راجہ گدھ از بانو قدسیہ
بانو قدسیہ
تاریخَ پیدائش ۔۔۔28 نومبر 1928
تاریخ،وفات۔۔۔4فروری2017
راجہ گدھ ۔۔۔سالِ اشاعت ۔۔۔1981
صفحہ 79۔۔۔
دیکھو!محبت چھلاوہ ہے۔ ۔ ۔ اس کی اصل حقیقت بڑی مشکل سے سمجھ میں آتی ہے کچھ لوگ جو آپ سےاظہار محبت کرتے ہیں۔اتصال جسم کے خواہاں ہوتے ہیں۔کچھ آپ کی روح کے لیے تڑپتے ہیں کسی کسی کے جذبات پر آپ خود حاوی ہو جانا چاہتے ہیں ۔ کچھ کو سمجھ سوچ ادراک کی سمتوں پر چھا جانے کا شوق ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ محبت چھلاوہ ہے لاکھ روپ بدلتی ہے۔ اسی لیے لاکھ چاہو ایک آدمی آپ کی تمام ضرورتیں پوری کر دے یہ ممکن نہیں ۔ ۔ ۔ اور بالفرض کوئی آپ کی ہر سمت ہر جہت کے خلا کو پورا بھی کر دے تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ آپ اس کی ہر ضرورت کو ہر جگہ ہر موسم اور ہر عہد میں پورا کرسکیں گے۔ ۔ ۔انسان جامد نہیں ہےبڑھنے والا ہےاوپر دائیں بائیں ۔ ۔ ۔اس کی ضروریات کوتم پابند نہیں کر سکتے۔۔۔
۔102۔۔۔
پہلا بوسہ،پہلا تحفہ۔۔۔پہلی مرتبہ اقرارِمحبت میں گرمیوں کی اوّلین بارش جیسی کیفیت ہوتی ہے سارے میں مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو پھیل جاتی ہے۔
۔135۔۔۔
جسموں کے اتصال سے ایک نیا جسم ایک نئی روح جنم لے سکتی ہے لیکن ایک روح دوسری روح سے نہیں مل سکتی۔
۔172۔۔۔
شادی کا خوشی سے اور محبت کا اختیار سے کوئی تعلق نہیں،حقوق وفرائض کا وارفتگی سے کیا ناطہ۔
۔302۔۔۔
دولت اورمحبت کی ایک سی سرشت ہے۔ دولت کبھی انجانے میں چھپر پھاڑ کر ملتی ہے کبھی وراثت کا روپ دھار کر ایسے ڈھب سے ملتی ہے کہ چھوٹی انگلی تک ہلائی نہیں ہوتی اورآدمی مالامال ہو جاتا ہے پھر اکلوتے لاڈلے کی طرح دولت اجاڑنے برباد کرنے میں مزا آتا ہے۔ کبھی پائی پائی جوڑتے رہنے پر بھی پورا روپیہ نہیں ہوتا ۔ کبھی محبت اور دولت ملتی رہتی ہے لیکن سیری کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی ۔ چادر پوری نہیں پڑتی تن پر۔ کبھی محبت رشوت کے روپے کی طرح ڈھکی چھپی ملتی ہے ۔لوگوں کو پتہ چل جائے تو بڑی تھڑی تھڑی ہوتی ہے کبھی کاسے میں پڑنے والی اکنی دونی کی خاطر ساری عمر تیرا بھلا ہو کہنا پڑتا ہے۔
اِن سگی بہنوں سے تو جس قدر ناطہ کم ہو آرام ہے۔
۔325۔۔۔
بیوی اور پی اے سے کسی کا کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔کوئی اچھا پی اے ہوتا ہے کوئی نالائق،کسی کو شارٹ ہینڈ آتی ہے،کوئی نوٹس لینے میں تیز ہوتا ہے۔ہر آفیسر پی اے کے ساتھ بندھا ہوتا ہے ہر شوہر بیوی کے ساتھ ۔۔۔پی اے اور بیوی کی صفات ہوتی ہیں۔۔۔خدمات ہوتی ہیں لیکن اُن کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہوتا،ایک اچھی بیوی ثابت ہوتی ہے دوسری بُری۔اچھی بیوی کھانا پکاتی ہے،برتن مانجھتی ہے،وقت پڑنے پر پاؤں دباتی ہے ،چُپ رہتی ہے لیکن اُس کے ساتھ کبھی اُس بیوی سے زیادہ ناطہ نہیں ہوتا جو گھر کے خرچے سے زیور بناتی ہے ،فلمیں دیکھتی ہے،سسرال والوں سے لڑتی ہے۔نوکر ملازم خدمت گار کے ساتھ تعلق پیدا ہو سکتا ہے لیکن پی اے کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔بیوی بھی اِسی ضمن میں آتی ہے۔
