والدِمحترم کی رحلت کے آٹھ برس بعد ایک بیٹے کی یادوں کی بےساختہ رم جھم ۔۔۔
جس میں ہماری تاریخ۔۔ہمارے ماضی کی جھلکیاں ملیں گی تو ایک باذوق اوردردِدل رکھنے والے انسان کی ذاتی زندگی کاعکس بھی نظر آئے گا۔اس کے ساتھ ایک مشفق باپ کی محبت کا آئینہ بھی جو بیٹے کی آنکھوں میں روشنی کی کرن بن کر جگمگاتا ہے تو پڑھنے والی آنکھوں۔۔۔محسوس کرنے والے دلوں اور سوچنے والے اذہان کو نہ صرف اپنےاسلاف سے قربت کی مہک آتی ہے بلکہ آج کی نسل کا اپنے اوپراعتبار بھی بڑھتا ہےکہ "ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی"۔
یہ احساس سے احساس تک کا سفر ہے جس میں بلاشبہ لفظ اضافی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ لفظ کے بغیراحساس کا ابلاغ ممکن ہی نہیں۔ (نورین تبسم)۔
جس میں ہماری تاریخ۔۔ہمارے ماضی کی جھلکیاں ملیں گی تو ایک باذوق اوردردِدل رکھنے والے انسان کی ذاتی زندگی کاعکس بھی نظر آئے گا۔اس کے ساتھ ایک مشفق باپ کی محبت کا آئینہ بھی جو بیٹے کی آنکھوں میں روشنی کی کرن بن کر جگمگاتا ہے تو پڑھنے والی آنکھوں۔۔۔محسوس کرنے والے دلوں اور سوچنے والے اذہان کو نہ صرف اپنےاسلاف سے قربت کی مہک آتی ہے بلکہ آج کی نسل کا اپنے اوپراعتبار بھی بڑھتا ہےکہ "ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی"۔
یہ احساس سے احساس تک کا سفر ہے جس میں بلاشبہ لفظ اضافی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ لفظ کے بغیراحساس کا ابلاغ ممکن ہی نہیں۔ (نورین تبسم)۔
میرے ابُّو
تحریر: سجاد خالد
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر لائقِ میراثِ پدر کیونکر ہو
(اقبال)
تحریر: سجاد خالد
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر لائقِ میراثِ پدر کیونکر ہو
(اقبال)
ہم اپنے والدین کا قرض اُتار ہی نہیں سکتے، کتنے دیوان درمدحِ والدین اورکتنی جلدیں اُس احسانِِ عظیم پر لکھی جائیں، کتنی زندگیاں اُس کوششِ ناتمام کے تزکارپرصرف ہوں تب بھی محبت کے اُس بحر کی بیکرانی شرمندہِ ضبطِ ساحل نہ ہو سکےگی۔
یہ کچھ یادیں تو اشارے ہیں جن کو سمجھنے کے لئے والدین کے احسان کی نعمت سے سرشاردل چاہیئں۔ ان کی شرح وہ دِل ہی کر سکتے ہیں اوراُنہی کے پاس اس کی تفسیر ہے۔
میاں خالد محمود
سال پیدائش۔۔۔1934َ۔۔۔ چنیوٹ
سال وفات ۔۔۔2006 ۔۔۔۔ کراچی
یہ کچھ یادیں تو اشارے ہیں جن کو سمجھنے کے لئے والدین کے احسان کی نعمت سے سرشاردل چاہیئں۔ ان کی شرح وہ دِل ہی کر سکتے ہیں اوراُنہی کے پاس اس کی تفسیر ہے۔
میاں خالد محمود
سال پیدائش۔۔۔1934َ۔۔۔ چنیوٹ
سال وفات ۔۔۔2006 ۔۔۔۔ کراچی
ابو جنہیں ہم بچپن میں ابّی جی کہتے تھے، تمام عمر میرے خطاطی، تحریر،ڈرائنگ،زبان وادب اورآداب کے اُستاد رہے۔ میرا تعارف تادمِ آخر ایک کہکشانِ اہلِ دل، اہلِ علم وفن سے کرواتے رہے۔ جن میں اُستاد اللہ بخش، مولانا مودودی، غلام محمد( گاما پہلوان رُستمِ زماں)،عبدالرحمٰن چغتائی (مصور)، وی شانتا رام (اداکار،رائٹراورڈائریکٹر)،سہراب مودی (اداکار، ڈائریکٹر)، آغا حشر کاشمیری (انڈین شیکسپئر)، سید محمد عبداللہ (پرنسپل اوریئنٹل کالج)، الطاف حسین حالی، سرسید احمد خان، علامہ اقبال، محمد علی جناح، فاطمہ جناح، حاجرہ مسرور،سعادت حسن منٹو،عبد المجید سالک، مولانا غلام رسول مہر، مولانا امین حسن اصلاحی، علامہ شبلی نعمانی، مولاناعبدالماجد دریاآبادی، علامہ عنایت اللہ مشرقی، ابولکلام آزاد ، مولانا محمد علی جوہر، مجروح سلطان پوری، ساحر لدھیانوی، فیض احمد فیض، ابوالاثرحفیظ جالندھری، شورش کاشمیری ،خمار بارہ بنکوی،اے حمید ،شیرمحمد ابنِ اِنشاء،مشتاق احمد یوسفی، شفیق الرحمٰن، تاج الدین زریں رقم (مؤسس بیٹھک کاتباں لاہور)، عبدالمجید پرویں رقم (موجدِ نستعلیق لاہوری)، خورشید عالم خورشید رقم، محمد صدیق الماس رقم، راکا پینٹر، فیض آرٹسٹ، سلیم الزماں صدیقی، پطرس، مولانا عطاءاللہ حنیف، شیخ محمد حسن، خواجہ حسن نظامی،امیر خسرو، عمرخیام، عطاءاللہ شاہ بخاری، ابوبکرغزنوی، مولانا لاہوری ـــــــ
چارلی چپلن، مارلن برانڈو،الفریڈ ہچکاک،انتھونی کوئن، صوفیہ لورین، کلنٹ ایسٹ وُڈ جیسے لوگ شامل تھے۔
بچپن میں ٹائیفائڈ کے حملوں نے ابو کوعمر بھرصحتمند ہونے کا احساس نہ ہونے دیا۔ جوانی میں معدے کے السر نے آ لیا۔ والدین کی ادھیڑعمرمیں پیدا ہونے والا یہ نادرانسان اپنے لڑکپن سے ہی والدین کو بوڑھا دیکھ رہا تھا۔ تعلیم اے لیول تک رہی جس کا انہیں بہت احساس تھا۔ سات بہنوں کے دو بھائی اور دونوں میں پندرہ برس کا فاصلہ۔ بڑی بہنوں کی علمی قابلیت کا بھی ذکر کرتے تھے اورخود میں نے بھی انہیں دیکھا تھا۔ جن میں سے ایک میری پھوپھو رضیہ تھیں۔ جو دادا کی سیکرٹری اورسٹینو بھی تھیں۔ میں نے اپنے والد سے زیادہ خوشخط اگر کسی اورانسان کی تحریر ابھی تک دیکھی ہے وہ رضیہ آپا ہی کی تھی ۔ جو میری پیدائش کے شاید دو برس بعد بہت سے دُکھ جھیل کر بیماری کے ساتھ دنیا سے رُخصت ہو گئیں۔ اُن کے بڑے بھائی مسعود احمد اُن کے برعکس مجلسی،وسیع المشرب اور نسبتاً زیادہ تعلیم یافتہ تھے۔ اللہ نے میرے تایا کو ابو کی وفات کے بعد بھی زندگی دی جہیں ہم پنجابی میں چاچا جی کہتے تھے۔ چاچا جی 2012 میں اپنے چھوٹے بھائی، بہنوں، بیٹے اور نواسے کے غم کے ساتھ اور بہت سے غم سمیٹ کر تقریباً چورانوے برس کی عمر میں رُخصت ہوئے۔ ابوانہیں پنجابی میں 'بھا جی' کہتے تھے۔ دونوں بھائی ایک دوسرے پرجان دیتے تھے لیکن ناراض ہونے کاحق بالاتفاق ابو کو دے دیا گیا تھا۔وہ اپنے لڑکپن ہی میں کہیں' اینگری ینگ مین' بن گئے تھے
وہ قحط الرجال کے دُکھ میں آدم بیزار ہو گئے تھے۔ سرمائے،آسائش، دکھاوے، نفاق کے کُھلے دشمن تھے۔
ایک مسلسل محنت ایک غیر مختتم جدوجہد، ایک ہمیشہ زندہ رہنے والا درد، ایک سچا، سیدھا اور کھرا انسان جسے پہچاننے کے لئے بڑے فہم کی ضرورت تھی لیکن وہ فہم ناپید ہے۔۔۔ وہ سمجھ عنقا ہے۔۔۔ وہ آنکھ اس تہذیب میں کب کی بند ہے۔۔۔ کب کی بند۔۔
میں پیدا ہونے سے چالیس برس کی عمر تک اس آغوش میں پروان چڑھا۔ میرے ہرخاکے میں انہی کے خطوط،میری ہر تصویر
چارلی چپلن، مارلن برانڈو،الفریڈ ہچکاک،انتھونی کوئن، صوفیہ لورین، کلنٹ ایسٹ وُڈ جیسے لوگ شامل تھے۔
بچپن میں ٹائیفائڈ کے حملوں نے ابو کوعمر بھرصحتمند ہونے کا احساس نہ ہونے دیا۔ جوانی میں معدے کے السر نے آ لیا۔ والدین کی ادھیڑعمرمیں پیدا ہونے والا یہ نادرانسان اپنے لڑکپن سے ہی والدین کو بوڑھا دیکھ رہا تھا۔ تعلیم اے لیول تک رہی جس کا انہیں بہت احساس تھا۔ سات بہنوں کے دو بھائی اور دونوں میں پندرہ برس کا فاصلہ۔ بڑی بہنوں کی علمی قابلیت کا بھی ذکر کرتے تھے اورخود میں نے بھی انہیں دیکھا تھا۔ جن میں سے ایک میری پھوپھو رضیہ تھیں۔ جو دادا کی سیکرٹری اورسٹینو بھی تھیں۔ میں نے اپنے والد سے زیادہ خوشخط اگر کسی اورانسان کی تحریر ابھی تک دیکھی ہے وہ رضیہ آپا ہی کی تھی ۔ جو میری پیدائش کے شاید دو برس بعد بہت سے دُکھ جھیل کر بیماری کے ساتھ دنیا سے رُخصت ہو گئیں۔ اُن کے بڑے بھائی مسعود احمد اُن کے برعکس مجلسی،وسیع المشرب اور نسبتاً زیادہ تعلیم یافتہ تھے۔ اللہ نے میرے تایا کو ابو کی وفات کے بعد بھی زندگی دی جہیں ہم پنجابی میں چاچا جی کہتے تھے۔ چاچا جی 2012 میں اپنے چھوٹے بھائی، بہنوں، بیٹے اور نواسے کے غم کے ساتھ اور بہت سے غم سمیٹ کر تقریباً چورانوے برس کی عمر میں رُخصت ہوئے۔ ابوانہیں پنجابی میں 'بھا جی' کہتے تھے۔ دونوں بھائی ایک دوسرے پرجان دیتے تھے لیکن ناراض ہونے کاحق بالاتفاق ابو کو دے دیا گیا تھا۔وہ اپنے لڑکپن ہی میں کہیں' اینگری ینگ مین' بن گئے تھے
وہ قحط الرجال کے دُکھ میں آدم بیزار ہو گئے تھے۔ سرمائے،آسائش، دکھاوے، نفاق کے کُھلے دشمن تھے۔
ایک مسلسل محنت ایک غیر مختتم جدوجہد، ایک ہمیشہ زندہ رہنے والا درد، ایک سچا، سیدھا اور کھرا انسان جسے پہچاننے کے لئے بڑے فہم کی ضرورت تھی لیکن وہ فہم ناپید ہے۔۔۔ وہ سمجھ عنقا ہے۔۔۔ وہ آنکھ اس تہذیب میں کب کی بند ہے۔۔۔ کب کی بند۔۔
میں پیدا ہونے سے چالیس برس کی عمر تک اس آغوش میں پروان چڑھا۔ میرے ہرخاکے میں انہی کے خطوط،میری ہر تصویر
میں وہی نقوش، میرے ہرقدم میں انہی کی تحریک۔
کبھی شاہد احمد دہلوی کی 'اُجڑا دیار'، کبھی 'ساحل' میں حکیم سعید شہید (ہمدرد یونیورسٹی کراچی) پرخالد جامعی کا مضمون، کبھی مشتاق احمد یوسفی کی 'چراغ تلے، زرگذشت اورآبِ گم،کبھی قدرت اللہ شہاب کی 'شہاب نامہ'، کبھی جاوید احمد غامدی کی 'مثنوی خیال وخامہ'، کبھی ابنِ انشاء کی 'اردو کی آخری کتاب'، کبھی ہفت روزہ الاعتصام، کبھی مولانا ابولکلام کا البلاغ اور
الہلال، کبھی جوہر کا کامریڈ، کبھی عاصی کرنالی، کبھی عبدالحلیم شرر ـــــ
وہ سارا دن ادب پاروں میں سے اعلٰی ترین حصوں کو نشان زد کرتے، پیروں کے پیرے، صفحوں کے صفحے میرے گھر پہنچنے تک دودھ میں سے مکھن کی طرح نکال رکھتے۔ شام کو میرے گھر آنے پر مجھ سے کہتے 'یار کپڑے بدل لو' اور امی سے کہتے'اس کا کھانا یہیں میرے پاس رکھ دو'۔ تو پھرایک مختصر سی تمہید کے بعد وہ آبِ زم ام میں دُھلی ہوئی اُردو، شفاف اور مترنم آواز، ٹھہرے ہوئے پختہ لہجے میں مناسب ترین وقفوں کے ساتھ پڑھتے چلے جاتے۔ یہ چشمہ ایک ڈیڑھ گھنٹے میں میری استعداد کی رعایت سے تھم جاتا۔ درمیان میں ہم دونوں کسی جملے، کسی استعارے، کسی مصرعے پر والہانہ داد دیتے یا ابو کسی بات کا پس منظر بیان کرتے تاکہ میرا تجربہ جس حد تک ممکن ہو مکمل کر سکیں۔
تقسیمِ ہند سے پہلے دادا کی سرکاری ملازمت کے دوران گھر میں خدمت گاروں کے ساتھ ابو کی رازداری رہتی۔ یہ رازداری فیروزپور میں گھر کے پیچھے جنگل میں گھُسنے، پھر وہاں سے پرندے پکڑنے اورسانپوں کا مقابلہ کرنے کے لئے نیولے کا بچہ ڈھونڈ کر اُسے اپنے ہی گھر میں چھُپا کر پالنے سے متعلق تھی۔ باورچی سے سلام دُعا اپنے پالتو جانورروں کے لئے دودھ اور دوسری خوراک کی چوری کے لئے رکھنی پڑی۔ کوچوان اور ڈرائیور کے طور پر جان محمد اسی گھر میں رہے تھے۔ جان محمد نے اس گھر میں ملازمت بھی کی اور تعلیم بھی پائی۔ یہاں سے نوکری ختم ہوئی تو سرکاری سکول میں ٹیچر بھرتی ہو گئے اور ہیڈ ماسٹر کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ جان محمد میرے لڑکپن تک باقاعدگی سے ابو کو خط لکھتے رہے اور ابو پوری محبت اور ذمہ داری سے جواب دیتے رہے۔ ابو کے بچپن کے دوستوں میں مُلا بشیر بھی تھے جو علمی کُتب خانہ لاہور میں ملازمت کرتے تھے اور اچھرہ میں رہتے تھے۔ یہ دوستی ابو کی زندگی کے ساتھ ختم ہوئی۔ ابو اپنی کسی خاص کتاب کی جلد کی مرمت کے لئے ملا بشیر سے کہتے اور وہ بخوشی اس خواہش کو پورا کرتے۔
آدم بیزاری نے جانوروں سے محبت کی جو پنیری لگائی تھی وہ جوانی میں بےحدکم وسائل کے باوجود تناور درخت بن گئی تھی۔ اس شوق میں وہ چڑیا گھر چلے جاتے اور انگریز کیوریٹر سے دوستی ہو گئی۔ پھر اُن کے معاون کے طور پر کچھ عرصہ اعزازی خدمت بھی سرانجام دی۔ جانوروں کو اُن کے ناموں سے یاد کرتے۔ اُن کے ماں باپ کے نام بھی یاد تھے۔ بالاآخر جانوروں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اوراپنے حالات کے پیشِ نظر اس خدمت کو خیرباد کہہ دیا۔
ویسے تو تمام عمر ابو کے پاس کوئی نہ کوئی جانور رہا جس کی خدمت اور تربیت جاری رہی (آپ مجھے پہلے سے اس میں شامل کر چکے ہیں)۔ لیکن میرے بچپن کا ایک زمانہ وہ بھی تھا جب گھر ایک چھوٹے سے چڑیا گھر کا منظر پیش کرتا تھا۔ ٹولنگٹن مارکیٹ سے خریدی گئی سُرخیں، فنچز اورآسٹریلیئن طوطے، بڑے مرتبان میں ننھی پریوں جیسی چمکتی، بل کھاتی مچھلیاں، اپنے ہی گھر میں امرود کے درخت سے پکڑا گیا میاں مٹھو، پندرہ بیس دیسی مرغیاں اور کچھ ولائتی چوزے، انہی مرغیوں کی آغوش میں بطخ کے انڈوں سے نکلے ہوئے سنہرے سے چوزے، ایک بکرا (ببلُو)، ایک فاکس ٹیریئر کتیا (ٹومی)، لکّا کبوتروں کے دو جوڑے اورچار پانچ خرگوش۔ اِن میں سے جن جانوروں کو میں نے ابو کی ٹریننگ کے بعد حیرت انگیز کام کرتے دیکھا تھا، اُن میں ٹومی، ببلُو، مٹھو اور ولائتی مرغا کمال کی حدوں کو چھُو رہے تھے۔ یہ سب جانور اپنے ناموں سے پکارے جاتے۔ ان کے صبح اُٹھنے، دوپہر اور رات کو سونے، کھانے اور پیشاب یا پاخانہ کرنے کے اوقات طے شدہ تھے۔ ان کی حجامت کی تاریخیں جیسے کیلنڈر پر مارک ہوتیں۔ گھر کے کون سے حصوں میں کس جانور کو کس وقت آنے کی اجازت ہے اور کس کو نہیں یہ طے تھا۔ خلاف ورزی پر سزائیں اورعمل کرنے پرغیرمعمولی پیار ملتا تھا۔ ایک خاص وقت گزرنے کے بعد کسی جانور کو قید نہیں رکھا جاتا تھا اور نہ ہی باندھا جاتا تھا۔ میں نے ایک بار سُرخوں اور آسٹریلئن طوطوں کو ابو کی جیل سے آزاد کروا کر دیکھ لیا تھا۔ پہلے تو وہ اُڑ کے ہمارے گھر کے دو درختوں پر جا بیٹھے پھر دو ایک گھنٹوں کے لئے غائب ہو گئے اور شام کو واپس آکر ڈنر کا تقاضا کرنے لگے۔ اسی طرح ٹامی کو دو بارانتہائی دور رہائش پذیر مختلف دوستوں کے حوالے کیا گیا لیکن وہ بیس پچیس کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے پورے شہر کو چیرتی ہوئی راستے کے شیر جیسے کتوں کے دانتوں اور پنجوں سے انتہائی زخمی حالت میں منزلِ مراد پر بھوکی پیاسی پہنچی۔ دوسری بار ایسا ہونے پر گھر آئی اور کچھ دِن کے بعد ہم سب کو دیکھتے دیکھتے دُنیا سے رُخصت ہو گئی۔ اُس کے دو بچے تھے ایک میں نے اپنے کلاس فیلو جاوید کو دیا تھا اور دوسرا ابو نے ماسٹر فریاد (ابو کے شاگرد اور ہمارے اُستاد) کو دیا تھا۔ یہ دونوں بچے اپنی ماں سے ملنے آیا کرتے تھے۔
بلیوں کی سُنیے، جو ہماری مرغیوں، دوسرے پرندوں اور خرگوشوں کے شکار کو آتیں تو ہمارے مرغے کے غضب کا شکار ہو کر نشانِ عبرت بنی پھرتیں۔ ہماری فیملی فضائیہ کا چیف مرغا جب انہیں بھگا کر فاتحانہ انداز میں واپس لوٹتا تو اُس کی چونچ اور پنجوں میں بلی کی پیٹھ کے اچھے خاصے بال دکھائی دیتے جو وہ ہمارے سامنے آ کر جھاڑ دیتا۔ یہی حال ببلو (بکرا) کا تھا، کُتیا اورمرغے کی غیرموجودگی میں زمینی افواج کا سربراہ وہ ہوتا۔
ابو کے پسندیدہ مضامین میں شکاریات اور وائلڈ لائف کے ساتھ ساتھ جانوروں کی تربیت کے لئے چھپنے والا لٹریچر بھی تھا۔ کتوں اورگھوڑوں کے انسائکلوپیڈیاز، جِم کاربٹ کی سُندربن کے آدم خوروں پر کتاب، ماہنامہ حکایت میں شکاریات پر شائع ہونے والے مضامین اور نیشنل جیوگرافک، اینیماکس یا اینیمل پلینٹ پر نشر ہونے والے چوبیس گھنٹے کے پروگرام اُن کی دُنیا تھے۔ ان کے علاوہ میں ابو کے لئے برٹش کونسل اور امریک سنٹر لائبریری سے جانوروں سے متعلق ویڈیو ٹیپس بھی لا کر دیتا تھا جسے وہ خود پر احسان تصور کرتے تھے۔ مجھے گھوڑوں اور کُتوں کی مختلف نسلوں کے نام اور خوبیاں یاد ہو گئے تھے۔
وہ جوانی میں ائرفورس میں بھرتی ہونے کا کوئی ابتدائی امتحان پاس کر آئے تھے جسے ہماری دادی اماں کی اجازت نہ ملنے پر چھوڑنا پڑا۔ اس مایوسی نے ایک نئے شوق کی بنیاد ڈال دی اور وہ تھا طیاروں کی اقسام اور نام یاد رکھنے کا شوق جو مجھے بھی دو سال کی عمر میں رٹوا دئے۔ اسی طرح گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے مشہور برانڈز اور ماڈلز کے نام بھی لکھ کر رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ ائر فورس، بری اور بحری افواج کے تمام عہدے بھی یاد کئے اور مجھے بھی کروائے۔23 مارچ ہو، 14 اگست ہو یا 6 ستمبر، ٹی وی پر افواج ِپاکستان کی پریڈ اوراسلحے کی نمائش کو بیحد دلچسپی سے دیکھتے۔ نیوز کاسٹرز اور مبصرین میں اس حوالے سے لئیق احمد، اظہر لودھی اور ابصار عبدالعلی، شائستہ زید، ادریس احمد اور خالد حمید کو پسند کرتے تھے۔ کچھ نیوز کاسٹرز کے نام میرے ذہن سے محو ہو گئے ہیں، کبھی یاد آئے تو لکھوں گا۔
نوجوانی میں والی بال کے اچھے کھلاڑی رہے تھے۔ کرکٹ اورہاکی کو دیکھنے کی حد تک پسند کرتے تھے۔ ٹی وی پرمیچ دیکھتے ہوئے شدید ردِ عمل کا مظاہرہ کرتے اور اپنے ہاتھ سے، اپنی نوٹ بُک پر سکوربورڈ کو ایڈیٹ کرتے رہتے تھے۔ پاکستانی ٹیم کی بُری کارکردگی پر فارسی، اُردو اور پنجابی کے ملامتی اشعار کا انبار لگا دیتے۔
ہم قافیہ، ہم وزن اور ہم آواز الفاظ کے گروہ بنانا اوراُن کو یاد کر کے لکھنا اور پھر مجھے سُنانا اُن کا محبوب مشغلہ تھا۔ اسی طرح انڈیا اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں آباد ذاتوں کے ناموں کو جمع کرنا، ایک ہی لفظ کے مختلف زبانوں میں متبادل ڈھونڈنا اور لکھ رکھنا۔ کون سا مشہور آدمی کِس کا بیٹا، بھائی یا باپ تھا، کِس پوزیشن یا عہدے پر رہا، کس حال میں رُخصت ہؤا یہ خلاصے اُن کی نوکِ زبان پر دھرے تھے۔ آپ نام لیں اور ایک دلچسپ کہانی سُن لیں۔
ایک رجسٹر تھا جو بجائے خود ایک فن پارہ تھا۔ اس میں اُن کے پسندیدہ شعراء اور ادیبوں کی تحریروں کو اُردو، فارسی اور انگریزی میں کٹی ہوئی نِب کے ساتھ لکھ کر محفوظ کیا جاتا تھا۔ کبھی ملا تو اُس کی تصاویر دکھاؤں گا۔ اسی رجسٹر میں اخباروں کے تراشے جن میں اُن کے ہیروز اور ہیروئینیوں کی تصویریں نفاست سے کاٹ کر چسپاں کی گئی تھیں اور اُن کے ساتھ موزوں اشعار یا کوٹیشنز خوشخط تحریر ہوتیں۔
گانے والوں میں اختری بائی فیض آبادی، کے ایل سہگل، طلعت محمود (جو شاید مولانا عبدالماجد دریاآبادی کے بھانجے بھی تھے)، ہیمنت کمار، مناڈے، محمد رفیع، نور جہاں، لتا منگیشکر، آشا بھوسلے، شمشاد، ثریا، امانت علی خان، حبیب ولی محمد، ناشاد وغیرہ شامل تھے۔ خود کچھ عرصہ ریڈیو پاکستان پر خبریں پڑھنے کا شوق بھی پورا کیا اور اپنی متلون مزاجی یا کسی کی افسری کے ہاتھوں مجبور ہو کر جلد ہی ترک کر دیا۔ وہ نیم کلاسیکی، غزل، ترانہ، گیت، قوالی اور نعت پسند کرتے تھے۔ بھجن آ جاتا تو گانے والے پر منحصر تھا کہ وہ سُننے پر مجبور ہوں ورنہ بند کروا دیتے۔ اسی طرح انڈیا کا کوئی ترانہ یا قومی نوعیت کا گیت بھی نفرت سے دیکھتے تھے۔ وہ نیشنلسٹ بھی تھے اور کچھ لوگوں کو سرحد سے پار چاہنے پر مجبور بھی۔ ابوالکلام کی سیاست سے اختلاف کے باوجود غبارِ خاطر، الہلال اور تذکرہ کو پسند بھی کرتے تھے۔ ہندو اور کانگریس سے دُشمنی کہیں اندر دبی ہوئی تھی جس کا اظہار بھی تُند لہجے میں کر تے تھے۔
اُن کے پسندیدہ رسالوں میں ریڈرز ڈائجسٹ، سپتنک، نیشنل جیوگرافک، اشراق، الاعتصام، ہیرلڈ، نیوزویک اور انڈین فلم انڈسٹری سے متعلق رسالے تھے جن کے نام میرے ذہن میں شاید زیادہ نقش نہ ہو سکے۔ فلمی رسالے لا کر دینے کی مقدس قومی ذمہ داری بھاجی ادا کرتے تھے۔ بھاجی اور ابو ہالی وڈ، انڈین، یوروپئن اور پاکستانی فلم انڈسٹری کے چلتے پھرتے انسائکلوپیڈیاز تھے۔
دو کتابیں ساری زندگی اُن کے ساتھ رہیں۔ پہلی اُردو کی لغات اور دوسری انگریزی کی ڈکشنری۔ اُردو کی لغات میں وہ نوراللغات اور کشور اللغات کے ساتھ کتابستان کی اُردو لغات کو پسند کرتے تھے۔ فرہنگِ آصفیہ ہمارے پاس نہیں تھی۔ انگریزی کی ڈکشنری میں انگریزی سے انگریزی اور اُردو کے سلسلے میں وہ جناب بشیر احمد قریشی کی مرتب کی ہوئی کتابستان کی ڈکشنری کو تمام مقامی ڈکشنریوں پر ترجیح دیتے تھے۔ بشیر احمد قریشی پرائمری یا ہائی سکول میں میرے ابو کے اُستاد رہے تھے اس لئے وہ اُن کی لیاقت کے بیحد قائل تھے۔ فیروزاللغات کا ایک درمیانہ ایڈیشن بھی گھر میں تھا جسے غصے کی حالت میں 'فراڈ اللغات' کے نام سے یاد کرتے تھے۔ اس میں الفاظ کے پورے کے پورے گروہ غائب تھے اور یہ بات مایوس کُن تھی۔ اِن ڈکشنریوں میں سلیقے سے کاٹے ہوئے کاغذ کے پرزوں پر ابو وہ الفاظ و معانی لکھ کر رکھتے تھے جنہیں وہ سیکھنا یا یاد کرنا چاہتے تھے۔ کاغذ کے یہ پرزے ہم بچوں کی ضائع شدہ کاپیوں سے لیے جاتے تھے یا پھر اُن کی سگریٹ کی ڈبیا کی پنی کی پشت بھی اکثر لغات میں جیسے اِستری کر کے رکھی ہوئی ملتے۔ یہ ٹکڑے بجائے خود فن پارے ہوتے تھے جن کی اِس قدروقیمت سے وہ خود کچھ بے نیاز تھے لیکن اُن پر لکھے ہوئے لفظ انہیں عزیز تر تھے۔
درویش صفت نابغوں میں ڈاکٹر امیر الدین اور مولانا حسرت موہانی اُن کے رول ماڈل رہے جبکہ پسندیدہ شخصیات میں میرے دادا شیخ عبدالرحیم علیگ ایڈووکیٹ جو ایم اے او کالج علی گڑھ کی 1910 سے 1914 کی ہر دلعزیز شخصیت، سر اسٹیچی ہال یونین کے صدر اور مصنف سفرنامہ 'پیرِ حرم اور زائرِ حرم' تھے۔
اسی طرح دادا کے دوستوں میں سے شیر محمد سید (دینی محقق/بیوروکریٹ)، جسٹس ریٹائرڈ غلام علی (دینی محقق ، قانون دان، جماعتِ اسلامی)، مولوی دوست محمد (ہیڈ ماسٹر اسلامیہ سکول چنیوٹ) کو اچھے الفاظ میں یاد کرتے۔ سعادت حسن منٹو اپنی بیباکی اور انتظار حسین اپنی زبان اور نازکی کی وجہ سے پسند رہے تھے۔
سادہ ترین اور سستے کپڑے، بیحد کم خوراک، انتہائی کم خرچ اور کم آمیز۔ اپنے کپڑے استری نہ کرواتے بس انہیں سوکھنے کے بعد قرینے سے تہہ کر کے تکیے کے نیچے رکھ لیتے۔ لوہے کی تار والی ٹوکری اُن کی سائیکل کے ہینڈل سے جُڑی تھی، پچھلے پہئے پر ایک کیریئر جس کے ساتھ صاف سُتھری رسی کا ایک ٹکڑا کمال سلیقے سے بندھا ہؤا تھا۔ اسی پہئیے پر گول تالا لگا ہوا تھا۔ ہینڈل پر ایک گھنٹی بھی تھی جو پورے سُر میں رہتی۔ یہ سائیکل غالباً 1970 کے زمانے میں خریدی گئی تھی جسے وہ نفاست کا نمونہ بنائے رکھتے۔
ہروہ سہولت جس پراُن کی نظر میں زیادہ خرچ آتا ہو قابلِ نفرت تھی اورہرضروری چیز جس پر کچھ بھی معمولی سا خرچ ہو جائے اُن کے لئے قیمتی ہو جاتی تھی۔ وہ سب کچھ سنبھال کر رکھتے تھے۔ سگریٹ کی ڈبیاں اوراُن کے اندر کی پنیاں اور گتے، ماچس کی ڈبیاں اورجلی ہوئی تیلیاں، چلتے چلتے بند ہو جانے والے بال پوائنٹ اور جام ہوئے فاؤنٹین پین، خاکی، اخباری اور مومی لفافے،اخبار،لکڑی اوراینٹوں کے ٹکڑے،ریت،بجری،سیمنٹ جو بھی بچ جاتا وہ اُسے ایسے سلیقے سے باندھ لیتے اورایسی جگہ محفوظ کرتے کہ وقت آنے پر کہیں باہر جانے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ لکڑی کا کام ہو یا بجلی کا،مستری کا کام ہو یا مزدورکا، پلمبر کا کام ہو یا کتابیں جلد کرنے کا اُن کے پاس ہر کام کے بنیادی اواز اپنے الگ الگ ٹول باکس میں صاف سُتھرے مل جاتے۔ ایسا لگتا تھا اُن کے زیرِتصرف ہر چیز اُن سے خوش ہے اور اُن کے بغیر رُل جائے گی۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ سنبھالی ہوئی چیزوں کو وہ کیا کرتے تھے تو میں کہوں گا کہ غربت کے ساتھ اگر علم اور کفایت شعاری ہو تو غربت خوبصورتی کے ساتھ کٹ جاتی ہے اور تنگ دستی کے ساتھ اگر جہالت اور بے سلیقگی ہو تو دُنیا میں جہنم کو دیکھا جا سکتا ہے۔
میں چھوٹا سا تھا جب مجھ سے مرغی ذبح کروائی۔ وہ کہتے تھے کہ ان کے بچپن میں مسجد میں لے جا کر مولوی سے مرغی ذبح کروائی جاتی تھی اور ظہر کی نماز کے بعد مسجد سے ایک لڑکا خالی پلیٹ لے کر دروازہ کھٹکھٹاتا تھا کہ سالن دے دیں۔ اُنہیں ابتدائی عمر سے مولوی سے کچھ بیرسا ہو گیا تھا۔ جو حضرت سپارہ پڑھانے آتے تھے وہ سبق یاد نہ ہو سکنے پرانگلیوں میں پنسل کو پرو کر ہاتھ یوں دبایا کرتے تھے کہ دینی تعلیم اس نازک اور بیمار بچے کے لئے اذیت ناک ہو گئی تھی۔ دادا ابو کچھ سخت اساتذہ کو پسند کرتے تھے اور اُن کا علمی رعب بھی اس قدر تھا کہ چھوٹے بیٹے میں یہ جراءت کبھی نہ پیدا ہو سکی کہ علی الاعلان بغاوت کر دیتا۔ میں ذرا بڑا ہوا تو قربانی کا جانور میرے ہاتھ سے ذبح کروایا۔ جانور کی کھال اُتارنا سکھایا، ہڈیوں، پٹھوں اور جوڑوں کو میرے سامنے تدریسی انداز میں کاٹنے کا بارہا مظاہرہ کیا لیکن جو مجھے نہ سیکھنا تھا نہ سیکھ سکا۔
سائیکل، سکوٹر اور موٹرسائیکل کی دیکھ بھال اور صفائی کا فن اُن پر ختم تھا۔ اپنی جان سے زیادہ اپنے پالتو جانوروں، اوزاروں، سٹیشنری، کتابوں اور سواری کا خیال رکھنے والی بات محاورتاً نہیں لکھی ہے یہ سب کچھ تو آنکھوں دیکھا حال ہے اور وہ بھی زندگی بھر کا۔ وہ بہت کم گالی دیتے تھے لیکن کبھی بے اختیار غصے میں کسی کو حرام الدہر اور سؤر وغیرہ کی اولاد کہہ ڈالتے۔ اور زندگی میں ایک آدھ بار ایک ناقابلِ اشاعت گالی بھی اُن کی زبان سے سُنی جس سے اُن کے زمانے میں فارسی زبان کے غلبے کا اندازہ ہوتا تھا۔ میں نے بی اے میں فارسی زبان رکھی تو میرا ٹیسٹ لیا جس میں مجھے فیل کر دیا۔ شاید 100 میں سے بیس نمبر دئیے تھے ابو نے۔ جب بی اے کا نتیجہ آیا تو میرے نمبر سو میں سے اسی 80 تھے۔ میں نے نمبر بتائے تو افسوس سے کہنے لگے اب تو میرا اس نظامِ تعلیم سے بالکل اعتبار اُٹھ گیا ہے۔
تعلق میں وہ مان لینے یا منوا لینے کی بنیاد پر چلتے تھے۔ اگر انہوں نے کسی کی فضیلت کو دِل سے تسلیم کر لیا تو اُس پر جان بھی نثار اور اگر نہیں مانا تو بات کرنا بھی ضروری نہ سمجھتے تھے۔ جن لوگوں کو کبھی کم علم یا کم فہم سمجھ کراپنا راستہ الگ کر لیا اورجب وہ ابو کے علم کے قائل ہو گئے،اپنے عمل سے گواہی دیتے تو اُن کی بھی خدمت کرنے لگ جاتے۔ وہ سچے، سادہ، غریب اور صاحبِِ علم وفن پر فدا ہو جاتے تھے۔ ڈائری لکھنے کی عادت پرانی تھی لیکن اُسے پرائیویٹ رکھنے کے لئے انگریزی میں لکھتے۔ جب امی یا ان کے رشتہ داروں کے خلاف مجھ سے برملا کچھ کہنا ہوتا تو اُن کی موجودگی میں برجستہ انگریزی میں بات کرتے۔ یہ الگ بات ہے کہ امی یا کوئی بھی پرانا شکار خود ہی سمجھ جاتا کہ بات اُسی سے متعلق ہے اور ہے بھی عیب جوئی۔
اپنا مافی الضمیر لکھنے اورکہنے پراس درجے کا کمال تھا کہ پڑھنے والا اور سُننے والا وہ الفاظ وہ لہجہ اور وہ جذبہ کبھی نہ بھُلا پاتا۔ اسی طرح اُن کی غصیلی طبیعت سے مزاح کی اُمید عموماً کسی کو نہیں ہوتی تھی لیکن جب کوئی اُن کے غضب کا نشانہ بنتا تو اُن کی زبان وقلم سے برآمد ہونے والا مواد طعن وتشنیع، طنزومزاح اور ہجو واحتجاج کا شاہ پارہ بن جاتا۔
جن لوگوں سے دادا کی نسبت سے ابو کا رابطہ رہا ان میں سے اشفاق احمد (جنہیں ہمارے گھر میں پیار سے شقّو پکارا جاتا تھا)، اشفاق صاحب کے بڑے بھائی اور درویش صفت آفتاب احمد (جو میرے دادا کے اسسٹنٹ یا منشی تھے اور ابو اُن کو اشفاق احمد کے برخلاف پسند کرتے تھے) اشفاق احمد کی والدہ،مولانا غلام رسول مہر، مولانا عبدالمجید سالک، مولانا ظفرعلی خان، مولانا عطاءاللہ حنیف بھوجیانی، مولانا چراغ حسن حسرت، ابوالاثر حفیظ جالندھری، مولانا ابوالاعلٰی مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی، ڈاکٹر سید محمد عبداللہ، شورش کاشمیری، مولانا متین ہاشمی، قاضی عبدالباقی (مولانا سلیمان منصورپوری کے پوتے)، نواب سمسام الدین فیروز (دادا جان کے علی گڑھ کے کالج فیلو)، اللہ بخش یوسفی (مدیر مجلہ سرحد - دادا کے علی گڑھ کے کالج فیلو)، ڈاکٹر مسعود (معروف ہومیو پیتھ)، علامہ عنایت اللہ مشرقی، کمال احمد (اداکار)، شیر محمد سید، جسٹس غلام علی اور ڈاکٹر امیر الدین جیسے ستارے تھے۔ بہت سارے ایسے لوگ جنہیں وہ پسند کرتے تھے وہ یا تو ابو کے بچپن میں دادا سے ملے تھے یا تقسیمِ ہند کے بعد اُن سے بالمشافہ ملاقات نہ ہو سکی۔ اُن میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، بی اماں، غلام حُسین (مدیر کامریڈ)، ابوالکلام آزاد، شیخ محمد عبداللہ (صدر آزاد کشمیر)، خوشی محمد ناظر (کشمیری شاعراورسیاستدان)، بلراج سانی (ایکٹر اور سماجی کارکن)، منشی پریم چند، رتن ناتھ آزاد یا سرشار، آغا حشر کاشمیری، سرسید احمد خان، مارماڈُک پکتھل، عبداللہ یوسف علی، نواب بہادر یار جنگ، نواب صدیق حسن خان، مولانا عبدالماجد دریآبادی، غلام احمد پرویز، سر عبدالقادر (مدیر مخزن) اور علامہ محمد اقبال کے نام مجھے یاد رہ گئے ہیں۔
۔۔۔۔۔2006 میں سینے کے کینسر کا موذی مرض والد صاحب کی جان کا خراج لے کرہی ٹلا۔۔۔۔۔
تم میں اپنے آپ کو دیکھا، خود میں تم کو پایا
دور چلا تو میں نے سوچا، میں نے دھوکا کھایا
ایک فسانہ لکھ کر تم نے شہر میں جا چھپوایا
ایک کہانی کہہ کر میں نے اپنا آپ گنوایا
ایک کتاب کی پیشانی پر عکس تمہارا دیکھا
ایک مزار کی لوح پہ میں نے اپنے نام کو پایا
(سجاد خالد)
وہ سارا دن ادب پاروں میں سے اعلٰی ترین حصوں کو نشان زد کرتے، پیروں کے پیرے، صفحوں کے صفحے میرے گھر پہنچنے تک دودھ میں سے مکھن کی طرح نکال رکھتے۔ شام کو میرے گھر آنے پر مجھ سے کہتے 'یار کپڑے بدل لو' اور امی سے کہتے'اس کا کھانا یہیں میرے پاس رکھ دو'۔ تو پھرایک مختصر سی تمہید کے بعد وہ آبِ زم ام میں دُھلی ہوئی اُردو، شفاف اور مترنم آواز، ٹھہرے ہوئے پختہ لہجے میں مناسب ترین وقفوں کے ساتھ پڑھتے چلے جاتے۔ یہ چشمہ ایک ڈیڑھ گھنٹے میں میری استعداد کی رعایت سے تھم جاتا۔ درمیان میں ہم دونوں کسی جملے، کسی استعارے، کسی مصرعے پر والہانہ داد دیتے یا ابو کسی بات کا پس منظر بیان کرتے تاکہ میرا تجربہ جس حد تک ممکن ہو مکمل کر سکیں۔
تقسیمِ ہند سے پہلے دادا کی سرکاری ملازمت کے دوران گھر میں خدمت گاروں کے ساتھ ابو کی رازداری رہتی۔ یہ رازداری فیروزپور میں گھر کے پیچھے جنگل میں گھُسنے، پھر وہاں سے پرندے پکڑنے اورسانپوں کا مقابلہ کرنے کے لئے نیولے کا بچہ ڈھونڈ کر اُسے اپنے ہی گھر میں چھُپا کر پالنے سے متعلق تھی۔ باورچی سے سلام دُعا اپنے پالتو جانورروں کے لئے دودھ اور دوسری خوراک کی چوری کے لئے رکھنی پڑی۔ کوچوان اور ڈرائیور کے طور پر جان محمد اسی گھر میں رہے تھے۔ جان محمد نے اس گھر میں ملازمت بھی کی اور تعلیم بھی پائی۔ یہاں سے نوکری ختم ہوئی تو سرکاری سکول میں ٹیچر بھرتی ہو گئے اور ہیڈ ماسٹر کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ جان محمد میرے لڑکپن تک باقاعدگی سے ابو کو خط لکھتے رہے اور ابو پوری محبت اور ذمہ داری سے جواب دیتے رہے۔ ابو کے بچپن کے دوستوں میں مُلا بشیر بھی تھے جو علمی کُتب خانہ لاہور میں ملازمت کرتے تھے اور اچھرہ میں رہتے تھے۔ یہ دوستی ابو کی زندگی کے ساتھ ختم ہوئی۔ ابو اپنی کسی خاص کتاب کی جلد کی مرمت کے لئے ملا بشیر سے کہتے اور وہ بخوشی اس خواہش کو پورا کرتے۔
آدم بیزاری نے جانوروں سے محبت کی جو پنیری لگائی تھی وہ جوانی میں بےحدکم وسائل کے باوجود تناور درخت بن گئی تھی۔ اس شوق میں وہ چڑیا گھر چلے جاتے اور انگریز کیوریٹر سے دوستی ہو گئی۔ پھر اُن کے معاون کے طور پر کچھ عرصہ اعزازی خدمت بھی سرانجام دی۔ جانوروں کو اُن کے ناموں سے یاد کرتے۔ اُن کے ماں باپ کے نام بھی یاد تھے۔ بالاآخر جانوروں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اوراپنے حالات کے پیشِ نظر اس خدمت کو خیرباد کہہ دیا۔
ویسے تو تمام عمر ابو کے پاس کوئی نہ کوئی جانور رہا جس کی خدمت اور تربیت جاری رہی (آپ مجھے پہلے سے اس میں شامل کر چکے ہیں)۔ لیکن میرے بچپن کا ایک زمانہ وہ بھی تھا جب گھر ایک چھوٹے سے چڑیا گھر کا منظر پیش کرتا تھا۔ ٹولنگٹن مارکیٹ سے خریدی گئی سُرخیں، فنچز اورآسٹریلیئن طوطے، بڑے مرتبان میں ننھی پریوں جیسی چمکتی، بل کھاتی مچھلیاں، اپنے ہی گھر میں امرود کے درخت سے پکڑا گیا میاں مٹھو، پندرہ بیس دیسی مرغیاں اور کچھ ولائتی چوزے، انہی مرغیوں کی آغوش میں بطخ کے انڈوں سے نکلے ہوئے سنہرے سے چوزے، ایک بکرا (ببلُو)، ایک فاکس ٹیریئر کتیا (ٹومی)، لکّا کبوتروں کے دو جوڑے اورچار پانچ خرگوش۔ اِن میں سے جن جانوروں کو میں نے ابو کی ٹریننگ کے بعد حیرت انگیز کام کرتے دیکھا تھا، اُن میں ٹومی، ببلُو، مٹھو اور ولائتی مرغا کمال کی حدوں کو چھُو رہے تھے۔ یہ سب جانور اپنے ناموں سے پکارے جاتے۔ ان کے صبح اُٹھنے، دوپہر اور رات کو سونے، کھانے اور پیشاب یا پاخانہ کرنے کے اوقات طے شدہ تھے۔ ان کی حجامت کی تاریخیں جیسے کیلنڈر پر مارک ہوتیں۔ گھر کے کون سے حصوں میں کس جانور کو کس وقت آنے کی اجازت ہے اور کس کو نہیں یہ طے تھا۔ خلاف ورزی پر سزائیں اورعمل کرنے پرغیرمعمولی پیار ملتا تھا۔ ایک خاص وقت گزرنے کے بعد کسی جانور کو قید نہیں رکھا جاتا تھا اور نہ ہی باندھا جاتا تھا۔ میں نے ایک بار سُرخوں اور آسٹریلئن طوطوں کو ابو کی جیل سے آزاد کروا کر دیکھ لیا تھا۔ پہلے تو وہ اُڑ کے ہمارے گھر کے دو درختوں پر جا بیٹھے پھر دو ایک گھنٹوں کے لئے غائب ہو گئے اور شام کو واپس آکر ڈنر کا تقاضا کرنے لگے۔ اسی طرح ٹامی کو دو بارانتہائی دور رہائش پذیر مختلف دوستوں کے حوالے کیا گیا لیکن وہ بیس پچیس کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے پورے شہر کو چیرتی ہوئی راستے کے شیر جیسے کتوں کے دانتوں اور پنجوں سے انتہائی زخمی حالت میں منزلِ مراد پر بھوکی پیاسی پہنچی۔ دوسری بار ایسا ہونے پر گھر آئی اور کچھ دِن کے بعد ہم سب کو دیکھتے دیکھتے دُنیا سے رُخصت ہو گئی۔ اُس کے دو بچے تھے ایک میں نے اپنے کلاس فیلو جاوید کو دیا تھا اور دوسرا ابو نے ماسٹر فریاد (ابو کے شاگرد اور ہمارے اُستاد) کو دیا تھا۔ یہ دونوں بچے اپنی ماں سے ملنے آیا کرتے تھے۔
بلیوں کی سُنیے، جو ہماری مرغیوں، دوسرے پرندوں اور خرگوشوں کے شکار کو آتیں تو ہمارے مرغے کے غضب کا شکار ہو کر نشانِ عبرت بنی پھرتیں۔ ہماری فیملی فضائیہ کا چیف مرغا جب انہیں بھگا کر فاتحانہ انداز میں واپس لوٹتا تو اُس کی چونچ اور پنجوں میں بلی کی پیٹھ کے اچھے خاصے بال دکھائی دیتے جو وہ ہمارے سامنے آ کر جھاڑ دیتا۔ یہی حال ببلو (بکرا) کا تھا، کُتیا اورمرغے کی غیرموجودگی میں زمینی افواج کا سربراہ وہ ہوتا۔
ابو کے پسندیدہ مضامین میں شکاریات اور وائلڈ لائف کے ساتھ ساتھ جانوروں کی تربیت کے لئے چھپنے والا لٹریچر بھی تھا۔ کتوں اورگھوڑوں کے انسائکلوپیڈیاز، جِم کاربٹ کی سُندربن کے آدم خوروں پر کتاب، ماہنامہ حکایت میں شکاریات پر شائع ہونے والے مضامین اور نیشنل جیوگرافک، اینیماکس یا اینیمل پلینٹ پر نشر ہونے والے چوبیس گھنٹے کے پروگرام اُن کی دُنیا تھے۔ ان کے علاوہ میں ابو کے لئے برٹش کونسل اور امریک سنٹر لائبریری سے جانوروں سے متعلق ویڈیو ٹیپس بھی لا کر دیتا تھا جسے وہ خود پر احسان تصور کرتے تھے۔ مجھے گھوڑوں اور کُتوں کی مختلف نسلوں کے نام اور خوبیاں یاد ہو گئے تھے۔
وہ جوانی میں ائرفورس میں بھرتی ہونے کا کوئی ابتدائی امتحان پاس کر آئے تھے جسے ہماری دادی اماں کی اجازت نہ ملنے پر چھوڑنا پڑا۔ اس مایوسی نے ایک نئے شوق کی بنیاد ڈال دی اور وہ تھا طیاروں کی اقسام اور نام یاد رکھنے کا شوق جو مجھے بھی دو سال کی عمر میں رٹوا دئے۔ اسی طرح گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے مشہور برانڈز اور ماڈلز کے نام بھی لکھ کر رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ ائر فورس، بری اور بحری افواج کے تمام عہدے بھی یاد کئے اور مجھے بھی کروائے۔23 مارچ ہو، 14 اگست ہو یا 6 ستمبر، ٹی وی پر افواج ِپاکستان کی پریڈ اوراسلحے کی نمائش کو بیحد دلچسپی سے دیکھتے۔ نیوز کاسٹرز اور مبصرین میں اس حوالے سے لئیق احمد، اظہر لودھی اور ابصار عبدالعلی، شائستہ زید، ادریس احمد اور خالد حمید کو پسند کرتے تھے۔ کچھ نیوز کاسٹرز کے نام میرے ذہن سے محو ہو گئے ہیں، کبھی یاد آئے تو لکھوں گا۔
نوجوانی میں والی بال کے اچھے کھلاڑی رہے تھے۔ کرکٹ اورہاکی کو دیکھنے کی حد تک پسند کرتے تھے۔ ٹی وی پرمیچ دیکھتے ہوئے شدید ردِ عمل کا مظاہرہ کرتے اور اپنے ہاتھ سے، اپنی نوٹ بُک پر سکوربورڈ کو ایڈیٹ کرتے رہتے تھے۔ پاکستانی ٹیم کی بُری کارکردگی پر فارسی، اُردو اور پنجابی کے ملامتی اشعار کا انبار لگا دیتے۔
ہم قافیہ، ہم وزن اور ہم آواز الفاظ کے گروہ بنانا اوراُن کو یاد کر کے لکھنا اور پھر مجھے سُنانا اُن کا محبوب مشغلہ تھا۔ اسی طرح انڈیا اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں آباد ذاتوں کے ناموں کو جمع کرنا، ایک ہی لفظ کے مختلف زبانوں میں متبادل ڈھونڈنا اور لکھ رکھنا۔ کون سا مشہور آدمی کِس کا بیٹا، بھائی یا باپ تھا، کِس پوزیشن یا عہدے پر رہا، کس حال میں رُخصت ہؤا یہ خلاصے اُن کی نوکِ زبان پر دھرے تھے۔ آپ نام لیں اور ایک دلچسپ کہانی سُن لیں۔
ایک رجسٹر تھا جو بجائے خود ایک فن پارہ تھا۔ اس میں اُن کے پسندیدہ شعراء اور ادیبوں کی تحریروں کو اُردو، فارسی اور انگریزی میں کٹی ہوئی نِب کے ساتھ لکھ کر محفوظ کیا جاتا تھا۔ کبھی ملا تو اُس کی تصاویر دکھاؤں گا۔ اسی رجسٹر میں اخباروں کے تراشے جن میں اُن کے ہیروز اور ہیروئینیوں کی تصویریں نفاست سے کاٹ کر چسپاں کی گئی تھیں اور اُن کے ساتھ موزوں اشعار یا کوٹیشنز خوشخط تحریر ہوتیں۔
گانے والوں میں اختری بائی فیض آبادی، کے ایل سہگل، طلعت محمود (جو شاید مولانا عبدالماجد دریاآبادی کے بھانجے بھی تھے)، ہیمنت کمار، مناڈے، محمد رفیع، نور جہاں، لتا منگیشکر، آشا بھوسلے، شمشاد، ثریا، امانت علی خان، حبیب ولی محمد، ناشاد وغیرہ شامل تھے۔ خود کچھ عرصہ ریڈیو پاکستان پر خبریں پڑھنے کا شوق بھی پورا کیا اور اپنی متلون مزاجی یا کسی کی افسری کے ہاتھوں مجبور ہو کر جلد ہی ترک کر دیا۔ وہ نیم کلاسیکی، غزل، ترانہ، گیت، قوالی اور نعت پسند کرتے تھے۔ بھجن آ جاتا تو گانے والے پر منحصر تھا کہ وہ سُننے پر مجبور ہوں ورنہ بند کروا دیتے۔ اسی طرح انڈیا کا کوئی ترانہ یا قومی نوعیت کا گیت بھی نفرت سے دیکھتے تھے۔ وہ نیشنلسٹ بھی تھے اور کچھ لوگوں کو سرحد سے پار چاہنے پر مجبور بھی۔ ابوالکلام کی سیاست سے اختلاف کے باوجود غبارِ خاطر، الہلال اور تذکرہ کو پسند بھی کرتے تھے۔ ہندو اور کانگریس سے دُشمنی کہیں اندر دبی ہوئی تھی جس کا اظہار بھی تُند لہجے میں کر تے تھے۔
