آوازوں کے ہجوم میں برسوں سے تنہا چلتی وہ ایک گونگی عورت تھی جو راستوں میں بھٹکتی ضرور تھی پر منزل کی نشان دہی کرتی دور بجنے والی گھنٹیوں کی آواز سے غافل نہ تھی۔وہ جذبوں کو لفظوں کے موتیوں میں پروتی ،تجربات ِزندگی کے لمس کی خوشبو بکھیرتی ایک عام سی عورت تھی ۔۔۔جس کےصبح وشام ایک ہی محور کے گرد طواف کرتے گزرتے تھے۔سوچ کی نغمگی اور خیال کی لَے اُس کے وجود کی تہوں میں چھپے اسرار تھے جن کی دریافت روح کا بوجھ بن گئی،وہ اُس کا اظہار چاہنے لگی۔یہ چاہ اور چاہے جانے کی خواہش بھی انسان کی عجیب کمزوری ہے جو گلاب کی پتی کی طرح محسوس تو ہوتی ہے لیکن کانٹے جیسی چبھن بن کر روح میں پیوست ہو جاتی ہے۔اپنے رنگ اور خوشبو کی پہچان کی چاہ گھر کی چاردیواری میں قطعی بےوقعت اور مہمل ٹھہرتی ہے کہ وہاں ذہن سے زیادہ جسم کی کارکردگی کی قیمت لگتی ہے۔خواہش اظہار نے گھر سے باہر جھانکنے پر مجبور کیا تو پتہ چلا کہ گھر سے باہر قدم رکھنے والی عورت کے لیے دُنیا صرف "بازار"ہے، ہر طرف تماش بین ہی تماش بین۔جہاں عورت کو اونچا مقام دینے کے دھوکے میں بالاخانے پر بٹھا دیا جاتا ہے۔۔۔اُسے بھکاری جان کر ہوس اور بھوک کی خیرات دی جاتی ہے۔جہاں عقل سوتی اور راتیں جاگتی ہیں اور دن کی روشنی میں وجود کا ایکسرے کرتی تماش بینوں کی ٹٹولتی نظریں عورت کا صرف ایک ہی روپ دیکھتی ہیں۔عورت چاہتے ہوئے بھی انہیں دھتکار نہیں سکتی کہ جسے اپنے آپ کی سمجھ نہ ہو وہ کسی دوسرے کو کیسے جان سکتا ہے۔
عورت سب محسوس کرتی ہےکسی بارونق پلیٹ فارم پر یا سڑک پر اجنبی چہروں کے درمیان ہی نہیں بلکہ رشتوں کے مضبوط حصاروں کے درمیان رہ کر بھی اپنے اوپر بہت کچھ سہتی ہے ۔خود سے وابستہ لوگوں کی خاطر چُپ رہنا اُس کی مجبوری ہے تو ہمیشہ ننگے پاؤں تنہا چلنا اس کی قسمت اور آبلہ پائی اُس کا ظرف۔جانے کیوں دُنیا کے اس بازار میں آنے والی ہرعورت کو ایک ہی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔۔۔ اپنے گھر کی چار دیواری سے باہر نظر آنے والی ہرعورت محض " جنس" ہے۔۔۔ قابلِ فروخت کا لیبل جس پر دور سے دکھائی دیتا ہے،قریب آنے پر عمر، رنگ، نسل ، زمان ومکان کے مطابق اُس کے کردارکا تعین کیا جاتا ہے۔اپنی 'حیثیت"کے مطابق بولی لگائی جاتی ہے،اپنا مرتبہ جتلایا جاتا ہے۔قیمت زیادہ دکھنے پر بھاؤ تاؤ ہوتا ہےتو کبھی بےعزت بھی کیا جاتا ہے۔دُنیا کی اس ڈھلوان گزرگاہ میں جذبوں سے لے کر رویوں تک ہر چیز برائے فروخت ہے۔سامان فروش جگہ جگہ صدائیں لگاتے ہیں اور سب بکتا ہے۔کیاعزت کیسی غیرت سے نظریں چراتے ہوئے بناوٹ کا غازہ لگا کر ضرورت کے گھنگرو انسان کو بےسمت نچائے جاتے ہیں۔
بجا کہ اپنے آپ کو نگاہ کے ہر زاویے سے منوانا عورت کی فطری خواہش ہے۔ لیکن ہرعورت کا اپنا زاویہ نگاہ ہے۔۔۔اُس کا ذاتی حق ہے کہ وہ کون سا رُخ دُنیا کے سامنے پیش کرے۔ اپنی کس صلاحیت کی قیمت لگائے یہ خالص اس کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ اس میں دخل اندازی کا اختیار اس کے اپنوں کو ہے اور نہ ہی پرایوں کو۔
عورت چاہے گھر کے کسی خاموش کونے میں پڑی ہو یا کسی چیختے چلاتے بازار میں چلتی ہو اپنے آپ پر یقین کے لیے اس کے پاس اپنے خوابوں کا ساتھ دنیا کے ہر ساتھ سے بڑھ کر ہے۔یہ خواب ہی ہیں جو نہ صرف عورت اور مرد کے رویوں کا فرق نمایاں کرتے ہیں بلکہ خوابوں کی بُنت ہرعورت کے کردار کی وضاحت بھی کرتی ہے۔رشتوں اور تعلقات کے مکمل لباس کے ساتھ عورت خواہ کتنا ہی مضبوط ہونے کا دعویٰ کرے اپنے پرائے کا تضاد اُسے اندر سے بہت کمزور اور خوفزدہ کر دیتا ہے۔ستم یہ کہ جب یہی تماش بین گھر میں داخل ہوتے ہیں تو اُن کی غیرت عورت کا صرف ایک مقام جانتی ہے۔۔۔اُس نامکمل وجود کو سجدے کرتی ہےجس کی آواز اس کے اپنے کانوں سے باہر سنائی نہ دے۔مرد چاہتے ہوئے بھی عورت کےبارے میں اپنے مخصوص انداز فکر سے جان نہیں چھڑا پاتا۔ عزت واحترام اورعقیدت ومحبت کے جذبات بھی عورت کے افعال وکردار پر شکوک وشبہات کے پردے ڈالے رہتے ہیں۔مرد کی اس دُنیا میں عورت کو کہیں بھی پناہ نہیں ۔ نہ صرف باہر بلکہ اس کے اپنے وجود میں بھی بےیقینی کچھ اس طور پنجے گاڑتی ہے کہ دُنیا فتح کر کے بھی اسکندرِاعظم نہیں بن پاتی اوردلوں کو مسخر کر کے بھی اِس کے دل کی دُنیا ان چھوئی رہتی ہے۔یہی قرار وبےقراری حاصلِ زندگی ہے کہ قدم روکتا ہے تو چلتے رہنے پر اُکساتا بھی ہے۔
جس طرح اپنے وجود،اپنے ناز و ادا کی قیمت لگاتی عورت خواہ کتنی ہی دلکش کیوں نہ دکھائی دے۔ دیکھنے والے اُس کی اصل کبھی نہیں بھلا پاتے۔اسی طرح لفظوں کی دُنیا میں اپنا آپ تلاش کرتی عام عورت بھی خود نمائی اورخود ستائی کی ماری سمجھی جاتی ہے۔کبھی اس کی تحریر کو "بیہیوئیر کنڑاسٹ " کا نام دیا جاتا ہے,کبھی نقالی تو کبھی مایوسی اور ڈپریشن کی ماری عورت کی بچگانہ سوچ ۔ ہر ایک کا تجزیہ اپنے عقلی معیار کے مطابق درست ہو سکتا ہے اورہمیں کسی کی سوچ بدلنے کا حق ہے اور نہ ہی اختیار۔اصل بات جانے بغیر کسی قسم کا غصہ اور جلد بازی ہمیں بہت سی غلط فہمیوں اور دوسروں کے متعلق بدظنی کا شکار بھی کر سکتا ہے۔