۔325۔۔
سچ بولنا کوئی کمال نہیں ہے سچ سننا بڑا کمال ہے۔سچ بولنے والوں کی قوت ہمیشہ سچ سننے والوں سے ملتی ہے۔
۔464۔۔۔
انسان کی سرشت کو یا تو خدا سمجھتا ہےیا ابلیس۔۔۔ انسان تو ابھی خود اپنی سرشت کو سمجھ نہیں پایا۔۔۔ تُو جانتا ہے کہ انسان کا خمیر نیکی سے اُٹھا ہے ۔چور،اُچکا ڈاکو بدمعاش ساری عمر بدی کمائے،ایک توبہ کے وضو سے اُس کی بدی دُھل سکتی ہے۔۔بدی اُس کے آئینے میں فقط ابلیس کے عکس کی طرح رہتی ہے۔عکس ڈالنے والا نہ ہو تو آئینہ پاک رہتا ہے۔
۔464۔۔۔
اِن کی دیوانگی کا اِن کی سرشت سے کوئی علاقہ نہیں۔۔۔جنگل والوں کا وجود بھی ایک ہوتا ہے اور ان کی سرشت بھی ایک۔ لیکن انسان کو خالق نے اس طور بنایا ہے کہ اُس کا وجود تو ایک ہے لیکن اس کی روح سائیکی،سرشت،عقل ،قلب جانئیے کیا کیا کچھ کئی رنگ کے ہیں۔ وہ کسی کے ساتھ شیر ہے تو کسی کے ساتھ بکری،کسی کے ساتھ سانپ بن کر رہتا ہے تو کسی کے ساتھ کینچوے سے بھی بدتر ہے۔بدی اور نیکی روزِ ازل سے اُس کے اندر دو پانیوں کی طرح رہتی ہے ساتھ ساتھ ملی جُلی علیحدٰہ علیحدٰہ جیسے دل کے تیسرے خانے میں صاف اور گندہ لہو ساتھ ساتھ چلتا ہے ۔وہ تو ہمیشہ ڈھلتا ہے ہمیشہ بدلتا ہے کہیں قیام نہیں کہیں قرار نہیں ۔وہ ایک زندگی میں ایک وجود میں ایک عمر میں لاتعداد روحیں ،انگنت تجربات اور بےحساب نشوونما کا حامل ہوتا ہے اس لیے افراد مرتے ہیں انسان مسلسل رہتا ہے۔
۔۔۔۔۔
زندگی سے موت تک کئی راستے ہیں ، جس راستے پر بھی پڑ جاؤ اس میں کچھ راحتیں ہوتی ہیں اس میں کچھ تکلیفیں پیش آتی ہیں۔ کچھ اس راہ پر چلنے کے لئے تمغے ہوتے ہیں اور کچھ قیمتیں ادا کرنی پڑتی ہیں در اصل کوئی راہ اختیار کر لو ۔۔۔۔۔۔ کسی راستے پر پڑ جاؤ، وقفہ اتنا لمبا ہے کہ مسافر کا سانس اکھڑے ہی اکھڑے۔۔
۔۔۔۔۔
جانے کیا بات ہے لیکن ہر شخص اپنے محبوب کی انگلی پکڑ کر اسے اپنے ماضی کی سیر ضرور کروانا چاہتا ہے۔جو کواڑ مدتوں سے بند ہوتے ہیں' ان پر دستک دے کر سوئے ہوئے مکینوں سے اپنا محبوب ملانا چاہتا ہے۔بچپن کی دوپہریں' شامیں اور جواں راتوں کی ساری فلم اسے دکھانے کی بڑی آرزو ہوتی ہے۔
جسم بے نقاب کرنا تو ایک آسان سا فعل ہےاصل شناخت تو اپنے ماضی کی برہنگی سے ہی پیدا ہو سکتی ہے۔
بانو قدسیہ
تاریخَ پیدائش ۔۔۔28 نومبر 1928
تاریخ،وفات۔۔۔4فروری2017
راجہ گدھ ۔۔۔سالِ اشاعت ۔۔۔1981
صفحہ 79۔۔۔
