پیر, اگست 12, 2013

"سیاسی حمام اور لولی پاپ کی سیاست "

رزق کی تعریف بہت وسیع ہے۔رزق حلال بھی ہوتا ہےاورحرام بھی۔ رزق محنت سے کمایا جاتا ہے تو مال مفت یا مالِ غنیمت کی طرح بےدریغ لٹایا بھی جاتا ہے۔ جو مل جائے اس پر قانع بھی رہا جاتا ہے اور جتنا ملتاجائے اس کی طلب  کبھی کم نہیں ہوتی جو ہوس کا روپ دھار لیتی ہے۔
رزق مالک کی عطا ہے تو بھوک انسان کے کردار اور اُس کی حیثیت کا تعین کرتی ہے.زیادہ تر بھوکے ایسے ہیں جن کے پیٹ بھرے ہیں۔اور سب سے زیادہ غریب وہی ہیں پیسہ جن کے ہاتھ کا میل ہے۔یہی تضاد اکثرکون امیر؟کون غریب؟ کی الجھن میں مبتلا بھی کر دیتا ہے۔
بحیثیت قوم خالی پیٹ۔۔ننگے۔۔جاہل۔۔۔عوام کی بھوک ہمارا مسئلہ نہیں۔ بلکہ بھرے پیٹ کے پڑھے لکھے افراد کی ہوس اصل فساد کی جڑ ہے۔عام عوام کی بھوک اگراخلاقی گراوٹ کی حدوں کو چھو کر قابلِ نفرین اور خلاف خرق اعمال وعادات کو جنم دیتی ہے۔۔۔ تو طبقۂ اشرافیہ کی بےمہار لوٹ ماراُن کی اپنی نسلوں کوحرام کی کمائی وراثت میں دے کر اُن کی رگوں میں  نُطفۂ حرام داخل کر دیتی ہے۔ناسمجھ لوگ نہیں جانتے کہ حرام کا لقمہ وہ گناہ ِجاریہ ہے جو خون میں گردش کر کے اُس کے ثمرات نسلوں تک پھیلا دیتا ہے۔مہذب اقدار کے حامل بھی اپنی 'عقل' کی شہادت کی بنیاد پر اس بہتی گنگا سے ہاتھ دھوئے بغیر نہیں رہ پاتے۔
یہ سیاست دان سب کے سب ہر قسم کی شرم یا کسی بھی قسم کے ڈر خوف کا لباس اتار کر ہی سیاست کے اس شرم ناک حمام میں داخل ہوتے ہیں۔ اور بخوبی جانتے ہی کہ ہم عام عوام ہوں یا پڑھے لکھے دانشور سب کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہیں۔۔۔ بس ان کا رنگ اور ڈھنگ مختلف  ہے کسی کی آنکھ پر جہالت کی ہے تو کہیں مصلحت کی۔ کسی کی آنکھ لالچ و ہوس کی چکاچوند سے بند ہوتی ہے تو کوئی اپنی بزدلی کو قناعت کی بوسیدہ کترنوں میں چھپاتا ہے۔اور میڈیا " سیاہ ست" دانوں کے لیے ان پٹیوں کی فروخت کا قابل اعتماد چرب زبان"۔۔۔"ہے۔اس خالی جگہ کے لفظ  کے لیے کسی "دلیل" کی ضرورت نہیں۔روٹی روزی کی خواری میں ریٹنگ کا عذاب جھیلتے چرب زبان اینکرز عوام کے سامنے لفظوں  کی بُل فائٹنگ میں مصروف ہیں۔آنکھیں پھاڑے عام عوام نہیں جانتے کہ وہ تماش بین نہیں تماشا ہیں،کٹھ پُتلیاں ہیں اور  اُن کے ہاتھوں میں جن کی  اپنی ڈوریاں کسی اور کے پاس  ہیں۔آج کل کی میڈیا سیاست میں نئے سے نئے الفاظ میں مخالف کو زیر کرنا شام کی سب سے بڑی تفریح ہے۔ ایسا ہی ایک لفظ "سونامی" ہے۔۔۔ جو بظاہر ایک استعارے کے طورپرلیا جا رہا ہے جبکہ حقیقی معنوں میں سونامی ایک بھیانک سمندری طوفان ہے جوجمی جمائی بستیاں پل میں اُجاڑ دیتا ہے۔ ہمارے یہاں سونامی کے آنے جانے کا یوں ذکر ہوتا ہے جیسے کوئی معزز مہمان آنے والا ہے جو ہمارے سارے دکھ درد دورکر دے گا۔ دکھ ہے تو صرف یہ کہ آج ہم اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ معاشی معاشرتی استحصال تو برسوں سے جاری تھا اب ہمارا جذباتی استحصال بھی شروع ہو چکا ہے بلکہ استحصال تو بہت معمولی لفظ ہے یہ سیاست دانوں اور اہلِ اقتدار کی ہم عوام کے ساتھ ایک ایسی "اجتماعی زیارتی" ہے جس نے   نہ صرف ہم عوام  بلکہ ہر طبقے  میں سے باشعور اور پڑھے لکھے مراعات یافتہ، قانون دانوں اور وردی والوں کو بھی چپ لگا دی ہے ۔ درد مند لکھنے والوں کو پڑھ کر وہ فلسطینی یاد آتے ہیں جو  پتھر مار کرٹینک کا مقابلہ کرتے دکھائی دیتے تھے اورکبھی کتابوں میں پڑھے بھاپ اڑاتے مشترکہ حمام  کی مثال  صادق آتی ہےجہاںجسمانی غلاظت جتنی اُترتی ہے اُس سے دُگنا جذب ہو جاتی ہے۔
