وہ برسوں سے لکھ رہی تھی پہلے کبھی کبھار لکھتی پھر لکھنا اُس کی ضرورت بنتا گیا۔۔۔آکسیجن کی طرح.جب آکسیجن کی طلب حد سے بڑھ جاتی اورسانس لینا محال ہو جاتا تو وہ کاغذ کے آکسیجن ٹینٹ میں ذرا دیر کو پناہ لے لیتی۔۔۔ یہی بہت تھا نہ مزید خواہش اور نہ کھلی فضا کی چاہ ۔ زندگی اسی طرح گزرتی جا رہی تھی ۔۔۔ پُرسکون۔۔۔ بہتے پانی کی مانند۔ گو اندازہ تو تھا کہ ان پانیوں کی گہرائی میں کہیں کوئی سونامی سانس لیتا ہے لیکن اُس سے خوف نہ آتا ۔ سوچ کی روانی میں جب تعطل آنے لگا اور لہریں بے ترتیب ہونے لگیں تو سونامی کی گرفت بھی محسوس ہوئی یوں کہ آکسیجن ٹینٹ بھی کارگرثابت نہ ہوا۔ پھر ہاتھ قلم بن گئےاور وقت کم پڑ گیا۔
یہ صرف ڈیمانڈ اورسپلائی کا کھیل تھا۔ ڈیمانڈ بڑھی تو راستہ خود ہی مل گیا۔۔۔ پھر دروازے یوں کھلے کہ نگاہ ایک منظر سے سَیر نہ ہو پاتی کہ اگلا منظر سامنے آ جاتا ۔ وہ تتلی جو اپنے آپ کو بند مٹھی کی قید میں محسوس کرتی تھی طاقت ِپرواز ملی تو ڈال ڈال مہکنے لگی ۔ اپنے رنگوں کو جانا تو ہرمنظر رنگین دکھنے لگا۔
آکسیجن ٹینٹ سے باہر کھلی فضا میں سانس لینا دُنیا کا خوبصورت ترین تجربہ تھا جس نے اُسے نہال کردیا ۔ وہ نگاہوں کی ہوس سے لاپرواہ اپنا آپ بچاتی بس اُڑنا چاہتی تھی۔۔۔ اُن فضاؤں میں دور تک ۔۔۔ جو اُس کی پہنچ سے دُورتو تھیں پرآوازیں دیتی تھیں۔۔۔سرگوشیاں کرتی تھیں۔۔۔ پاس بلاتی تھیں۔۔۔اُن سرزمینوں کے۔۔۔ جن پر ابھی کسی کے قدموں کے نشان نہیں اُترے تھے۔ سفر لامحدود تھا اور قوت ِپرواز محدود۔
بس اجنبی دیس کو چھونے کی لذت تھی جو شوق ِسفر کو مہمیزکرتی تھی۔ وہ بے خبرتتلی جان کر بھی جاننا نہیں چاہتی تھی کہ ہر لمس اس قابل کہاں کہ اُسے چھوا جا سکے۔ تقدیر کے کھردرے لمس کو محسوس کرتی وہ حالت ِسفر میں تھی اور اپنی خواہشوں کے نگرمیں تھی جس کی وہ ملکہ تھی بلا شرکت غیرے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں