بدھ, اپریل 15, 2015

"سویا ہوا محل"

پانچ اور چھ جنوری 2015 کی درمیانی رات کی خود کلامی ۔۔۔۔۔
جن کے دھندلے دن ہوتے ہیں اُن ہی کی راتیں کالی ہوتی ہیں۔۔۔رات سونے اور رونے کے لیے نہیں ہوتی ۔۔۔رات غور کرنے اور یاد رکھنے کے لیے بھی ہوتی ہے۔
اِس کھل جاسِم سِم میں ہر چیز اپنی جگہ پر حنوط تھی۔۔۔ "سوئے ہوئے محل" کی طرح۔۔۔ وقت دیوار پر 2014 کے کلینڈر کے آخری صفحے پر ٹھہرا ہوا تھا۔۔۔بستر پر تکیے کےنیچے سلیقے سے تہہ درتہہ ٹشو پیپر اور نیویا کریم کی چھوٹی سی نیلے رنگ کی ڈبی لمس کی منتظر تھی۔۔۔ اور تکیے کے ساتھ ایک بےجان ریموٹ کنٹرول بھی تو تھا۔۔۔ سامنے کی دیوار پر لگی کالی اسکرین کے نیچے لال نقطہ ظاہر کرتا تھا کہ بس انگلی کی معمولی سی جُنبش کی دیر ہے پھر "زندگی لوٹ آئے گی"۔
آنکھوں کے سامنے اسٹینڈ پر فوری پہننے والے کپڑے تھے تو ساتھ ہی اخبار پر استری کیے کپڑے اور ایک گلابی رنگ کا دھلا ہوا تولیہ نفاست سے تہہ کیے رکھا تھا۔ کھونٹی پر ٹارچ والی واکنگ اسٹک بھی ویسے ہی ٹنگی تھی۔ سارے منظر کی تصویر کشی کرتا بڑا سا گول آئینہ بھی مجھ سے باتیں کرتا تھا۔ اس کے اوپر کلمۂ طیبہ کا جگمگاتا اسٹکراور اس کے نیچے لکھا۔۔۔
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا ﷺ
کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے ۔ میری نگاہوں کے بوسے لیتا تھا۔ہاں!!! اس کے عین نیچے کسی اسٹیکر کی باقیات کی جھلک بھی تھی وہ جس کی تحریر صرف مجھے معلوم تھی اور میرے دل پر نقش تھی۔ شاید میں نے ہی بہت پہلے اس کو بہت پرانا اوربوسیدہ ہونے پر ہٹانے کی کوشش کی تھی۔ یاد کے اندھیرے میں روشن وہ ایک شعر تھا۔۔۔
پھول کی پتی سے نازک تھا میرا جگر
حالات نے اسے پتھر بنا دیا
آج اس کمرے میں رات کی مکمل تنہائی اور خاموشی میرے ساتھ نیند کرتے تھے۔ اس محل کا مکین آنکھیں کھول کر سوتا تھا تو میں کیسے یہاں اپنی زندگی کی پہلی رات آنکھیں بند کر کے سو سکتی تھی۔35 برس سے گھر کا ہر گوشہ میری نیندوں اور میرے خوابوں کا رازدار تھا۔حیرت کی بات ہے کہ اس کمرے کے مالک کی بھرپور موجودگی نے کبھی یہاں سونے کا خیال نہیں آنے دیا اور آج اُن کے چلے جانے کے بعد ایک دم خیال یوں آیا کہ جیسے گھر میں اس کمرے کے علاوہ سونے کے لیےاور کوئی جگہ ہی نہ بچی ہو۔۔
فجر کی اذان سےبھی بہت پہلے میرا ذہن بیدار تو ہو گیا لیکن میرے نافرمان جسم نے رات کی اوؔلین ساعتوں میں شکرگزاری کے 'نفلی' سجدے کا ساتھ نہ دیا پھر فرض کی ادائیگی کے وقت ذہن نے کان پکڑ کر اُٹھا دیا۔معمول کی تلاوتِ یٰسین اور پھر بعد میں سورہ فجر پڑھتے ہوئے اس کی آخری آیات پر پہنچی جو ہمیشہ سے میرے لیے دُنیا وآخرت کی بہترین دعا ہیں۔۔۔اور اس سوئے ہوئے محل کے جانے والے مکین کی زندگی کہانی کا آخری باب بھی۔۔۔"نفسِ مطمئنہ" جس کی دعا ہر صاحب ایمان کے دل سے نکلتی ہے، اُس کی عملی تصویر اس وقت میرے سامنے عیاں تھی۔
سامنے ایک کرسی پر چار اور پانچ جنوری کے ربڑبینڈ میں لپٹے ان چھوئے اخبار پڑے تھے(ابھی ابھی میں نے چھ جنوری کا بھی لا کر رکھا ہے) جسے اخبار والا ڈال کر ایک دم ہی چلا گیا اور میں اس سے بات کرنےکا انتظار کرتی رہ گئی۔ اخبارلانے والوں کی بھی عجیب زندگی ہے،پَو پھٹنے سے پہلے بیدار ہو کر اپنے حصے کا کام شروع کرتے ہیں اور اخبار ڈالتے وقت سیکنڈوں میں اخبار پھینک کر غائب ہو جاتے ہیں۔ خیرمیں نے اپنے آپ کو یہ سوچ کر تسلی دی کہ شاید ابھی اس ماہ اخبار کا بل ادا نہیں کیا گیا تو جب بل لینے آئے گا آئندہ اخبار لانے سے منع کردوں گی کہ اخبار پڑھنے والا اب ہر خبر سے بےنیاز ہو گیا ہے۔
جنوری کی 3 تاریخ تھی ۔ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب ابو کو سانس کی گھٹن محسوس ہوئی۔اس کرب کی حالت کوبڑے ضبط سے برداشت کرتے ہوئےبچوں کی نیند خراب ہونے کے احساس سے فوری ہسپتال جانے سے منع کرتے رہے۔ فجر تک زبردستی ہسپتال گئے۔۔۔اپنےاسی کمرے سے خود چل کر۔۔۔