دیکھو!محبت چھلاوہ ہے۔ ۔ ۔ اس کی اصل حقیقت بڑی مشکل سے سمجھ میں آتی ہے کچھ لوگ جو آپ سےاظہار محبت کرتے ہیں۔اتصال جسم کے خواہاں ہوتے ہیں۔کچھ آپ کی روح کے لیے تڑپتے ہیں کسی کسی کے جذبات پر آپ خود حاوی ہو جانا چاہتے ہیں ۔ کچھ کو سمجھ سوچ ادراک کی سمتوں پر چھا جانے کا شوق ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ محبت چھلاوہ ہے لاکھ روپ بدلتی ہے۔ اسی لیے لاکھ چاہو ایک آدمی آپ کی تمام ضرورتیں پوری کر دے یہ ممکن نہیں ۔ ۔ ۔ اور بالفرض کوئی آپ کی ہر سمت ہر جہت کے خلا کو پورا بھی کر دے تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ آپ اس کی ہر ضرورت کو ہر جگہ ہر موسم اور ہر عہد میں پورا کرسکیں گے۔ ۔ ۔انسان جامد نہیں ہےبڑھنے والا ہےاوپر دائیں بائیں ۔ ۔ ۔اس کی ضروریات کوتم پابند نہیں کر سکتے۔۔۔
۔102۔۔۔
پہلا بوسہ،پہلا تحفہ۔۔۔پہلی مرتبہ اقرارِمحبت میں گرمیوں کی اوّلین بارش جیسی کیفیت ہوتی ہے سارے میں مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو پھیل جاتی ہے۔
۔135۔۔۔
جسموں کے اتصال سے ایک نیا جسم ایک نئی روح جنم لے سکتی ہے لیکن ایک روح دوسری روح سے نہیں مل سکتی۔
۔172۔۔۔
شادی کا خوشی سے اور محبت کا اختیار سے کوئی تعلق نہیں،حقوق وفرائض کا وارفتگی سے کیا ناطہ۔
۔302۔۔۔
دولت اورمحبت کی ایک سی سرشت ہے۔ دولت کبھی انجانے میں چھپر پھاڑ کر ملتی ہے کبھی وراثت کا روپ دھار کر ایسے ڈھب سے ملتی ہے کہ چھوٹی انگلی تک ہلائی نہیں ہوتی اورآدمی مالامال ہو جاتا ہے پھر اکلوتے لاڈلے کی طرح دولت اجاڑنے برباد کرنے میں مزا آتا ہے۔ کبھی پائی پائی جوڑتے رہنے پر بھی پورا روپیہ نہیں ہوتا ۔ کبھی محبت اور دولت ملتی رہتی ہے لیکن سیری کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی ۔ چادر پوری نہیں پڑتی تن پر۔ کبھی محبت رشوت کے روپے کی طرح ڈھکی چھپی ملتی ہے ۔لوگوں کو پتہ چل جائے تو بڑی تھڑی تھڑی ہوتی ہے کبھی کاسے میں پڑنے والی اکنی دونی کی خاطر ساری عمر تیرا بھلا ہو کہنا پڑتا ہے۔
اِن سگی بہنوں سے تو جس قدر ناطہ کم ہو آرام ہے۔
۔325۔۔۔
بیوی اور پی اے سے کسی کا کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔کوئی اچھا پی اے ہوتا ہے کوئی نالائق،کسی کو شارٹ ہینڈ آتی ہے،کوئی نوٹس لینے میں تیز ہوتا ہے۔ہر آفیسر پی اے کے ساتھ بندھا ہوتا ہے ہر شوہر بیوی کے ساتھ ۔۔۔پی اے اور بیوی کی صفات ہوتی ہیں۔۔۔خدمات ہوتی ہیں لیکن اُن کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہوتا،ایک اچھی بیوی ثابت ہوتی ہے دوسری بُری۔اچھی بیوی کھانا پکاتی ہے،برتن مانجھتی ہے،وقت پڑنے پر پاؤں دباتی ہے ،چُپ رہتی ہے لیکن اُس کے ساتھ کبھی اُس بیوی سے زیادہ ناطہ نہیں ہوتا جو گھر کے خرچے سے زیور بناتی ہے ،فلمیں دیکھتی ہے،سسرال والوں سے لڑتی ہے۔نوکر ملازم خدمت گار کے ساتھ تعلق پیدا ہو سکتا ہے لیکن پی اے کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔بیوی بھی اِسی ضمن میں آتی ہے۔
