اگر ایک کائنات ہمارے سامنے ہے تو ایک کائنات ہمارے وجود کے اندر بھی ہے۔ جس طرح باری تعالٰی کی تخلیق کردہ کائنات کے سامنے ہماری حیثیت ذرے سے بھی کمتر ہے اسی طرح ہمارے اندر کی کائنات کے سامنے ہمارا ظاہراس کی ایک معمولی سی جھلک ہے۔
حقیقت اورتخیل جسم وروح کی مانند ہیں۔ جسم کتنا ہی روح کی موجودگی سے انجان ہو لیکن اُس کے سب رنگ زندگی کی ہر چمک دمک صرف اور صرف روح کے دم سے ہے۔ روح کا احساس ہونا اپنے آپ کو اس کے سپرد کر دینا اہم نہیں بلکہ روح کو اُس کا جائز مقام دینا ۔۔۔اُس کی پاکیزگی کو سمجھنا اہم ہے۔
زندگی کی حقیقت پہلےتخیل کی صورت دماغ کے کاغذ پر نقش ہوتی ہے پھر عمل کے پیرہن میں ڈھل کر تلاش کا سفر آگے بڑھتا ہے۔خیال تخیل کے سمندر میں لہروں کی مانند ہوتا ہے۔جو لہر ایک بار آ کر چلی جائے وہ دوبارہ کبھی نہیں ملتی۔تخیل سے نکل کر توکل اور یقین کے سمندر میں ڈوبنے والا"درحقیقت اپنی مایوسی کو خود ساختہ "صبروقناعت" کا لبادہ پہنا دیتا ہے اسی لیے ڈوب جاتا ہے۔ اصل ہنر تیرنا اور ڈوبتے ہوؤں کو بچانا ہے۔ ساحل پر پہنچنا یا نہ پہنچنا قسمت کا کھیل ہے۔
تخیل اورحقیقت بظاہر دو متضاد رویے ہیں لیکن حقیقت کے بغیرتخیل محض فریب ِنظر ہے۔ اسی طرح حقیقت میں جب تک
تخیل کی آمیزش نہ ہو زندگی چلتی تو رہتی ہے لیکن لگے بندھے اصولوں پر۔۔۔میدان ِجنگ میں ہارے ہوئے سپاہیوں کی طرح۔۔۔ سرجھکا کر دوسروں کے قدموں میں ہتھیار ڈال کر۔۔۔ لڑنے سے پہلے شکست تسلیم کرکے۔۔۔اپنی صلاحیت آزمائے بغیر ہار مان کر۔دوسری طرف اگر حقیقت کو فراموش کر کے صرف تخیل کو ہی پروان چڑھایا جائےتو اس کا خمار یوں اپنی گرفت میں لیتا ہے کہ پھر آنکھ بند ہو یا کھلی۔۔۔ حقیقت کبھی دکھائی نہیں دیتی ۔ تاریخ میں بکھری کئی داستانیں تخیل کے اسی بے مہار آسیب کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ جن کے سیاق وسباق سے واقفیت نہ ہوتے ہوئے بھی ہم صرف چند الفاظ میں پوری کہانی جانچ لیتے ہیں۔۔۔۔۔جیسے!"روم جل رہا تھا اورنیرو بانسری بجا رہا تھا"۔۔۔چنگیز خان کے بغداد پر حملے۔۔۔ ہزاروں کتب خانوں کو نذزِآتش کرنا۔۔۔ جن کی راکھ سے دجلہ کا پانی کالا ہو گیا تھا۔۔۔کھوپڑیوں کے مینار بنانے کے وقت۔۔۔اہلِ بغداد کی سوچ کا محوریہ تھا 'کوا حلال ہے یا حرام' اور"سوئی کی نوک پر فرشتہ اُترسکتا ہے یا نہیں"۔ اسی طرح بہت قریب اپنی تاریخ دیکھی جائے تو 1857ء میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے وقت80 سالہ تاجدارِدہلی ۔ ایک حساس شاعر "بہادر شاہ ظفر" کے نزدیک سب سے اہم مسئلہ صرف اورصرف اپنی جان بچانا تھا اوراسی شرط پرانگریزبہادرکے سامنے 80 ہزارجان نثاروں کے ہوتے ہوئے بھی ملک بدر ہونا قبول کرلیا۔
تخیل تخلیق کی بنیاد تونہیں لیکن اُس کی بناوٹ میں اس کی اہمیت ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے۔تخلیق میں اگرتخیل کا تاثر دکھائی نہ دے تو وہ بےرنگ تصویر کی طرح موجودگی کا احساس تو دلاتی ہے لیکن نظروں کو اپنی طرف مائل نہیں کرسکتی۔
تخیل کی بے پناہ کشش کا دائرہ حقیقی سے غیر حقیقی تخیل تک پھیلا ہوا ہے۔حقیقی تخیل اگر اپنی زندگی کے اس پاس بکھرے رنگوں کو سمیٹ کر تخلیق میں جلوہ گر ہوتا ہے توغیرحقیقی تخیل انسان کو کوہ قاف کی جادونگری میں لے جاتا ہے۔۔۔ ٹارزن کی صورت جنگلوں کے عشق میں مبتلا کر دیتا ہے۔۔۔جدید دور کے منطقی سوچ رکھنے والے ذہنوں کو سائنس فکشن کی صورت مسمرائز کرتا ہے۔۔۔ تو کہیں "ہیری پورٹر"سیریز کے خمار میں بھی مبتلا کر دیتا ہے۔
ہرچیز کی طرح تخیل چاہے حقیقی ہو یا غیر حقیقی اس کے مثبت اور منفی پہلو بھی ہیں۔زیارتی ہر چیزکی نقصان دہ ہے۔ حقائق کی گہرائی کو چھو کر نظر آنے والا تخیل خطرناک حد تک تلخ بھی ہو سکتا ہے یا کیف ولذت کی انتہا تک پہنچا کر ایک نشے کی طرح اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔غیرحقیقی تخیل اگرانسان کو خوابوں کی دُنیا کا مکین بنا کر اُس کے اپنے رنگوں کی چمک معدوم کر سکتا ہےتوکبھی اُس کے رنگ میں اپنے رنگ یوں مل جاتے ہیں کہ پھر تخیل اورحقیقت میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ نثرمیں آپ بیتی کو افسانوں کی شکل میں بیان کیا جا سکتا ہے تو نظم میں عشق ِمجازی کے پردے میں اسباق ِزندگی سےلے کرعشق ِحقیقی کے اسرارورموز اشارے کنائے میں بخوبی سمیٹے جا سکتے ہیں۔ایسی ہی شاعری لازوال ٹھہرتی ہے۔۔۔یوں تخیل اورحقیقت کے ملاپ سے شاہکار ادب تخلیق پاتا ہےلیکن اُس کو حقیقی زندگی کا عکس ماننا پڑھنے والوں کے لیے جتنا مشکل ہے اُس سے زیادہ اعتراف کا حوصلہ لکھنے والے کو درکار ہوتا ہے۔
!آخری بات
حقیقت اورتخیل کے ملاپ کے بعد جب لفظ کاغذ پر اترتا ہے تو قاری کی ذہنی پختگی اور معاشرے کی اقدار اس کی "مقبولیت اورقبولیت" کا تعین کرتی ہیں۔ لکھنے والے کے لیے اپنی سوچ کا اظہار سب سے بڑی کمائی ہے۔اس 'کمائی'کو ماننا اصل امتحان بھی ہے۔ بیشتر لکھنے والے زندگی کی ناقدری اور محرومیوں کی مثال بن کر دُنیا سے ایک مایوسی کے عالم میں رخصت ہوتے ہیں۔
حرف وہی زندہ رہتا ہے جو دل سے لکھا جائے اوردلوں تک رسائی حاصل کر لے چاہے وہ لایعنی تخیل ہو یا پھرسفاک حقیقت کا عکس۔اردو ادب میں اعتراف ِحقیقت کی بلند آہنگ آواز "علی پورکا ایلی" (سالِ اشاعت 1962) ہے اورتقریباً تیس برس بعد "الکھ نگری" میں "ممتاز مفتی" نے اس کا اظہار یوں کیا۔
ممتاز مفتی۔۔۔" علی پورکا ایلی میں میں نے جان بوجھ کرادب کا ذکر نہیں کیا تھا۔ مجھے یہ ڈرتھا کہ بھید نہ کھل جائے، قاری کو پتہ نہ چلے کہ یہ ناول نہیں بلکہ خود نوشت ہے۔ علی پور کا ایلی میں میں نے اپنے غلیظ پوتڑے چوک میں بیٹھ کر دھوئے تھے، لیکن مجھ میں اتنی جرات نہ تھی کہ اپنی حماقتوں، غلاظتوں، کمیوں ، کجیوں کو اپناؤں۔اب جبکہ بات کھل چکی ہے کہ علی پور کا ایلی میری سوانح حیات ہے اور میں اپنی آپ بیتی کا دوسرا حصہ لکھ رہا ہوں، تو مناسب ہے کہ میں ادب کے متعلقہ کوائف کو تحریر میں لے آؤں۔میرے دل میںکبھی آرزو پیدا نہ ہوئی تھی کہ ادیب بنوں میرے دل میں کبھی یہ خیال پیدا نہیں ہوا تھاکہ میں اردو میں لکھنے کا شغل اپناؤں گا"۔
خطاطی بشکریہ جناب "سجاد خالد
حقیقت اورتخیل جسم وروح کی مانند ہیں۔ جسم کتنا ہی روح کی موجودگی سے انجان ہو لیکن اُس کے سب رنگ زندگی کی ہر چمک دمک صرف اور صرف روح کے دم سے ہے۔ روح کا احساس ہونا اپنے آپ کو اس کے سپرد کر دینا اہم نہیں بلکہ روح کو اُس کا جائز مقام دینا ۔۔۔اُس کی پاکیزگی کو سمجھنا اہم ہے۔
زندگی کی حقیقت پہلےتخیل کی صورت دماغ کے کاغذ پر نقش ہوتی ہے پھر عمل کے پیرہن میں ڈھل کر تلاش کا سفر آگے بڑھتا ہے۔خیال تخیل کے سمندر میں لہروں کی مانند ہوتا ہے۔جو لہر ایک بار آ کر چلی جائے وہ دوبارہ کبھی نہیں ملتی۔تخیل سے نکل کر توکل اور یقین کے سمندر میں ڈوبنے والا"درحقیقت اپنی مایوسی کو خود ساختہ "صبروقناعت" کا لبادہ پہنا دیتا ہے اسی لیے ڈوب جاتا ہے۔ اصل ہنر تیرنا اور ڈوبتے ہوؤں کو بچانا ہے۔ ساحل پر پہنچنا یا نہ پہنچنا قسمت کا کھیل ہے۔
تخیل اورحقیقت بظاہر دو متضاد رویے ہیں لیکن حقیقت کے بغیرتخیل محض فریب ِنظر ہے۔ اسی طرح حقیقت میں جب تک
تخیل کی آمیزش نہ ہو زندگی چلتی تو رہتی ہے لیکن لگے بندھے اصولوں پر۔۔۔میدان ِجنگ میں ہارے ہوئے سپاہیوں کی طرح۔۔۔ سرجھکا کر دوسروں کے قدموں میں ہتھیار ڈال کر۔۔۔ لڑنے سے پہلے شکست تسلیم کرکے۔۔۔اپنی صلاحیت آزمائے بغیر ہار مان کر۔دوسری طرف اگر حقیقت کو فراموش کر کے صرف تخیل کو ہی پروان چڑھایا جائےتو اس کا خمار یوں اپنی گرفت میں لیتا ہے کہ پھر آنکھ بند ہو یا کھلی۔۔۔ حقیقت کبھی دکھائی نہیں دیتی ۔ تاریخ میں بکھری کئی داستانیں تخیل کے اسی بے مہار آسیب کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ جن کے سیاق وسباق سے واقفیت نہ ہوتے ہوئے بھی ہم صرف چند الفاظ میں پوری کہانی جانچ لیتے ہیں۔۔۔۔۔جیسے!"روم جل رہا تھا اورنیرو بانسری بجا رہا تھا"۔۔۔چنگیز خان کے بغداد پر حملے۔۔۔ ہزاروں کتب خانوں کو نذزِآتش کرنا۔۔۔ جن کی راکھ سے دجلہ کا پانی کالا ہو گیا تھا۔۔۔کھوپڑیوں کے مینار بنانے کے وقت۔۔۔اہلِ بغداد کی سوچ کا محوریہ تھا 'کوا حلال ہے یا حرام' اور"سوئی کی نوک پر فرشتہ اُترسکتا ہے یا نہیں"۔ اسی طرح بہت قریب اپنی تاریخ دیکھی جائے تو 1857ء میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے وقت80 سالہ تاجدارِدہلی ۔ ایک حساس شاعر "بہادر شاہ ظفر" کے نزدیک سب سے اہم مسئلہ صرف اورصرف اپنی جان بچانا تھا اوراسی شرط پرانگریزبہادرکے سامنے 80 ہزارجان نثاروں کے ہوتے ہوئے بھی ملک بدر ہونا قبول کرلیا۔
تخیل تخلیق کی بنیاد تونہیں لیکن اُس کی بناوٹ میں اس کی اہمیت ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے۔تخلیق میں اگرتخیل کا تاثر دکھائی نہ دے تو وہ بےرنگ تصویر کی طرح موجودگی کا احساس تو دلاتی ہے لیکن نظروں کو اپنی طرف مائل نہیں کرسکتی۔
تخیل کی بے پناہ کشش کا دائرہ حقیقی سے غیر حقیقی تخیل تک پھیلا ہوا ہے۔حقیقی تخیل اگر اپنی زندگی کے اس پاس بکھرے رنگوں کو سمیٹ کر تخلیق میں جلوہ گر ہوتا ہے توغیرحقیقی تخیل انسان کو کوہ قاف کی جادونگری میں لے جاتا ہے۔۔۔ ٹارزن کی صورت جنگلوں کے عشق میں مبتلا کر دیتا ہے۔۔۔جدید دور کے منطقی سوچ رکھنے والے ذہنوں کو سائنس فکشن کی صورت مسمرائز کرتا ہے۔۔۔ تو کہیں "ہیری پورٹر"سیریز کے خمار میں بھی مبتلا کر دیتا ہے۔
ہرچیز کی طرح تخیل چاہے حقیقی ہو یا غیر حقیقی اس کے مثبت اور منفی پہلو بھی ہیں۔زیارتی ہر چیزکی نقصان دہ ہے۔ حقائق کی گہرائی کو چھو کر نظر آنے والا تخیل خطرناک حد تک تلخ بھی ہو سکتا ہے یا کیف ولذت کی انتہا تک پہنچا کر ایک نشے کی طرح اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔غیرحقیقی تخیل اگرانسان کو خوابوں کی دُنیا کا مکین بنا کر اُس کے اپنے رنگوں کی چمک معدوم کر سکتا ہےتوکبھی اُس کے رنگ میں اپنے رنگ یوں مل جاتے ہیں کہ پھر تخیل اورحقیقت میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ نثرمیں آپ بیتی کو افسانوں کی شکل میں بیان کیا جا سکتا ہے تو نظم میں عشق ِمجازی کے پردے میں اسباق ِزندگی سےلے کرعشق ِحقیقی کے اسرارورموز اشارے کنائے میں بخوبی سمیٹے جا سکتے ہیں۔ایسی ہی شاعری لازوال ٹھہرتی ہے۔۔۔یوں تخیل اورحقیقت کے ملاپ سے شاہکار ادب تخلیق پاتا ہےلیکن اُس کو حقیقی زندگی کا عکس ماننا پڑھنے والوں کے لیے جتنا مشکل ہے اُس سے زیادہ اعتراف کا حوصلہ لکھنے والے کو درکار ہوتا ہے۔
!آخری بات
حقیقت اورتخیل کے ملاپ کے بعد جب لفظ کاغذ پر اترتا ہے تو قاری کی ذہنی پختگی اور معاشرے کی اقدار اس کی "مقبولیت اورقبولیت" کا تعین کرتی ہیں۔ لکھنے والے کے لیے اپنی سوچ کا اظہار سب سے بڑی کمائی ہے۔اس 'کمائی'کو ماننا اصل امتحان بھی ہے۔ بیشتر لکھنے والے زندگی کی ناقدری اور محرومیوں کی مثال بن کر دُنیا سے ایک مایوسی کے عالم میں رخصت ہوتے ہیں۔
حرف وہی زندہ رہتا ہے جو دل سے لکھا جائے اوردلوں تک رسائی حاصل کر لے چاہے وہ لایعنی تخیل ہو یا پھرسفاک حقیقت کا عکس۔اردو ادب میں اعتراف ِحقیقت کی بلند آہنگ آواز "علی پورکا ایلی" (سالِ اشاعت 1962) ہے اورتقریباً تیس برس بعد "الکھ نگری" میں "ممتاز مفتی" نے اس کا اظہار یوں کیا۔
ممتاز مفتی۔۔۔" علی پورکا ایلی میں میں نے جان بوجھ کرادب کا ذکر نہیں کیا تھا۔ مجھے یہ ڈرتھا کہ بھید نہ کھل جائے، قاری کو پتہ نہ چلے کہ یہ ناول نہیں بلکہ خود نوشت ہے۔ علی پور کا ایلی میں میں نے اپنے غلیظ پوتڑے چوک میں بیٹھ کر دھوئے تھے، لیکن مجھ میں اتنی جرات نہ تھی کہ اپنی حماقتوں، غلاظتوں، کمیوں ، کجیوں کو اپناؤں۔اب جبکہ بات کھل چکی ہے کہ علی پور کا ایلی میری سوانح حیات ہے اور میں اپنی آپ بیتی کا دوسرا حصہ لکھ رہا ہوں، تو مناسب ہے کہ میں ادب کے متعلقہ کوائف کو تحریر میں لے آؤں۔میرے دل میںکبھی آرزو پیدا نہ ہوئی تھی کہ ادیب بنوں میرے دل میں کبھی یہ خیال پیدا نہیں ہوا تھاکہ میں اردو میں لکھنے کا شغل اپناؤں گا"۔
خطاطی بشکریہ جناب "سجاد خالد
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں