محبت کے رنگ خواہ فطرت میں ملیں یا انسان کے اپنے اندر جھلکیں جب تک کسی ساتھ کی قربت نہ ملے مہک سے دور ہی رہتے ہیں۔ مہک سے خالی منظر بےجان تصویر میں دِکھتا تو ہے کسی حد تک محسوس بھی کیا جا سکتا ہے لیکن بہت اندر تک جذب نہیں ہو سکتا۔ پہنچ سے دور بہت دور روح میں جذب ہونے والا منظر ہیرے کی طرح ہوتا ہے انمول اور کم یاب،پر جب تک جوہری کی نگاہ نہ پڑے اور تراش خراش کے مرحلے سے نہ گذرے بےمول اور گمنام ہی رہتا ہے۔ نگاہ کے لمس کے بعد کیمرے کا کلک فطرت کے شاہکار کو محفوظ کر دیتا ہے۔خوبصورتی "نگاہ" میں ہوتی ہے ورنہ منظر ہو یا چہرہ ہر دل میں گھر نہیں کرتا۔منظر کی محبت ہو یا محبت کا منظر ساتھ کی قربت سے مہکتے ہیں تواپنے بھید کھولتے ہیں۔فطرت سے ہم آہنگی روح میں جذب ہو کر ایک عجیب سی سرشاری اور طمانیت کا تحفہ عطا کرتی ہے۔لیکن اس سےعجیب بات یہ ہےکہ کسی منظر کسی احساس کو ساتھ کی قربت نہ ملے تو جہاں ایک گہری تنہائی جنم لیتی ہے وہیں تنہائی کی اُداسی گر مثبت رُخ اختیار کر لے تو ایسے شاہکار تخلیق ہوتے ہیں جن کا عشرِعشیر بھی کسی ساتھ کے ساتھ ممکن نہیں۔انسان اپنی ذات میں ایک مکمل کائنات بن جاتا ہے۔انسانی فطرت کی یہ کایا پلٹ صرف دیکھنے والی آنکھ ہی سمجھ سکتی ہے ورنہ ظاہری آنکھ کبھی رقصِ بسمل تو کبھی جوشِ جنوں کی کارفرمائی قرار دیتی ہے۔اصل کشش نگاہ میں ہے جس کے حصار میں کوئی بھی منظر کوئی بھی حسن اپنا آپ،اپنی اصل دان کر دیتا ہے۔اب یہ لینے والی آنکھ کا ظرف ہے کہ وہ پتھر کے بت کی طرح بس اپنی "میں" میں مست رہتی ہے یا پھر اسے جذب کر کے اس کی خوشبو آگے پھیلا دیتی ہے۔
یہ کمال نگاہ کا ہی ہے کہ کس رنگ میں کون سا منظر اُس کے سامنے اُترتا ہے یا وہ کس منظر کو کس رنگ میں دیکھتی ہے۔ ہر متنفس ایک جیسا ہو کر بھی اپنی الگ پہچان الگ شناخت رکھتا ہے۔آنکھ کھلی ہو تو ہر جگہ اللہ کی رحمت کی قربت محسوس کی جا سکتی ہےماننے والوں کے لیے ہر منظر میں نشانیاں ہیں۔لیکن شک کرنے والوں کے لیےراہ میں دلائل کے پہاڑ حائل ہیں تو کہیں شک کی کھائیاں۔
یہ کمال نگاہ کا ہی ہے کہ کس رنگ میں کون سا منظر اُس کے سامنے اُترتا ہے یا وہ کس منظر کو کس رنگ میں دیکھتی ہے۔ ہر متنفس ایک جیسا ہو کر بھی اپنی الگ پہچان الگ شناخت رکھتا ہے۔آنکھ کھلی ہو تو ہر جگہ اللہ کی رحمت کی قربت محسوس کی جا سکتی ہےماننے والوں کے لیے ہر منظر میں نشانیاں ہیں۔لیکن شک کرنے والوں کے لیےراہ میں دلائل کے پہاڑ حائل ہیں تو کہیں شک کی کھائیاں۔
اپنے آپ کو دوسروں کی ظاہری نگاہ سے ضرور دیکھو لیکن عمل اپنے دل کی آواز پر کرو نہ کہ اپنے علم کی بنیاد پر کہ علم کی بنیاد پر عمل کرنے کا یقین اکثر انا اور تکبر کی طرف لے جاتا ہے۔ انسان کو اس کے دل سے سچی گواہی اور کہیں سے نہیں ملتی ۔ دل کی سچائی کے لیے صرف ایک شرط کہ اس پر رب تعالیٰ کی طرف سے مہر نہ لگی ہوئی ہو۔اللہ سب اہل دل کو اس کا اہل بنائے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
زندگی کے چیختے چلاتے حقائق ہوں یا فطرت کا منظر کسی کو رنگ کا کوئی شیڈ زیادہ دکھتا ہے تو کسی کو کم۔ اللہ اپنی افضل تخلیق کو کیسے کیسے رنگ کیسے کیسے نقش عطا کرتا ہےہم کبھی نہیں جان سکتے لیکن رب کی تخلیق سے محبت کرنا اس کو محسوس کرنا رب سے قربت کا ایک وسیلہ ہے اور کچھ بھی تو نہیں۔
منظر ہمیشہ دوسرے کی آنکھ سے دیکھ کر ہی واضح ہوتا ہے۔دُنیا ایک آئینہ خانہ ہے۔جابجا بکھرے آئینےہمیں ہمارا اصل چہرہ دکھاتے ہیں ۔آئینہ کوئی بھی ہو عکس کی خوبصورتی اُس کے درمیان فاصلے سے مشروط ہے۔ حد سے بڑی قربت نہ صرف منظر دھندلا دیتی ہے بلکہ سوچ کے کینوس کو بھی محدود کر دیتی ہے۔ آئینے شفاف ہوں تو ہمارے اعتماد میں اضافہ کرتے ہیں۔ دھندلے۔۔۔کرچی کرچی آئینے ہمارے وجود کو ہزار ٹکڑوں میں بانٹ دیتے ہیں۔نوکیلے عکس کے یہ آئینے بہت تکلیف دیتے ہیں۔کہیں ایک بھی آئینہ ہمارے نقش کا رازداں بن جائے تو سکون کی ایک گھڑی اذیت کے ہزارہا برس پر بھاری پڑتی ہے۔
لیکن کیا کیا جائے ! سکون کا یہ پل نرم ہوا کے جھونکے کی طرح ہے اور کرب کی شدت رگوں میں اتر کر ہڈیوں کا گودا تک نچوڑ لیتی ہے۔"وجود کے تپتے ریگ زار میں ہوا کی یہ سرگوشیاں سرابِ نظر ہی ہیں اور کچھ بھی نہیں"۔
بہت عمدہ باتیں کی آپ نے ۔میں بھی یہ پڑھتے وقت یہ ہی سوچنے لگی تھی کہ کبھی کبھی دیکھنے والی آنکھ وہ منظر نہیں دیکھتی جو ہوتا ہے اور کبھی وہ ساری باتیں محسوس کرلیتی ہیں اس میں ہر دو پر ہی منحصر ہے ۔
جواب دیںحذف کریں