" گناہ گناہ ہوتا ہے"
گناہ کی پکڑ لازم ہے ،یہاں تک کے گناہ کے امکان کی بھی پکڑ ہے۔ اس فیصلے کا اختیار مالک کے پاس ہے کہ کب پکڑ ہے اور کس انداز میں ہے۔بے شک مالک کی رحمت اُس کے غضب پر حاوی ہے۔خطاکار اُس کی نظر میں برابر ہے چاہے دین دار ہو یا دنیا دار۔کسی نمازی کو اس کی خطا پر اس لیے چھوٹ نہیں کہ وہ پانچ وقت ماتھا زمین پر رکھتا ہے اور کسی بھٹکے ہوئے کی نیکی صرف اس لیے قبولیت کی منزل سے دور نہیں کہ وہ گناہ میں لپٹی ہوئی ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ڈھٹائی سے اپنی سوچ پر اڑے رہتے ہیں۔ اگر اللہ کے راستے پر چلتے ہیں تو اپنے آپ کو پاک صاف جان کر لاشعوری طور پر تفاخر اور تدبر کا راستہ چن لیتے ہیں ۔ گناہ کے نام سے دور بھاگتے ہیں اور اس کے امکان کو بھی رد کر دیتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ ہم ایک انسان ہیں جس نے دنیا میں رہنا ہے اس کو برتنا ہے ۔ ہم فرشتہ نہیں کہ سوائے عبادت کے جس کا کوئی مقصد ِحیات نہ ہو، اسی لیے ہمیں اپنی ذات کو چھوڑ کر ہر جگہ برائی نظر آتی ہے۔خطا کار کے پاس بھی اپنے رویے کی جائز وجوہات ہوتی ہیں۔ دنیا نے اس کے ساتھ ناانصافیاں کی ہوتی ہیں۔ کسی کا گھربار لُٹ جاتا ہے تو وہ خود لٹیرا بن جاتا ہے کسی کا پیارا ناحق مارا جائے تو وہ بندوق اٹھا کر قاتلوں کی فہرست میں شامل ہوجاتا ہے ۔ غربت کی چکی میں پستے پستے جب کسی کے ہاتھ قارون کا خزانہ لگتا ہےتو وہ اس پرسانپ بن کر بیٹھ جاتا ہے یا پھر غربت اور مایوسی کا اندھیرا اسے بددیانتی کی دلدل میں گرا دیتا ہے جو اسے اس وقت روشن مستقبل دکھائی دیتا ہے ۔ پیٹ کی آگ برداشت کرتے کرتے وہ اپنے بچوں کے لیے حرام لقمے جمع کرتا ہے اور اپنے آپ کو صفائی بھی پیش کرتا ہے کہ بھوک میں مردار جائز ہے۔ قسمت کے الٹ پھیر میں جب پکڑ آتی ہے ، یا آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو دین دار اللہ سے یوں فریاد کرتا ہے کہ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا ،بے گناہ مجھ پہ یہ کیا افتاد آن پڑی اور گناہ گار کسی حد تک اپنے آپ کوبہلاتا ہے کہ ظلم و زیارتی کا جواب ہی تو دیا تھا۔ساری بات غور وفکر کی ہے دین دار کو احساس ہو جائے کہ اس سے گناہ سرزد ہو سکتا ہے یا ہو گیا ہے اور گناہ گار گناہ کرتے ہوئے یہ سوچ لے کہ وہ برا کام کر رہا ہے جس کا حساب بہر حال دینا ہو گا تو مالک کا کرم ہرپل صراط پار کرا دیتا ہے۔
مکافاتِ عمل۔۔۔
کاروبارِ حیات میں نفع نقصان کا حساب کتاب کرتے ہم دیکھتے ہیں کہ پکڑ ہمیشہ اُس گناہ کی نہیں ہوتی جو جانے انجانے میں سرزد ہو جائے۔لیکن سزا ملنے پر پہلا خیال اُس زیارتی کی طرف ضرور جاتا ہے جو چاہے برسوں پہلے ماضی کی قبر میں دفنا دی گئی ہو یا حال کے مردہ خانے میں اُس کا بےگوروکفن لاشہ سرِعام تعفن دیتا دکھائی دے اور ابنِ آدم کی کمینگی کی تصویر ہی کیوں نہ بنا ہو۔یہ احساس زیارتی کرنے والے کو نہ بھی ہو لیکن اُن خاموش گواہوں کو ضرور ہوجاتا ہے جو سب جانتے ہوئے سب مانتے ہوئے بھی گواہی دینے کی جئرات نہیں کر پاتے ،اس لیے نہیں کہ بزدل ہوتے ہیں بلکہ اس لیے کہ عزت اور وقت خیرات میں نہیں دیا جا سکتا اور جو یہ ہمت کر بھی لے وہ خود قلاش ہو جاتا ہے۔