ایک سوال اکثر پوچھا جاتا ہے کہ  سیاسی شخصیت نے قوم کو اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا شعور دیا؟  اس کے جواب میں بےساختہ  دل سے نکلتا ہے کہ   ملک کو بری طرح لوٹنے والا ہر "برا" سیاست دان قوم کو اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا شعور دیتا ہے لیکن یہ آواز ہم عام عوام کے اپنے کانوں تک بازگشت کی صورت چکر کاٹ کر مایوسی کے بھنور میں ڈوب جاتی ہے۔ ستم یہ ہے کہ "اچھا" سیاست دان اس آواز کو کیچ کر لیتا ہے اور اسے اپنے ذاتی ریڈیو کی فریکوئنسی پر سیٹ کر کے "دمادم مست قلندر" کے نعرے بلند کرتا ہے ۔ اور پھر اُڑن چھو ہو جاتا ہے ۔ اور ہم بعد میں ایک دوسرے سے یہی سوال پوچھتے رہ جاتے ہیں۔۔۔۔۔
"کس سیاسی شخصیت نے قوم کو اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا شعور دیا ؟؟؟
ہم عوام ہمیشہ سیاست دانوں کی لچھے دار باتوں میں آ جاتے ہیں۔ اُن کے دعوے ریت کی دیوار ہی ثابت ہوئے ہیں، ترقی و خوشحالی کے لولی پاپ دکھاتے ضرور ہیں لیکن اقتدار میں آ کر صرف ان کے ریپرز ہی بانٹتے ہیں اپنے پوسٹرز کی طرح ۔ ستم یہ ہے کہ ہمارے سامنے بڑے مزے لے کر یہ لولی پاپ نہ صرف ہضم کر جاتے ہیں بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ہمارا سرمایہ چھین کر محفوظ کر لیتے ہیں، نہ جانے کس کس قماش کے سوئس بنکوں میں کہ جن کے پاس ورڈ اکثر یہ خود بھی بھول جاتے ہیں.آنکھ کے اندھوں کے پاس تو پھر بھی ایک عذرِلنگ ہو لیکن اصل پکڑ دل کے اندھوں کی ہو گی۔ جو صرف اور صرف پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے وہ بھی صرف "چند گھنٹوں" کی ناکام کوشش کی خاطر ہمیشہ کے خسارے کا سودا کرتے   ہیں ۔ دُکھ لوٹنے والوں کا نہیں بلکہ افسوس یا  جھنجھلاہٹ  بحیثیت عوام اپنے کردار پر بھی  ہے ۔ان لٹیروں کو ہم خود ہی تو آگے آنے کا موقع دیتے ہیں۔کہنے کی حد تک ہم تماش بین قوم تھےلیکن اب ثابت  ہو گیا کہ ہمارے سیاہ ست دان تو تماش بین سے بھی ایک درجہ بڑھ گئے۔تماش بین تو پھر بھی"مرد"ہوتے ہیں جوسیڑھیاں چڑھ کر وقتی لذت کی تلاش میں جاتے ہیں۔ہمارے کرتا دھرتا  تو پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر"تالیاں پیٹنے والوں" سے بھی گئے گزرے نکلے ۔اُن کا ہاضمہ تو مردار خوروں اور ویمپائر سے بھی بڑھ کر ہے، دنوں میں سب بنا ڈکار کے اندر اتر کر غائب لیکن غلاظت کا نکاس نہ ہونا سب اچھا ہے کی دلیل ہرگز نہیں، یہ آنے والی نسل کی ذہنی بلوغت کے لیے لمحۂ فکریہ ہےجس سے ہم نے کبوتر کی طرح آنکھ بند کر رکھیہے۔
 سیاسی قلابازیاں اور بیماریاں۔۔۔
  سیاسی حمام  میں"غسلِ صحت "کے مزے لوٹنے والے جب طاقت کے حصار سے نکلتے ہیں یا نکال دیئے جاتے ہیں تو فوراً ہی   ایسے جان لیوا  روگ میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس کا علاج  وطنِ عزیز  میں ممکن نہیں ہوتا۔ستم یہ کہ ملی بھگت سے جیسے ہی باہر  قدم رکھتے ہیں،بیماری کا نام ونشان تک غائب ہو جاتا ہے۔بیماری چاہے ذہنی ہو یا جسمانی انسان کی سوچ پر اثر انداز ہوتی ہے اور بیمار شخص اس بیماری کے ہاتھوں مجبور ہو جاتا ہے کہ اسے اس سے آگے کچھ نہیں دکھتا۔ پھر ہم کیوں اپنے "را ہ نماؤں" کو الزام دیتے ہیں۔جائز ناجائز سے قطع نظر اپنی زندگی کی خواہش سے ہی تو دوسری زندگیوں سےاُن کا آب حیات کشید کرنے کی خواہش جنم لیتی ہے۔کوئی اس کے لیے اپنی نسل میں حرام کے تخم کی آمیزش کرتا ہے تو کوئی خاموشی سےعلم وآگہی کی خوشبو رگوں میں آتار کر آنے والوں کے لیے نشان منزل کی بناء رکھتا ہے۔
آج تم یاد آئے اور بےحساب یاد آئے۔۔۔۔
۔"پاکستان کو جاہلوں سے زیادہ پڑھےلکھوں نے نقصان پہنچایا ہے" جناب اشفاق احمد کی یہ بات جی چاہتا ہے بڑے بڑے چوراہوں پر آویزاں کی جائے۔

1 تبصرہ:

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...