اُن کے پسندیدہ رسالوں میں ریڈرز ڈائجسٹ، سپتنک، نیشنل جیوگرافک، اشراق، الاعتصام، ہیرلڈ، نیوزویک اور انڈین فلم انڈسٹری سے متعلق رسالے تھے جن کے نام میرے ذہن میں شاید زیادہ نقش نہ ہو سکے۔ فلمی رسالے لا کر دینے کی مقدس قومی ذمہ داری بھاجی ادا کرتے تھے۔ بھاجی اور ابو ہالی وڈ، انڈین، یوروپئن اور پاکستانی فلم انڈسٹری کے چلتے پھرتے انسائکلوپیڈیاز تھے۔
دو کتابیں ساری زندگی اُن کے ساتھ رہیں۔ پہلی اُردو کی لغات اور دوسری انگریزی کی ڈکشنری۔ اُردو کی لغات میں وہ نوراللغات اور کشور اللغات کے ساتھ کتابستان کی اُردو لغات کو پسند کرتے تھے۔ فرہنگِ آصفیہ ہمارے پاس نہیں تھی۔ انگریزی کی ڈکشنری میں انگریزی سے انگریزی اور اُردو کے سلسلے میں وہ جناب بشیر احمد قریشی کی مرتب کی ہوئی کتابستان کی ڈکشنری کو تمام مقامی ڈکشنریوں پر ترجیح دیتے تھے۔ بشیر احمد قریشی پرائمری یا ہائی سکول میں میرے ابو کے اُستاد رہے تھے اس لئے وہ اُن کی لیاقت کے بیحد قائل تھے۔ فیروزاللغات کا ایک درمیانہ ایڈیشن بھی گھر میں تھا جسے غصے کی حالت میں 'فراڈ اللغات' کے نام سے یاد کرتے تھے۔ اس میں الفاظ کے پورے کے پورے گروہ غائب تھے اور یہ بات مایوس کُن تھی۔ اِن ڈکشنریوں میں سلیقے سے کاٹے ہوئے کاغذ کے پرزوں پر ابو وہ الفاظ و معانی لکھ کر رکھتے تھے جنہیں وہ سیکھنا یا یاد کرنا چاہتے تھے۔ کاغذ کے یہ پرزے ہم بچوں کی ضائع شدہ کاپیوں سے لیے جاتے تھے یا پھر اُن کی سگریٹ کی ڈبیا کی پنی کی پشت بھی اکثر لغات میں جیسے اِستری کر کے رکھی ہوئی ملتے۔ یہ ٹکڑے بجائے خود فن پارے ہوتے تھے جن کی اِس قدروقیمت سے وہ خود کچھ بے نیاز تھے لیکن اُن پر لکھے ہوئے لفظ انہیں عزیز تر تھے۔
درویش صفت نابغوں میں ڈاکٹر امیر الدین اور مولانا حسرت موہانی اُن کے رول ماڈل رہے جبکہ پسندیدہ شخصیات میں میرے دادا شیخ عبدالرحیم علیگ ایڈووکیٹ جو ایم اے او کالج علی گڑھ کی 1910 سے 1914 کی ہر دلعزیز شخصیت، سر اسٹیچی ہال یونین کے صدر اور مصنف سفرنامہ 'پیرِ حرم اور زائرِ حرم' تھے۔
اسی طرح دادا کے دوستوں میں سے شیر محمد سید (دینی محقق/بیوروکریٹ)، جسٹس ریٹائرڈ غلام علی (دینی محقق ، قانون دان، جماعتِ اسلامی)، مولوی دوست محمد (ہیڈ ماسٹر اسلامیہ سکول چنیوٹ) کو اچھے الفاظ میں یاد کرتے۔ سعادت حسن منٹو اپنی بیباکی اور انتظار حسین اپنی زبان اور نازکی کی وجہ سے پسند رہے تھے۔
سادہ ترین اور سستے کپڑے، بیحد کم خوراک، انتہائی کم خرچ اور کم آمیز۔ اپنے کپڑے استری نہ کرواتے بس انہیں سوکھنے کے بعد قرینے سے تہہ کر کے تکیے کے نیچے رکھ لیتے۔ لوہے کی تار والی ٹوکری اُن کی سائیکل کے ہینڈل سے جُڑی تھی، پچھلے پہئے پر ایک کیریئر جس کے ساتھ صاف سُتھری رسی کا ایک ٹکڑا کمال سلیقے سے بندھا ہؤا تھا۔ اسی پہئیے پر گول تالا لگا ہوا تھا۔ ہینڈل پر ایک گھنٹی بھی تھی جو پورے سُر میں رہتی۔ یہ سائیکل غالباً 1970 کے زمانے میں خریدی گئی تھی جسے وہ نفاست کا نمونہ بنائے رکھتے۔
ہروہ سہولت جس پراُن کی نظر میں زیادہ خرچ آتا ہو قابلِ نفرت تھی اورہرضروری چیز جس پر کچھ بھی معمولی سا خرچ ہو جائے اُن کے لئے قیمتی ہو جاتی تھی۔ وہ سب کچھ سنبھال کر رکھتے تھے۔ سگریٹ کی ڈبیاں اوراُن کے اندر کی پنیاں اور گتے، ماچس کی ڈبیاں اورجلی ہوئی تیلیاں، چلتے چلتے بند ہو جانے والے بال پوائنٹ اور جام ہوئے فاؤنٹین پین، خاکی، اخباری اور مومی لفافے،اخبار،لکڑی اوراینٹوں کے ٹکڑے،ریت،بجری،سیمنٹ جو بھی بچ جاتا وہ اُسے ایسے سلیقے سے باندھ لیتے اورایسی جگہ محفوظ کرتے کہ وقت آنے پر کہیں باہر جانے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ لکڑی کا کام ہو یا بجلی کا،مستری کا کام ہو یا مزدورکا، پلمبر کا کام ہو یا کتابیں جلد کرنے کا اُن کے پاس ہر کام کے بنیادی اواز اپنے الگ الگ ٹول باکس میں صاف سُتھرے مل جاتے۔ ایسا لگتا تھا اُن کے زیرِتصرف ہر چیز اُن سے خوش ہے اور اُن کے بغیر رُل جائے گی۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ سنبھالی ہوئی چیزوں کو وہ کیا کرتے تھے تو میں کہوں گا کہ غربت کے ساتھ اگر علم اور کفایت شعاری ہو تو غربت خوبصورتی کے ساتھ کٹ جاتی ہے اور تنگ دستی کے ساتھ اگر جہالت اور بے سلیقگی ہو تو دُنیا میں جہنم کو دیکھا جا سکتا ہے۔
میں چھوٹا سا تھا جب مجھ سے مرغی ذبح کروائی۔ وہ کہتے تھے کہ ان کے بچپن میں مسجد میں لے جا کر مولوی سے مرغی ذبح کروائی جاتی تھی اور ظہر کی نماز کے بعد مسجد سے ایک لڑکا خالی پلیٹ لے کر دروازہ کھٹکھٹاتا تھا کہ سالن دے دیں۔ اُنہیں ابتدائی عمر سے مولوی سے کچھ بیرسا ہو گیا تھا۔ جو حضرت سپارہ پڑھانے آتے تھے وہ سبق یاد نہ ہو سکنے پرانگلیوں میں پنسل کو پرو کر ہاتھ یوں دبایا کرتے تھے کہ دینی تعلیم اس نازک اور بیمار بچے کے لئے اذیت ناک ہو گئی تھی۔ دادا ابو کچھ سخت اساتذہ کو پسند کرتے تھے اور اُن کا علمی رعب بھی اس قدر تھا کہ چھوٹے بیٹے میں یہ جراءت کبھی نہ پیدا ہو سکی کہ علی الاعلان بغاوت کر دیتا۔ میں ذرا بڑا ہوا تو قربانی کا جانور میرے ہاتھ سے ذبح کروایا۔ جانور کی کھال اُتارنا سکھایا، ہڈیوں، پٹھوں اور جوڑوں کو میرے سامنے تدریسی انداز میں کاٹنے کا بارہا مظاہرہ کیا لیکن جو مجھے نہ سیکھنا تھا نہ سیکھ سکا۔
سائیکل، سکوٹر اور موٹرسائیکل کی دیکھ بھال اور صفائی کا فن اُن پر ختم تھا۔ اپنی جان سے زیادہ اپنے پالتو جانوروں، اوزاروں، سٹیشنری، کتابوں اور سواری کا خیال رکھنے والی بات محاورتاً نہیں لکھی ہے یہ سب کچھ تو آنکھوں دیکھا حال ہے اور وہ بھی زندگی بھر کا۔ وہ بہت کم گالی دیتے تھے لیکن کبھی بے اختیار غصے میں کسی کو حرام الدہر اور سؤر وغیرہ کی اولاد کہہ ڈالتے۔ اور زندگی میں ایک آدھ بار ایک ناقابلِ اشاعت گالی بھی اُن کی زبان سے سُنی جس سے اُن کے زمانے میں فارسی زبان کے غلبے کا اندازہ ہوتا تھا۔ میں نے بی اے میں فارسی زبان رکھی تو میرا ٹیسٹ لیا جس میں مجھے فیل کر دیا۔ شاید 100 میں سے بیس نمبر دئیے تھے ابو نے۔ جب بی اے کا نتیجہ آیا تو میرے نمبر سو میں سے اسی 80 تھے۔ میں نے نمبر بتائے تو افسوس سے کہنے لگے اب تو میرا اس نظامِ تعلیم سے بالکل اعتبار اُٹھ گیا ہے۔
تعلق میں وہ مان لینے یا منوا لینے کی بنیاد پر چلتے تھے۔ اگر انہوں نے کسی کی فضیلت کو دِل سے تسلیم کر لیا تو اُس پر جان بھی نثار اور اگر نہیں مانا تو بات کرنا بھی ضروری نہ سمجھتے تھے۔ جن لوگوں کو کبھی کم علم یا کم فہم سمجھ کراپنا راستہ الگ کر لیا اورجب وہ ابو کے علم کے قائل ہو گئے،اپنے عمل سے گواہی دیتے تو اُن کی بھی خدمت کرنے لگ جاتے۔ وہ سچے، سادہ، غریب اور صاحبِِ علم وفن پر فدا ہو جاتے تھے۔ ڈائری لکھنے کی عادت پرانی تھی لیکن اُسے پرائیویٹ رکھنے کے لئے انگریزی میں لکھتے۔ جب امی یا ان کے رشتہ داروں کے خلاف مجھ سے برملا کچھ کہنا ہوتا تو اُن کی موجودگی میں برجستہ انگریزی میں بات کرتے۔ یہ الگ بات ہے کہ امی یا کوئی بھی پرانا شکار خود ہی سمجھ جاتا کہ بات اُسی سے متعلق ہے اور ہے بھی عیب جوئی۔
اپنا مافی الضمیر لکھنے اورکہنے پراس درجے کا کمال تھا کہ پڑھنے والا اور سُننے والا وہ الفاظ وہ لہجہ اور وہ جذبہ کبھی نہ بھُلا پاتا۔ اسی طرح اُن کی غصیلی طبیعت سے مزاح کی اُمید عموماً کسی کو نہیں ہوتی تھی لیکن جب کوئی اُن کے غضب کا نشانہ بنتا تو اُن کی زبان وقلم سے برآمد ہونے والا مواد طعن وتشنیع، طنزومزاح اور ہجو واحتجاج کا شاہ پارہ بن جاتا۔
جن لوگوں سے دادا کی نسبت سے ابو کا رابطہ رہا ان میں سے اشفاق احمد (جنہیں ہمارے گھر میں پیار سے شقّو پکارا جاتا تھا)، اشفاق صاحب کے بڑے بھائی اور درویش صفت آفتاب احمد (جو میرے دادا کے اسسٹنٹ یا منشی تھے اور ابو اُن کو اشفاق احمد کے برخلاف پسند کرتے تھے) اشفاق احمد کی والدہ،مولانا غلام رسول مہر، مولانا عبدالمجید سالک، مولانا ظفرعلی خان، مولانا عطاءاللہ حنیف بھوجیانی، مولانا چراغ حسن حسرت، ابوالاثر حفیظ جالندھری، مولانا ابوالاعلٰی مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی، ڈاکٹر سید محمد عبداللہ، شورش کاشمیری، مولانا متین ہاشمی، قاضی عبدالباقی (مولانا سلیمان منصورپوری کے پوتے)، نواب سمسام الدین فیروز (دادا جان کے علی گڑھ کے کالج فیلو)، اللہ بخش یوسفی (مدیر مجلہ سرحد - دادا کے علی گڑھ کے کالج فیلو)، ڈاکٹر مسعود (معروف ہومیو پیتھ)، علامہ عنایت اللہ مشرقی، کمال احمد (اداکار)، شیر محمد سید، جسٹس غلام علی اور ڈاکٹر امیر الدین جیسے ستارے تھے۔ بہت سارے ایسے لوگ جنہیں وہ پسند کرتے تھے وہ یا تو ابو کے بچپن میں دادا سے ملے تھے یا تقسیمِ ہند کے بعد اُن سے بالمشافہ ملاقات نہ ہو سکی۔ اُن میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، بی اماں، غلام حُسین (مدیر کامریڈ)، ابوالکلام آزاد، شیخ محمد عبداللہ (صدر آزاد کشمیر)، خوشی محمد ناظر (کشمیری شاعراورسیاستدان)، بلراج سانی (ایکٹر اور سماجی کارکن)، منشی پریم چند، رتن ناتھ آزاد یا سرشار، آغا حشر کاشمیری، سرسید احمد خان، مارماڈُک پکتھل، عبداللہ یوسف علی، نواب بہادر یار جنگ، نواب صدیق حسن خان، مولانا عبدالماجد دریآبادی، غلام احمد پرویز، سر عبدالقادر (مدیر مخزن) اور علامہ محمد اقبال کے نام مجھے یاد رہ گئے ہیں۔
۔۔۔۔۔2006 میں سینے کے کینسر کا موذی مرض والد صاحب کی جان کا خراج لے کرہی ٹلا۔۔۔۔۔
تم میں اپنے آپ کو دیکھا، خود میں تم کو پایا
دور چلا تو میں نے سوچا، میں نے دھوکا کھایا
ایک فسانہ لکھ کر تم نے شہر میں جا چھپوایا
ایک کہانی کہہ کر میں نے اپنا آپ گنوایا
ایک کتاب کی پیشانی پر عکس تمہارا دیکھا
ایک مزار کی لوح پہ میں نے اپنے نام کو پایا
(سجاد خالد)
خوشی محمد نا ظر (کشمیری شاعراورسیاستدان)
جواب دیںحذف کریںافتخار تبسم صاحب نے تصحیح درست کی ہے ۔ دوسری تصحیح محمد مرماڈیوک پکتھال
جواب دیںحذف کریںموصوف بہت محنتی آدمی تھے ۔ اتنا مطالعہ ۔ اتنی ملاقات
اُستاد اللہ بخش میرے بچپن میں اُستاد تھے ۔ مولانا مودودی کی کتب کے مطالع سے میں راہِ راست پر آیا ۔ الطاف حسین حالی ۔ علامہ محمد اقبال میرے بادِ نما تھے ۔ محمد علی جناح میرے لیڈر تھے ۔ عبد المجید سالک کی کتب میں نے پڑھیں ۔ لاہور میں جب انجنیئرنگ کالج میں فرسٹ ایئر میں پڑھتا تھا تو ملاقات بھی ہوئی ۔ انہوں نے ہم چند طلباء کو قرآن شریف کا ترجمہ پڑھانے کیلئےایک علِم کو مقرر کیا تھا ۔ اُن کی پوتیوں نے اسلام آباد مین میری بیوی سے پہلے قرآن شریف تجوید پھر ترجمہ پڑھا پھر میری بیٹی سے تفسیر پڑھی تھی ۔ علامہ شبلی نعمانی ۔ مولانا محمد علی جوہر ۔ حفیظ جالندھری ۔ شورش کاشمیری ۔ شیرمحمد ابنِ اِنشاء ۔ پطرس بخاری ۔ نواب بہادر یار جنگ کی تحاریر میں نے پڑھیں ۔ حفیظ جالندھری سے ملاقات بھی ہوئی تھی ۔ قدرت اللہ شہاب جس شہر میں پیدا ہوئے تھے میں بھی وہیں پیدا ہوا ۔ ان کی کتب پڑھیں ملاقات بھی ہوئی ہمارے ہاں آئے بھی تھے ۔ ان کی بیوی میری سب سے بڑی بہن ڈاکٹر فوزیہ کی ہمجماعت تھیں ۔ سر عبدالقادر صاحب کی بیٹی تسنیم قادر کا میں شاگرد رہا ہوں ۔ خوشی محمد ناظر صاحب میرے دادا کے دوست تھے ۔ وہ صوبہ جموں کے گورنر رہے ۔ ان کی شاعری میں نے بچپن میں ہی پڑھی تھی جس میں سے ایک نظم جوگی مجھے بہت پسند ہے ۔ سلیم الزماں صدیقی اگر سپارکو والے ہیں تو اِن سےملاقاتیں اور ٹیکنیکل معاملات پر گفت و شنید ہوتی رہی ہے ۔ محمد مرماڈیوک پکتھال نے شرف بہ اسلام ہونے کے بعد قرآن شریف کا ترجمہ عام فہم انگریزی میں کیا جو میں نے آدھی صدی قبل پہلی بار پڑھا اور اب تک اس سے استفادہ کرتا ہوں
از احمر
جواب دیںحذف کریںایک صاحب کمال فرد کے تذکرے نے ہمیں ایک اور صاحب کمال سے آشنا کیا-
حضرت ، میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنا باقاعدہ بلاگ شروع کیجیے-
شکریہ