منگل, اپریل 23, 2013

" آہ ہم عوام ، واہ ہم عوام "

میلہ مویشیاں سجا ہوا۔۔۔ قصاب چاقو چھریاں تیز کرکے سرگرم۔۔۔ معاشرتی جانور ذوق وشوق سے کھنکھناتی بیڑیاں پہنے۔۔۔ ریشمی پٹے حمائل کیے جوق درجوق ایک بار پھرقربانی کے لیے تیار۔ روزِروشن کا یہ کڑوا سچ دکھائی دیتے ہوئے بھی دکھائی کیوں نہیں دے رہا۔ سب دروازے،کھڑکیاں بےخبری کی میخیں گاڑ کر بند بھی کردئیے پھر بھی کسی نہ کسی درز سے حالات کی سنگینی کی لُو کیوں جُھلسائے دے رہی ہے۔
 اپنی زندگی کے گودام میں ذخیرہ کی ہوئی آرام وآسائش،عقل وشعور اورآسودگی کی بوریوں کے ڈھیر کیوں طمانیت سے محروم رکھے ہوئے ہیں۔۔۔ وہ نیرو کی روح کیوں نہیں جاگتی جو  روم جلنے پرچین کی بانسری بجاتی تھی کہ یہی آج کے دور کا چلن ہے۔ ہم خود ساختہ پڑھے لکھے لوگ کیوں تماش بین نہیں بن جاتے۔۔۔ ہم تو اپنی ٹھنڈی چھت تلے بھرے پیٹ سونے والے لوگ ہیں۔۔۔ ہمیں کیا غرض کون آئے کون جائے۔
 قصور ہمارا نہیں صرف آنکھ کُھلنے کا ہے کہ آنکھ کُھل جائےتو نیند غائب ہو جاتی ہے۔۔۔ اورنیند نہ آئے توغفلت کے خواب بھی نہیں آتے۔یہی وجہ ہے کہ ہم خاص ہوتے ہوئے بھی خود کو خاص نہیں جان رہے۔۔۔ گردش کا پہیہ جب چلتا ہے تواُس کی زد میں خاص وعام سب برابرآتے ہیں- ہم صرف عوام ہیں۔۔۔ چھوٹے چھوٹے لوگ۔۔۔ ایک دوسرے سے وابستہ جن کی چھوٹی چھوٹی ضرورتیں اورخواہشیں ہیں۔۔۔ جو پوری ہونے لگیں تو اپنے جیسوں کے ساتھ بانٹ لیتے ہیں۔ بڑے لوگ ہمیں کٹھ پُتلیاں جان کر اپنے اشاروں پر نچاتے ہیں۔۔۔ تماشا دکھا کرمال بٹورتے ہیں۔یہ تماش بین ہمیں ایک عام طوائف جتنی اہمیت بھی نہیں دیتے۔۔۔ اُس پرنوٹ نچھاور کرکے اپنےبھرم کا فاصلہ رکھ کرگھرتو چلے جاتے ہیں۔ لیکن ہم عام عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کھسوٹ کر۔۔۔ عزتِ نفس اورفہم کے چیتھڑے اُڑا کر۔۔۔ سرِ بازار رُسوا کر کے۔۔۔ پھردانت تیز کر کے وہیں بیٹھ رہتے ہیں۔ اورہم ہمیشہ ایک ہدایت یافتہ طوائف کی طرح سنورتے ہیں۔۔۔ شاید آنے والا تماش بین نہیں کوئی مسیحا ہو۔۔۔ جس کی جھولی میں سفلی خواہشوں کے کیکر نہیں بلکہ ماں کی گود کا سا خمارمل جائے جو کچھ پل کو گردش ِآلام بھلا دے۔
یہ گینگ ریپ کب تک جاری رہے گا ؟کوئی نہیں کوئی بھی تو نہیں- نہیں نااُمیدی کفر ہے۔۔۔ مایوسی موت ہے اور مرنے سے پہلے مرجانا صریح خودکشی ہے۔حالات کی سنگینی اگر جھانک رہی ہے تو کہیں سے خفیف سی روشنی کی جھلک بھی نظر آرہی ہے۔اللہ نااُمیدی کی عینک سے بچائے جو اگر لگ جائے تو ہر منظر دُھندلا دیتی ہے۔آخری وقت تک اپنے آپ پر یقین رکھیں۔۔۔ دروازے اگر بند ہوتے جا رہے ہیں تو یہیں کہیں اُن کے کھلنے کی نوید بھی مل رہی ہے۔لوٹنے والے کہاں تک لوٹیں گے۔۔۔ ایمان باقی رہے۔۔۔ ہمت ہو تو سفر کٹ ہی جاتا ہے- نیت کا پھل ملتا ہے۔۔۔اعمال کا پھل کیا ملے یہ رب جانے۔
( عام انتخابات 2013  کے پس منظر میں لکھی تحریر )

1 تبصرہ:

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...