بدھ, اگست 21, 2013

"میرے خوابوں کا پاکستان "

"میرے خوابوں کا پاکستان "
 خواب وہی دیکھنے چاہییں جن کی تعبیر پر اختیار ہو ۔ بظاہر یہ بات بےمعنی بلکہ لایعنی سی لگتی ہے غور کیا جائے تو ہمیں صرف اپنے خوابوں پر ہی اختیار ہوتا ہےزندگی پر نہیں ۔ خواب جو ہم جاگتی آنکھوں سے دیکھتے ہیں یا وہ خواب جو بند پلکوں پر اُترتے ہیں اور آنکھ کھل جائے تو دل بےاختیار انہیں حقیقت کا روپ دینے کو بےچین ہو جاتا ہے ۔ ایسے ہی کچھ خواب ہمارے قائدین کی آنکھوں کی زینت بنے اور ہر ایک نے اپنے طور پر ان کو تعبیر دینے کی سعی کی۔ محترم علامہ اقبال کے دیدۂ بینا سے شروع ہونے والا یہ سفر قائد ِاعظم محمدعلی جناح کے عزم ِصمیم کی بدولت  14 اگست 1947 کو پایہ تکمیل  تک پہنچا ۔ اس طویل جدوجُہد کو ایک لفظ میں قلم بند کیا جائے تو وہ ہے "آزادی "۔
 ہمارا وطن آج سے چھیاسٹھ برس قبل دُنیا کے نقشے پر تو ضرور نمودار ہو گیا تھا لیکن آزادی کا خواب جو ہمارے رہنماؤں نے دیکھا ابھی تک اپنی تعبیر کا منتظر ہے ، نصف صدی قبل آزادی سب سے بڑا جواز تھا نئے ملک کے قیام کا تو اب اس نئی صدی میں ہمارے وجود کی بقا آزادی میں ہے ۔ پاکستان نے ہمیں بہت کچھ دیا اتنا کچھ کہ شاید دُنیا میں کسی کو بھی اپنی دھرتی ماں سے نہ ملا ہو گا لیکن لوٹنے والوں نے آزادی کی قیمت پر سب گروی رکھ دیا ۔ میرے خوابوں کا پاکستان وہ ہے جس کا خواب قائد ِاعظم نے دیکھا اور قیام ِپاکستان کے بعد ایک سال ستائیس دنوں میں اپنے قول وفعل سے ہمارے لیڈروں،سیاست دانوں اور ہم عام عوام کے لیے راہ ِعمل متعیّن کر گئے۔ 
 ایک خواب "آزادی" کا ہے ۔ فرد کی آزادی ۔۔۔۔ معاشرے کی آزادی ۔۔۔ عمل کی آزادی ۔۔۔ اقدار کی آزادی ۔ یہ وہ خواب ہے جو بند آنکھوں سے تو اچھا لگتا ہے لیکن کھلی آنکھوں سے سوچا جائے تو اس آزادی سے پہلے اپنے وطن کے ہر فرد میں عقل وشعور کی چمک دیکھنے کی آرزو ہے وہ فہم جو انسان کو انسانیت کے منصب پر فائز کر دے ۔
آزادی کی نعمت سے کون واقف نہیں لیکن آزادی کا بھی اپنا ضابطۂ اخلاق ہے۔ جیسے۔۔۔
فرد کی آزادی لیکن تدبر کے ساتھ ۔۔۔۔ رشتوں کی آزادی احساس کے ساتھ۔۔۔۔
رویوں کی آزادی اپنا آپ پہچانتے ہوئے۔۔۔جذبوں کی آزادی دوسروں کے محسوسات کو سمجھتے ہوئے۔۔۔۔تعلقات کی آزادی لیکن اخلاقی اقدار کو مد ِنظر رکھتے ہوئے۔۔۔
اپنی بات کہنے کی آزادی لیکن اوروں کی بات برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوئے۔۔۔
اپنا راستہ آپ چُننے کی آزادی  لیکن آگے جانے والوں کے نشان ِراہ پر چلتے ہوئے اور اپنے بڑوں کی شفقت کے سائےتلے۔۔۔
۔صبر و برداشت اور محنت سے کام کرنے کی آزادی  پر اس اعتماد کے ساتھ کہ عزت ِنفس مجروح نہیں کی جائے گی۔۔۔۔
 ادب واحترام سے ایک دوسرے کی تعظیم کی آزادی بنا کسی کے رُتبے مقام کی جھجھک کے۔۔۔۔۔
خوف سے آزادی ماسوائے رب ِکائنات کے سامنے پیشی کے خوف سے۔۔۔
زندہ رہنے کی آزادی اس بھروسے پر کہ موت برحق ہے ۔
 خوابوں کی ایک طویل نہ ختم ہونے والی فہرست ہے جیسے کھلی ہوا میں سانس لینے کی آزادی ، ملاوٹوں سے پاک اللہ کا عطا کردہ رزق صبر وشکر سے کھانے کی آزادی ۔۔۔ غرض کہ
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے 
خواب دیکھنا بہت آسان ہے۔ اب آتے ہیں اس بات کی جانب کہ اپنے خوابوں کو مجسم دیکھنے کے لیےکون سی تبدیلی یا اقدامات کی ضرورت ہے۔ قائد کے زریں اصولوں کو اپنا کر ہم عوام نے ہی پہلا قدم اٹھانا ہے۔ برس ہا برس سے نام نہاد قائدین کوآزمائے چلے جارہے ہیں اور مسلسل دھوکے کھارہے ہیں ۔ اگر ہم نے عزت ووقار کے ساتھ زندہ رہنا ہے تو پھر متحد ہونا ہے ہر محاذ پر ایکا کرنا ہے۔ مسلک،فرقے،عقیدے سے قطع نظر صرف ایک عام مسلمان کا سا طرز ِفکر اختیار کرنا ہے۔ برداشت کو فوقیت دینی ہے ۔دیانت داری اور محنت یہ دو ایسے ہتھیار ہیں جن پر تکیہ کیا جائے تو بڑے سےبڑا پہاڑ بھی سر کیا جا سکتا ہے ۔ہمارے خوابوں میں ایسا پاکستان ہے جہاں مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلےعزت کے ساتھ اُجرت ملے لیکن مزدور بھی دیانتداری سے کام کرے۔ خواب لامحدود ہیں لیکن ان کا مفہوم صرف "آزادی" ہے تو تعبیر بھی صرف ایک لفظ میں پنہاں ہے "خود احتسابی" ۔ ہمیں صرف اپنے حصے کا کام کرنا ہے خلوص ِنیت کے ساتھ ۔ ہر انسان اپنا محاسبہ کرے ۔فرد کی سوچ جب قوم کی سوچ میں ڈھلے گی تو انشاء اللہ یہ سوئی ہوئی قوم ایک نئے عزم اور ولولے سے انگڑائی لے کر بیدار ہو گی ۔
!آخری بات
خوابوں کی تعبیر انہی کا مقدر ہے جو خواب دیکھتے ہیں۔ بےخواب آنکھیں نہ خوابوں کی لذت سے آشنا ہوتی ہیں اور نہ ان کی تعبیروں سے واقف ۔ خواب دیکھنے والے خوابوں کی طرح ان کی تعبیروں پر بھی یقین رکھتے ہیں بلکہ ان کا پھل سہارنے کا حوصلہ بھی ۔ یہی ان کا ارادہ ہے جو گرنے کے بعد سنبھلنے اور پلٹنے کے بعد جھپٹنے کا فن سکھاتا ہے۔

6 تبصرے:

  1. مجھے یہ اتنی اچھی لگی کہ میں نے اپ کی اجازت کے بنا اپنی ویب سائٹ میں پوسٹ کر دی ہے http://www.magpaki.com/2013/08/pakistan-of-my-dreams.html

    جواب دیںحذف کریں
  2. واقعی خوبصورت تحریر تھی. اسی موضوع پر لکھی اپنی تحریر سے اقتباس شامل کرنا چاہوں گا.
    "... لیکن یہ سب خواب ہے ایک سہانا خواب. ایک سہانے خواب اور اسکی تلخ حقیقت کے فرق کا دوسرا نام مایوسی اور نا امیدی ہے. اگر بے جا امید کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا تو یقیناً نا امیدی بھی کوئی پھل نہیں دیتی. تیرہ اگست کی شام جب دکھی دل او مایوس سوچوں کے ساتھ یہ تحریر کی بورڈ بند کرنا شروع کی تو میری نا امیدی نے ہی مجھے ایک نئی امید دی، میرے ارد گرد موجود مثبت سوچ والے احباب نے میرا ایمان بچا لیا. اور کہیں خود کو بھی یاد آ گیا کہ "مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا۔"..."
    http://www.rainama.com/2013/08/blog-post_19.html

    جواب دیںحذف کریں
  3. خوابوں کی تعبیر انہی کا مقدر ہے جو خواب دیکھتے ہیں۔ بے خواب آنکھیں نہ خوابوں کی لذت سے آشنا ہوتی ہیں اور نہ ان کی تعبیروں سے واقف ۔ خواب دیکھنے والے خوابوں کی طرح ان کی تعبیروں پر بھی یقین رکھتے ہیں بلکہ ان کا پھل سہارنے کا حوصلہ بھی ۔ یہی ان کا ارادہ ہے جو گرنے کے بعد سنبھلنے اور پلٹنے کے بعد جھپٹنے کا فن سکھاتا ہے ۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کی آخری بات ہی حاصل مطالعہ ہے

    جواب دیںحذف کریں
  4. لکھا آپ نے بہت اچھا ہے لیکن میری بری عادت ہے کہ پڑھوں تو غور سے ورنہ پڑھتا ہی نہیں ۔ اسی لئے ضرورت سے کچھ زیادہ ہی نظر آ جاتا ہے ۔ مجھے اس سے اختلاف ہے ” سرسید احمد خان کے دیدۂ بینا سے شروع ہونے والا ”۔ پاکستان یا مسلمانوں کی مملکت کا کوئی خیال جناب سرسیّد احمد خان صاحب نہیں تھا ۔ یہ باتیں پاکستان بننے کے بعد اُن سے منسوب کی گئیں
    دوسری بات یہ ہے کہ اللہ کا سورت 13الرعد آیت11 میں فرمان ہے إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے

    جواب دیںحذف کریں
  5. نودسمبر 2014 اور نودسمبر 2015 کو جنگ اخبار میں شائع ہوا۔۔۔
    http://magazine.jang.com.pk/arc_detail_article.asp?id=25800

    جواب دیںحذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...