جب وقتِ نزع سے پہلے زندگی کی آخری پائیدارسانس تک توبہ کی گنجائش موجود ہے تو زندگی کا ایک منطقی اُصول یہ سمجھ آتا ہے کہ کوئی غلطی سرزد ہوجائے تواُس کو درست کر سکتے ہیں۔۔۔ کوئی بھی نقصان ہو اُس کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔ انسان میں اتنی صلاحیت ہے کہ کمان سے نکلا تیر بھی واپس لا سکتا ہے۔کہا جاتا ہےگیا وقت ہاتھ نہیں آتا لیکن انسان جُہدِمسلسل سے اپنے موجودہ وقت کواُس قابل بنا سکتا ہے کہ گُزرا ہوا زمانہ محض ایک عالمِ خواب سے زیادہ محسوس نہ ہو۔اس کے لیے شرط صرف یہ ہے کہ انسان کواحساس ہو اُس سے واقعی کوئی غلطی ہوئی ہے۔گناہ کا احساس ہوگا تو ہی انسان توبہ کا طلب گار ہوگا۔اللہ انسان کے سب گناہ جانتا ہے۔قران کے راستے فرد ِجرم عائد کر کے سزا بھی سنا دیتا ہےتو انسان کا بڑے سے بڑا گناہ ندامت کے آنسواور توبہ کی تسبیح سے معاف بھی کر دیتا ہے۔تلخ سچائی یہ ہے کہ انسان انسانوں کے گناہ کبھی ذرہ برابر بھی نہیں جان سکتے۔ نہ جانتے ہوئے بھی فرد ِجرم لگا کر قید میں ڈال دیتے ہیں اور انسان کی چھوٹی سے چھوٹی خطا کسی طورکبھی معاف نہیں کرتے۔
مقدر کے بنے خونی رشتوں میں معاف کرنا ہی پڑتا ہے۔ اصل حوصلہ تعلقات میں زیارتی کو معاف کرنا ہے۔ وہ تعلق جس کی بنیاد پر رشتے تخلیق پاتے ہیں۔اگر بنیاد میں معافی کا عنصر شامل نہ کیا جائے توعمارت بلند نہیں ہو سکتی۔عمارت کھڑی ہو بھی جائے توسمجھوتے کی کمی اس میں دراڑیں ڈال دیتی ہے،پھررفتہ رفتہ تعلق رہتا ہے اور نہ ہی اس کی بنیاد پر بننے والے رشتوں کی مضبوطی ۔۔۔سب بکھر بکھر جاتا ہے۔جب پیروں تلے زمین ہی نہ ہو تو عالی شان سکائی سکریپرز سائنس کی ترقی کا شاہکارتو بن سکتے ہیں لیکن اُن میں فطرت کا حُسن کبھی نہیں جھلک دکھلا پاتا۔
آخری بات
"اللہ سے معافی مل سکتی ہے لیکن بندوں سے معافی کی اُمید بھی نہیں رکھی جا سکتی "
دسمبر 2011
گناہ کی پکڑ لازم ہے ،یہاں تک کے گناہ کے امکان کی بھی پکڑ ہے۔ اس فیصلے کا اختیار مالک کے پاس ہے کہ کب پکڑ ہے اور کس انداز میں ہے۔بے شک مالک کی رحمت اُس کے غضب پر حاوی ہے۔خطاکار اُس کی نظر میں برابر ہے چاہے دین دار ہو یا دنیا دار۔کسی نمازی کو اس کی خطا پر اس لیے چھوٹ نہیں کہ وہ پانچ وقت ماتھا زمین پر رکھتا ہے اور کسی بھٹکے ہوئے کی نیکی صرف اس لیے قبولیت کی منزل سے دور نہیں کہ وہ گناہ میں لپٹی ہوئی ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ڈھٹائی سے اپنی سوچ پر اڑے رہتے ہیں۔ اگر اللہ کے راستے پر چلتے ہیں تو اپنے آپ کو پاک صاف جان کر لاشعوری طور پر تفاخر اور تدبر کا راستہ چن لیتے ہیں ۔ گناہ کے نام سے دور بھاگتے ہیں اور اس کے امکان کو بھی رد کر دیتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ ہم ایک انسان ہیں جس نے دنیا میں رہنا ہے اس کو برتنا ہے ۔ ہم فرشتہ نہیں کہ سوائے عبادت کے جس کا کوئی مقصد ِحیات نہ ہو، اسی لیے ہمیں اپنی ذات کو چھوڑ کر ہر جگہ برائی نظر آتی ہے۔خطا کار کے پاس بھی اپنے رویے کی جائز وجوہات ہوتی ہیں۔ دنیا نے اس کے ساتھ ناانصافیاں کی ہوتی ہیں۔ کسی کا گھربار لُٹ جاتا ہے تو وہ خود لٹیرا بن جاتا ہے کسی کا پیارا ناحق مارا جائے تو وہ بندوق اٹھا کر قاتلوں کی فہرست میں شامل ہوجاتا ہے ۔ غربت کی چکی میں پستے پستے جب کسی کے ہاتھ قارون کا خزانہ لگتا ہےتو وہ اس پرسانپ بن کر بیٹھ جاتا ہے یا پھر غربت اور مایوسی کا اندھیرا اسے بددیانتی کی دلدل میں گرا دیتا ہے جو اسے اس وقت روشن مستقبل دکھائی دیتا ہے ۔ پیٹ کی آگ برداشت کرتے کرتے وہ اپنے بچوں کے لیے حرام لقمے جمع کرتا ہے اور اپنے آپ کو صفائی بھی پیش کرتا ہے کہ بھوک میں مردار جائز ہے۔ قسمت کے الٹ پھیر میں جب پکڑ آتی ہے ، یا آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو دین دار اللہ سے یوں فریاد کرتا ہے کہ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا ،بے گناہ مجھ پہ یہ کیا افتاد آن پڑی اور گناہ گار کسی حد تک اپنے آپ کوبہلاتا ہے کہ ظلم و زیارتی کا جواب ہی تو دیا تھا۔ساری بات غور وفکر کی ہے دین دار کو احساس ہو جائے کہ اس سے گناہ سرزد ہو سکتا ہے یا ہو گیا ہے اور گناہ گار گناہ کرتے ہوئے یہ سوچ لے کہ وہ برا کام کر رہا ہے جس کا حساب بہر حال دینا ہو گا تو مالک کا کرم ہرپل صراط پار کرا دیتا ہے۔
مکافاتِ عمل۔۔۔
کاروبارِ حیات میں نفع نقصان کا حساب کتاب کرتے ہم دیکھتے ہیں کہ پکڑ ہمیشہ اُس گناہ کی نہیں ہوتی جو جانے انجانے میں سرزد ہو جائے۔لیکن سزا ملنے پر پہلا خیال اُس زیارتی کی طرف ضرور جاتا ہے جو چاہے برسوں پہلے ماضی کی قبر میں دفنا دی گئی ہو یا حال کے مردہ خانے میں اُس کا بےگوروکفن لاشہ سرِعام تعفن دیتا دکھائی دے اور ابنِ آدم کی کمینگی کی تصویر ہی کیوں نہ بنا ہو۔یہ احساس زیارتی کرنے والے کو نہ بھی ہو لیکن اُن خاموش گواہوں کو ضرور ہوجاتا ہے جو سب جانتے ہوئے سب مانتے ہوئے بھی گواہی دینے کی جئرات نہیں کر پاتے ،اس لیے نہیں کہ بزدل ہوتے ہیں بلکہ اس لیے کہ عزت اور وقت خیرات میں نہیں دیا جا سکتا اور جو یہ ہمت کر بھی لے وہ خود قلاش ہو جاتا ہے۔
