گھر قبر پرنہ بناؤ اور نہ ہی کبھی کسی قبر پر کوئی گھربن سکا ہے۔سنگ مرمر سے بنا تاج محل مٹی کی قبر کا تو امین ہوسکتا ہے لیکن قبر پر تاج محل تو کیا مٹی کا گھروندا بھی تعمیر نہیں کیا جاسکتا۔ہماری خواہشیں مٹی سے بنے فانی جسم میں جنم لیتی ہیں اورمٹی سے ملاپ کی حسرت لیے مٹی میں ہی جذب ہو جاتی ہیں۔تخیل اور تصور کے بلندوبالا خوبصورت تاج محل انسان کے دستِ طلب کا نوحہ بن کر انسان کے ساتھ ہی دفن ہوجایا کرتےہیں۔
گھر کی تعمیر میں بنیاد سب سے پہلے اہمیت کی حامل ہے بجا کہ یہ بنیاد مٹی سے بڑھ کرکہیں سے نہیں مل سکتی۔بہتے پانی پر گھر بن تو جاتے ہیں لیکن ڈانواں ڈول ہی رہتے ہیں جبکہ ریت پر بنے گھر ہرلمحے قدموں تلے زمین سرکنے کے خدشے کی وجہ سے لرزتے رہتے ہیں۔قبر چاہے ارمانوں کی ہو۔۔۔ خواہشوں کی۔۔۔یا پھرانسان کے مردہ جسم کی۔۔۔ یاد کے آنسوؤں سے تر رہے۔۔۔احساس کی لرزش سے مہکتی رہے۔۔۔ 'سب فانی ہے' کے یقین سے قائم رہے تو ہی زندگی کی گاڑی کا پہیہ رواں رہتا ہے۔
قبر حق ہے اور زندگی کا سب سے اہم سبق ہےجب تک اس پرایمان نہ ہو اورسمجھنے کا سلیقہ نہ آئے تب تک مایوسی،بےچینی ،بغاوت سراُبھارتی رہتی ہے۔اگر یہ خلش اپنی انتہا تک پہنچ جائے تو انسان فطرت کے خلاف چل پڑتا ہے۔قبروں پر گھر بنانے کی خواہش طلب کا روپ دھار لیتی ہے۔ ان جانے میں قبروں پر بنائے جانے والے گھر یا تو ہمہ وقت ناآسودہ خواہشات کے طوفانوں میں گھرے رہتے ہیں اوریا اُن میں انسانوں کے ساتھ آسیب بھی بسیرا کرلیتے ہیں۔ پھروقت ہی فیصلہ کرتا ہے کہ کون سا مکین طاقتور ہے۔وقت کے اس فیصلے سے پہلے اپنی اہلیت کا ذرہ برابر بھی ادراک ہو جائے تو بہت سی الجھنوں سے نجات مل جاتی ہے۔
مکان کا ربط مکینوں سے ہے تو گھر رشتوں کے ستونوں پر قائم ہوتے ہیں۔کبھی گھر بن جائے تو مکان نہیں بن پاتا اورکہیں مکان بن جائے تو گھر بکھرجاتے ہیں۔اینٹ گارے سے بنے مکان کی چاردیواری گھر کے مکینوں کے مابین کمزور پڑتے رشتوں اورتعلقات کی دراڑوں کے سامنے پردے کا کام دیتی ہے تو باہر سے گزرنے والوں کے حسد یا تاسف کی تکلیف دہ سنگ باری سے بھی پناہ میں رکھتی ہے۔دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ خاندان کے باہمی اعتماد کے سائے اور محبتوں کی مہکتی مٹی میں گوندھے زندہ گھر کو بھی مکان کا تحفظ نہ ملے تو مٹی میں احساس کی نمی خشک ہونے میں دیر نہیں لگاتی اور بُھربھرے ہوتے تعلق ہوا کے خفیف سے جھونکے میں پرواز کو مچلتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں