ہری مرچیں ۔۔۔۔ جو کبھی پھیکی ہوتی ہیں تو کبھی تیکھی ۔۔۔
٭ہری مرچ وہی ہے جو چودہ طبق روشن کر دے۔
۔۔۔۔۔
٭سیلفی سیلفی ہوتی ہے اس کا "ایلفی" سے کوئی تعلق نہیں لیکن جانے کیوں کبھی بہت ساری سیلفیاں دیکھ کر ایلفی یاد آ جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔
٭ لفٹ دینے سے کبھی نہ ہچکچاؤ۔شاید اگلے موڑ پر آپ کواس کی ضرورت پڑ جائے۔لیکن لفٹ کے ساتھ اپنی عقل تو نہ دو۔
۔۔۔۔۔
٭عورتیں بہت ڈھیٹ ہوتی ہیں،مرنے پر آئیں تو نظر کے تیر سے بھی شکار ہو جاتی ہیں۔زندہ رہنےکی خواہش پال لیں تو "ممی" کی صورت حنوط ہو جاتی ہیں۔
۔۔۔۔۔
٭شوہر سیاسی حکمرانوں سے کم نہیں، مانتے سب ہیں لیکن کرتے اپنی من مانی ہی ہیں۔
۔۔۔۔۔
٭بچے اگر بڑے ہو جائیں تو بڑوں کو بچہ بننا ہی پڑتا ہےکہ ایک "میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں"۔
۔۔۔
٭آج کی نئی نسل اپنے رشتوں سے شدید بےزاری کا شکار ہے شاید اس لیے کہ اسے گھر میں رہتے ہوئے بھی گھر میں رہنے کی عادت نہیں۔
۔۔۔
٭زندگی دھوپ چھاؤں کا نام ہے کبھی ہم کسی کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں تو کبھی خود بڑی بھاری ذمہ داری بن جاتے ہیں۔
۔۔۔۔
٭آخری عمر میں خبر بننے سے بہتر ہے پیدل چلا جائے۔۔۔مزے کا مزہ اور بونس کی عمر الگ۔
۔۔۔۔
٭ زندگی میں ایک وقت ایسا ہی آتا ہے کہ وقت ضائع کرنے کے لیے بھی وقت نہیں ملتا۔
۔۔۔۔۔
٭اخبار۔۔۔۔۔روز آنے والی ایک ایسی چیز جو آج کے دور میں خرید کر پڑھنا سب سے بڑی بےوقوفی ۔پھر ورق ورق چاٹنے کا وقت نکالنا ایک سعی لاحاصل اور پڑھنے کے بعد ردی کے ڈھیر میں اضافہ سب سے بڑا دردسر ہے۔لیکن ان سب خساروں کے باوجود اس کی اہمیت سے انکار قطعی نہیں۔۔۔وہ خاموش دوست جو دنیا سے باخبر رکھتا ہے۔نیٹ کا ایک تحفہ روز کا اخبار بھی۔صرف ایک نہیں جتنے چاہو اور وہ بھی مفت میں۔
۔۔۔۔۔
٭ قربانی کا گوشت اور شادی پر سلامی اپنی نہیں دوسرے کی حیثیت دیکھ کر دی جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔
٭ غریب کا پیٹ سدا کا خالی کنواں ہے ڈالنے کی رفتار کیسی ہی کیوں نہ ہو خالی پن کا احساس ہمیشہ کمتری کا شکار رکھتا ہے۔ جبکہ بھرا پیٹ وہ اندھا کنواں ہے جس میں ڈالنے کی رفتار کتنی تیز ہوتی ہے اُتنی ہی تیزی سے سب غائب ہو کر اور کی صدا لگاتا ہے۔بھرے پیٹ اور خالی پیٹ میں فرق صرف سوچ کا ہے کبھی بھرا پیٹ طمانیت کے تشکر سے چھلکا پڑتا ہے تو کبھی خالی پیٹ اپنی موج،اپنے حال میں مست جیتا چلا جاتا ہے۔
۔۔۔۔
٭ ڈھلتی عمر میں تنہائی کا آسیب محض بھرےپیٹ کا چونچلہ ہی تو ہے کہ غریب اور سفیدپوش کے پاس آخری عمر بلکہ آخری وقت تک روٹی روزی سے ہٹ کر اپنی ذات کے لیے سوچنے کا وقت کہاں۔
۔۔۔۔۔
٭کھوکھلی دیوار آخری دھکے سے گرتی ہے اُس کی طاقت سے نہیں۔ بالکل ایسے جیسے چارپائی ٹوٹے تو بعد میں بیٹھنے والا اپنے آپ کو قصوروار سمجھتے ہوئے حیران وپریشان کھڑے کا کھڑا رہ جاتا ہے۔ اور قصورواربنا استحقاق اور اپنی غلطی مانے بےخبری کے مزے لوٹتے ہیں۔
۔۔۔۔۔
٭کسی نے کہا ۔۔۔دنیا کے مشکل ترین کاموں میں ایک کام کسی ایسے انسان کو نظرانداز کرنا ہے جو سوچ میں رچ سا گیا ہو۔
لیکن ایک کام اس سے بھی زیادہ مشکل اور اذیت ناک ہے۔۔ ایسے انسان کو نظرانداز کرنا جس کے گوڈے گٹوں میں آپ "رچ بس" چکے ہوں اور وہ آپ کے لیے وقت کے کسی پل پل دوپل ملا محض ہوا کا ایک مہربان جھونکا ہو اور کچھ بھی تو نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
٭ٹرین کے"سفر" اور"سگنل"کا رومانس سچے پیار کی طرح کا تھا ملتا جاتا اور بدلے میں کچھ نہ مانگتا اور موبائل کا سفر انگریزی کا "سفر" ہے بھگتّتے جاؤ جیب خالی کرتے جاؤ۔۔۔ہاتھ پھر بھی کچھ نہیں آتا اور "سگنل"کا انتظار بھی رہتا ہے۔ہم بڑے ہو کر بھی بڑے کیوں نہیں ہوتے؟ شاید اس لیے کہ زندگی کے پلیٹ فارم پر رونق لگی ہوئی ہے۔
۔۔۔۔
٭کسی کے ساتھ محض ایک ڈیٹ پر جانا کبھی ہمیشہ کے لیے خسارے اورپچھتاوے کا سبب بھی بن جایا کرتا ہے اگر آگے چل کر وہ ڈیٹ نئی زندگی کی نوید دیتی ایک مستند ڈیٹ میں تبدیل نہ ہو۔
۔۔۔۔۔
٭محبت بغیرعزت کے اورعقیدت بغیر دلیل کے بنا تڑکے والی دال کی طرح ہے جس سے پیٹ تو بھرا جا سکتا ہے لیکن اُس حقیقی لذت کبھی حاصل نہیں کی جاسکتی۔
۔۔۔۔۔۔
٭آؤٹ کلاس۔۔۔۔ ایک وہ کلاس ہے جو جمعے کے روز بھی بڑے دھڑلے سے بغیر دوپٹہ "مارننگ شو" کرتی ہے اور سب کان لپیٹ کر انتہائی خضوع وخشوع سے سنتے دیکھتے ہیں۔اور ایک وہ کلاس جو اپنے گھر کے باورچی خانے میں سخت گرمی میں روٹی بناتے ہوئے سر سےدوپٹہ نہیں اُتار سکتی اور پھر بھی کسی گنتی میں نہیں ۔۔۔۔"جیو جوائنٹ فیملی"۔
۔۔۔۔۔
٭ہر عورت ایک "وقتی" سمجھوتہ کرتی ہے اور وہ شادی کہلاتا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ اور بات کہ یہ وقتی کل وقتی بن جاتا ہے۔
۔۔۔۔
٭شادی لین دین کا رشتہ ہے بلکہ صرف دینے کا ہی۔۔۔جتنا دیتے جاؤ کم ہے اور بدلے میں ذرہ بھی مل جائے تو بہت جانو ورنہ بیگار ہی اس رشتہ کہانی کا حاصل ٹھہرتی ہے۔
۔۔۔۔
٭مرد صحرا کی طرح ہے۔۔۔بارش ہوئی تو بارآور ہو گیا نہ ہوئی تو ویران بیابان۔عورت زمین ہےکہ بارش ہو یا نہ ہو اُس نے اپنے حصے کا کام کرتے جانا ہے۔
٭ہری مرچ وہی ہے جو چودہ طبق روشن کر دے۔
۔۔۔۔۔
٭سیلفی سیلفی ہوتی ہے اس کا "ایلفی" سے کوئی تعلق نہیں لیکن جانے کیوں کبھی بہت ساری سیلفیاں دیکھ کر ایلفی یاد آ جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔
٭ لفٹ دینے سے کبھی نہ ہچکچاؤ۔شاید اگلے موڑ پر آپ کواس کی ضرورت پڑ جائے۔لیکن لفٹ کے ساتھ اپنی عقل تو نہ دو۔
۔۔۔۔۔
٭عورتیں بہت ڈھیٹ ہوتی ہیں،مرنے پر آئیں تو نظر کے تیر سے بھی شکار ہو جاتی ہیں۔زندہ رہنےکی خواہش پال لیں تو "ممی" کی صورت حنوط ہو جاتی ہیں۔
۔۔۔۔۔
٭شوہر سیاسی حکمرانوں سے کم نہیں، مانتے سب ہیں لیکن کرتے اپنی من مانی ہی ہیں۔
۔۔۔۔۔
٭بچے اگر بڑے ہو جائیں تو بڑوں کو بچہ بننا ہی پڑتا ہےکہ ایک "میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں"۔
۔۔۔
٭آج کی نئی نسل اپنے رشتوں سے شدید بےزاری کا شکار ہے شاید اس لیے کہ اسے گھر میں رہتے ہوئے بھی گھر میں رہنے کی عادت نہیں۔
۔۔۔
٭زندگی دھوپ چھاؤں کا نام ہے کبھی ہم کسی کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں تو کبھی خود بڑی بھاری ذمہ داری بن جاتے ہیں۔
۔۔۔۔
٭آخری عمر میں خبر بننے سے بہتر ہے پیدل چلا جائے۔۔۔مزے کا مزہ اور بونس کی عمر الگ۔
۔۔۔۔
٭ زندگی میں ایک وقت ایسا ہی آتا ہے کہ وقت ضائع کرنے کے لیے بھی وقت نہیں ملتا۔
۔۔۔۔۔
٭اخبار۔۔۔۔۔روز آنے والی ایک ایسی چیز جو آج کے دور میں خرید کر پڑھنا سب سے بڑی بےوقوفی ۔پھر ورق ورق چاٹنے کا وقت نکالنا ایک سعی لاحاصل اور پڑھنے کے بعد ردی کے ڈھیر میں اضافہ سب سے بڑا دردسر ہے۔لیکن ان سب خساروں کے باوجود اس کی اہمیت سے انکار قطعی نہیں۔۔۔وہ خاموش دوست جو دنیا سے باخبر رکھتا ہے۔نیٹ کا ایک تحفہ روز کا اخبار بھی۔صرف ایک نہیں جتنے چاہو اور وہ بھی مفت میں۔
۔۔۔۔۔
٭ قربانی کا گوشت اور شادی پر سلامی اپنی نہیں دوسرے کی حیثیت دیکھ کر دی جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔
٭ غریب کا پیٹ سدا کا خالی کنواں ہے ڈالنے کی رفتار کیسی ہی کیوں نہ ہو خالی پن کا احساس ہمیشہ کمتری کا شکار رکھتا ہے۔ جبکہ بھرا پیٹ وہ اندھا کنواں ہے جس میں ڈالنے کی رفتار کتنی تیز ہوتی ہے اُتنی ہی تیزی سے سب غائب ہو کر اور کی صدا لگاتا ہے۔بھرے پیٹ اور خالی پیٹ میں فرق صرف سوچ کا ہے کبھی بھرا پیٹ طمانیت کے تشکر سے چھلکا پڑتا ہے تو کبھی خالی پیٹ اپنی موج،اپنے حال میں مست جیتا چلا جاتا ہے۔
۔۔۔۔
٭ ڈھلتی عمر میں تنہائی کا آسیب محض بھرےپیٹ کا چونچلہ ہی تو ہے کہ غریب اور سفیدپوش کے پاس آخری عمر بلکہ آخری وقت تک روٹی روزی سے ہٹ کر اپنی ذات کے لیے سوچنے کا وقت کہاں۔
۔۔۔۔۔
٭کھوکھلی دیوار آخری دھکے سے گرتی ہے اُس کی طاقت سے نہیں۔ بالکل ایسے جیسے چارپائی ٹوٹے تو بعد میں بیٹھنے والا اپنے آپ کو قصوروار سمجھتے ہوئے حیران وپریشان کھڑے کا کھڑا رہ جاتا ہے۔ اور قصورواربنا استحقاق اور اپنی غلطی مانے بےخبری کے مزے لوٹتے ہیں۔
۔۔۔۔۔
٭کسی نے کہا ۔۔۔دنیا کے مشکل ترین کاموں میں ایک کام کسی ایسے انسان کو نظرانداز کرنا ہے جو سوچ میں رچ سا گیا ہو۔
لیکن ایک کام اس سے بھی زیادہ مشکل اور اذیت ناک ہے۔۔ ایسے انسان کو نظرانداز کرنا جس کے گوڈے گٹوں میں آپ "رچ بس" چکے ہوں اور وہ آپ کے لیے وقت کے کسی پل پل دوپل ملا محض ہوا کا ایک مہربان جھونکا ہو اور کچھ بھی تو نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
٭ٹرین کے"سفر" اور"سگنل"کا رومانس سچے پیار کی طرح کا تھا ملتا جاتا اور بدلے میں کچھ نہ مانگتا اور موبائل کا سفر انگریزی کا "سفر" ہے بھگتّتے جاؤ جیب خالی کرتے جاؤ۔۔۔ہاتھ پھر بھی کچھ نہیں آتا اور "سگنل"کا انتظار بھی رہتا ہے۔ہم بڑے ہو کر بھی بڑے کیوں نہیں ہوتے؟ شاید اس لیے کہ زندگی کے پلیٹ فارم پر رونق لگی ہوئی ہے۔
۔۔۔۔
٭کسی کے ساتھ محض ایک ڈیٹ پر جانا کبھی ہمیشہ کے لیے خسارے اورپچھتاوے کا سبب بھی بن جایا کرتا ہے اگر آگے چل کر وہ ڈیٹ نئی زندگی کی نوید دیتی ایک مستند ڈیٹ میں تبدیل نہ ہو۔
۔۔۔۔۔
٭محبت بغیرعزت کے اورعقیدت بغیر دلیل کے بنا تڑکے والی دال کی طرح ہے جس سے پیٹ تو بھرا جا سکتا ہے لیکن اُس حقیقی لذت کبھی حاصل نہیں کی جاسکتی۔
۔۔۔۔۔۔
٭آؤٹ کلاس۔۔۔۔ ایک وہ کلاس ہے جو جمعے کے روز بھی بڑے دھڑلے سے بغیر دوپٹہ "مارننگ شو" کرتی ہے اور سب کان لپیٹ کر انتہائی خضوع وخشوع سے سنتے دیکھتے ہیں۔اور ایک وہ کلاس جو اپنے گھر کے باورچی خانے میں سخت گرمی میں روٹی بناتے ہوئے سر سےدوپٹہ نہیں اُتار سکتی اور پھر بھی کسی گنتی میں نہیں ۔۔۔۔"جیو جوائنٹ فیملی"۔
۔۔۔۔۔
٭ہر عورت ایک "وقتی" سمجھوتہ کرتی ہے اور وہ شادی کہلاتا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ اور بات کہ یہ وقتی کل وقتی بن جاتا ہے۔
۔۔۔۔
٭شادی لین دین کا رشتہ ہے بلکہ صرف دینے کا ہی۔۔۔جتنا دیتے جاؤ کم ہے اور بدلے میں ذرہ بھی مل جائے تو بہت جانو ورنہ بیگار ہی اس رشتہ کہانی کا حاصل ٹھہرتی ہے۔
۔۔۔۔
٭مرد صحرا کی طرح ہے۔۔۔بارش ہوئی تو بارآور ہو گیا نہ ہوئی تو ویران بیابان۔عورت زمین ہےکہ بارش ہو یا نہ ہو اُس نے اپنے حصے کا کام کرتے جانا ہے۔
۔۔۔۔
٭مرد چکنی مچھلی کی طرح ہے، ذرا نظر بچی پھسل گیا اور گہرے پانیوں میں جانے کو بےقرار۔اس کے ساتھ کے لیے اس کی مرضی کے پانیوں میں اترنا پڑتا ہے چاہے خواہش ہو کہ نہ ہو۔
۔۔۔۔۔
٭سارا قصور بیوی کا ہی ہوتا ہے وہ اتنی جگہ کیوں چھوڑتی ہے کہ کوئی درمیان میں آ سکے۔مسئلہ یہ ہے کہ سب خوش فہمی میں رہتی ہیں۔۔۔پانے کی خوش فہمی میں ۔
۔۔۔۔
٭مرد چکنی مچھلی کی طرح ہے، ذرا نظر بچی پھسل گیا اور گہرے پانیوں میں جانے کو بےقرار۔اس کے ساتھ کے لیے اس کی مرضی کے پانیوں میں اترنا پڑتا ہے چاہے خواہش ہو کہ نہ ہو۔
۔۔۔۔۔
٭سارا قصور بیوی کا ہی ہوتا ہے وہ اتنی جگہ کیوں چھوڑتی ہے کہ کوئی درمیان میں آ سکے۔مسئلہ یہ ہے کہ سب خوش فہمی میں رہتی ہیں۔۔۔پانے کی خوش فہمی میں ۔
۔۔۔۔
٭انسان کے بچے کو انسان سمجھنا ہی تو اصل امتحان ہے. عورت کے لیے واپسی کا کوئی راستہ نہیں. ایک گھریلو جانور سے بچ بھی گئے تو آوارہ کتوں سے لے کر گدھوں تک قدم قدم پر ملتے رہیں گے۔
۔۔۔۔
٭چڑیا گھر سے۔۔۔۔کسی نے کہا کہ کچھ مرد بندر کی طرح ہوتے ہیں اپنی غرض سےغرض رکھنے والے اور کچھ شیر کی طرح بظاہر بےپروا لیکن وقت پڑنے پرڈھال بن جانے والے۔میں نے محسوس کیا کہ کچھ عورتیں بھی تو بندریا کی طرح ہوتی ہیں۔۔۔۔فرضی محبت کی ڈگڈگی پر ناچ ناچ کر بےحال ہونے والی اور مزدوری کی پھر بھی گارنٹی نہیں۔
اور کچھ شیرنی جیسی۔۔"بھوک"کو مانتی اور سمجھتی تو ہیں لیکن اپنی انا کی بھوک کو سرد نہیں پڑنے دیتیں۔اصل عورت وہی ہے جو ان دو سے جدا اپنا راستہ آپ اختیار کرے کیونکہ وہ انسان ہے حیوان نہیں۔
۔۔۔۔۔
٭کہیں پڑھا۔۔۔ بیوی نذر نیاز کی دیگ کی طرح ہے۔۔۔۔جس میں چاہتے ہوئے بھی نقص نہیں نکالا جا سکتا۔بس عقیدت کے ساتھ چپ چاپ کھانا پڑتی ہے۔
میرا خیال ۔۔۔۔ بیوی واقعی نذر نیاز کی دیگ ہی تو ہے لیکن اس"دیگ" کو "چڑھانے"والے بھی وہی ہیں جو نقص نکالتے ہیں۔ جیسا منہ ویسا تھپڑ کے مصداق بازاری چٹخارے دار کھانوں کے مزے اڑانے کے بعد حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ کی دیگ میں بچی کچی خواہشیں ڈالتے ہیں۔۔ تو پھر"سواد" کیسے آئے؟ پیٹ بھرنے پر شکر ہی کر لیں تو بہت ہے۔
٭چڑیا گھر سے۔۔۔۔کسی نے کہا کہ کچھ مرد بندر کی طرح ہوتے ہیں اپنی غرض سےغرض رکھنے والے اور کچھ شیر کی طرح بظاہر بےپروا لیکن وقت پڑنے پرڈھال بن جانے والے۔میں نے محسوس کیا کہ کچھ عورتیں بھی تو بندریا کی طرح ہوتی ہیں۔۔۔۔فرضی محبت کی ڈگڈگی پر ناچ ناچ کر بےحال ہونے والی اور مزدوری کی پھر بھی گارنٹی نہیں۔
اور کچھ شیرنی جیسی۔۔"بھوک"کو مانتی اور سمجھتی تو ہیں لیکن اپنی انا کی بھوک کو سرد نہیں پڑنے دیتیں۔اصل عورت وہی ہے جو ان دو سے جدا اپنا راستہ آپ اختیار کرے کیونکہ وہ انسان ہے حیوان نہیں۔
۔۔۔۔۔
٭کہیں پڑھا۔۔۔ بیوی نذر نیاز کی دیگ کی طرح ہے۔۔۔۔جس میں چاہتے ہوئے بھی نقص نہیں نکالا جا سکتا۔بس عقیدت کے ساتھ چپ چاپ کھانا پڑتی ہے۔
میرا خیال ۔۔۔۔ بیوی واقعی نذر نیاز کی دیگ ہی تو ہے لیکن اس"دیگ" کو "چڑھانے"والے بھی وہی ہیں جو نقص نکالتے ہیں۔ جیسا منہ ویسا تھپڑ کے مصداق بازاری چٹخارے دار کھانوں کے مزے اڑانے کے بعد حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ کی دیگ میں بچی کچی خواہشیں ڈالتے ہیں۔۔ تو پھر"سواد" کیسے آئے؟ پیٹ بھرنے پر شکر ہی کر لیں تو بہت ہے۔
حرفِ آخر
آپ بیتی ہو یا جگ بیتی۔۔۔بلاگ لکھنے کا یہی توفائدہ ہے کہ بنا "مصالحے یا تڑکے کے اور بغیر کسی احسان یا خرچےکے۔۔۔ آسانی سے چھپ جاتی ہے اور" انڈے ٹماٹروں"کے مزے سے لے کر پھیکے شلغم تک سب باآسانی ہضم بھی ہو جاتے ہیں۔
آپ بیتی ہو یا جگ بیتی۔۔۔بلاگ لکھنے کا یہی توفائدہ ہے کہ بنا "مصالحے یا تڑکے کے اور بغیر کسی احسان یا خرچےکے۔۔۔ آسانی سے چھپ جاتی ہے اور" انڈے ٹماٹروں"کے مزے سے لے کر پھیکے شلغم تک سب باآسانی ہضم بھی ہو جاتے ہیں۔
سلام علیکم
جواب دیںحذف کریںمحترمہ باجی صاحبہ
آپ کے سنہرے اقوال واقعی بہت لاجواب ہوتے ہیں کہ پڑھ کر بہت لطف آتا ہے. اسی لیئے کمنٹس کی جرأت نہیں ہوتی کہ آپ کی تحاریر کا رعب سمایا رہتا ہے دل و دماغ پر. اللہ آپ کو خوب سے خوب تر کی صلاحیت عطا فرمائے. آمین.
وسلام
ناچیز
بشریٰ خان
بی بی جی ۔ مرچ کے معاملہ میں میرا حال ہے ”سانپ کا کاٹا ۔رسی سے بھی ڈرتا ہے“
جواب دیںحذف کریںایک بار اسلام آباد سے واہ ڈیوٹی پر جاتے ہوئے شاہراہ کشمیر پر میری کار کو رُکنے کا اشارہ کیا گیا ۔ ایک بوڑھی عورت کو لاغر سمجھ کر لفٹ دی ۔ اُس کے ساتھ ایک نوجوان لڑکی بھی تھی ۔ اُن کی منزلِ مقصود واضح نہ ہونے کے باعث میں چوہا دِل بن گیا اور جھنگی ناکے پر اُتار کر پولیس مین سے کہا کہ انہیں کسی بس پر بٹھا دے ۔ اُس کے بعد جراءت نہ ہوئی
عورت عورت ہوتی ہے اور جو چاہے کر لے یا کیا جائے وہ عورت ہی رہتی ہے یعنی کبھی مکھن سے نرم اور کبھی پتھر سے زیادہ سخت
اگر شوہر سیاست سے تعلق رکھتے ہیں تو میں شوہر نہیں خاوند ہوں
جینا خواب ہے اِک دیوانے کا ۔ زندگی نام ہے مر مر کے جیئے جانے کا
ہاں جی ہاں ۔ واہ کیلئے درست فرمایا ہے ۔ بڑے شہروں کیلئے نہیں ۔ لاہور میں ستمبر 2010ء میں پیدل ہی چل رہا تھا جب ایک تیز رفتار موٹر سائیکلسٹ نے اُچک لیا اور میرے سر کے ساتھ سڑک کی مضبوطی کا ثبوت دیا تھا ۔ نتیجہ آج تک بھُگت رہا ہوں
اخبار تو میں اسلئے خرید کرتا ہوں کہ صبح سویرے ناشتہ سے قبل بستر پر لیٹ کر پڑھ سکوں اور ردی لفافے بنانے والی عورت کو دے سکوں
کیا اسی لئے 1971ء میں پی پی پی کے جوان نعرے لگاتے تھے ” گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو“۔
میرے نزدیک سب سے مُشکل کام کسی کو سمجھانا ہے کہ ”وہ غلطی پر ہے“ یا ”غلط کہہ رہا ہے“۔
درست فرمایا کہ بڑے نہیں ہوتے ۔ میں بڑا نہیں ہوا کیونکہ میں پیدا ہی بڑا ہوا تھا ۔ بچپن سے یہی سُنتا رہا کہ ”تم بڑے ایسا کرو گے تو چھوٹے کیا کریں گے“۔
کیا بات تھی ٹرین کی ۔ بالخصوص اس کی موسیقی ”چھک چھک ۔ ڈگ ڈگ“ جو سب کو سُلا دیتی تھی لکڑی کی نشست پر
عورت اور مرد دنیا کا وہ گورکھ دندہ ہیں جو آج تک کسی سے حل نہیں ہوا
یہ بڑی پتے کی بات کہی آپ نے ۔ اللہ کرے فہم و فراست اور زیادہ ” بیوی نذر نیاز کی دیگ کی طرح ہے جس میں چاہتے ہوئے بھی نقص نہیں نکالا جا سکتا ۔ بس عقیدت کے ساتھ چپ چاپ کھانا پڑتی ہے“۔
آپ نے بلاگ بارے سچ فرمایا ویسے کبھی کبھی کوئی عقلمند مجھے کہتا ہے کہ میں اپنے بلاگ پر اپنی باتیں لکھتا ہوں ۔ بھلا کوئی بتائے کہ میں اپنے بلاگ پر اپنی باتیں نہیں لکھوں گا تو کیا محلے والوں کی باتیں لکھوں گا ؟
میں روایتی شکریہ کہہ کر آپ کے احساس کی توہین نہیں کرنا چاہتی۔ آپ نے بہت غور سے میرے بےربط احساس کو محسوس کیا اور اتنی ہی توجہ سے اپنا احساس بھی شئیر کیا اور ہر ہر جملے کو اپنی بہترین سوچ سے واضح کیا۔ جزاک اللہ
حذف کریںزندگی صرف شئیرنگ کا نام ہی تو ہے آج کے اس ترقی یافتہ دور میں اب نہ ہمارے اپنوں کے پاس وقت ہے اور نہ ہماری سکت کہ وہ ہمہ تن گوش ہو کر ہمارے تجرباتِ زندگی کی کہانیاں سنیں اور دوستوں کے لیے تو ازل سے کسی کو وقت ہی نہ ملا کہ وہ اس کی کہی سن سکے اور اپنی ان کہی سنا سکے۔ لفظ کا تعلق ایسا رشتہ ہے جو ہمیں نہ صرف اپنوں سے بہت کچھ کہنے کا حوصلہ دیتا ہے بلکہ اپنے پرائے کی پہچان بھی عطا کرتا ہے۔
آپ کی ذپنی اور جسمانی صحت کے لیے دعا گو
اتنے دنوں بعد دیکھ کر اچھا لگا
جواب دیںحذف کریں