ ملے)۔
شاید اس لمحے نااُمید باپ نےاس بات کو مجذوب کی بڑ جانا ہو۔وہ لوٹ آئے۔دن گزرتے رہے اوراگلے برس اُن کے ہاں ایک گول مٹول خوبصورت بیٹا پیدا ہوا۔ پہلے بچے اللہ نے دئیے تھے اُس نے ہی واپس لے لیے۔۔۔اللہ کی مرضی،شاید اسی لیے اس بچے کا نام امان اللہ رکھا گیا۔پیدا ہوتے ہی جینے کے ٹوٹکے کے طور پراس کے کان میں بالی ڈال دی گئی اور بجائے نئے کپڑوں کے پرانے کپڑے پہنائے گئے۔یہ بچہ یوں بھی مبارک ثابت ہوا کہ اس کے بعد دو بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئے(اللہ انہیں ذہنی وجسمائی صحت کے ساتھ سکون والی عمر عطا فرمائے آمین)دھدیال اور ننھیال دونوں جگہ اس بچےکے خوب خوب لاڈ اٹھائے گئے جوگھر والوں بلکہ محلے والوں کی بھی آنکھ کا تارا تھا۔
بچپن۔۔۔۔
جیسے جیسے بڑا ہوتا گیا یہ معصوم اور بھولا بھالا بچہ گھر والوں کو عجیب طرح سے پریشان کرنے لگا۔محلے والوں سے محبتیں سمیٹتے بڑا ہوا تو اُن کے دکھ درد میں کام آنے لگا۔اُس زمانے میں روزمرہ کے گھریلو سامان کے لیے عورتیں گھر سے باہر نہیں نکلتی تھیں اور محلے کے بچوں سے کام کہہ دینا معمول کی بات سمجھی جاتی۔اپنےگھر میں تو کام کاج اور سودا سلف لانے کے لیے خدمت گار موجود تھے۔خان صاحب کا یہ بچہ محلے والوں کے سامان بڑی خوشی سے لانے لگا۔دروازے کی اوٹ سے"منے"کو پکارا جاتا۔وہ ایک کاغذ پر سودا لکھتا،پیسے لیتا اور آگے بڑھ جاتا۔یوں کئی گھروں کا حساب جمع ہو جاتا۔ واپسی پر بعض اوقات سامان کا وزن بوری برابر ہو جاتا جسے وہ بلا کسی ہچکچاہٹ کے کاندھے پر اُٹھائے نظر آتا۔ اکثر والد صاحب سے ملنے والے شکایت کرتے یا حیرانی کا اظہار کرتے کہ آپ کا بڑا بیٹا "مزدوری" کرتا ہے؟اب تصور ہی کیا جا سکتا ہے کہ یہ سن کر ان کا کیا حال ہوتا ہو گا۔ وہ گھر آ کر اپنی بیوی سے بازپرس کرتے۔
گھریلو ماحول۔۔۔ 
ماں کو بچے کے ہر قول وفعل کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اور کوئی نہیں سوچتا کہ بچے کی اپنی سمجھ اپنی سوچ بھی کوئی معنی رکھتی ہے۔ درست ہے کہ ماں کی گود بچےکی پہلی درس گاہ ہے لیکن ماں ایک بیوی پہلے ہے جس کی اپنی کوئی سوچ نہیں ہوتی۔ایک مرد کے ساتھ نکاح کے بول میں بندھتے ہی اس کی سوچ بھی گروی رکھ دی جاتی ہے۔نکاح ایک چابی کی مانند ہے جوں ہی چابی دی جاتی ہےعورت بےجان کھلونے کی طرح اسی طور حرکت شروع کر دیتی ہے۔ خان صاحب کا نہ صرف باہر بلکہ گھر میں بھی بڑا رعب تھا۔ان کے غصے اور سختی کا یہ عالم تھا کہ ایک بار ان کی اہلیہ چھوٹے بچوں کے ساتھ میکے گئیں واپسی پر کچھ دیر ہو گئی تو گھر کا دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا اور پھر وہ رات انہوں نے پڑوس میں گزاری(یہ گذشتہ صدی کے قصے ہیں اب عورت اور مرد برابری کی سطح پر اپنے معاملات طے کرتے ہیں)اس ماحول میں وہ بچہ پروان چڑھا۔ سنتا سب کی تھا لیکن کرتا اپنی مرضی ہی تھا۔اس کے ساتھ ساتھ وہ نہایت باادب اور خوش مزاج بھی تھا۔ اس کی ایک عجیب عادت "نہانے"کی بھی تھی۔اسکول سے گھر تک کے راستے میں آنے والی مسجد میں نہانا لازمی تھا اور پھر نماز پڑھ کر گھر لوٹتا۔کبھی دیر ہوجاتی تو اماں سے"بکنے"پڑتے۔ بچے اپنے ماحول سے اثر لیتے ہیں اور عمر کے ابتدائی سالوں میں جو باتیں ان کے ذہن کے کمپیوٹر میں فیڈ ہو جائیں وہ آخری سانس تک ازبر رہتی ہیں ۔اس بچے کے ذہن میں یہ بات ڈال دی گئی تھی کہ جس جگہ سجدہ کیا جائے وہ جگہ قیامت کے روز اس بندے کے حق میں گواہی دیتی ہے۔اسی لیے وہ مسجدیں بدل بدل کر نماز پڑھتا اور آگے چل کر یہ ذوق و شوق اسی طرح سلامت رہا۔ساری زندگی مسجدوں،سجدوں اور نہانے سے اُنہیں عجیب نسبت رہی۔کسی بھی نئی جگہ،نئے شہر جاتے یا سفر کرتے ہوئے مسجد سب سے اہم اور پرکشش جگہ ہوتی۔ رہی بات نہانے کی تو اب اپنے گھر کا غسل خانہ ہی کافی تھا اور گھر سے دور جب بھی کہیں جاتے تو کسی اور کے غسل خانے میں نہانے سے گریز ہی کرتے۔
بچپن کی یادیں۔۔۔۔ 
بچپن کے اُس دور میں جب ہندو سکھ اور مسلمان مل جل کر رہتے تھےوہ مسجد اپنے سکھ اور ہندو دوستوں کے ساتھ جاتے اور ان کے دوست دیوار کی اوٹ سے پانی بھر بھر کر دیتے۔ پھر ان کے غیرمسلم دوست کہتے کہ ہم بھی نماز پڑھیں گے تو کہتے کہ جیسا میں کر رہا ہوں میرے پیچھے کرتے جاؤ۔ ہم آج کے دور میں سوچ بھی نہیں سکتے کہ ایسا بھی کوئی زمانہ تھا۔۔۔۔نہ کوئی اعتراض کرنے والا کہ مسجد میں غیر مذہب والا کیوں داخل ہوا اور نہ بچوں کو ڈانٹنے والے کہ دین کو تماشا بنا رکھا ہے۔
ابتدائی عمر میں انسان کی صحبت اوراس کا ماحول اس کے مزاج اور آئندہ زندگی میں رویوں کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔بچپن میں بلاکسی امتیاز کے بڑے چھوٹے سے یکساں گھلنے ملنے اُن کے کام آنے کا ہی نتیجہ تھا کہ بعد کی زندگی میں وہ کسی بڑے سے بڑے رُتبے والے شخص سے مرعوب نہ ہوئے اور چھوٹے سے چھوٹا کام کرنے والے حتٰی کے خاکروب سے بھی اسی عزت سے پیش آتے۔
ذاتی احساسات۔۔۔۔ 
وہ پہلی اولاد تھےجو صحت و سلامتی کے ساتھ اپنے ماں باپ کی شفقت کے سائے میں پروان چڑھ رہی تھی۔پہلا بچہ اپنے رویوں اور احساسات میں بھی اول ہی ہوتا ہے۔گھر میں اس کا وجود محبتوں کی کُل کائنات سمیٹتا ہے جب تک کے اُس کا دوسرا بہن بھائی نہ آ جائے۔پھر اُس کی زندگی یکدم تین سوساٹھ درجے کے زاویے پر مڑ جاتی ہے۔یا تو وہ سمجھوتے کر کے اپنے سب اختیار سب خواہشیں خاموشی سے بانٹ دیتا ہے اور یا پھر ہمیشہ اپنی بڑائی کے حصار سے باہر نہیں آ پاتا۔ اس میں شک نہیں کہ اپنوں کے دل میں اُس کا خاص احساس ہمیشہ ویسا ہی رہتا ہے جو وقت کے ساتھ چاہے گھٹتا بڑھتا رہے لیکن اس سے ملنے والی خوشی اگر منفرد ہوتی ہے تو اس سے ملنے والے غم بھی دل زخمی کر دیتے ہیں۔ پہلے بچے کی سب سے خاص بات جو بسااوقات اس کی کمزوری یا کسک بھی بن جاتی ہے کہ اُسے مانگنا نہیں آتا۔عمر کے پہلے سال کا یہ احساس ایک جینیٹک کوڈ کی مانند اس کے ذہن میں ٹھہر جاتا ہے چاہے اگلے برس ہی اس کا شراکت دار آ جائے۔
امان اللہ بھی ایسا ہی ایک بچہ تھے جو بڑے ہو کر رشتوں ناطوں اور جذبات واحساسات میں ہر اعتبار سے منفرد اور نمایاں رہے۔
معاشرتی حالات۔۔۔ 
تحریکِ پاکستان اور تکمیلِ پاکستان کے حوالے سے وہ بڑا افراتفری کا دور تھا۔اس کے ساتھ ساتھ دوسری جنگِ عظیم کی اُفتاد سے مسلک ومذہب سے ہٹ کو ہر عام ہندوستانی چاہے جوان ہو یا بوڑھا یکساں متاثر ہوا۔جبری بھرتیاں جاری تھیں۔ سڑکوں پررات گئے فوجی دستے مارچ کرتے گزرتے۔اُن کے بوٹوں کی دھمک بڑوں کو ہولا کر رکھ دیتی اسی طرح دن کو "جے ہند" اور"بٹ کے رہے گا ہندوستان اور بن کے رہے گا پاکستان"کے نعروں کی گونج لہو برماتی۔امیرغریب،جاہل ان پڑھ کی تخصیص سے بالاتر سیاسی اور مذہبی بصیرت سر چڑھ کر بولتی تھی۔جوان خون کے دل میں اگر کچھ کرگزرنے کی لگن تھی تو اُن کے بڑوں کے نزدیک یہ آخری موقع تھا جو انہیں پہلی بار عطا ہوا۔چودہ اور پندرہ اگست 1947 کی درمیانی شب ریڈیو سنتے ہوئے گھڑی کی ٹک ٹک سانس روک لیتی تھی۔عین بارہ بجے اعلان ہوا"یہ ریڈیوپاکستان ہے"اس کے بعد نعروں اور جوش وخروش کے ساتھ قتل وغارت کی لامتناہی داستان شروع ہوگئی۔
پاکستان ہجرت۔۔۔ 
امان اللہ نے سن1951 میں اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان ہجرت کی تو زندگی یکدم پلٹ گئی۔قافلوں کے ساتھ کڑی صعوبتیں برداشت کرتےکھوکھرا پار کے راستے سرزمینِ پاک پر قدم رکھا۔وہ جگہ ایک بےآب وگیاہ صحرا کی مانند تھی۔ٹرک کافی پیچھے رُک گیا اور اشارے سے کہا گیا کہ وہ رہا پاکستان۔ ٹرک میں سوار لٹے پٹے مجبور لوگ اپنے سامان کی پروا کیے بنا اس ہیولے کے پیچھے ریت میں دھنستے پاؤں کے ساتھ بھاگتے چلے گئے۔فاصلہ اچھا خاصا تھا۔قریب پہنچے تو پاک فوج کےجوان خندہ پیشانی سے پیش آئے۔اب سامان کا خیال آیا تو فوجی بھائیوں نے تسلی دی اور خود سامان لانے کا انتظام کیا۔ یہاں سے اگلا پڑاؤ "مونا بھاؤ" ریلوے اسٹیشن تھا۔ پہنچے تو پتہ چلا کہ گاڑی نکل گئی اور اگلی گاڑی ہفتے بعد آئے گی۔وہ ایک ہفتہ پورے خاندان اور اہلِ قافلہ کے ساتھ اسی پلیٹ فارم پر گزرا۔وہاں سے اپنے ایک عزیز کے پتہ پر سیالکوٹ شہر پہنچے۔جہاں دھوکےاور دکھ کی ایک نئی داستان منتظر تھی۔بہت سا سامان چوری ہوا۔اس میں پڑھائی کی ڈگریاں اور زمینوں کے کاغذات بھی تھے۔ سیالکوٹ سے دل برداشتہ ہو کر راولپنڈی کا رُخ کیا پھر آخری سانس تک پورا کنبہ اس شہر کی فضاؤں کا اسیر رہا اور وقت کے ساتھ ساتھ بڑے اپنے وقت پر اس کی مٹی میں مٹی ہوتے چلے گئے۔
سیاسی بصیرت۔۔۔ 
اس زمانے میں کراچی پاکستان کا دارالخلافہ تھا لیکن فوج کے حوالے سے پنڈی کی اہمیت بھی کم نہ تھی۔پاکستان کے پہلے اور اس وقت کے وزیرِاعظم" خان لیاقت علی خان" کی قضا کھینچ کر پنڈی کے ایک پارک میں لے آئی جہاں ایک جلسے کے دوران جیسے ہی وہ اسٹیج پرآئے کسی سفاک قاتل نے گولی مارکر شہید کر دیا۔یہ پارک بعد میں لیاقت باغ کے نام سے مشہورومعروف ہوا۔ وہ بچہ جو تحریکِ پاکستان کے جلسوں میں جوش وخروش سے شرکت کیا کرتا تھا یہاں بھی اولین صفوں میں موجود تھا اورسارے سانحے اور بھگدڑ کا عینی شاہد تھا۔
جذباتی دھچکے۔۔۔ 
اس شہادت کے بعد نہ صرف پاکستان کی سیاست میں بندربانٹ شروع ہوئی بلکہ بڑے ہوتے اس بچے کی زندگی میں بھی بدترین نشیب وفراز آتے چلے گئے۔ اس دور میں رشتے کے ماموں کا کہا ساری زندگی نہیں بھولا، جب داخلے کے لیے کچھ پیسوں کی ضرورت پڑی تو انہوں نے ٹکا سا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پڑھائی کر کے کیا کرنا ہے کوئی ریڑھی لگا لو۔ مزدوری کرنا برائی ہرگز نہیں لیکن تضحیک کا یہ انداز ہمیشہ کے لیے دل میں ترازو ہو گیا۔ بس اسکے بعد پیچھے مڑ کر نہ دیکھا بچپن کا عیش وآرام خواب ہوا۔کھلے دالانوں والے گھروں میں رہنےانگریزی مکھن،مارجرین اور پنیر کھانےوالے تنگ وتاریک کمروں میں بھوک برداشت کرتے اورچھوٹی چھوٹی مزدوریاں کرتے رہے۔سنار کا کام سیکھا۔اپنی انا،خودداری اور اپنا مقصد سامنے رکھا۔
مشقتِ حیات۔۔۔ 
پڑھائی کا طعنہ ملا تو اسےجی جان سے قبول کر کے پڑھتے چلے گئے۔بھوک پیاس کی پروا کیے بغیر بجلی کے کھمبوں کی روشنی میں صرف اور صرف پڑھائی پر توجہ دی۔بڑے بھائی کے پڑھنے کا جنون دیکھ کرچھوٹے بھائی نےاپنی پڑھائی ادھوری چھوڑ کر گھر کی ذمہ داری اٹھا لی۔والد صاحب اندر سے بہت ٹوٹ گئے۔روایتی پگڑی اور مخصوص طرز والی کئی گز کی شلوار پہننے والے اپنی غربت کے لباس سے جانے کس طرح تن ڈھانپتے ہوں گے۔مضبوط قوتِ ارادی اور اللہ پر کامل یقین نے رنگ دکھایا اور چھ سال کے قلیل عرصے میں زیرو سے آغاز کرنے والا بچہ ڈاکٹر کی ڈگری لے کر پورے خاندان کے لیے قابلِ فخر ٹھہرااور اگلے چالیس برس سے زائد عرصے تک تن تنہا ایک ہی جگہ بیٹھ کر مسیحائی کا ہنر آزماتا چلا گیا۔غربت میں ساتھ چھوڑنے والےرشتے دار لوٹ آئے،والدین نے بڑے پن کا ثبوت دیتے ہوئےسب بھلانے کی کوشش کی۔پیر صاحب گولڑہ شریف کی رہنمائی اور اشارے کے بعد راولپنڈی شہر کے نواح میں ایک چھوٹی سی دُکان میں اپنا ذاتی کلینک قائم کیا۔۔۔۔لیکن ابھی زندگی کی تلخیاں اور مشقتیں باقی تھیں۔۔۔بقول منیرنیازی کے
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے جانا