اپنی قوتِ ارادی کو آخری حد تک مجتمع کرتے ہوئے۔۔۔اور بیٹیوں کو بھی اپنے ہوش وحواس قابو میں رکھنے کی تلقین کرتے ہوئے۔ اتوار 4 جنوری 2015(12 ربیع الاول) کومغرب کی اذان سے ذرا پہلے اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں ابو کا انتقال ہوا۔ کچھ دیر بعد اُن کو گھر لے آئے اور گھر کے ڈرائنگ روم میں ایک چارپائی پر لٹا دیا۔۔۔۔ یہ کیسا عجیب وقت تھا کہ گھر کا مالک اپنے پیروں سے چل کر گیا اور 24 گھنٹوں کے اندر تھوڑی دیر کے لیے واپس تو آیا لیکن نہ اپنے پیروں پر اور نہ ہی اپنے کمرے میں۔ اس رات وہ کمرہ بند تھا اور بند ہی رہا۔۔۔
ابو کا یہ کمرہ ہر لحاظ سے گھر کا ماسڑ کنڑول روم تھا۔۔۔جس کے دروازے پر اندر آنے کی اجازت کی سرخ بتی ہر وقت جلتی رہتی،ہم ہمیشہ جھجھکتے ہوئے داخل ہوتے بےشک یہ صرف ہمارا ہی فاصلہ تھا ورنہ اُن کے جاگنے کے علاوہ نیند کی حالت میں بھی اُن کو آواز دینے کی ضرورت پیش آتی تو اسی وقت جواب مل جاتا۔ وہ دنیا کے شاید واحد نانا تھے جن کے چھوٹے بچے گھر میں اودھم مچائے رکھتے اور انہوں نے کبھی شور یا نیند خراب ہونے کی شکایت نہ کی بلکہ ہم بڑوں کا بچوں کو ڈانٹنا یا چپ کرانا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔بس اس وقت رات دیر تک جاگنے پر سرزنش کرتے جب صبح بچوں کو گھوڑے پیج پر سوتے دیکھتے۔ وہ کہتے تھے کہ پہلے نماز وقت پر پڑھو پھر جو چاہے کرو۔یہاں یہ سطریں لکھتے ہوئے پطرس بخاری کا جملہ یاد آیا " کام کے وقت ڈٹ کر کام کرو تا کہ کام کے بعد ڈٹ کر بےقاعدگی کر سکو"۔ ابو اس جملے کی چلتی پھرتی مثال تھے۔
وہ بچوں کے بچوں سے بڑھ کر دوست تھے۔۔۔اُن کے لاڈ اٹھاتے،فرمائشیں پوری کرکےبگاڑنے والے مہربان نانا تھے۔بچوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر پیسےیوں خرچ کرتے جیسےکوئی لاٹری نکلی ہو۔ چودہ اگست کے لیے پہلے سے پٹاخوں کی ڈبیاں نہ صرف خود لا کر بچوں کے لیے اسٹاک کر کے چھپا کر رکھتے بلکہ بڑوں سے نظر بچاتے ہوئے مٹھی میں چھپا کر بچوں کو پیسے دیتے۔اپنے ساتھ آئس کریم کھلانے لے کر جانا روز کا کام تھا جو ان کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھنے جاتے ان کے مزے ہو جاتے۔ وہ بڑی فراخ دلی سے کھلائے جاتے اور خود بھی کھاتے بلکہ کہتے کہ بچوں کے طفیل میرا بھی بھلا ہو جاتا ہے ورنہ اس عمرمیں اکیلے آئس کریم کھاتے ہوئےلوگوں کی حیرت سے شرم آتی ہے۔ ہم جانتے تھے یہ صرف بہانے بازی ہے۔۔۔انہوں نے ساری زندگی لوگوں کی پروا نہ کی بلکہ ایک طرح سے جوتے کی نوک پر رکھا، یہ تکبر نہیں صرف عاجزی کی انتہا تھی کہ رب کے سوا کسی کا خوف پاس نہ پھٹکنے دیا۔۔وہ اقبال کے اس مصرعے کی تفسیر اپنے آپ کو سمجھاتے زندگی گزار گئے۔۔۔۔
جھپٹنا پلٹنا ، پلٹ کر چھُٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اِک بہانہ
گھر میں سیڑھیوں کے پاس کھڑکی پر لگی ابو کے ہاتھ سے لکھی تختی۔۔۔
اگلے روز 5 جنوری کو ظہر کے وقت اُن کا جسدِخاکی گھر سے روانہ ہوا۔ میرا یہ احساس 5 اور 6 جنوری کی درمیانی شب کی کہانی ہے جب سب کے چلے جانے کے بعد میں ان کے کمرے میں اُن کے بستر پر تھی اور میرے ساتھ صرف میرا احساس تھا جسے کسی حد تک سمیٹ کر لفظ میں لکھنے کی کوشش کی۔
جانتی ہوں کہ کبھی احساس کی شدت کے آگے لفظ بہت بےمعنی اور بےجان دکھتے ہیں۔لیکن احساس کے موتیوں کی وقت پر قدر نہ کی جائے تو وہ وقت کے گہرے سمندروں میں اتنی تیزی سے ڈوب جاتے ہیں کہ بعد میں بس یاد کی بہت ہلکی سی جھلک رہ جاتی ہے۔اور اسی طرح جب کوئی بےرحم احساس سارے بدن کو سنگسار کر کے اس میں زہر بھر دے تو اس لمحے اگر زہر کا توڑ نہ کیا جائے تو کرچی کرچی جسم کی نیلاہٹ  جینے دیتی ہے اور نہ ہی مرنے کی راہ دکھتی ہے۔
اللہ پاک ابو کی آگے کی منزلیں آسان کرے اور اُن کو اپنے رب سے بہترین گمان کا خزینہ عطا  کرے آمین۔
ابو کے ہاتھ سے لکھے ہوئے اور لگے ہوئے چند لفظ ۔۔۔ویسے تو گھر کے ہر ذرے میں ابو کے ہاتھ کا لمس ہمیشہ باقی رہے گا جب تک اس گھر کی بنیادیں موجود ہیں۔


     

اتوار, اپریل 12, 2015

" کرنیں (4)"

٭ یہ نہ دیکھو کہاں سے مل رہا ہے یہ دیکھو کس نسبت سے کیا مل رہا ہے۔
٭ہر جگہ سے کچھ نہ کچھ ملتا ضرور ہے کوئی لینے تو ہو۔
٭جو درد دیتا ہے دوا دینابھی اُسی کا کام ہے،یہ نہ کہو کہ وقت سب سے بڑا مرہم ہے۔

٭جو جس راہ کا مسافر ہے اس کا رزق اُسی راہ پر ہے۔
٭سچ کا بھی وقت ہوتا ہے وقت گزر جائے تو سچ جھوٹ  میں فرق بہت مشکل ہے۔ جو سچ وقت پر نہ بولا جائے بعد میں وہ جھوٹ بن جایا کرتا ہے۔ 
٭اصل ہنر دُنیا فتح کرنا نہیں بلکہ اپنے آپ کو دریافت کرنا ہے۔
٭کسی کی پروا کبھی نہیں صرف اپنے اندر کی آوازسنو جو کبھی دھوکا نہیں دیتی۔
٭دنیا فقط آنکھ کھلنے اور آنکھ بند ہونے کی  کہانی ہے۔آنکھ اس وقت ہی کھلتی ہے جب وہ ہمیشہ کے لیے بند ہونے والی ہو۔ 
٭ زندگی میں ہمیشہ وہ نہیں ملتا جس کی تمنا کی ہو۔۔۔زندگی میں ہمیشہ وہی ملتا ہے جسے سہارنے کا حوصلہ ہو۔
٭زندگی اندازوں پر گزارنے والے ہمیشہ خوفزدہ ہی رہتے ہیں۔ زندگی یقین کا نام ہے نہ صرف اپنی ذات پر بلکہ اپنے احساس پر بھی۔ اہم یہ ہے کہ ہماری موجودگی کا احساس باقی رہےنہ صرف ہمارے سامنے بلکہ ہمارے جانے کے بعد بھی ۔ اور یہ احساس جب تک خود ہم میں اپنے لیے بیدار نہیں ہو گا ۔دوسرے کبھی اس کی گرد کو بھی نہیں چھو سکیں گے۔
٭محبت خواب جیسی تو ہوتی ہےلیکن محبت خواب نہیں ہوتی۔
٭سب کہہ دینا اپنائیت کی نشانی ہے اور سب سننے کا حوصلہ رکھنا کسی پر اعتماد کا اظہار ہے۔
٭۔اچھے اخلاق سیکھنے سے نہیں برتاؤ سے سمجھ آتے ہیں۔
٭جو جانتا نہیں وہ مان کیسے سکتا ہے۔اندھا دھند تقلید تو رب کو بھی منظور نہیں۔
 ٭عزت کا لباس ہر مردوزن کا بنیادی حق ہے۔کسی کا حق چھیننے والےسب سے پہلے خود برہنہ ہوجاتے ہیں۔ 
٭ زبان خاموش ہو جائے تو لمس بول پڑتے ہیں۔
 ٭جاگنا بھی کسی کسی کا نصیب ہے ورنہ ہم میں سے اکثر بند آنکھوں کے ساتھ آتے ہیں اور ایک عالم ِخودفراموشی میں گزر جاتے ہیں۔
٭ دل پر وہی یقین رکھتے ہیں جنہیں اپنے دماغ پر یقین نہیں ہوتا کہ وہ دل کو منا لے گا۔
 ٭وقت کبھی کسی کو نہیں ملا اورنہ ہی مل سکتا ہے یہ لمحوں کے فیصلے ہوتے ہیں جن کی خاطر ہم صدیاں گزار دیتےہیں۔
٭زخم بھر جاتے ہیں ۔۔۔ خراشیں سدا رہتی ہیں۔
٭خراشیں اگر تحفہ ہیں غلطی یاد دلانے کے لیےتو زخم چاہے دل پر لگیں یا  بدن پر ایک سبق ہوتے ہیں جو ہمیں ہماری جہالت کا پتہ دیتے ہیں ۔
 ٭جو کسی کے بھروسے پہ پہلی بارایک حد پھلانگ جائے ۔پھر اسے اس کے اشارے پہ بار بار ہر حد پھلانگنا پڑتی ہے۔
 ٭کسی کو یک لخت مسترد کر دینا بہت آسان ہے لیکن اُسے قبول کرنے کی اپنی غلطی ماننا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔
 ٭ہم اپنے آپ کو نہیں دیکھتے دوسروں کے رویے دیکھتے ہیں۔۔ اپنے آپ سے دوستی نہیں کرتے۔ کسی انجان مہربان کی تلاش میں دردر بھٹکتے ہیں ۔ جو ہمارے اندر کا اندر جان سکے اور ایسا مکمل طور پر کبھی بھی نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے ناآسودہ رہتے ہیں ۔
٭کسی اپنے" کی تلاش ہمیں در در بھٹکاتی ہے اور جو اپنا ہو وہ خود ہی مل جاتا ہے جب ہم تھک ہار کر بیٹھ جائیں۔
٭دوسروں سے ہار مان لو اس لیے کہ تم انہیں کبھی بھی نہیں جان سکتے۔ اپنے آپ سےکبھی ہار نہ مانو کیونکہ آخری سانس تک جاننے کے دروازے کھلے ہیں بزعم خود عقل مندوں کو سمجھنے کی کوشش نہ کرو ۔اُن کا قول وفعل سب سمجھا دے گا۔
٭اپنے آپ کی تلاش جاری رکھو۔ جو خود کو پہچان جائے اُس کے لیے دُنیا کی پہچان مشکل نہیں۔
٭جس کو اپنی پہچان نہ ہو وہ کسی دوسرے کی پہچان کیسے کر سکتا ہے۔ جو اپنا بھلا نہ کر سکے وہ کسی اورکا بھلا بھی نہیں کر سکتا۔
 ٭کچے گھڑے کبھی پار نہیں لگتے اسی طرح انسان کی تلاش کبھی ختم نہیں ہوتی ۔لیکن !!! اس کا یقین سانس کے آخری لمحے بھی قائم ہوجائے تو بیڑہ پار ہے۔زندگی کے اس کھیل میں ہارجیت کس کا مقدر ہے کون جانے۔کوئی جیت کے بھی ہار جاتا ہے اور کوئی سب ہار کے بھی جیت جاتا ہے۔
 ٭پہاڑ کی بلندی کو کسی سچائی کی ضرورت نہیں ہوتی۔لیکن اپنی تنہائی ختم کرنے کے لیے کسی ساتھ کی ضرورت ضرور ہوتی ہے خواہ جو اس پر قدم رکھ کر تسخیر کرنے کا مصنوعی غرور کیوں نہ رکھتا ہو ۔
 ٭جو ٹوٹتے نہیں وہ جڑنے کا ہنر کبھی نہیں جان سکتے۔۔۔اور جو جڑتے نہیں وہ مٹی کے نہیں پتھر کے بنے ہوتے ہیں ۔اور جو مٹی کا نہ ہو وہ انسان ہی نہیں۔
٭ زندگی کو اگر ایک لفظ میں بیان کرنا ہو تو وہ لفظ "دائرہ" ہے۔اس میں ہر سوال کا جواب اور ہر جواب کی وضاحت ہے۔دائرے کا مرکز ہو تو اعلیٰ وارفع اور نہ ہو تو فقط سفر ہی سفر۔۔۔بےسمت،بےمقصد۔
٭خوش فہمی۔۔۔
 کسی نے کہا کہ ہم سب بکاؤ ہیں... ہماری قیمت چند لفظ یا فقرے ہیں ،،،کوئی تعریف کر کے خرید لیتا ہے تو کوئی محبت بھرے چند لفظ کہہ کر۔۔۔۔بےشک یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ماننے پر کوئی تیار نہیں ہوتا اور ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہم اپنا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتے۔ستم یہ ہے کہ کبھی کیا بلکہ اکثر ہم مفت میں ہی بک جاتے ہیں ان کے ہاتھوں جنہیں نہ ہماری ضرورت کا احساس ہوتا ہے اور نہ ہی خریدنے کی طلب۔ اور اصل حقیقت یہ ہے کہ ہمارا کچھ بھی تو اپنا نہیں نہ جان نہ مال اور نہ ہی جذبات۔ بس قیمت لگانے کی خوش فہمی ہی زندگی ہے۔..
 ٭دنیا کا سب سے طاقتور انسان نیند،بھوک اور اپنی ذاتی ضروریات کے آگے ایک پل میں بے بس ہو جاتا ہے۔ اسی طرح دنیا  کا سب سے کمزور انسان "وینٹی لیٹر"کی بیساکھی کے سہارے ادھار کے کچھ پل حاصل کر ہی لیتا ہے۔

جمعہ, اپریل 10, 2015

"ماں اور برداشت"

انسان کا سفرِزندگی برداشت کہانی ہے۔اس کے ہر طرزِعمل،ہر احساس کے دھارے برداشت سے پھوٹتے ہیں۔گرمی،سردی،بھوک،پیاس،خوشی،غم،محبت،نفرت کے جذبات میں برداشت کے بنیادی عناصر کے ساتھ ساتھ صبر،قناعت
،ظرف،آزمائش سب برداشت کی ہی شاخیں ہیں۔برداشت کا پیمانہ ہر ایک کے لیے جدا ہے۔۔۔انسانی فنگرپرنٹس کی طرح ایک جیسا دکھتے ہوئے بھی قطعی مختلف۔ مردوعورت اپنے جسمانی افعال وکردار کے تضاد اور دائرۂ عمل کی بدولت ساتھ رہتے ہوئے بھی برداشت کے الگ مرحلے طے کرتے ہیں۔
سمجھوتہ عورت کی فطرت بلکہ اس کی شخصیت کی بنت میں ازل سے پرو دیا گیا ہے۔ سمجھوتے کو برداشت کے ہم معنی سمجھا جائے تو عورت کی قوتِ تخلیق سے اس بات کو سمجھا جا سکتا ہے۔ جبکہ مرد کی فطرت میں یہ چیز شامل نہیں اس لیے حالات سے سمجھوتے کرتا مرد زیادہ اہم ہے۔جسمانی طورپرقوت تخلیق  عورت کی وہ ذمہ داری  ہے جس کی بجا آوری ایک مرد کے ساتھ جسمانی تعلق کے بغیرممکن ہی نہیں۔ایک خاص رشتے میں بندھنے کے بعدعورت کی ماں بننے کی صلاحیت  جس میں اُس کا کوئی ذاتی کمال ہرگز نہیں ،اس کی وجۂ تخلیق کے لاتعداد بکھرتے رنگوں میں سے ایک ہے  جس پراُس کے افعال وکردار کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ وہ جڑ ہے جس سے نکلتی شاخیں اُسے ایک گھنا سایہ دار درخت بناتی ہیں۔
بچے کی ولادت کے کرب ناک عمل کو عورت کی برداشت کا امتحان کہا جاتا ہے،روتے پیٹتے سب اس امتحان سے گزرہی جاتی ہیں لیکن بہت کم کوئی اس مقام کو چھو پاتا ہےجب صبروشکرجسم میں جذب ہو کر روح سیراب کردے۔ہم میں سے اکثر زمانے کی ناقدری کا گلہ کرتی رہ جاتی ہیں ۔ یاد کریں وہ حدیثِ پاک ﷺ کہ جہنم میں عورتوں کے ہونے کی بڑی وجہ اُن کا ناشکرگزار ہونا ہے۔
عورت ماں کے روپ میں ایسا شجرِسایہ دار ہے جو وقت اورآزمائشوں کی بےرحم آندھیوں میں رہتے ہوئےآخری حد تک اپنی جڑ سے پیوست رہنے کی سعی کرتا ہے۔بچےعورت کی طاقت سمجھے جاتےہیں لیکن بچے سب سے بڑی کمزوری بھی ہیں۔ایک ایسی کمزوری جو اس کی شخصیت کو ہمیشہ کے لیےتہس نہس کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔
عورت جب ماں کارتبہ حاصل کر لے پھر ساری کی ساری ذمہ داری اس کی بنتی ہے نہ صرف اپنے پرائے کو سمجھنے کی بلکہ اس سے بڑھ کر اپنی طلب اور خواہش کی پہچان کی بھی۔زندگی اعتماد سے نہیں برداشت سے گزرتی ہے۔عورت  ماں بنتی ہے تو بچے اس کی برداشت کا پیمانہ ٹھہرتے ہیں۔دنیا کا کوئی رشتہ کوئی تعلق عورت کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ عورت کی برداشت کی حد یا تو بچوں کی خاطر اپنے احساس اپنی ذات کی قربانی دیتےدیتے ختم ہوتی ہے اور یا پھر انہی بچوں کی نظر میں بےوقعتی اسے خلا کا مسافر بنا دیتی ہے۔ایک عجیب سی بےزمینی ایک گہری لامکانی روح وجسم میں اُترتی ہے۔انسانوں کے ہجوم میں رہتے ہوئے تنہائی اور شکست کا آسیب اس طرح اپنی گرفت میں لیتا ہے کہ وہ اپنے آپ سےبھی کچھ کہنے سننے کے قابل نہیں رہتی۔پھر یوں ہوتا ہے کہ وہ مضبوط چٹان بھربھری مٹی کی مانند پل میں بکھر جاتی ہے اور کھوجنے والے اصل داستان ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں لیکن سوائے سرورق کے کوئی بھی اصل کہانی نہیں جان پاتا۔

کامیاب شادی شدہ زندگی کے ابتدائی سالوں میں ایک صحت مند بچے کی ماں بننے کا وہ پہلا لمحہ ایک عورت کے لیے زندگی کی سب سے بڑی جیت ہوتا ہے۔ وہ جیت جو اُسے اپنی نظر کے آئینے سے بڑھ کر دوسروں کی نظر میں قابلِ رشک دکھاتی ہے۔ خودفریبی کے اِن ایام کے بعد عورت کی ہار کا جو سفر شروع ہوتا ہے وہ اُس کی آخری سانس تک جاری رہتا ہے۔

دردِزہ سے حالتِ نزع کا درمیانی عرصہ صرف اور صرف ایک لفظ "قربانی" سے عبارت ہے۔ اپنی ذات،اپنے جسم، اپنی صلاحیت،اپنے وقت،اپنی سوچ،اپنی خواہشات،اپنے جذبات،اپنے احساس، اپنی انا،اپنی خودداری،اپنا مفاد،اپنے رشتے،اپنے تعلق، اپنی معاشی اور معاشرتی ضروریات یہاں تک کہ اپنی آخرت کی فکر بھی داؤ پر لگ جاتی ہے۔بےیقینی کے پہلے احساس کی جیت کی اصلیت بہت کم ہی یقین کے آخری لمحے کسی کے سامنے کھلی ہے ورنہ بےخبری کی عینک سب اچھا ہی دکھاتی ہے اور یہ بھی اللہ کا بڑا کرم ہے۔

عورت کی زندگی ایک سعیءمسلسل ہےجو کولہو کے بیل کی طرح ایک دائرے میں سفر کرتے گزرتی ہے لیکن اُس مشقتی کو پیروں تلے زمین تو نصیب ہے۔عورت کی توساری عمر ذرا سی زمین کی خاطر مزدوری کرتے گزر جاتی ہےاور شاید وہ زمین اُسے کبھی نصیب نہیں ہوتی۔ ہاں!!!خوش فہمیوں کے محلات اوراُمیدوں،آرزؤں کی لگژری فلک بوس رہائش گاہیں اُسے ہواؤں میں شاداں وفرحاں رکھتی ہیں۔ مالک کا بہت بڑا کرم ہے کہ عورت سب کچھ جانتے بوجھتے بھی انجان بنی رہتی ہے کہ اس میں نہ صرف اُس کی بھلائی ہے بلکہ اس سے وابستہ رشتوں کی ڈور بھی مضبوطی سے بندھی رہتی ہے۔برداشت اور صبر کا پہلا سبق جو عورت کے خمیر میں شامل ہے بس اس کو اپنی نسل میں شامل کرنا ہے۔ دیانت داری اور امانت داری کی کوکھ سے پروان چڑھنے والے ہمیشہ ضمیر کی آواز سنتے ہیں۔اورماؤں کے لیے قابل فخر باعث تقلید ہوتے ہیں۔ ورنہ اندھی تقلید کے مارے خود بھی ڈوبتے ہیں اور ماؤں کو بھی ساری عمر کا روگ لگا دیتے ہیں۔
حرفِ آخر
 کامیاب عورت وہ ہے جو صرف "ماں" ہے اورکچھ بھی نہیں۔اپنے ملنے والے تمام رشتوں،تمام تعلقات میں اگر اُس نے ماں کا کردار نہیں نبھایا تو وہ ناکام ہے۔خیال رہے اس کردار کے لیے مامتا کا احساس اہم ہے،اولاد کا جنم دینا یا نہ دینا اہم نہیں جو قسمت کے فیصلے ہیں۔ یہ احساس جو دنیا کے سب سے خالص رشتے کی بنیاد ہےاوراسی احساس میں دُنیا کے سب سے خوبصورت جذبے کی نمو بھی ہے۔

جمعرات, اپریل 09, 2015

"سرابِ زیست"

اہم یہ نہیں کہ دوسروں سے ہمیں کیا ملتا ہے اہم یہ ہے کہ اپنے آپ سے ہمیں کیا ملتا ہے۔
اہم یہ نہیں کہ دُنیا کیا دیتی ہے اہم یہ ہے کہ ہم دنیا کو کیا دیتے ہیں۔
اہم یہ نہیں کہ دوسرے آپ کو کتنا سمجھتے ہیں اہم یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو کتنا جانتے ہیں۔
اہم یہ نہیں کہ ہمیں کیا نہیں ملا اہم یہ ہے کہ ہم نے کیا پایا۔
اہم یہ نہیں کہ کیا کیا کھو دیا اہم یہ ہے کہ کیا بچ گیا۔
اہم یہ نہیں کہ وقت گزر گیا اہم یہ ہے کہ کچھ تو رہ ہی گیا۔
اہم یہ نہیں کہ چوٹ لگ گئی اہم یہ ہے کہ ہمت بچ گئی۔
اہم یہ نہیں کہ دل دھڑکتا ہے اہم یہ ہے کہ دل اُسے سنتا بھی ہے یا نہیں۔
اہم یہ نہیں کہ دل میں کون دھڑکتا ہے اہم یہ ہے کہ ہم"اُس" دل کی دھڑکن بھی ہیں یا نہیں ۔
اہم یہ نہیں کہ دل کی مانے جاؤ اہم یہ ہے کہ اس کا نتیجہ بھی دل سے قبول کرو۔
اہم یہ نہیں کہ دنیا سراب ہے اہم یہ ہے کہ پیاس باقی ہے۔

بدھ, اپریل 08, 2015

" جیوے جیوے پاکستان"

جمیل الدین عالی
ادیب،شاعر،سفرنامہ نگار،کالم نگار
اصل نام۔۔۔ مرزا جمیل الدین احمد خان
تاریخَ پیدائش۔۔20 جنوری 1926
بمقام۔۔۔ دہلی(ہندوستان)۔
تاریخِ وفات۔۔۔23نومبر2015
بمقام ۔۔۔کراچی
تصانیف۔۔۔’ 
۔نظمیں،دوہے،گیت (1957)۔
(۔'جیوے جیوے پاکستان‘(قومی نغمے1974
۔’دنیا میرے آگے‘،’تماشا مرے آگے‘، آئس لینڈ (سفرنامے)۔
نقارخانے میں۔۔وفا کر چلے،دعا کر چلے،صدا کر چلے (کالموں کا مجموعہ)۔
۔لاحاصل(1974)،اے مرے دشت سخن (آخری شعری مجموعہ)،اک گوشۂ بساط(خاکہ نگاری)۔
۔’حرفےچند‘(کتابوں پر دیپاچے، تین جلدیں)۔
’انسان ‘(طویل نظم) ۔۔۔
۔عالی صاحب کی ایک کتاب ،اُن کی غیر معمولی طویل ترین نظم ’انسان ‘ ہے ،اس نظم کی پہلی جلد 7800مصرعوں پر مشتمل ہے۔اُنہوں نے ’انسان ‘کو 1950 ء کے عشرے میں شروع کیا اور 2007ء میں یہ طویل ترین نامکمل نظم، پہلے حصے کے طور پر شایع ہوئی ایک اندازے کے مطابق عالی صاحب اپنے انتقال تک اس اہم نظم کے دس ہزار سے زاید مصرعے لکھ چکے تھے ۔یہ نظم طوالت کے علاوہ،اپنی فارم،اپنے اسلوب ،اپنے ڈکشن اور اپنے ہمہ جہتی موضوعات کے سبب بھی اہم ہے۔ اس نظم کا مرکزی کردار انسان اور اس کا تاریخی و ارتقائی سفرہے۔
چند اشعار۔۔۔۔
اُس وقت سے میں ڈرتا ہوں
جب وقت سے میں ڈر جاؤں
(لاحاصل۔۔۔۔ جمیل الدین عالی)
۔۔۔۔
اب جو یہ میرے بغیر انجمن آرائی ہے
لوگ کہتے ہیں کہ تم کو میری یاد آئی ہے
۔۔۔۔
عالی کس کو فرصت ہوگی ایک تمہی کو رونے کی
جیسے سب یاد آجاتے ہیں تم بھی یاد آ جاؤ گے
۔۔۔۔
تپتی دھوپوں میں بھی آکر ساتھ بہت دے جاتے ہیں۔۔۔۔
چاند نگر کے انشاء صاحب ۔۔۔۔۔۔ عالی جن کا ہالا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
جمیل الدین عالی ۔۔۔۔ایک نام۔۔۔۔ ایک تاریخ۔۔۔ایک عہد۔۔۔ایک سرمایہ۔۔۔ایک تحفہ اور ایک ایسی یاد جو ہمارے ساتھ ہے ہمارے پاس ہے لیکن ہم جان کر بھی انجان ہیں ۔ یہ بات نہیں کہ ہم اُس کے کردار سے بےخبر ہیں۔۔۔۔یہ بھی نہیں کہ صرف کتاب دوست ہی اس نام سے واقف ہیں ۔۔۔یہ ہرگز نہیں کہ تعلیم اور علم سے بےبہرہ جناب کے لفظ سےناآشنا ہیں۔۔۔ پاکستان میں رہنے والوں سے قطعِ نظر دُنیا کے دوردراز خطوں میں رہنے والا کوئی پاکستانی جو محض لفظ پاکستان سے ہی واقف ہو ۔۔اُس کی سماعتوں پر پاکستان کے ساتھ ساتھ "جیوے جیوے پاکستان"نے بھی کبھی ضرور دستک دی ہو گی۔
۔"جیوے جیوے پاکستان" پاکستان اور پاکستانیت کا وہ اسم اعظم ہے کہ جس کی دُھن جس لمحے ذہن پر دستک دے لفظ خود ہی قطار باندھ کر سامنےآ جاتے ہیں۔اِس کے لکھنے والے سے کوئی واقف ہو یا نہ ہو اس ملی نغمے کا مطلب کوئی جانتا ہو یا نہ ہو لیکن اس کلام کا احساس سب بھلا دیتا ہے۔اردو زبان میں لکھے گئے اس کے بول ایسا سحر رکھتے ہیں اس کی دُھن اس طور اثرانداز ہوتی ہے کہ ذرا دیر کو سب بھلا کردل سے "جیوے پاکستان" کی صدا ضرور نکلتی ہے۔
کچھ خاص باتیں گوگل سے جناب عالی کے بارے میں ۔۔۔۔ 
آپ کے دادا نواب علاءالدین احمد خان مرزا غالب کے دوست اور شاگرد بھی رہے۔ آپ کے والد نواب سر امیرالدین احمد خان شاعر تھے۔ اور آپ کی والدہ سیدہ جمیلہ بیگم خواجہ میردرد کے خاندان سے تھیں۔ جناب عالی کا پہلا تخلص " مائل" تھا۔

جمیل الدین عالی‘ فن اور شخصیت/

٭جمیل الدین عالی
شخصیت وفن کا تحقیقی وتنقیدی مطالعہ
مصنفہ: ڈاکٹر فہمیدہ عتیق
ناشر: انجمن ترقی اردو پاکستان
صفحات: 424
قیمت:500 روپے
٭رانا نسیم کا تبصرہ کتب "بُک شیلف" سے
یہ کتاب ہمہ جہت شخصیت ڈاکٹر جمیل الدین عالی کے فن وشخصیت کے گوشوں کا احاطہ کرتا تحقیقی مقالہ ہے۔ مقالہ نگار ڈاکٹر فہمیدہ عتیق اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ انھوں نے اس مقالے میں بڑی جاں فشانی سے جمیل الدین عالی کے شخصی اور فنی پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے اور اس تحقیقی وتنقیدی مطالعے میں عالی جی کی زندگی کے تمام گوشے سمودیے ہیں اور مختلف عنوانات کے تحت جمیل الدین عالی کی پوری زندگی اور خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
جن میں"حیات وشخصیت‘‘،’’عالی کی شاعری کا پس منظر‘‘،’’عالی کی شاعری کی ارتقائی منازل‘‘،’’عالی کی نثرنگاری"،’’سماجی وعلمی خدمات‘‘ کے زیرعنوان باب شامل ہیں۔ محترمہ فہمیدہ عتیق نے یہ مقالہ بڑی محنت سے تحریر کیا ہے، جس میں جمیل الدین عالی کے خاندانی پس منظر سے لے کر ان کی زندگی کے اہم واقعات، وہ پس منظر جس میں ان کی شاعری پروان چڑھی، ان کے کلام اور نثر کا تنقیدی جائزہ اور بہ حیثیت دانش ور اور بیوروکریٹ جمیل الدین عالی کی ادبی وسماجی خدمات سمیت ان کی زندگی کا ہر گوشہ سمودیا گیا ہے۔
(تبصرہ نگار: کتاب دوست۔۔رانا نسیم۔14جولائی 2013)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭میری ڈائری کا ایک ورق ۔۔۔سترہ مارچ 1986 کو  محترم جمیل الدین عالی کا آٹوگراف اور پھر تقریباً 29 برس بعد اُسی صفحے پر اُن کے ۔بیٹے "راجو جمیل" کے دستخط ۔۔۔ 
٭جیوے پاکستان۔۔۔
آواز۔۔۔شہناز بیگم 
دھن۔۔۔۔ سہیل رانا
(سال 1972(پاکستان ٹیلی وژن
یہ ترانہ اور چند خوبصورت آوازیں ۔
نگہت اکبر۔۔۔1984 (ریڈیو پاکستان)۔
افشاں احمد ۔۔۔1987( پاکستان ٹیلی وژن )۔
شبنم مجید۔۔۔2001( سونک میوزک)۔

منگل, اپریل 07, 2015

" ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا "

ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا "
جذبات واحساسات انسانی زندگی کی پہلی علامت ہیں۔جسمانی طورپرجیسے ہی وجود کا احساس سانس لیتا ہےاسی لمحے سوچ کے در بھی وا ہو جاتے ہیں۔ شکمِ مادرمیں دھڑکن کے ساتھ ساتھ خیال کی رو بھی پروان چڑھتی ہے۔۔۔ شعور کی آمد سے بہت پہلے لاشعور کی کھڑکیاں کھل جاتی ہیں۔۔۔جو ایک ماہرعکس ساز کی طرح معمولی جزئیات بھی محفوظ کرتی ہیں۔۔۔ضروری غیرضروری کی شعوری چھان پھٹک سے ماورا۔۔۔ انسانی ذہن بڑی چابکدستی سے۔۔۔اندھیری کوٹھڑی میں رہتے ہوئے۔۔۔ روشنی کا ہر منظر ایک محدود وقت میں من وعن جذب کرتا چلا جاتا ہے۔ تاوقت کہ روشنی کی پہلی کرن اُس کے شعور پر دستک دیتی ہے۔اگرچہ اس وقت محض دوسروں کا شعوراسے پہچان جاتا ہے لیکن ابھی چند برس اوراس نے اپنا شعوری ڈیٹا مکمل کرنا ہوتا ہے۔
تین سال کی عمر سے۔۔۔ جب بچے کی لفظ سے شناسائی شروع ہوتی ہے۔۔۔ وہ بڑی تیزی سے لاشعور سے شعوری علم کی سیڑھیاں طے کرتا جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بعد میں آنے والے حالات اور تعلیم وتربیت کے پیشِ نظر لاشعوری اور شعوری ڈیٹا میں رسہ کشی شروع ہو جاتی ہے۔
سائنس کی جدید تحقیق سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پہلے تین سال کی عمر تک بچے کے ذہن کی خالی سلیٹ پر جو نقش ٹھہر جائے وہ ساری زندگی وہیں رہتا ہے۔ بعض ممالک میں تو زمانہ حمل ملا کرنومولود کی عمرکا تعین کیا جاتا ہے۔
دُنیا میں آنکھ کھولنے کے بعد بچہ اپنی شعوری حسیات کے ساتھ دُنیا کے رنگ تلاشتا ہے۔۔۔لوگوں سے سیکھتا ہے۔۔۔اُن کے رویوں پراپنا ردِعمل ظاہر کرتا ہے۔ شیرخوار ہوتا ہے تو بڑوں کے رحم وکرم پر ہوتا ہے۔۔۔جو کہتے ہیں مان لیتا ہے۔جو دیتے ہیں لے لیتا ہے۔تھوڑا بڑا ہوتا ہے تو اُس کے فیصلے حتمی نہیں مانے جاتے۔۔۔ہر قدم پرزندگی برتنا سکھایا جاتا ہے۔۔۔آسمانِ دنیا پراُڑنا سیکھتا ہے۔اپنےطورپربھی وہ اس تجریدی تصویر کے رنگوں کو جانچتا ہے۔گزرتےپل بلوغت کے ساتھ بالغ نظری بھی عطا کرتے ہیں۔وہ اپنی سوچ اپنےعمل میں کسی حد تک خودمختار ہوجاتا ہے۔دین دنیا کی سمجھ آتی ہے تو اپنے کیے ہرعمل کا جواب دہ ہونا پڑتا ہے۔
ہر انسان فوم کے ٹکڑے کی طرح ہے۔ایک عمرایسی ہوتی ہے کہ لاشعوری طور پر ہی سہی اپنے آپ کو ملنے والے اسباق جذب کرتا ہے۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ رسنا شروع ہو جاتا ہے لیکن جذب کرنے کی صلاحیت میں کمی نہیں آتی ۔ یہی انسان ہونے کی نشانی بھی ہے۔ جو جذب کیا جاتا ہے وہ اپنا اپنا مقدر ہے لیکن اُسے کس شکل میں باہر نکالنا ہے یہ اصل امتحان ہے۔ مایوسی ،محرومی اور ناانصافی اکثر اسی طور باہر نکلتی ہے۔ فرد پر ظلم بسا اوقات معاشرے پر ظلم میں بدل جاتا ہے۔ انسان اپنے شعور سے کام لے کر ترقی کی منازل طے کرتا ہے تو کبھی یہی شعور اُس کے خلافِ عقل اور ننگِ انسانیت کاموں میں مددگار بنتا ہے اور اسے شیطان سے بڑھ کر شیطان بنا دیتا ہے۔
انسان کے آخری سانس تک کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ زندگی میں اُس کے لاشعور کا پلڑا بھاری رہا یا شعور نے کامیابی سے ہمکنار کیا۔ اعتدال ہر دو جگہ لازم ہے۔کامیابی کا پیمانہ یہی ہے کہ انسان شعوری طور پر اپنی جگہ حاضر ہو۔۔۔زندگی اوراس کی ذمہ داریاں بحسن وخوبی سرانجام دے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے لاشعور کے مندر میں بجنے والی گھٹیوں کی آواز سے بھی غافل نہ ہو جونہ صرف آگےبڑھنے کا حوصلہ دیتی ہیں۔۔۔راہ نمائی کرتی ہیں بلکہ وقت گزرنے کے احساس سے بھی آگاہ کرتی چلی جاتی ہیں۔
