انسان کائنات کی وجۂ تخلیق ہے۔کائنات کے اسرار پر غور کرنا ہماری اپنی زندگی کے لیے بھی اہم ہے۔اس کاذرہ ذرہ ہمیں کوئی نہ کوئی پیغام دیتا ہے۔آسمان کی پنہائی میں جھانکنےاور زمین کی پرتوں کی سرسراہٹ ماپنے۔۔۔بلندوبالا پہاڑوں کی چوٹیوں کو قدموں تلے روندنے اور سمندروں کی گہرائی میں سانس لیتی مخلوق کی آواز سننے سے لے کر انسان نے کائنات کو کسی حد تک مسخر کرلیا ہےاور مزید کی جُستجو میں آگے بڑھ رہا ہے۔لیکن اتنا کچھ جاننے کے بعد اور اس علم کو بےدریغ پھیلانے سے لے کر ہم اگر اپنے مستقبل سے قطعی لاعلم ہیں تو ماضی میں اپنی زندگی کے پہلے لمحے سے بھی ناواقف ہی رہتے ہیں۔
ہماری زندگی ماضی اور حال کے درمیان سفر کرتے گزر جاتی ہے جس میں مستقبل ایک دھندلکے کی مانند نگاہ رکھے ملتا ہے۔ ہم اپنے ماضی سے تو بخوبی واقف ہوتے ہیں لیکن "صاحبِ حال" ہوتے ہوئے بھی اپنے حال کی بُنت پر ہمارا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔۔ سوال یہ ہے کہ صاحب حال ؟ کیا معنی رکھتا ہے اور یہ حال کیا ہے؟
ہم ہمیشہ سے جانتے ہیں کہ جس پر اس دُنیا میں رہتے ہوئے کسی اور دُنیا کے جلوے آشکار ہو جائیں۔۔۔جو باطن کے سفر پر چل نکلے۔۔۔۔جس کی نگاہ قطرے میں سمندر اور سمندر میں قطرہ دیکھ لے،وہی صاحب حال ہے۔جس کے سامنے دُنیا کی حیثیت مشتِ خاک کے ذرے سے بھی کم ہو وہ صاحبِ حال ہے۔ اور "حال"کے لفظ سے ایک اور طرح سے بھی واقفیت یوں ہوتی ہے کہ جب رات رات بھر جاری رہنے والی سماع کی محفلوں میں ہونے والی "نوٹوں کی بارش " کے سائے میں کوئی بےخود ہو کر ناچنا شروع کر دے یوں کہ تن بدن کا ہوش نہ رہے تو کہتے ہیں کہ اُسے "حال" آ گیا۔اسی طرح عام انسانوں کے عقائد کے مطابق کوئی کسی پاک روح یا بدروح کے زیرِاثرجلال میں آ جائے تو اسے بھی "حال" کہا جاتا ہے۔
ایک عام انسان تو"صاحبِ حال" ہونے جیسی معراج کو چھو سکتا ہے اور نہ ہی "حال"میں آنے جیسے مافوق الفطرت تجربات کا داعی بننے کا سوچ سکتا ہے۔درحقیقت عام زندگی بسر کرنے والا ہر شخص "صاحب ِحال" ہے۔اب یہ اُس"حال" کے احساس کی بات ہے کہ کوئی اُس کا کتنا اثر لیتا ہے اور کس طرح اظہار کرتا ہے۔۔اور صاحبِ حال وہی ہے جس پر وہ کیفیت پہلے سے گزر چکی ہو جو آج کسی اور کے ساتھ پیش آ رہی ہے۔دوسرے لفظوں میں وہ اُس کرب یا اس لذت کو بالکل اِسی طرح محسوس کرے جیسے یہ اُسی کی کہانی ہو۔
مختصر الفاظ میں ہر وہ شخص جواپنے گزر چکے ماضی کے آسیب اور مستقبل کے نامعلوم اندیشوں سے بچتے ہوئے اپنے حال میں
زندگی تلاش کرنے کی جستجو کرے وہی صاحبِ حال کہلانے کا حق دار ہے۔حال پر صاحب حال سے بات اس وقت کرنا چاییے جب وہ ماضی بن جائےلیکن! اپنے آپ کو ہمیشہ حال کے آئینے میں سمجھنا اور جانچنا ہی اصل حقیقت ہے۔
ہماری زندگی ماضی اور حال کے درمیان سفر کرتے گزر جاتی ہے جس میں مستقبل ایک دھندلکے کی مانند نگاہ رکھے ملتا ہے۔ ہم اپنے ماضی سے تو بخوبی واقف ہوتے ہیں لیکن "صاحبِ حال" ہوتے ہوئے بھی اپنے حال کی بُنت پر ہمارا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔۔ سوال یہ ہے کہ صاحب حال ؟ کیا معنی رکھتا ہے اور یہ حال کیا ہے؟
ہم ہمیشہ سے جانتے ہیں کہ جس پر اس دُنیا میں رہتے ہوئے کسی اور دُنیا کے جلوے آشکار ہو جائیں۔۔۔جو باطن کے سفر پر چل نکلے۔۔۔۔جس کی نگاہ قطرے میں سمندر اور سمندر میں قطرہ دیکھ لے،وہی صاحب حال ہے۔جس کے سامنے دُنیا کی حیثیت مشتِ خاک کے ذرے سے بھی کم ہو وہ صاحبِ حال ہے۔ اور "حال"کے لفظ سے ایک اور طرح سے بھی واقفیت یوں ہوتی ہے کہ جب رات رات بھر جاری رہنے والی سماع کی محفلوں میں ہونے والی "نوٹوں کی بارش " کے سائے میں کوئی بےخود ہو کر ناچنا شروع کر دے یوں کہ تن بدن کا ہوش نہ رہے تو کہتے ہیں کہ اُسے "حال" آ گیا۔اسی طرح عام انسانوں کے عقائد کے مطابق کوئی کسی پاک روح یا بدروح کے زیرِاثرجلال میں آ جائے تو اسے بھی "حال" کہا جاتا ہے۔
ایک عام انسان تو"صاحبِ حال" ہونے جیسی معراج کو چھو سکتا ہے اور نہ ہی "حال"میں آنے جیسے مافوق الفطرت تجربات کا داعی بننے کا سوچ سکتا ہے۔درحقیقت عام زندگی بسر کرنے والا ہر شخص "صاحب ِحال" ہے۔اب یہ اُس"حال" کے احساس کی بات ہے کہ کوئی اُس کا کتنا اثر لیتا ہے اور کس طرح اظہار کرتا ہے۔۔اور صاحبِ حال وہی ہے جس پر وہ کیفیت پہلے سے گزر چکی ہو جو آج کسی اور کے ساتھ پیش آ رہی ہے۔دوسرے لفظوں میں وہ اُس کرب یا اس لذت کو بالکل اِسی طرح محسوس کرے جیسے یہ اُسی کی کہانی ہو۔
مختصر الفاظ میں ہر وہ شخص جواپنے گزر چکے ماضی کے آسیب اور مستقبل کے نامعلوم اندیشوں سے بچتے ہوئے اپنے حال میں
زندگی تلاش کرنے کی جستجو کرے وہی صاحبِ حال کہلانے کا حق دار ہے۔حال پر صاحب حال سے بات اس وقت کرنا چاییے جب وہ ماضی بن جائےلیکن! اپنے آپ کو ہمیشہ حال کے آئینے میں سمجھنا اور جانچنا ہی اصل حقیقت ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں