زندگی موسموں کےآنے جانے کا نام ہے اور موت انہی موسموں کے ٹھہر جانے سے وجود میں آتی ہے۔زندگی موت کی یہ آنکھ مچولی ہم اپنے آس پاس مظاہرِ فطرت میں ہر آن دیکھتے چلے جاتے ہیں۔۔۔کبھی اپنے جسم وجاں میں اِن کا لمس محسوس کرتے ہیں تو کبھی بنا چکھے بنا دیکھے یوں اِس کا حصہ بن جاتے ہیں کہ سب جان کر بھی کچھ نہیں جان پاتے اور بہت کچھ سمجھتے ہوئے بھی سرسری گزر جاتے ہیں کہ ہماری عقل کی حد ہماری آنکھ کے دائرے سے باہر پرواز کرنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔خزاں ہو یا بہار آنکھ کی چمک باقی رہے تو دیکھنے والی آنکھ ہررنگ میں زندگی کے نقش تلاش کر لیتی ہے۔
ایسی ہی ایک خزاں رُت کا احوال پہاڑوں کے ایک مکین کی زبانی۔۔۔۔
دُور پہاڑوں پر خزاں رُت کی پکار
خنک ہوا اور یہ رات
ادھر ذرا خزاں کا سنو
جب اکتوبر شروع خزاں شروع
شروعات اخروٹ کے درخت سے۔ ۔جب زمین پر اخروٹ گرنا شروع ہوتے آواز کے ساتھ ۔۔۔۔
آواز ایسی جیسے طبلِ جنگ۔۔۔
یوں کہ اک لمبی خزاں کی یلغار
مگر شروعات بہت سحرانگیز
جب ہوا اک مست کر دینے والی آواز کے ساتھ اپنے مدھر ساز بجائے۔۔۔
جب پتے زردی کا لبادہ اُوڑھ لیتے ہیں۔۔۔۔
ہوا کے ساتھ سرسراتے ہیں۔۔۔۔
خنکی بےخود کرنے والی۔۔۔۔
پھر ایک دم ہوا کا رُک جانا۔۔۔ یوں کہ ایک ایک پتہ گرتا محسوس ہو۔۔۔
جیسے آپ کی روح پہ وہ زردی گر رہی ہو۔۔۔
پھر سرِعام ایک ماتمی نظارہ۔۔۔۔ زمین پہ پڑے پتوں کے لاشے۔۔۔اور پیلے سُرخ پیرہن۔۔۔۔
اُن پتوں پہ چلنا آہستہ آہستہ ۔۔۔ہر قدم کے ساتھ وہ ٹوٹتے لاشے۔۔۔۔
ساتھ سنسان تاریک راتوں میں اخروٹ کے گرنے کی آواز۔۔۔
کرچ کرچ کی ایسی آواز جو رات کو آپ کی سماعتوں میں بسیرا کر کے رت جگا کرائے۔۔۔
ارے نادان!اصل خزاں پہاڑوں پر ہی تو ہوتی ہے۔جو پوری سردی آپ کو اُداس رکھتے ہیں۔۔۔ایک ایک پتے کے گرنے کی آواز دل پہ جا کر لگتی ہے۔۔۔اور اُن درختوں کو سوگوار دیکھ کر آپ کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔
.....
شجر بےسایہ ہو جائے تو سمجھو
بچھڑ جانے کا موسم آ گیا ہے
دریچے بند کر کے سونے والو
محبت عمر بھر کا رت جگا ہے
کہاں ہم اور کہاں ترک مراسم
مگر وہ لمحہ شاید آ گیا ہے
۔(امید فاضلی)۔
لاجواب منظرکشی کی ہے اور ساتھ ہی ہرشے کے فانی ہونے کی حقیقت اوراس کی اُداسی کو سمودیاہے -
جواب دیںحذف کریںvery thoughtful
جواب دیںحذف کریں