زندگی کا ایک بنیادی اصول اگرسیکھ لیا جائے تو ہر اُلجھن ہر پریشانی سے کسی حد تک نجات مل سکتی ہے۔"جیو اورجینے دو"کا فلسفہ زندگی کے ہر موڑ پر بہت سی گرہیں کھولتا جاتا ہے۔ہمیں نہ صرف اپنے بارے میں بلکہ کسی کے بارے میں بھی کبھی کوئی حتمی رائے یا تجزیہ دینے کا حق حاصل نہیں اور نہ ہی ایسا کرنا چاہیے۔ جیسے دوسروں کے رویے اور کردار سے ہرگھڑی ہمیں نیا سبق ملتا ہے اسی طرح اپنی ذات کے بھید ہم پر عیاں ہوتے ہیں۔
حرفِ آخر
عورت کی پہچان صرف ایک مرد کی آنکھ ہی کر سکتی ہے تو اکثروبیشتر مرد کے ہاتھوں استحصال کی بنیاد ایک عورت ہی رکھتی ہے۔مرد صرف ایک کٹھ پُتلی ہے کبھی بےلگام نفس کے ہاتھوں تو کبھی بےخبر لمحوں کے تعاقب میں ناچتا چلا جاتا ہے۔
عورت سب محسوس کرتی ہےکسی بارونق پلیٹ فارم پر یا سڑک پر اجنبی چہروں کے درمیان ہی نہیں بلکہ رشتوں کے مضبوط حصاروں کے درمیان رہ کر بھی اپنے اوپر بہت کچھ سہتی ہے ۔خود سے وابستہ لوگوں کی خاطر چُپ رہنا اُس کی مجبوری ہے تو ہمیشہ ننگے پاؤں تنہا چلنا اس کی قسمت اور آبلہ پائی اُس کا ظرف۔جانے کیوں دُنیا کے اس بازار میں آنے والی ہرعورت کو ایک ہی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔۔۔ اپنے گھر کی چار دیواری سے باہر نظر آنے والی ہرعورت محض " جنس" ہے۔۔۔ قابلِ فروخت کا لیبل جس پر دور سے دکھائی دیتا ہے،قریب آنے پر عمر، رنگ، نسل ، زمان ومکان کے مطابق اُس کے کردارکا تعین کیا جاتا ہے۔اپنی 'حیثیت"کے مطابق بولی لگائی جاتی ہے،اپنا مرتبہ جتلایا جاتا ہے۔قیمت زیادہ دکھنے پر بھاؤ تاؤ ہوتا ہےتو کبھی بےعزت بھی کیا جاتا ہے۔دُنیا کی اس ڈھلوان گزرگاہ میں جذبوں سے لے کر رویوں تک ہر چیز برائے فروخت ہے۔سامان فروش جگہ جگہ صدائیں لگاتے ہیں اور سب بکتا ہے۔کیاعزت کیسی غیرت سے نظریں چراتے ہوئے بناوٹ کا غازہ لگا کر ضرورت کے گھنگرو انسان کو بےسمت نچائے جاتے ہیں۔
بجا کہ اپنے آپ کو نگاہ کے ہر زاویے سے منوانا عورت کی فطری خواہش ہے۔ لیکن ہرعورت کا اپنا زاویہ نگاہ ہے۔۔۔اُس کا ذاتی حق ہے کہ وہ کون سا رُخ دُنیا کے سامنے پیش کرے۔ اپنی کس صلاحیت کی قیمت لگائے یہ خالص اس کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ اس میں دخل اندازی کا اختیار اس کے اپنوں کو ہے اور نہ ہی پرایوں کو۔
عورت چاہے گھر کے کسی خاموش کونے میں پڑی ہو یا کسی چیختے چلاتے بازار میں چلتی ہو اپنے آپ پر یقین کے لیے اس کے پاس اپنے خوابوں کا ساتھ دنیا کے ہر ساتھ سے بڑھ کر ہے۔یہ خواب ہی ہیں جو نہ صرف عورت اور مرد کے رویوں کا فرق نمایاں کرتے ہیں بلکہ خوابوں کی بُنت ہرعورت کے کردار کی وضاحت بھی کرتی ہے۔رشتوں اور تعلقات کے مکمل لباس کے ساتھ عورت خواہ کتنا ہی مضبوط ہونے کا دعویٰ کرے اپنے پرائے کا تضاد اُسے اندر سے بہت کمزور اور خوفزدہ کر دیتا ہے۔ستم یہ کہ جب یہی تماش بین گھر میں داخل ہوتے ہیں تو اُن کی غیرت عورت کا صرف ایک مقام جانتی ہے۔۔۔اُس نامکمل وجود کو سجدے کرتی ہےجس کی آواز اس کے اپنے کانوں سے باہر سنائی نہ دے۔مرد چاہتے ہوئے بھی عورت کےبارے میں اپنے مخصوص انداز فکر سے جان نہیں چھڑا پاتا۔ عزت واحترام اورعقیدت ومحبت کے جذبات بھی عورت کے افعال وکردار پر شکوک وشبہات کے پردے ڈالے رہتے ہیں۔مرد کی اس دُنیا میں عورت کو کہیں بھی پناہ نہیں ۔ نہ صرف باہر بلکہ اس کے اپنے وجود میں بھی بےیقینی کچھ اس طور پنجے گاڑتی ہے کہ دُنیا فتح کر کے بھی اسکندرِاعظم نہیں بن پاتی اوردلوں کو مسخر کر کے بھی اِس کے دل کی دُنیا ان چھوئی رہتی ہے۔یہی قرار وبےقراری حاصلِ زندگی ہے کہ قدم روکتا ہے تو چلتے رہنے پر اُکساتا بھی ہے۔
جس طرح اپنے وجود،اپنے ناز و ادا کی قیمت لگاتی عورت خواہ کتنی ہی دلکش کیوں نہ دکھائی دے۔ دیکھنے والے اُس کی اصل کبھی نہیں بھلا پاتے۔اسی طرح لفظوں کی دُنیا میں اپنا آپ تلاش کرتی عام عورت بھی خود نمائی اورخود ستائی کی ماری سمجھی جاتی ہے۔کبھی اس کی تحریر کو "بیہیوئیر کنڑاسٹ " کا نام دیا جاتا ہے,کبھی نقالی تو کبھی مایوسی اور ڈپریشن کی ماری عورت کی بچگانہ سوچ ۔ ہر ایک کا تجزیہ اپنے عقلی معیار کے مطابق درست ہو سکتا ہے اورہمیں کسی کی سوچ بدلنے کا حق ہے اور نہ ہی اختیار۔اصل بات جانے بغیر کسی قسم کا غصہ اور جلد بازی ہمیں بہت سی غلط فہمیوں اور دوسروں کے متعلق بدظنی کا شکار بھی کر سکتا ہے۔زندگی کا ایک بنیادی اصول اگرسیکھ لیا جائے تو ہر اُلجھن ہر پریشانی سے کسی حد تک نجات مل سکتی ہے۔"جیو اورجینے دو"کا فلسفہ زندگی کے ہر موڑ پر بہت سی گرہیں کھولتا جاتا ہے۔ہمیں نہ صرف اپنے بارے میں بلکہ کسی کے بارے میں بھی کبھی کوئی حتمی رائے یا تجزیہ دینے کا حق حاصل نہیں اور نہ ہی ایسا کرنا چاہیے۔ جیسے دوسروں کے رویے اور کردار سے ہرگھڑی ہمیں نیا سبق ملتا ہے اسی طرح اپنی ذات کے بھید ہم پر عیاں ہوتے ہیں۔
حرفِ آخر
عورت کی پہچان صرف ایک مرد کی آنکھ ہی کر سکتی ہے تو اکثروبیشتر مرد کے ہاتھوں استحصال کی بنیاد ایک عورت ہی رکھتی ہے۔مرد صرف ایک کٹھ پُتلی ہے کبھی بےلگام نفس کے ہاتھوں تو کبھی بےخبر لمحوں کے تعاقب میں ناچتا چلا جاتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں