کہا جاتا ہے کہ عورت کی سوچ بہت محدود ہوتی ہیں ۔اُسے سب سے پہلے تو اپنی ذات سے ہٹ کر کچھ دکھائی نہیں دیتا۔۔۔ اُس کی خواہشات اُس کے وجود سے شروع ہو کر اُسی پرختم ہو جاتی ہیں۔۔۔ دُنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ کیوں ہو رہا ہے؟ اُسے کوئی غرض نہیں.بس اُس کی سنی جائے،اُس کی مانی جائے۔ یہ نہیں سوچتی کہ غورتو کرے کہ اُس نے ہمیشہ دوسرے نمبر پر ہی رہنا ہے۔ ازل سے لکھ دیا گیا ہے ذرا سی ترمیم کی گنجائش نہیں۔ تو پھر برابری کے دعوے کیا معنی رکھتے ہیں.کیا کیا جائے کہ جو اُس نے اپنی ذات کے حوالے سےسوچ لیا وہی حرفِ آخر ہے۔
محترم اشفاق احمد اپنی کتاب "سفردرسفر"میں لکھتے ہیں۔۔
صفحہ145 تا 149۔۔۔۔۔ "مرد کا کام عورت کو سمجھنا نہیں، اس کو محسوس کرنا ، اس کی حفاظت کرنا ، اس سے محبّت کرنا ہے۔ عورت کو اگر اس بات کا علم ہو جائے کہ مرد اس کو سمجھنے لگا ہے،یا اس کے جذبات کو جانچنے کا راز پا گیا ہے تو وہ فوراً تڑپ کر جان دے دی گی۔ آپ عورت کے ساتھ کتنی بھی عقل ودانش کی بات کریں،کیسے بھی دلائل کیوں نہ دیں، اگر اس کی مرضی نہیں ہے تو وہ اس منطق کو کبھی نہیں سمجھے گی۔ اس کے ذہن کے اندر اپنی منطق کا ایک ڈرائنگ روم ہوتا ہے،جسے اس نے اپنی مرضی سے سجایا ہوتا ہے اور وہ اسے روشن کرنے کے لیے باہر کی روشنی کی محتاج نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ کسی عقل ودانش اور دلائل کے معاملے میں مانگے کی روشنی پر ایمان نہیں رکھتی۔ اس نے جو فیصلہ کر لیا ہوتا ہے وہی اس مسئلے کا واحد اور آخری حل ہوتا ہے"۔
اسی لیے تخلیق ِاوّل بُردبار انداز اختیار کرتے ہوئے اُس کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے۔۔۔اُس کا دل رکھتا ہے۔۔۔اُس پر ترس کھاتا ہے اور سب سے بڑھ کر اپنی ہمدردی کے نرم گوشے کی پناہ میں رکھتا ہے۔ اُس کو چاہنا ،اُس سے محبت کرنا تو فطرت میں لکھ دیا گیا ہے یہ جبلتِ آدم ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ورنہ محبت تو اُس سے کی جاتی ہے جو ہرلحاظ سے مکمل ہو۔۔۔ جس میں ڈھونڈے سے بھی کوئی خامی نہ ملے۔۔۔سب سے بڑھ کر جو ہماری زبان سمجھ سکے ۔۔ہمارے ساتھ قدم سے قدم ملا کر ہمارے وجود کا حصہ دکھائی دے۔ سو مرد کی سب سے بڑی مجبوری عورت کو برداشت کرنا اور سب سے بڑی کمزوری اُس سے محبت کرنا ہے۔ اس مجبوری اور کمزوری سے فرارکی قطعاٍ گنجائش نہیں۔ یہ دُنیا کا سب سے بڑا امتحان بھی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بڑے سے بڑا ولی اللہ بھی اس امتحان سے نہیں بچ سکا اوراس میں کامیاب ہونا راہِ سلوک کا پہلا قدم ہے۔ اس راہ میں مرد وعورت کی تخصیص نہیں کی جاسکتی کہ کس کا حوالہ معتبر ہے۔
صوفی کون ہوتا ہے وہ جسے ہر چہرے میں ایک کا عکس نظر آتا ہےاور ایک کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔عورت وہ صوفی ہے جس کی سوچ گھر سے شروع ہو کر گھرپرہی ختم ہوتی ہے
