"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر پر لگی تختی اگر مالکِ مکان کی شناخت ہے تو کتبہ یا لوح صاحبِ ِ قبر کی نشاندہی کرتے ہیں۔یہ سادہ سی بات اتنی سادہ ہرگز نہیں۔ گھرپر لگی تحتی مالکِ مکان کی حیثیت ( اسٹیٹس) کی ترجمان ہوتی ہے اور بعض اوقات تو کیا اکثراوقات اسے غیرمحسوس طور پر انسان کی زندگی کمائی کا حاصل اور فخر بھی کہا جا سکتا ہے ۔ لیکن دنیا کے منظر سے ہمیشہ کے لیے غائب ہونے کے بعد ملکیت کی علم بردار اس تختی اور قبر کے سرہانے لگے کتبے میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔غور کیا جائے تو روشنیوں سے آباد پکے گھر کی بیرونی دیوار پر لگی اس تختی کے بین روح جھنجھوڑ دیتے ہیں کہ "ہاں یہ وہی"معدوم" ہے جو کسی قبرستان کے دوردراز ویرانے میں مٹی کے مدفن میں "موجود" ہے۔ہم سانس لیتے انسان اپنی موت تو یاد رکھتے ہیں،قبر کے بارے میں بھی سوچتے ہیں لیکن کبھی اپنے اس کتبے کے بارے میں خواب تو خیال میں بھی نہیں سوچتے ۔ وہ کتبہ جس پر فقط ہمارا نام یا ہمارے لواحقین کی محبت وعقیدت اور اُن کا فہم ہی کنندہ ہو گا۔ کتبہ خواہ کسی ویران کھنڈر ہوتی قبر پر لگا ہو یا سجی سجائی قبر کا تاج، نامور شخصیات کی "آخری آرام گاہ" کا ثبوت دے یا گمنام انسان کو "نام" کی تکریم دے۔ہمیشہ باعثِ عبرت ،حسرت اور روح میں اُترنے والے سناٹے کو جنم دیتا ہے۔قصہ مختصر کتبہ انسان کی دنیا کہانی کی کتاب کا وہ آخری صفحہ ہے جس کے متن سے وہ خود لاعلم رہتا ہے۔
بلاگ مراقبۂ موت " سے اقتباس۔۔"
٭ قبرستان میں قدم رکھتے ہی جہاں وسعتِ نگاہ تک قبور کی دُنیا دِکھائی دیتی ہے وہیں ان کے سرہانے لگے کتبے اہلِ قبر کی زندگی کہانی سناتے اور سوچ کے در کھولتے ہیں۔ کتبے کوکسی قبر کا ایک روایتی تعارف کہا جا سکتا ہے۔لیکن نام ہی کی طرح یہ وہ شناخت ہے جوہمارے قرابت دار اپنے فہم اور احساس کے تحت ہی طے کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ہمارا نام اگر دنیا میں آمد کی نوید ہے تو ہمارا کتبہ ہمارے جانے پر مہر ثبت کرتا ہے اور ہر دو کے رکھنے اور متن سے ہمارا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ جب ہم زندگی کتاب کے استعارے سے بات کریں تو کتبے کو اس کے آخری باب "موت" کا انتساب کہا جا سکتا ہے ایسا انتساب جس کے رکھنے کا صاحبِ کتاب سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ۔ ٭ میں اہم تھا یہی وہم تھا۔
٭ آج زمین کے اوپر کل زمین کے نیچے۔٭ کہانی ختم زندگی شروع۔٭ عمر کٹ ہی گئی۔٭ زندگی خاک ہی تو تھی سو خاک اُڑاتے گذری۔ ٭بس یہی تو منزل تھی۔٭ آج ہماری کل تمہاری٭آج یہاں کل وہاں
٭اگر اور یقیناً کے بیچ کی کہانیحرف آخرصفحہ 275۔۔۔مرنے والوں کو کچھ فرق نہیں پڑتا کہ اُن کی قبر پر ایک تاج محل تعمیر ہوتا ہے۔۔۔یا وہ بارشوں میں دھنس کر ایک گڑھا بن جاتی ہےاور اُس میں کیڑے مکوڑے رینگتے ہیں اور یا اُس سے ٹیک لگا کر سائیں لوگ چرس کے سُوٹے لگاتے ہیں۔ بس یہ ہے کہ ییچھے رہ جانے والوں کو فرق پڑتا ہے۔
٭اگر اور یقیناً کے بیچ کی کہانی
منسلک بلاگ ۔ منہ دِکھائی سے منہ دیکھنے تک