( جاری ہے۔۔۔باقی یقینِ زندگی(2) میں)

4 تبصرے:

  1. بی بی ۔ زندگی نام ہے مر مر کے جیئے جانے کا ۔ بہت سی ایسی نوادرات ہوتی ہیں کہ انسان سوچتا ہے کہ اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکے گا مگر جیتا ہے کہ نہ جینا اپنے بس میں ہے اور نہ مرنا ۔ کہتے ہیں کہ سمندر میں ایک بادبانی جہاز سفر کر رہا تھا کہ طوفان آیا اور جہاز ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ۔ جہاز کے ایک تختے نے ایک عورت کو بچا لیا ۔ وہ تختے پر پڑی تھی اور تختہ سمندر میں تیر رہا تھا کہ ایک بچے کو جنم دیا ۔ عزرائیل کو حُکم ہوا کہ عورت کی جان قبض کر لے ۔ وقت گذرتا گیا ۔ ایک جوان نے دنیا پر ایک جنت نما باغ بنوایا ۔ مکمل ہونے پر اُسے دیکھنے گیا ۔ گھوڑے سے اُترتے ہوئے ایک پاؤں رکاب میں تھا اور ایک ہوا میں کہ عزرائیل کو جان قبض کرنے کا حُکم ہوا ۔ مزید وقت گذر گیا ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ایک دن عزرائیل سے پوچھا ”جان قبض کرتے کبھی رحم آیا ؟“ عرض کیا ” ہاں ایک بار جب سمندری طوفان سے بچی عورت نے تختے پر بچے کو جنم دیا تو اُس کی جان قبض کرنے کا حُکم ملا اور دوسری بار جب ایک جوان نے جنت بنائی اور دیکھنے سے قبل جان قبض کرنے کا حُکم ہوا “۔ بتایا گیا ”جانتے ہو وہ جوان کون تھا ؟ وہی بچہ جس کی ماں کی روح اس کی پیدائش کے بعد قبض کی تھی۔“ اللہ رحمٰن و رحیم اور قادر و کریم ہے اور بے نیاز ہے ۔ اُس کی حکمت وہی جانتا ہے ۔ انسان نہیں سمجھ سکتا ۔ مگر یہ مجبور انسان اپنے تئیں ناجانے کیا سمجھتا ہے کہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا ۔ ایک دن واہ کے قبرستان میں کسی عزیز کو دفنا کر قبرستان کے دروازے سے باہر نکل رہے تھے تو ایک ساتھی نے کہا ” انسان بھی کیا چیز ہے کہ قبرستان میں داخل ہوتا ہے تو مومن اور باہر نکلتے ہی پھر شیطان کے نرغے میں آ جاتا ہے۔“ کیا یہ ناقابلِ فہم نہیں کہ ہر شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ اُس نے مرنا ہے لیکن پھر بھی اُسے موت یاد نہیں ہوتی ؟ مگر ایک بات تو اللہ ہی نے انسان میں رکھی ہے ۔ محبت و احترام کرنے والی اولاد کا تو کیا کہنا ۔ آدمی زندگی بھر والدین کی پرواہ نہ بھی کرے تو اُن کے بچھڑ جانے کے باد اُن کی یاد سے اپنے آپ کو نہیں بچا سکتا ۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. اللہ آپ کے والدین کو جنت الفردوس میں جگہ عنائت فرمائے اور آپ سب پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔

    جواب دیںحذف کریں

"سیٹل اور سیٹل منٹ"

سورۂ فرقان(25) آیت 2۔۔   وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍ فَقَدَّرَهٝ تَقْدِيْـرًا ترجمہ۔ اور جس نے ہر شے کو پیدا کیا اور پھر اس کے لیے ایک اند...