جمعہ, اپریل 04, 2014

" دُنیا...(2)"

دُنیا کی زندگی کو اگر کھیل تماشا کہا گیا تو وقت کی آنکھ مچولی بھی ہماری ہی کہانی ہے۔ کبھی ہم رہ جاتے ہیں ہمارا وقت گزر جاتا ہے تو کبھی ہم گزر جاتے ہیں ہمارا وقت رہ جاتا ہے۔کبھی وقت نہیں گزرتا  ،زندگی گزر جاتی ہے،انسان چلا جاتا ہے۔اور  کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ وقت گزر جاتا ہے زندگی وہیں ٹھہر جاتی ہے  بس انسان اور اُس کا انتظار رہ جاتا ہے۔ رسہ کشی کے اس کھیل میں جتنا زور لگاتے جائیں ہار یا جیت کسی ایک فریق کا مقدر ٹھہرتی ہے اور وقت سے کبھی کوئی جیت نہیں سکا۔ یوں جس طرف بھی ہوں اگر وقت سے پنجہ آزمائی شروع کر دی تو نقصان اپنا ہی ہو گا۔
زندگی کو کھیل سمجھ کر اس سے کھیلنے والے اپنے تئیں کتنے ہی محتاط کیوں نہ ہوں کھیلتےکھیلتے چپکے سے ہار بھی جاتے ہیں اور کبھی ہارتے ہارتے اچانک جیت سکتے ہیں۔ اس کھیل تماشے میں سے اپنا اصل سبق تلاش کرنا اور اصل امتحان میں کامیابی کے لیے اس کو ازبر کرنا اشد ضروری ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ تلاش کا عمل جتنا جلد شروع ہو جائے اُتنا وقت تیاری کے لیے مل جائے گا ۔ورنہ اکثر یوں ہوتا ہے کہ جیسے ہی سبق سمجھ آنے لگتا ہے۔۔۔اس کھیل تماشے کاسرا ملنے کا امکان پیداہوتا ہےتوساتھ ہی امتحان کا پہلا مرحلہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔
 زندگی شطرنج کا کھیل ہی تو ہے۔اہم یہ نہیں کہ ہرچال کامیابی سے چل کر دوسرے کو مات دیتے رہیں۔اہم یہ ہے کہ آخری چال میں کون کس کو شہ مات دیتا ہے۔ کامیاب وہی ہے جو اپنی حد تک چال چلنے کے بعد آخری چال کے لیے تقدیر کے فیصلے کا انتظار کرے اور پھر اس کو من وعن تسلیم کرنے کا حوصلہ بھی رکھے خواہ وہ اس کے حق میں دکھائی نہ بھی دیتا ہو۔
 اصل ہنر ساری چالیں جانتے ہوئے۔۔۔اُن پراپنا اختیار رکھتے ہوئے پھر بھی کوئی چال چلنے میں پہل نہ کرنا ہے۔

1 تبصرہ:

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...