منگل, اگست 13, 2013

"ہمارا قائد "

"ہمارا قائد "
قائد ِ اعظم محمد علی جناح کے بارے میں مہد سے لحد تک سطر سطر پڑھنے اور رٹنے کے باوجود ہم اُن کے بارے میں اپنی مرضی کی خود نوشت لکھ کرزیادہ فرحت محسوس کرتے ہیں۔ اپنے قائد کے متعلق ہرطرح کی ہرزہ رسائی کرنے کے بعد جب اُن کا بال بھی بیکا نہ کر سکےتو اُن کے آخری گوشۂ سکون کو بھی آگ لگا دی گئی۔جس کی بدولت نوے فیصد سے زائد عمارت راکھ کا ڈھیر بن گئی ۔ اگرچہ سال کے اندر اندر حکومتِ وقت نے اس تاریخی ورثے کو عین اسی حالت میں بحال کرنے کی کامیاب کوشش کی لیکن بحیثیت قوم ہمارے کردار پر لگا سیاہ دھبا دور نہ ہو سکا۔
وہ عارضی آرام گاہ۔۔۔ جس کا اُن کے آدرش سے کوئی واسطہ نہ تھا۔اُس پُرفضا مقام کےایک کمرے میں بسترپر زندگی کے آخری چند ایام گزارنےکا جرم شاید نام نہاد "لبرلز"کے لیے ناقابل ِمعافی تھا۔ وہ صرف کچی لکڑی سے بنی کمزور بنیادوں والی عمارت تھی ۔ اپنے قائد کی تصاویر بیدردی سے پھاڑ کر اور بعد میں نذر ِآتش کر کے نہ جانے کم عقلوں کے کون سے جذبۂ انتقام کی تسکین ہوسکی ہو۔
نادان یہ نہیں جانتے وہ آہنی ارادوں اورمضبوط دلائل والا قائد تو ہمارے دلوں میں عزم وحوصلے کی اتنی بلند عمارت قائم کر گیا کہ ہم چاہتے ہوئے بھی اس کی چار دیواری سے باہر نہیں نکل سکتے۔ قائد کو پہچاننا ہے تو دل سے نہیں عقل سے پہچانو۔اُن کی زندگی کا ایک ایک لمحہ کھلی کتاب کی طرح تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔ افسوس کی بات ہے ایک کڑوا سچ بھی ہے کہ بحیثیت مجموعی ہم ایک تماش بین قوم ہیں جو صرف تالیاں پیٹتی اور ڈھول بجاتی ہے۔ ڈھول بجاتے بجاتے ہم خود ایک ڈھول بن گئے ہیں۔۔۔پُرشور۔۔۔اندر سے خالی۔ ہم تاریخ کیا بنائیں گے جو تاریخ بنانے والے تھے اور جو تاریخ بنائی گئی تھی اسکو ہی بدل دینے پر تُل گئے ہیں۔ ہم دور جدید کے لوگ ہیں ترقی یافتہ ۔۔۔اپنا مقدر آپ بنانے کے تمنائی۔۔۔ہمارے لیے دُنیا کے قدم سے قدم ملا کر چلنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ اپنی تاریخ اور اپنے محسنوں کو حرف غلط کی طرح مٹا کر صرف آج میں جیا جائےَ۔ ماضی سے نہ تو سبق سیکھا جائے اورنہ ہی اس کا احترام کیا جائے۔
لیکن ابھی بھی اس مٹی میں نمی باقی ہے۔ ہمارا قائد ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا اوران شاء اللہ جب تک دم میں دم ہے۔۔۔ ہم قائد سے محبت کے دیے جلاتے رہیں گے۔۔۔ چاہے ہمارے کم سن بچے 14 اگست کو محض آتش بازی کا تہوار سمجھ کرمنائیں۔۔۔ہمارے نوجوان موٹر سائیکل کے سلنسر نکال کر جان کی بازی کھیلیں۔۔۔ مہنگے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے چھوٹے بچےیہ بھی نہ جانتے ہوں کہ پاکستان کس نے بنایا تھا۔ ہمیں اپنے حصے کا چراغ جلانا ہے۔ کبھی تو روشنی ہو گی۔ آتش بازی ایک پل کی خوشی ہے اس کے بعد سب بھک کر کے اُڑ جاتا ہے۔ ایک ننھا سا دیا جگنو کی چمک کی طرح ہوتا ہے جو ایک پل کو ہی سہی لیکن راہ تو دکھا ہی دیتا ہے۔

3 تبصرے:

  1. ایک زمانہ تھا جب میں‌ محمد علی جناح کو قائد اعظم نہیں مانتا تھا، سوچتا تھا کہ کیونکہ انہوں نے پاکستان بنایا ہے اس لیے چاہو نہ چاہو یہ قائداعظم ہیں۔ پھر اخبارات میں ابوالکلام آزاد کی کتاب "آزادئ ہند" کے پچیس صفحوں کا غلغلہ اٹھا کہ انہیں شامل کتاب کر لیا گیا ہے۔ میں نے وہ کتاب انڈیا سے منگوائی اور جب کتاب ختم کی تو جناح میرے لیے بھی قائد اعظم تھے۔ حیرت کی بات نہیں کہ ایک قائد مخالف شخص، جس کو قائد اعظم طنزآ کانگریس کا شو میں کہتے تھے اس کی کتاب پڑھ کر میں نے قائد کی عظمت کو پہچانا۔ قائد اعظم مذہبی لیڈر تو تھے نہیں کہ ان کے لیے اونچے شملے، لمبی داڑھی، ٹخنوں سے اوپر شلوار اور ماتھے پر تقدس کے گٹکے کو بڑائی کا معیار بنایا جاتا۔ ایک سیاسی لیڈر کے فیصلے، اس کا مشن، اس کی جدوجہد اور اس کی قائدانہ صلاحتیں اس کی عظمت کا معیار ہوتی ہے۔ اس کتاب میں یہ درج تھا کہ نہرو کی غلطی سے قائد نے یہ فائدہ اٹھایا، گاندی کی چوک سے قائداعظم اس مقصد میں کامیاب ہوئے، پٹیل کی لغزش کو انہوں نے اس طرح سے قوم کے مفاد میں برتا وغیرہ وغیرہ۔ مختصر یہ کہ جناح نے سب لیڈر کی غلطیوں سے فائدہ اٹھایا مگر خود ایسی کوئی فروگزاشت نہیں کی کہ کوئی اور فائدہ اٹھا سکتا۔ ان کے کردار پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا، پاکستان ان کی قائدانہ صلاحتیوں کا ثبوت ہے کہ بقول سروجنی نائیڈو، "اگر مسلم لیگ میں سو گاندھی اور سو عبدالکلام آزاد ہوتے اور مقابلے میں کانگریس میں صرف ایک جناح ہوتا تو پاکستان کبھی نہ بنتا"۔
    کبھی میں سوچتا تھا کہ عالم ہند مولانا مودودی، شعلہ بیاں عطا اللہ شاہ بخاری اور سرحدی گاندھی باچا خان کے ہوتے اردو نہ بول سکنے والے قائد میں ایسی کیا بات تھی کہ لوگ ان کے پیچھے چلے، ان پر اعتماد کیا۔ پھر میری نظر سے بخاری صاحب کا ایک واقعہ گزرا۔ انگریزایک مسجد شہید کر کر رہے تھے، مولانا مجمع سے خطاب کر رہے تھے کہ ایک آدمی آ پہنچا اور کہا کہ آپ ادھر اللہ اور اس کے رسول سے محبت کی تعلیم دے رہے ہیں ادھر انگریز مسجد مسمار کر رہے ہیں۔ اگر آپ کو دین سے اتنی محبت ہے تو اٹھیے اور اس مسجد کو بچائیے ورنہ اپنی جان نچھاور کر دیجیے۔ مولانا صاحب نے کہا کہ ایک واقعہ سن لو پھر ساتھ ہی چلتے ہیں یہ کہہ کر انہوں نے واقعہ شروع کیا کہ ایک جنگل میں ایک پتنگا رہتا تھا ایک دن ایک اڑنے والا کیڑا اس کے پاس آیا اور کہا کہ میں بھی پتنگا ہوں۔ پتنگے کو شک گزرا کہ یہ پتنگا نہیں کچھ اور ہے۔ جب شام ڈھلی تو کیڑے نے پتنگے کو کہا کہ چلو بستی چلیں چراغ جل چکے ہونگے۔ پتنگے نے کہا کہ شائد ابھی نہ جلے ہوں تم ذرا جا کر جلدی سے دیکھ آؤ۔ وہ کیڑا تھوڑی دیر بعد واپس آکر بولا کہ آ جاؤ، میں نے دیکھا کہ بستی میں‌ چراغ جل چکے ہیں۔ پتنگا بول اٹھا کہ بخدا تم پتنگے نہیں ہو، اگر ہوتے تو مجھے بتانے نہ آتے بلکہ وہیں چراغ سے لپٹ کر جل چکے ہوتے۔ تو اے شخص اگر تو واقعی میں عاشق رسول ہوتا تو ہمیں دعوت دینے نہ آتا بلکہ وہیں اپنی جان دے دیتا۔ پھر مولانا اپنی خطابت میں لوگوں کو بہا لے گئے۔
    اس ایک واقعے سے مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا۔ قائد اعظم پر لوگوں کا یہ یقین بیٹھ گیا تھا کہ وہ ان سے جھوٹ نہیں بولیں گے، ان کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائیں گے باقی لیڈر یہ کمائی نہ کر سکے۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. جزاک اللہ ۔۔۔۔خرم بقا
      آپ نے اپنا بہت قیمتی احساس شئیر کیا۔ مجھے خوشی ہو گی اگر آپ اپنے ان الفاظ کو اپنے بلاگ کا حصہ بنائیں ۔

      حذف کریں
  2. قائداعظم سےمتعلق دستاویزات کا جائزہ
    پاکستان کا مقدمہ اور بیرسٹر محمد علی جناح
    قائداعظم … اول تا آخر
    خواجہ رضی حیدر / پروفیسر خیال آفاقی / انجم جاوید جمعرات 25 دسمبر 2015
    http://www.express.pk/story/312862/

    جواب دیںحذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...