آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا یاں راہ میں ہر سفری کا
(میر تقی میر)
کائنات کا سب سے بڑا سچ انسان کا اشرف المخلوقات ہونا ہے اور انسان کا سب سے بڑا شرف اپنے اس اعزاز کو پہچاننا ہے۔
اللہ کی عطا کردہ نعمتوں میں سب سے بڑا تحفہ"عقل"ہے اللہ کی عطا جان کر جب وہ اس نعمت کو استعمال کرتا ہے تو ایمان کی بلندی چھو لیتا ہے اورجب اپنے آپ کو عقلِ کُل جان کر اپنے خدا خود تخلیق کرتا ہے تو ذلت کے گڑھے کو اپنی معراج تصور کر کے اپنی جنت دُنیا میں بنا لیتا ہے۔
عقل انسان کی سب سے بڑی رہنما۔۔۔ سب سے مخلص دوست اور سب سےعظیم نعمت ِاٖلٰہی ہے۔ اس کے بل بوتے پر انسان حیرت انگیز کارنامےسرانجام دیتا ہے تو کہیں تلاشِ ذات کی کٹھن منازل یوں طے کرتا چلا جاتا ہے جیسے کوئی پھولوں کی روش پرسہج سہج اُترے اور انجان کانٹوں کا لمس ایک لحظے کی ٹیس سے زیادہ محسوس نہ ہو۔عقل نہ صرف محبتوں کی پہچان سکھاتی ہے بلکہ عشق وجنوں کی بھول بھلیوں سے بحسن وخوبی بچا کر نکالنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے۔
عقل بہت کچھ ہے لیکن عقل سب کچھ نہیں۔عقل "کُل" کے ایک "جزو" سے بھی کم تر ہے۔عقل کو مختارِکل کا درجہ دینے والے وقت کے فرعون بن جاتے ہیں۔ عقل انسان کو فخر وغرورکا نشہ اتنی خاموشی سے لگا دیتی ہے کہ آخری سانس سے پہلے تک انسان اس کے خمار میں مدہوش رہتا ہے۔
ہمیں کہا گیا ہے۔۔۔عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔۔۔ تم غورکیوں نہیں کرتے ۔۔۔ تم سوچتے کیوں نہیں۔
جب کہا گیا کہ آنکھوں والے نابینا ہیں تو اس کا کیا مطلب ۔۔۔ یہی کہ بصارت بصیرت کے ساتھ موجود ہو تو کوئی منظر واضح ہوتا ہے۔ انسان اور حیوان کا بنیادی فرق سوچ کا ہے۔۔۔ سوچ کے انداز کا ہے۔
ایک سچ یہ بھی ہے کہ کچھ چیزوں کا فیصلہ عقل نہیں وقت کرتا ہے۔اور کچھ باتیں عقل سے توبہت سی باتیں عمر سے سمجھ آتی ہیں۔ دعا یہ کرنا چاہیے کہ جب ہماری عمر اُن باتوں کو سمجھنے کے قابل ہو جائے تو ہماری عقل بھی سلامت رہے ورنہ عمر کے تجربے بےکار ٹھہرتے ہیں۔اور عقل سے بات سمجھنے کا بس ایک اصول ہے کہ مانتے جاؤ سنتے جاؤ اور فیصلے صادر نہ کرو وقت خود ہی ہر شے کی اصلیت ظاہرکر دے گا۔
عقل اورجنون دو متضاد رویے ہیں۔۔۔ ایک دوسرے سے بہت دوردریا کے دو کنارے جو کبھی نہیں ملتے۔ ہرقدم سوچ کر رکھو تو سفر طے ہوتا ہے ورنہ قدم قدم پرکھائیاں اوردلدل ہیں۔
عقل کا چور دروازہ صرف انہی کو دکھتا ہے جن کی تلاش کا سفر جاری ہے ورنہ اپنے آپ کو حالات کے دھارے پر چھوڑنے
والے ڈوبتی ناؤ کی طرح بنا کسی نام ونشان کے صفحۂ ہستی سے مٹ جایا کرتے ہیں۔
اسباب لٹا یاں راہ میں ہر سفری کا
(میر تقی میر)
کائنات کا سب سے بڑا سچ انسان کا اشرف المخلوقات ہونا ہے اور انسان کا سب سے بڑا شرف اپنے اس اعزاز کو پہچاننا ہے۔
اللہ کی عطا کردہ نعمتوں میں سب سے بڑا تحفہ"عقل"ہے اللہ کی عطا جان کر جب وہ اس نعمت کو استعمال کرتا ہے تو ایمان کی بلندی چھو لیتا ہے اورجب اپنے آپ کو عقلِ کُل جان کر اپنے خدا خود تخلیق کرتا ہے تو ذلت کے گڑھے کو اپنی معراج تصور کر کے اپنی جنت دُنیا میں بنا لیتا ہے۔
عقل انسان کی سب سے بڑی رہنما۔۔۔ سب سے مخلص دوست اور سب سےعظیم نعمت ِاٖلٰہی ہے۔ اس کے بل بوتے پر انسان حیرت انگیز کارنامےسرانجام دیتا ہے تو کہیں تلاشِ ذات کی کٹھن منازل یوں طے کرتا چلا جاتا ہے جیسے کوئی پھولوں کی روش پرسہج سہج اُترے اور انجان کانٹوں کا لمس ایک لحظے کی ٹیس سے زیادہ محسوس نہ ہو۔عقل نہ صرف محبتوں کی پہچان سکھاتی ہے بلکہ عشق وجنوں کی بھول بھلیوں سے بحسن وخوبی بچا کر نکالنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے۔
عقل بہت کچھ ہے لیکن عقل سب کچھ نہیں۔عقل "کُل" کے ایک "جزو" سے بھی کم تر ہے۔عقل کو مختارِکل کا درجہ دینے والے وقت کے فرعون بن جاتے ہیں۔ عقل انسان کو فخر وغرورکا نشہ اتنی خاموشی سے لگا دیتی ہے کہ آخری سانس سے پہلے تک انسان اس کے خمار میں مدہوش رہتا ہے۔
ہمیں کہا گیا ہے۔۔۔عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔۔۔ تم غورکیوں نہیں کرتے ۔۔۔ تم سوچتے کیوں نہیں۔
جب کہا گیا کہ آنکھوں والے نابینا ہیں تو اس کا کیا مطلب ۔۔۔ یہی کہ بصارت بصیرت کے ساتھ موجود ہو تو کوئی منظر واضح ہوتا ہے۔ انسان اور حیوان کا بنیادی فرق سوچ کا ہے۔۔۔ سوچ کے انداز کا ہے۔
ایک سچ یہ بھی ہے کہ کچھ چیزوں کا فیصلہ عقل نہیں وقت کرتا ہے۔اور کچھ باتیں عقل سے توبہت سی باتیں عمر سے سمجھ آتی ہیں۔ دعا یہ کرنا چاہیے کہ جب ہماری عمر اُن باتوں کو سمجھنے کے قابل ہو جائے تو ہماری عقل بھی سلامت رہے ورنہ عمر کے تجربے بےکار ٹھہرتے ہیں۔اور عقل سے بات سمجھنے کا بس ایک اصول ہے کہ مانتے جاؤ سنتے جاؤ اور فیصلے صادر نہ کرو وقت خود ہی ہر شے کی اصلیت ظاہرکر دے گا۔
عقل اورجنون دو متضاد رویے ہیں۔۔۔ ایک دوسرے سے بہت دوردریا کے دو کنارے جو کبھی نہیں ملتے۔ ہرقدم سوچ کر رکھو تو سفر طے ہوتا ہے ورنہ قدم قدم پرکھائیاں اوردلدل ہیں۔
عقل کا چور دروازہ صرف انہی کو دکھتا ہے جن کی تلاش کا سفر جاری ہے ورنہ اپنے آپ کو حالات کے دھارے پر چھوڑنے
والے ڈوبتی ناؤ کی طرح بنا کسی نام ونشان کے صفحۂ ہستی سے مٹ جایا کرتے ہیں۔
بہت ہی خوبصورت باتیں ۔۔واہ
جواب دیںحذف کریںعقل کا چور دروازہ صرف انہی کو دکھتا ہے جن کی تلاش کا سفر جاری ہے ورنہ اپنے آپ کو حالات کے دھارے پر چھوڑنے والے ڈوبتی ناؤ کی طرح بنا کسی نام ونشان کے صفحۂ ہستی سے مٹ جایا کرتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںبہت خوب :)