" گھر کہانی ''
مُجھے مرنے سے ڈرنہیں لگتا مُجھے زندہ رہنے سے ڈر لگتا ہے۔ بظاہریہ ایک عام سا جُملہ ہے جو کسی نے دُنیا کےمصائب وآلام سے تنگ آکر کہا ہے۔۔۔ لیکن اگردھیان لگا کرغورکیا جائے توانسان اندر سے ہل کررہ جاتا ہے۔
موت زندگی کا اختتام نہیں ہے- یہ تو محض اپنا پورا وجود لے کرایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جانے کا نام ہے۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک عظیم گھر عطا فرمایا ہے۔ سانس لینےوالا ہر شخص ایک ذاتی گھر کا مالک ہے۔
گھرسے مراد ہماری زندگی ہےاور'سہولیات'زندگی کی نعمتیں ہیں۔ ہرامیر،ہرغریب، ہر نارمل،ہرابنارمل اللہ کی مخلُوق ہے اوراس کے پاس زندگی کی نعمت کسی نہ کسی انداز میں موجود ہے-اگر یہ سوچا جائےکہ محروم ترین اشخاص اورکسی نہ کسی معذوری میں مُبتلا افراد کے پاس کیا ہے؟ تو شاید ہم اپنی عقل کے سہارے اُس کا جواب تلاش نہ کر سکیں۔۔۔ لیکن اگر اللہ کی حکمت جان کر سوچیں تو خیال آتا ہے کہ نہ جانے اللہ کے ہاں اُن کے کیسے کیسےانعامات ودرجات ہوں گے۔ دُنیا میں پیدا ہونے والے ہر ذی روح کے پاس اُس کا اپنا ایک خاص گھر ہے۔۔۔اُس جیسا کسی دوسرے کے پاس نہیں ہو سکتا۔ہرگھر میں کوئی نہ کوئی الگ خاصیت ہے۔ہم اِس گھرکی نگرانی ایک امانت جان کرکرتے ہیں۔۔۔اس کو سنوارنا ہوتا ہے۔۔۔گھر کے ہرحصے کا خیال رکھنا ہمارا فرض ہے۔
جیسا بتایا گیا ہے کہ آخرت میں ہماری دُنیاوی زندگی بہت ہی کم معلوم ہو گی۔مثال کے طور پرصبح سےشام تک کا عرصہ ہماری زندگی کی مُدت ہے۔۔۔صبح سویرے جاگ کر ہم اپنے گھر کو دیکھتے ہیں۔۔۔پودوں کو پانی دیتے ہیں۔۔۔کمروں کی صفائی کرتے ہیں۔۔۔گھر سے متعلقہ افراد کی ضروریات۔۔۔اُن کے مسائل حل کرتےہیں۔یہاں تک کہ دن ڈھلنا شُروع ہو جاتا ہے۔۔۔ ہم کھانے پینے اورسستانے کے کمروں میں بلاوجہ زیادہ وقت صرف کر دیتے ہیں۔اِسی بھاگ دَوڑ میں ہماری نیند کا وقت آجاتا ہے۔۔۔عین اُسی وقت ہماری بےمصرف بھاگ دوڑکا نتیجہ یوں سامنےآتا ہے کہ وہ کمرہ جس میں ہم نے سکون کا سانس لینا تھا۔۔۔ایک مُکمل اور پُرسکون نیند سے لطف اندوز ہونا تھا۔۔۔اُس کو ہم نے سارا دن یکسر نظرانداز کیے رکھا۔۔۔وہاں روشنی اورہوا کا بھی انتظام نہ کر سکے۔۔۔آرام دہ بستر بھی موجود نہ تھا۔۔۔حشرات الارض سے بچنے کا بھی کوئی بندوبست نہ تھا اور
رات کو پیاس کی شِدّت میں پانی بھی پاس نہ تھا۔
ہم سارا دن ایک بےفِکری کے عالم میں اپنے ہم نوالہ و ہم پیالہ دوستوں کے ہمراہ خوش گپیوں میں مصروف رہے تھےاور دن بھرغفلت کی نیند سوتے ہوئے یہ احساس بالکُل نہ جاگا کہ وہ کمرہ جس میں ہم نے اکیلے سونا تھا،اُس میں کسی ہمدم کی شفقت کے سائے کی بھی خاص کوشش نہیں کی۔۔۔رات کوپہنے جانے والے لباس کو بھی فراموش کر دیا۔۔وہ لباس جس نے ہر ہرکروٹ ہمارے جسم کو آرام دینا تھا۔۔۔ اُس سادہ لباس کی خریداری کو بھول کر دن بھر ایک سے ایک مہنگے اور قیمتی لباس کی خریداری۔۔۔اُس کو پہن کر فخر کرنے۔۔۔ اور اپنے آپ کو دوسروں سے برترنظرآنے کی دَوڑ میں شامِل رہے۔اللہ ہمیں اس عبرت ناک انجام سے محفوظ فرمائے۔ ہمیں سیدھے اور سچّے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ وہ راستہ جس پر صرف قدم رکھنے کی دیر ہے آگے بڑھیں تو اللہ کی ذات رہنمائی کے لیے ہمارے سنگ ہو گی-
مئی 5 ، 2011