۔325۔۔
سچ بولنا کوئی کمال نہیں ہے سچ سننا بڑا کمال ہے۔سچ بولنے والوں کی قوت ہمیشہ سچ سننے والوں سے ملتی ہے۔
۔464۔۔۔
انسان کی سرشت کو یا تو خدا سمجھتا ہےیا ابلیس۔۔۔ انسان تو ابھی خود اپنی سرشت کو سمجھ نہیں پایا۔۔۔ تُو جانتا ہے کہ انسان کا خمیر نیکی سے اُٹھا ہے ۔چور،اُچکا ڈاکو بدمعاش ساری عمر بدی کمائے،ایک توبہ کے وضو سے اُس کی بدی دُھل سکتی ہے۔۔بدی اُس کے آئینے میں فقط ابلیس کے عکس کی طرح رہتی ہے۔عکس ڈالنے والا نہ ہو تو آئینہ پاک رہتا ہے۔
۔464۔۔۔
اِن کی دیوانگی کا اِن کی سرشت سے کوئی علاقہ نہیں۔۔۔جنگل والوں کا وجود بھی ایک ہوتا ہے اور ان کی سرشت بھی ایک۔ لیکن انسان کو خالق نے اس طور بنایا ہے کہ اُس کا وجود تو ایک ہے لیکن اس کی روح سائیکی،سرشت،عقل ،قلب جانئیے کیا کیا کچھ کئی رنگ کے ہیں۔ وہ کسی کے ساتھ شیر ہے تو کسی کے ساتھ بکری،کسی کے ساتھ سانپ بن کر رہتا ہے تو کسی کے ساتھ کینچوے سے بھی بدتر ہے۔بدی اور نیکی روزِ ازل سے اُس کے اندر دو پانیوں کی طرح رہتی ہے ساتھ ساتھ ملی جُلی علیحدٰہ علیحدٰہ جیسے دل کے تیسرے خانے میں صاف اور گندہ لہو ساتھ ساتھ چلتا ہے ۔وہ تو ہمیشہ ڈھلتا ہے ہمیشہ بدلتا ہے کہیں قیام نہیں کہیں قرار نہیں ۔وہ ایک زندگی میں ایک وجود میں ایک عمر میں لاتعداد روحیں ،انگنت تجربات اور بےحساب نشوونما کا حامل ہوتا ہے اس لیے افراد مرتے ہیں انسان مسلسل رہتا ہے۔
۔۔۔۔۔
زندگی سے موت تک کئی راستے ہیں ، جس راستے پر بھی پڑ جاؤ اس میں کچھ راحتیں ہوتی ہیں اس میں کچھ تکلیفیں پیش آتی ہیں۔ کچھ اس راہ پر چلنے کے لئے تمغے ہوتے ہیں اور کچھ قیمتیں ادا کرنی پڑتی ہیں در اصل کوئی راہ اختیار کر لو ۔۔۔۔۔۔ کسی راستے پر پڑ جاؤ، وقفہ اتنا لمبا ہے کہ مسافر کا سانس اکھڑے ہی اکھڑے۔۔
۔۔۔۔۔
جانے کیا بات ہے لیکن ہر شخص اپنے محبوب کی انگلی پکڑ کر اسے اپنے ماضی کی سیر ضرور کروانا چاہتا ہے۔جو کواڑ مدتوں سے بند ہوتے ہیں' ان پر دستک دے کر سوئے ہوئے مکینوں سے اپنا محبوب ملانا چاہتا ہے۔بچپن کی دوپہریں' شامیں اور جواں راتوں کی ساری فلم اسے دکھانے کی بڑی آرزو ہوتی ہے۔
جسم بے نقاب کرنا تو ایک آسان سا فعل ہےاصل شناخت تو اپنے ماضی کی برہنگی سے ہی پیدا ہو سکتی ہے۔
راجہ گدھ میں نے نہیں لکھا: بانو قدسیہ کی یادیں
جواب دیںحذف کریں05-02-2017 افضل مجید بٹ
http://www.humsub.com.pk/43270/afzal-majeed-butt-2/
راجہ گدھ ایسے لکھا جیسے کوئی لکھوا رہا ہو۔۔۔ بانو قدسیہ کا تاریخی انٹرویو
جواب دیںحذف کریں04-02-2017 انورسین رائے
http://www.humsub.com.pk/43157/anwersen-roy-2/
پاکستان کی سب سے بڑی عورت- ڈاکٹر محمد اجمل نیازی
جواب دیںحذف کریں06/02/2017
https://daleel.pk/2017/02/06/29188
بے حد خوبصورت سلیکشن!
جواب دیںحذف کریں