عورت دُنیا فتح کر لے پھر بھی اپنی ذات اپنے گھر سے دور نہیں جا سکتی ۔
گھرعورت کے لیے دُنیا کی سب سے بڑی لذت سب سے بڑا تحفہ ہے۔ قوتِ تسخیر سے چاند پر جا پہنچے تو وہاں بھی پہلی خواہش گھر کی ہی کرے گی۔دُنیا کے بتی والے چوک میں لفظوں کا بیوپار کرتے کرتے قوتِ تخیل سے ان راستوں پر بھی اپنے پرایوں کی خوشبو گھروں کے دائرے میں گردش کرتی محسوس ہوتی ہے۔
اس چوک کے وہ چار راستے جو"فیس بک ،گوگل پلس ،ٹویٹر اور لنکڈ ان" کی جانب کھلتے ہیں۔۔۔
سب سے پہلے ٹویٹر کی دُنیا کسی فائیو سٹار ہوٹل کی طرح دکھائی دی ۔جہاں ہر ایک اپنی مستی میں مست ہے۔ ذرا دیر کو کسی کی خوشبو یا رنگ اپنی طرف مائل کرتے ہیں پھر اپنوں کے ساتھ خوش گپیاں شروع ہو جاتی ہیں۔لیکن دیکھنے والی آنکھ انفرادیت پر متوجہ ضرور ہوتی ہے۔
لنکڈ اِن کا دیسی کلچر وہ بدیسی کلب دکھائی دیا جہاں بغیر سوٹ اور نکٹائی کے داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔پر ہم دیسی کسی طرح راہ نکال ہی لیتے ہیں اور وہاں جا کر خود ہی راستے تلاش کرتے ہیں اورکبھی کبھی ہماری سادگی کے اُجلے رنگ کسی کو اپنی طرف مائل بھی کر لیتے ہیں۔
گوگل پلس دارالحکومت کے پوش سکیٹرز میں بنے گھروں کی طرح ہے جہاں سب اپنی دنیا میں مست ہیں ۔ ہرایک کی اپنی ذاتی اخلاقیات اوراپنے لیے خود ہی کی مقررکردہ حدود ہیں۔ جس طرح پانچوں انگلیاں برابرنہیں اسی طرح یہاں بھی اچھائی اوربرائی کی ہر دو انتہائیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ دوسرے نیٹ ورکس پرگوگل پلس کو ترجیح دیتے ہوئے احساسِ تفاخر پھر بھی نمایاں دکھتا ہے۔یہاں کے مکین اپنی تمام تر'اعلٰی ظرفی'کے باوجود چھوٹے گھر والوں کے ساتھ بیٹھنے سے ذرا ہچکچاتے بھی ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ گوگل پلس کی اہمیت بہت زیادہ ہے اوراس کے دائرۂ کارسے بھی اختلاف کی گنجائش نہیں ۔۔۔ پراس کے مکینوں کا طرزِعمل اُن کی لاعلمی ظاہر کرتا ہے۔
مکان اوراس کے حدوداربعہ کی اہمیت سے انکار نہیں۔ یہ روز روشن کی طرح کا عیاں سچ ہے۔۔۔ لیکن بڑے مکانوں میں رہنے والے ضروری نہیں قدآوربھی ہوں۔انسان کے اندر کی روشنی اہم ہے جو مٹی کے گھروندوں میں رہ کر بھی یوں سرابھارتی ہےکہ محلوں کے مکین جھک کر دیکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ بڑے گھر میں رہائش رکھنے سے انسان بڑا نہیں ہوجاتا۔ چھوٹے گھروں میں پیدا ہونے والے بھی بہت بڑے کام کر جاتے ہیں۔ بس ان کو مواقع ملنے میں تاخیر ہو جائے تو اور بات ہے۔
آخر میں آتے ہیں چھوٹی سی دُنیا فیس بک کی جانب ۔۔۔جو بنانے والے بدیسی چہروں سے زیادہ ہماری زبان کی چاشنی کی وجہ سے بالکل اپنی سی لگتی ہے۔ہمارے معاشرے کے گلی کوچوں کےعام گھر جیسی۔۔۔ جہاں ایک دوسرے پر نظر بھی رکھی جاتی ہے اور آزادی بھی ملتی ہے۔ بڑا بن کرکسی غلطی کی نشاندہی کی جاتی ہے تو کبھی گرنے سے پہلے تھام لیا جاتا ہے۔۔بےغرض مشورے دینے والے۔۔۔خیال رکھنے والے اچھے پڑوسی ملتے ہیں تو آڑے وقت پرکام آنے والے مخلص دوست بھی۔ لیکن ہر جگہ 'سب اچھا ہے' نہیں ہوتا۔ چہروں پر پے درپے نقاب چڑھائےایسے اجنبی بھی پڑوس میں آ جاتے ہیں جن کی اصلیت معلوم ہونے پرانسان کا انسانیت پرسےاعتبار اٹھنے لگتا ہے۔
!آخری بات
عورت کا اصل ٹھکانہ اس کا اپنا گھر۔۔۔ اپنا خاندان ہے۔۔۔ جس میں انسانوں کے بدن کی مہک ہو۔۔۔ جدید دور کی مشینوں کے لمس کی نہیں۔۔۔ اپنوں کے ساتھ کا غیرمرئی احساس ہو۔۔۔ اجنبی چہروں کے لمحاتی احترام کا نہیں۔ عورت کے لیے نام۔۔۔ مقام سے بڑھ کراس کا گھراہم ہے۔۔۔ جہاں وہ گمنام۔۔۔ بےمقام رہتے ہوئے اپنی ذات کی نفی کر کے۔۔۔اپنی خواہشوں پر دوسروں کی ذات کو مقدم جان کر ہی معاشرے میں باعزت کہلائی جاسکتی ہے۔
عورت کا اصل امتحان۔۔۔ اصل ہنراور اصل حسن اپنی ذات کی بند گلی میں سے کوئی ایسی درز دریافت کرنا ہے جہاں سے آنے والی تازہ ہوا اُس کا اپنے اوپر یقین قائم رکھےاور یہ کڑا امتحان ہی زندگی کہانی میں کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرتا ہے۔
محترم اشفاق احمد اپنی کتاب "سفردرسفر"میں لکھتے ہیں۔۔
صفحہ145 تا 149۔۔۔۔۔ "مرد کا کام عورت کو سمجھنا نہیں، اس کو محسوس کرنا ، اس کی حفاظت کرنا ، اس سے محبّت کرنا ہے۔ عورت کو اگر اس بات کا علم ہو جائے کہ مرد اس کو سمجھنے لگا ہے،یا اس کے جذبات کو جانچنے کا راز پا گیا ہے تو وہ فوراً تڑپ کر جان دے دی گی۔ آپ عورت کے ساتھ کتنی بھی عقل ودانش کی بات کریں،کیسے بھی دلائل کیوں نہ دیں، اگر اس کی مرضی نہیں ہے تو وہ اس منطق کو کبھی نہیں سمجھے گی۔ اس کے ذہن کے اندر اپنی منطق کا ایک ڈرائنگ روم ہوتا ہے،جسے اس نے اپنی مرضی سے سجایا ہوتا ہے اور وہ اسے روشن کرنے کے لیے باہر کی روشنی کی محتاج نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ کسی عقل ودانش اور دلائل کے معاملے میں مانگے کی روشنی پر ایمان نہیں رکھتی۔ اس نے جو فیصلہ کر لیا ہوتا ہے وہی اس مسئلے کا واحد اور آخری حل ہوتا ہے"۔
اسی لیے تخلیق ِاوّل بُردبار انداز اختیار کرتے ہوئے اُس کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے۔۔۔اُس کا دل رکھتا ہے۔۔۔اُس پر ترس کھاتا ہے اور سب سے بڑھ کر اپنی ہمدردی کے نرم گوشے کی پناہ میں رکھتا ہے۔ اُس کو چاہنا ،اُس سے محبت کرنا تو فطرت میں لکھ دیا گیا ہے یہ جبلتِ آدم ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ورنہ محبت تو اُس سے کی جاتی ہے جو ہرلحاظ سے مکمل ہو۔۔۔ جس میں ڈھونڈے سے بھی کوئی خامی نہ ملے۔۔۔سب سے بڑھ کر جو ہماری زبان سمجھ سکے ۔۔ہمارے ساتھ قدم سے قدم ملا کر ہمارے وجود کا حصہ دکھائی دے۔ سو مرد کی سب سے بڑی مجبوری عورت کو برداشت کرنا اور سب سے بڑی کمزوری اُس سے محبت کرنا ہے۔ اس مجبوری اور کمزوری سے فرارکی قطعاٍ گنجائش نہیں۔ یہ دُنیا کا سب سے بڑا امتحان بھی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بڑے سے بڑا ولی اللہ بھی اس امتحان سے نہیں بچ سکا اوراس میں کامیاب ہونا راہِ سلوک کا پہلا قدم ہے۔ اس راہ میں مرد وعورت کی تخصیص نہیں کی جاسکتی کہ کس کا حوالہ معتبر ہے۔
صوفی کون ہوتا ہے وہ جسے ہر چہرے میں ایک کا عکس نظر آتا ہےاور ایک کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔عورت وہ صوفی ہے جس کی سوچ گھر سے شروع ہو کر گھرپرہی ختم ہوتی ہے
عورت دُنیا فتح کر لے پھر بھی اپنی ذات اپنے گھر سے دور نہیں جا سکتی ۔
گھرعورت کے لیے دُنیا کی سب سے بڑی لذت سب سے بڑا تحفہ ہے۔ قوتِ تسخیر سے چاند پر جا پہنچے تو وہاں بھی پہلی خواہش گھر کی ہی کرے گی۔دُنیا کے بتی والے چوک میں لفظوں کا بیوپار کرتے کرتے قوتِ تخیل سے ان راستوں پر بھی اپنے پرایوں کی خوشبو گھروں کے دائرے میں گردش کرتی محسوس ہوتی ہے۔
اس چوک کے وہ چار راستے جو"فیس بک ،گوگل پلس ،ٹویٹر اور لنکڈ ان" کی جانب کھلتے ہیں۔۔۔
سب سے پہلے ٹویٹر کی دُنیا کسی فائیو سٹار ہوٹل کی طرح دکھائی دی ۔جہاں ہر ایک اپنی مستی میں مست ہے۔ ذرا دیر کو کسی کی خوشبو یا رنگ اپنی طرف مائل کرتے ہیں پھر اپنوں کے ساتھ خوش گپیاں شروع ہو جاتی ہیں۔لیکن دیکھنے والی آنکھ انفرادیت پر متوجہ ضرور ہوتی ہے۔
لنکڈ اِن کا دیسی کلچر وہ بدیسی کلب دکھائی دیا جہاں بغیر سوٹ اور نکٹائی کے داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔پر ہم دیسی کسی طرح راہ نکال ہی لیتے ہیں اور وہاں جا کر خود ہی راستے تلاش کرتے ہیں اورکبھی کبھی ہماری سادگی کے اُجلے رنگ کسی کو اپنی طرف مائل بھی کر لیتے ہیں۔
گوگل پلس دارالحکومت کے پوش سکیٹرز میں بنے گھروں کی طرح ہے جہاں سب اپنی دنیا میں مست ہیں ۔ ہرایک کی اپنی ذاتی اخلاقیات اوراپنے لیے خود ہی کی مقررکردہ حدود ہیں۔ جس طرح پانچوں انگلیاں برابرنہیں اسی طرح یہاں بھی اچھائی اوربرائی کی ہر دو انتہائیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ دوسرے نیٹ ورکس پرگوگل پلس کو ترجیح دیتے ہوئے احساسِ تفاخر پھر بھی نمایاں دکھتا ہے۔یہاں کے مکین اپنی تمام تر'اعلٰی ظرفی'کے باوجود چھوٹے گھر والوں کے ساتھ بیٹھنے سے ذرا ہچکچاتے بھی ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ گوگل پلس کی اہمیت بہت زیادہ ہے اوراس کے دائرۂ کارسے بھی اختلاف کی گنجائش نہیں ۔۔۔ پراس کے مکینوں کا طرزِعمل اُن کی لاعلمی ظاہر کرتا ہے۔
مکان اوراس کے حدوداربعہ کی اہمیت سے انکار نہیں۔ یہ روز روشن کی طرح کا عیاں سچ ہے۔۔۔ لیکن بڑے مکانوں میں رہنے والے ضروری نہیں قدآوربھی ہوں۔انسان کے اندر کی روشنی اہم ہے جو مٹی کے گھروندوں میں رہ کر بھی یوں سرابھارتی ہےکہ محلوں کے مکین جھک کر دیکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ بڑے گھر میں رہائش رکھنے سے انسان بڑا نہیں ہوجاتا۔ چھوٹے گھروں میں پیدا ہونے والے بھی بہت بڑے کام کر جاتے ہیں۔ بس ان کو مواقع ملنے میں تاخیر ہو جائے تو اور بات ہے۔
آخر میں آتے ہیں چھوٹی سی دُنیا فیس بک کی جانب ۔۔۔جو بنانے والے بدیسی چہروں سے زیادہ ہماری زبان کی چاشنی کی وجہ سے بالکل اپنی سی لگتی ہے۔ہمارے معاشرے کے گلی کوچوں کےعام گھر جیسی۔۔۔ جہاں ایک دوسرے پر نظر بھی رکھی جاتی ہے اور آزادی بھی ملتی ہے۔ بڑا بن کرکسی غلطی کی نشاندہی کی جاتی ہے تو کبھی گرنے سے پہلے تھام لیا جاتا ہے۔۔بےغرض مشورے دینے والے۔۔۔خیال رکھنے والے اچھے پڑوسی ملتے ہیں تو آڑے وقت پرکام آنے والے مخلص دوست بھی۔ لیکن ہر جگہ 'سب اچھا ہے' نہیں ہوتا۔ چہروں پر پے درپے نقاب چڑھائےایسے اجنبی بھی پڑوس میں آ جاتے ہیں جن کی اصلیت معلوم ہونے پرانسان کا انسانیت پرسےاعتبار اٹھنے لگتا ہے۔
!آخری بات
عورت کا اصل ٹھکانہ اس کا اپنا گھر۔۔۔ اپنا خاندان ہے۔۔۔ جس میں انسانوں کے بدن کی مہک ہو۔۔۔ جدید دور کی مشینوں کے لمس کی نہیں۔۔۔ اپنوں کے ساتھ کا غیرمرئی احساس ہو۔۔۔ اجنبی چہروں کے لمحاتی احترام کا نہیں۔ عورت کے لیے نام۔۔۔ مقام سے بڑھ کراس کا گھراہم ہے۔۔۔ جہاں وہ گمنام۔۔۔ بےمقام رہتے ہوئے اپنی ذات کی نفی کر کے۔۔۔اپنی خواہشوں پر دوسروں کی ذات کو مقدم جان کر ہی معاشرے میں باعزت کہلائی جاسکتی ہے۔
عورت کا اصل امتحان۔۔۔ اصل ہنراور اصل حسن اپنی ذات کی بند گلی میں سے کوئی ایسی درز دریافت کرنا ہے جہاں سے آنے والی تازہ ہوا اُس کا اپنے اوپر یقین قائم رکھےاور یہ کڑا امتحان ہی زندگی کہانی میں کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کرتا ہے۔
آخری پیرے سے متفق
جواب دیںحذف کریںشکریہ کوثر بیگ صاحبہ۔
حذف کریںلفظ پھولوں کے گلدستے کی طرح ہوتے ہیں ضروری نہیں کہ ہر ایک کو ہر پھول کی خوشبو پسند آئے یا راس آئے ۔آپ کے احساس کی ممنون ہوں۔
bohat khoob
جواب دیںحذف کریںممنون ہوں آپ کی
حذف کریںاشفاق احمد صاحب سےاختلاف تو مشکل ہےمگرکیا عورت زیادہ لچکدار نہیں ہوتی اپنےفیصلوں میں..اوریہی رویہ اسکی خامی بھی ٹہرتاہےکبھی کبھی
جواب دیںحذف کریںوہ دل سےسوچتی ہےاور کسی کے بھی نرم الفاظ ایک آنسو یا محبت بھری مسکراہٹ اسکافیصلہ بدل دیتےہیں
اختلاف کہیں یا اپنی سوچ کا اظہار یہ ہر انسان کا حق ہے اور جناب اشفاق احمد نے اپنے نکتہ نظر سے جو محسوس کیا زندگی نے جو سبق دئیے اس کے رنگ اپنے لفظوں میں بکھیرتے رہے ۔
حذف کریںایک عورت کی نگاہ سے آپ کا احساس بالکل درست ہے۔ لیکن اس میں بھی کسی حد تک جناب اشفاق صاحب کی بات کی تائید ہی ہے۔ عورت اپنی مرضی سے جیتی ہوئی بازی جان بوجھ کرہار بھی جاتی ہے۔
https://daleel.pk/2017/09/29/59296
جواب دیںحذف کریںمنفرد سوچ کا منفرد دروازہ کھولا گیا ہے ،زبردست !
جواب دیںحذف کریں