مُجھے مرنے سے ڈرنہیں لگتا مُجھے زندہ رہنے سے ڈر لگتا ہے۔ بظاہریہ ایک عام سا جُملہ ہے جو کسی نے دُنیا کےمصائب وآلام سے تنگ آکر کہا ہے۔۔۔ لیکن اگردھیان لگا کرغورکیا جائے توانسان اندر سے ہل کررہ جاتا ہے۔
موت زندگی کا اختتام نہیں ہے- یہ تو محض اپنا پورا وجود لے کرایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جانے کا نام ہے۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک عظیم گھر عطا فرمایا ہے۔ سانس لینےوالا ہر شخص ایک ذاتی گھر کا مالک ہے۔
گھرسے مراد ہماری زندگی ہےاور'سہولیات'زندگی کی نعمتیں ہیں۔ ہرامیر،ہرغریب، ہر نارمل،ہرابنارمل اللہ کی مخلُوق ہے اوراس کے پاس زندگی کی نعمت کسی نہ کسی انداز میں موجود ہے-اگر یہ سوچا جائےکہ محروم ترین اشخاص اورکسی نہ کسی معذوری میں مُبتلا افراد کے پاس کیا ہے؟ تو شاید ہم اپنی عقل کے سہارے اُس کا جواب تلاش نہ کر سکیں۔۔۔ لیکن اگر اللہ کی حکمت جان کر سوچیں تو خیال آتا ہے کہ نہ جانے اللہ کے ہاں اُن کے کیسے کیسےانعامات ودرجات ہوں گے۔ دُنیا میں پیدا ہونے والے ہر ذی روح کے پاس اُس کا اپنا ایک خاص گھر ہے۔۔۔اُس جیسا کسی دوسرے کے پاس نہیں ہو سکتا۔ہرگھر میں کوئی نہ کوئی الگ خاصیت ہے۔ہم اِس گھرکی نگرانی ایک امانت جان کرکرتے ہیں۔۔۔اس کو سنوارنا ہوتا ہے۔۔۔گھر کے ہرحصے کا خیال رکھنا ہمارا فرض ہے۔
جیسا بتایا گیا ہے کہ آخرت میں ہماری دُنیاوی زندگی بہت ہی کم معلوم ہو گی۔مثال کے طور پرصبح سےشام تک کا عرصہ ہماری زندگی کی مُدت ہے۔۔۔صبح سویرے جاگ کر ہم اپنے گھر کو دیکھتے ہیں۔۔۔پودوں کو پانی دیتے ہیں۔۔۔کمروں کی صفائی کرتے ہیں۔۔۔گھر سے متعلقہ افراد کی ضروریات۔۔۔اُن کے مسائل حل کرتےہیں۔یہاں تک کہ دن ڈھلنا شُروع ہو جاتا ہے۔۔۔ ہم کھانے پینے اورسستانے کے کمروں میں بلاوجہ زیادہ وقت صرف کر دیتے ہیں۔اِسی بھاگ دَوڑ میں ہماری نیند کا وقت آجاتا ہے۔۔۔عین اُسی وقت ہماری بےمصرف بھاگ دوڑکا نتیجہ یوں سامنےآتا ہے کہ وہ کمرہ جس میں ہم نے سکون کا سانس لینا تھا۔۔۔ایک مُکمل اور پُرسکون نیند سے لطف اندوز ہونا تھا۔۔۔اُس کو ہم نے سارا دن یکسر نظرانداز کیے رکھا۔۔۔وہاں روشنی اورہوا کا بھی انتظام نہ کر سکے۔۔۔آرام دہ بستر بھی موجود نہ تھا۔۔۔حشرات الارض سے بچنے کا بھی کوئی بندوبست نہ تھا اور
رات کو پیاس کی شِدّت میں پانی بھی پاس نہ تھا۔
ہم سارا دن ایک بےفِکری کے عالم میں اپنے ہم نوالہ و ہم پیالہ دوستوں کے ہمراہ خوش گپیوں میں مصروف رہے تھےاور دن بھرغفلت کی نیند سوتے ہوئے یہ احساس بالکُل نہ جاگا کہ وہ کمرہ جس میں ہم نے اکیلے سونا تھا،اُس میں کسی ہمدم کی شفقت کے سائے کی بھی خاص کوشش نہیں کی۔۔۔رات کوپہنے جانے والے لباس کو بھی فراموش کر دیا۔۔وہ لباس جس نے ہر ہرکروٹ ہمارے جسم کو آرام دینا تھا۔۔۔ اُس سادہ لباس کی خریداری کو بھول کر دن بھر ایک سے ایک مہنگے اور قیمتی لباس کی خریداری۔۔۔اُس کو پہن کر فخر کرنے۔۔۔ اور اپنے آپ کو دوسروں سے برترنظرآنے کی دَوڑ میں شامِل رہے۔اللہ ہمیں اس عبرت ناک انجام سے محفوظ فرمائے۔ ہمیں سیدھے اور سچّے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ وہ راستہ جس پر صرف قدم رکھنے کی دیر ہے آگے بڑھیں تو اللہ کی ذات رہنمائی کے لیے ہمارے سنگ ہو گی-
مئی 5 ، 2011
موت اِک ماندگی کا وقفہ ہے
جواب دیںحذف کریںاور آگے چلیں گے دم لے کر
-------------------------
رہِ مرگ سے کیوں ڈراتے ہیں لوگ
بہت اِس طرف کو تو جاتے ہیں لوگ
-------------------------