جمعرات, اگست 25, 2016

"آٹوگراف...مٹتی یادیں"


 
یہ لفظ کے رشتے بھی عجیب ہوتے ہیں۔۔۔۔عمر،مرتبہ،مقام،زبان، اور جنس کے فرق سے ماورا۔ہمارے جسمانی رشتے اور جذباتی تعلق اگر  ہمارے وجود کو تحفظ دیتے ہیں،ہمارا اپنے آپ پر اور محبتوں پراعتماد بحال کرتے ہیں تو لفظ سے جڑے رشتے ہمیں زندگی کا ایسا رُخ دکھاتے ہیں جس میں نہ صرف زندگی کی رنگینیاں اور خوشبوئیں دم بخود کرتی ہیں بلکہ زندگی کی تلخیوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی ملتا ہے۔لفظ کے یہ تعلق اگر ہنساتے ہیں تو ہمارے آنسو بھی جذب کرتے ہیں۔دنیا کی زندگی جینا سکھاتے ہیں تو زندگی کے رازبھی  آشکار کرتے  ہیں۔
ڈھلتی عمر کی بےآواز بارشیں اپنے ساتھ بیت چکے موسموں کے کچے جذبوں اور جگنو خوابوں کوبڑی آہستگی سے بہا لے جاتی ہیں ۔ایسے ہی خوابوں کی امین میری بھوری ڈائری پچھلے پینتیس برس سے میرے ہر ہر دور کے احساس کی گواہ ہے اور دنیا کی فانی کمائی کا بہت قیمتی تحفہ۔یہ قیمتی ڈائری میرے حوالے سے ہی نہیں بلکہ ان لوگوں کے حوالے سے ہے جن سے میں زندگی میں پہلی اور شاید آخری بار ملی لیکن لفظ کی صورت اُن کا لمس اُن کے وجود کی گواہی بن کر ٹھہر گیا۔لفظ ِ،خیال اور سوچ سے محبت کے سفر میں برسوں سے لفظ کی خوشبو کاغذ میں بکھیرنے والوں کے لمس کو ان کے دستخظ کی صورت محفوظ کرتی چلی جا رہی ہوں اس طویل سفر میں جب جب علم وادب،اورفن کی دنیا کے بڑے ناموں اور اسلوبِ زبان وبیاں کی قدآور شخصیات کی ایک جھلک دیکھنے کا موقع ملا میں نے خاموشی سے اپنی ڈائری  بڑھا دی۔ یہ آٹوگراف  محض کسی فرد کے دستخط ہی نہیں بلکہ اس  شخصیت کے طرزِفکرکے عکاس  بھی ہیں،دستخط کے ساتھ لکھے اشعار اور اقوال ہمیں  صاحبِ تحریر کی لکھائی اور  اسلوب کی  جھلک دکھلاتے ہیں۔ 
یوں تو ہر آٹوگراف کی اپنی کہانی ہےاور ہر کہانی خاص ہے۔لیکن کچھ تو بہت ہی خاص  ہیں جیسے۔۔۔
 ٭جناب مستنصرحسین تارڑ سے لیا گیا آٹوگراف جس کی روداد لکھتے ہوئے سوچ اُونی سویٹر کی طرح ادھڑتی چلی گئی اور لفظوں کے پیکر میں محفوظ ہو گئی۔ جناب مستنصرحسین تارڑ  سے آٹوگراف لینا گویا میری قلم کہانی کا اسم اعظم ثابت ہوا ۔ 
٭ جناب رضاعلی عابدی کا آٹوگراف یوں بہت خاص ہے کہ وہ  صرف اور صرف اردو میں ہی  آٹوگراف دیتے ہیں اور  میری"فرمائش" پر ازراہِ مہربانی  انگریزی میں بھی آٹوگراف دیا،اور کہنے لگے کہ انگریزی کے دستخط بنک  اور دفتری   امورتک ہی محدود ہیں۔
 بدیس میں اردوکا پرچم بلند کرنے والے۔۔۔اردولکھنے،اردو بولنے سےعشق کرنے والے اوراردونظم ونثر کا تاریخی ورثہ منظم انداز میں عام لوگوں کے حوالے کرنے والے اس سادہ انسان کی عاجزی کمال تھی۔ اُن سے پہلی بار مل کر ایسا لگا جیسے پہلی بار سے پہلے بھی مل چکی ہوں۔ جناب رضا علی عابدی کی منکسرالمزاجی اوراپنائیت ذہن میں آنے والا ہر سوال پوچھنے پراُُکساتی۔۔۔ میں بھی کتاب اوراُس کےلکھاری کی سنگت کے خمار میں بےدھڑک سب کہہ دیتی ۔
٭ایک ہی صفحے پر28 برس کے  فرق کے  "معمولی" سے عرصے کے بعد جناب عطاالحق قاسمی کے بہت خاص دو آٹوگراف ہیں۔ جن میں سے ایک اُن کے ہاتھ سے لکھے شعر کے ساتھ مارچ 1986 کا ہے تو دوسرا 28 برس بعد اپریل 2014 کو لیا گیا۔
٭سب سے خوبصورت وہ صفحہ ہے جس میں "جیوے جیوے پاکستان”کے لازوال جملے کے ساتھ جناب جمیل الدین عالی کے دستخط ہیں۔۔۔اسی ورق پر تقریباً 29 برس بعد ان کے بیٹے جناب راجو جمیل کے دستخط بھی لیے جو سال 2015 کے اسلام آباد ادبی میلے میں ملے اوراسی لمحے جناب راجو جمیل نے اپنے ابا کو دکھانے کے لیےاپنے فون میں وہ صفحہ کلک کر لیا۔نہیں جانتی کہ وہ اپنے ابا کو دکھانے میں کامیاب بھی ہوئے یا نہیں کہ اسی سال 23 نومبر 2015 کو محترم جمیل الدین عالی نوے برس کا سفرِ زندگی طے کرنے کے بعد مالکِ حقیقی سے جا ملے۔اللہ محترم کی مغفرت فرمائے آمین۔
ایک خلش!۔
اس فہرست میں جناب ممتازمفتی ،اشفاق احمد،احمد فراز کےنام نہیں جن کے لفظ کی خوشبو تو اپنے بہت قریب محسوس کی لیکن نظر اُن کی قربت سے آشنا نہ ہو سکی۔

میں لمحۂ موجود تک اپنے سب پسندیدہ شعراء سے ملی،اُن کو قریب سے دیکھا ،اُن کے لفظ کو ان کے لہجے میں محسوس کیا ،اُن سے آٹوگراف لیے لیکن  احمد فراز سے نہ مل سکی۔ 80 کی دہائی میں وہ خود ساختہ جلاوطن تھے اورمیں   صدی کی  آخری  دہائی میں لفظ کی دنیا سے قطعی آؤٹ۔ جہاں ایک شدید تشنگی کا احساس ہے وہیں سکون بھی کہ شاید اچھا ہی ہوا جو ہوا اور ان کا جادواثر بُت ان چھوا رہا۔ اگرچہ لفظ اور خیال کے خوبصورت پیکر میں ڈھلا وہ بُت اتنا مکمل دکھتا تھا کہ شاید ان کی شخصیت اس میں دراڑ نہ ڈال سکتی۔لیکن یہ بھی حق ہے کہ بُت ٹوٹنے کے لیے ہی ہوتے ہیں۔ اگر اس میں ذرا سی بھی خراش آ جاتی تو بہت کچھ بکھر سکتا تھا۔ بس میری ڈائری میں اُن کے ہاتھ کا لمس نہ ہونےکی اداسی یا ایک خلش سی ہے۔ ڈائری مکمل کرنے کی چاہ میں بہت بار اُن سے ملنے کا سوچا لیکن صرف سوچ سے کیا ہوتا ہے۔اُن کے جانے کے بعد جب ساری امید ختم ہو گئی تو ڈائری بہلانے کو اُن کے دستخط کا عکس کورے صٖفحے میں یاد کی گوند سے چپکا دیا۔ جانتی ہوں ڈائری میں محفوظ یادیں خوشبو دار پھول کی طرح ہی ہوتی ہیں جنہیں رکھتےتو بہت شوق سے ہیں لیکن بعد میں صرف یاد کے بھولے بسرے داغ ہی ملتے ہیں۔ لیکن پھر بھی خوش ہوں کہ لفظ کی خوشبو سے مہکتی ڈائری میں احمد فراز کا نام پہلے صفحے پر جگمگایا تو ان کا لمس کہیں سے کسی طور تو ملا۔
حرفِ آخر
لفظ کے تعلق ہماری روح کی تسکین کرتے ہیں بجا کہ ہماری جسمانی کمیوں اور تشنگی کو سہارنے میں مہربان ساتھ ثابت ہوتے ہیں لیکن ظاہری طور پر ہمارے وجود میں پیوست ایک معمولی سی پھانس بھی نکالنے پر قادر نہیں ہوتے۔ہم انجانے میں اپنے جیسے انسانوں کو مشکل کشا سمجھ بیٹھتے ہیں یا پھر افعال وکردار کے لحاظ سے فرشتہ تصور کر لیتے ہیں۔یوں اکثر جب بُت ٹوٹے ہیں تو اس میں سراسر قصور ہمارا ہی ہوتا ہےجو ہم کبھی نہیں مانتے۔ اہم یہ ہے کہ لفظ کے رشتے لفظ تک ہی محدود رہنے چاہیں اور یاد رہے کہ ہر ایک اپنی سوچ اور ظرف کے مطابق نہ صرف اپنے اثاثوں کی پہچان رکھتا ہے بلکہ اُن کے اسی طورسنبھالنے کا ہنر جانتا ہے۔ 
پروین شاکر ۔۔۔۔
ہارنےمیں اِک انا کی بات تھی
جیت جانے میں خسارہ اور ہے
امجد اسلام امجد ۔۔۔
یہی بہت ہے کہ دل اس کو ڈھونڈ لایا ہے
کسی کے ساتھ سہی وہ نظر تو آیا ہے
منیرنیازی
خیال جس کا تھا مجھے خیال میں ملا مجھے
سوال کا جواب بھی سوال میں ملا مجھے
انتظارحسین ۔۔
عقیل عباس جعفری۔۔ 
زندہ رہنا عجب ہنر ہے عقیل
اور یہ ہنر عمر بھر نہیں آتا
عطاءالحق قاسمی۔۔۔
شام ہوتے ہی عطا کیوں ڈوبنے لگتا ہے دل
کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے اور ناگہاں ہونے کو ہے۔
مارچ 1986 اور اپریل 2014 



















رضاعلی عابدی


بلاگ لنک : رضا علی عابدی کی کتابیں 

حمید کاشمیری

انورمسعود،طفیل ہوشیار پوری،دلاور فگارعنایت علی خان،نورمحمدہمدم
پروین فناسید،خاطرغزنوی،محمد شیرافضل، محشربدایونی،کلیم عثمانیِ
پروفیسرکرم حیدری،شہزاداحمد،،رضاہمدانی،زہرہ نگاہ،اصغرندیم سید،فاطمہ حسن،،سید ضمیر جعفری،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔


1 تبصرہ:

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...