جب وقتِ نزع سے پہلے زندگی کی آخری پائیدارسانس تک توبہ کی گنجائش موجود ہے تو زندگی کا ایک منطقی اُصول یہ سمجھ آتا ہے کہ کوئی غلطی سرزد ہوجائے تواُس کو درست کر سکتے ہیں۔۔۔ کوئی بھی نقصان ہو اُس کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔ انسان میں اتنی صلاحیت ہے کہ کمان سے نکلا تیر بھی واپس لا سکتا ہے۔کہا جاتا ہےگیا وقت ہاتھ نہیں آتا لیکن انسان جُہدِمسلسل سے اپنے موجودہ وقت کواُس قابل بنا سکتا ہے کہ گُزرا ہوا زمانہ محض ایک عالمِ خواب سے زیادہ محسوس نہ ہو۔اس کے لیے شرط صرف یہ ہے کہ انسان کواحساس ہو اُس سے واقعی کوئی غلطی ہوئی ہے۔گناہ کا احساس ہوگا تو ہی انسان توبہ کا طلب گار ہوگا۔اللہ انسان کے سب گناہ جانتا ہے۔قران کے راستے فرد ِجرم عائد کر کے سزا بھی سنا دیتا ہےتو انسان کا بڑے سے بڑا گناہ ندامت کے آنسواور توبہ کی تسبیح سے معاف بھی کر دیتا ہے۔تلخ سچائی یہ ہے کہ انسان انسانوں کے گناہ کبھی ذرہ برابر بھی نہیں جان سکتے۔ نہ جانتے ہوئے بھی فرد ِجرم لگا کر قید میں ڈال دیتے ہیں اور انسان کی چھوٹی سے چھوٹی خطا کسی طورکبھی معاف نہیں کرتے۔
مقدر کے بنے خونی رشتوں میں معاف کرنا ہی پڑتا ہے۔ اصل حوصلہ تعلقات میں زیارتی کو معاف کرنا ہے۔ وہ تعلق جس کی بنیاد پر رشتے تخلیق پاتے ہیں۔اگر بنیاد میں معافی کا عنصر شامل نہ کیا جائے توعمارت بلند نہیں ہو سکتی۔عمارت کھڑی ہو بھی جائے توسمجھوتے کی کمی اس میں دراڑیں ڈال دیتی ہے،پھررفتہ رفتہ تعلق رہتا ہے اور نہ ہی اس کی بنیاد پر بننے والے رشتوں کی مضبوطی ۔۔۔سب بکھر بکھر جاتا ہے۔جب پیروں تلے زمین ہی نہ ہو تو عالی شان سکائی سکریپرز سائنس کی ترقی کا شاہکارتو بن سکتے ہیں لیکن اُن میں فطرت کا حُسن کبھی نہیں جھلک دکھلا پاتا۔
آخری بات
"اللہ سے معافی مل سکتی ہے لیکن بندوں سے معافی کی اُمید بھی نہیں رکھی جا سکتی "
دسمبر 2011
Allah hm sb ko gunah se bachny ki tofeeq day or seedhay rasty pe chalaye ameen
جواب دیںحذف کریںیکم جولائی 2015۔۔۔ 13 رمضان 1436 ہجری
جواب دیںحذف کریںحسن یاسر نے کہا۔۔۔
میرا احساس کہتا ہے۔۔۔ زندگی گزارنے کے اصول بےحدسفاک اور زندگی کے تقاضے نہایت بےرحم ہیں۔دنیا میں فرشتہ بن کر دم سادھے زیست کی شاہراہ پر سفر کرتے جائیں ورنہ انسان سزا دیتے رہیں گے۔ لوگوں کو زبان کی چاشنی کے لیے نت نئے موضوع درکار ہیں۔ دانت نکوستے پرہیز گاری کے لبادے میں چھپے بھیڑیے نازک پھولوں کو پامال کرتے ہیں۔ گناہ کا لپکتا ہوا شعلہ آن واحد میں زندگی کی خوشنمائی کو چاٹ جاتا ہے۔ تلوار کی دھار سے تیز زبانیں اور نیزے کی نوک سے زیادہ مہلک الفاظ نیکوکاروں کے لیے ایندھن کا کام کرتے ہیں۔ اپنی عبادات کا فخر خواہشات کی گندگی اپنےمقاصد کی حیوانیت ایسی سیاہ پٹیاں ہیں جوان پرہیزگاروں کی آنکھوں کو سیاہ نصیب بنا دیتی ہیں۔ایسے پرآشوب ماحول میں اپنے سوا سب راندۂ درگاہ نظر آتے ہیں اسی گھٹن اور حبس سے گناہ کا جنم ہوتا ہے۔ پاکیزہ روحوں کی تحقیر آمیز نظریں اور طعن میں ڈوبے نشتر گناہوں کی ایسی فصل تیار کرتے ہیں جسے کاٹنے والا خود تو گھائل ہوتا ہے دوسروں کو بھی اس کھیتی کی بھینٹ چڑھادیتا ہے....