لاشعور انسان کے باطن کا علم ہے تو شعور گردوپیش کے حالات وواقعات کا۔ گردشِ زمانہ اور مسائل اپنے دام میں الجھا کراپنی ذات سے بےپروا کر دیتے ہیں۔ عمر کے بڑھتے سائے میں وقت مٹھی میں دبی ریت کی طرح سرکتا ہے۔ جسمانی قوا کمزورپڑ جاتے ہیں ۔۔۔ وہیں لاشعور پہلے سے زیادہ طاقتور اور توانا ہونے لگتا ہے۔ یہ بات عین حق ہے کہ انسانی زندگی کا سفر ایک دائرے کا سفر ہی تو ہے۔ جہاں سے آغاز ہوا آخر وہیں انجام بھی ہونا ہے۔
ڈھلتی عمر میں لاشعور کی گرفت مثبت منفی دونوں اثرات رکھتی ہے۔ ڈھلتی عمر کے مثبت پہلو سے نہ صرف فرد بلکہ اُس کے آس پاس اور معاشرے پر بھی ایک خوشگوار اثر پڑتا ہے۔
ہم میں سے زیادہ تر اس کے منفی پہلو کے زیرِ اثر آ جاتے ہیں۔ ستم یہ کہ زیادہ تر وہ بھی جو ساری زندگی اپنےزورِبازو پر بھروسہ کر کے دُنیا فتح کرتے چلے گئے اور آخر میں جب اپنے اندر کی دنیا میں جھانکا تو ناقدری کی باس میں لپٹی مایوسی نے بیڑیاں ڈال کر قید کردیا۔ تنہائی کا آسیب زندگی کے بچے کچے رنگوں کو ملا کر اتنا بدرنگ کر دیتا ہے کہ گھر کا سب سے قیمتی نقش کباڑ خانے میں رکھنے کے قابل بھی نہیں لگتا۔
بڑھتی عمر کے منفی اثرات ہم اکثر اپنے آس پاس دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔ عورت سے زیادہ مرد پر اس جنریشن گیپ کا اثر پڑتا ہےبلکہ یوں کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا کہ عورت ہمیشہ کی طرح اس رنگ کو بھی بڑی مہارت سے چھپا لیتی ہے"کباڑخانے"میں رتی برابر جگہ ملنے کو بھی صبروشکر سے قبول کر کے۔۔۔خانہ خدا کی مثل ۔۔۔سرکش روحوں کو طواف پر مجبور کر دیتی ہے۔ دوسری طرف مرد ساری عمر اپنی محنت مشقت سے بنائے ہوئے شیش محل سے باہر نکلنے پرآمادہ نہیں ہوتا۔۔۔ راجہ اندر کی طرح ہر وقت سجے سجائے دربار دیکھنے کا متمنی ۔۔۔ جہاں اس کے وزراء ومشیران جی حضوری کے قیام میں کھڑے ہوں۔۔۔ رعایا اس کے ہر فرمان کے سامنے سجدہ ریز ہوجائے۔
!آخری بات
ایک لمبے سفر کے بعد جب کوئی اپنے ٹھکانے پر پہنچتا ہے تو کسی پُرسکون جگہ بیٹھ کر وہ پیچھے رہ جانے والے راستوں ۔۔۔خطرناک گھاٹیوں اور مسحورکن نظاروں کے بارے میں سوچتا ضرور ہے۔یادوں کی البم ہویا تصویر کہانی وہ ہر منظر کو دُہراتا ہے۔کبھی خوش ہوتا ہے کبھی غمگین۔یہی حال زندگی کے سفر کا بھی ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ذمہ داریاں کم اور زندگی کی رفتار سست پڑنے لگتی ہے یا پھر"نئی مشینری" کے سامنے اس کی وقعت کم پڑ جاتی ہے تو انسان کے پاس اپنے ساتھ گزارنے  کے لیے وقت مل ہی جاتا ہے۔کبھی وقت کم ہوتا ہے اور زندگی بہت زیادہ۔۔۔ بہت مصروف اورکبھی زندگی بہت محدود۔۔۔بہت مختصر رہ جاتی ہے اور وقت کاٹے نہیں کٹتا۔ نیند کی دیوی جو چڑھتے سورج کی بچاری ہوتی ہے زندگی کی ڈھلتی شام میں آنکھیں چومنے سے انکار کر دیتی ہے۔ کبھی اس بےمہر وقت کو توبہ کا غسل دے کر پاک کرنے کی سعی کی جاتی ہے تو کبھی مایوسی اور تنہائی کے آسیب ہر ساتھ کا اعتبار ختم کر دیتے ہیں۔ جو بھی ہے زیادہ تر وقت تیزی سی گرتی جسمانی مشینری کو سنبھالتے گزر جاتا ہے۔ 
زندگی کے سفر کا پرسکون انداز میں اختتام کرنے کے لیے سب سے اہم بات جذباتی،جسمانی اوراس سے بڑھ کر مالی لحاظ سے کسی رشتے،کسی تعلق کے حوالے سے دوسرے انسان کا محتاج نہ ہونا ہے۔کسی ساتھ کی ضرورت کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن اس ساتھ میں اپنی مرضی یا اختیار کی چاہ رکھنے والے اکثر دنیا سے بےنیل ومرام ہی جاتے ہیں۔

ہفتہ, اپریل 04, 2015

" ذوالفقارعلی بھٹو اوربھٹو خاندان"


ذوالفقار علی بھٹو ۔۔
تاریخ پیدائش ۔۔۔5 جنوری 1928۔بمقام۔ لاڑکانہ سندھ
تاریخِ وفات۔۔۔ 4 اپریل 1979۔بمقام۔ راولپنڈی 
جائے مدفن ۔۔گڑھی خدابخش۔ لاڑکانہ سندھ 
بھٹو قوم کے آباءواجداد اصل میں راجستھان کے راجپوت تھے جو مغل دورِ حکومت میں ہجرت کرکے سندھ کے مختلف علاقوں میں آکر آباد ہوگئے ۔ سندھ میں آباد ہونے والے ان گروہوں میں ایک اہم شخصیت سھتو خان بھٹو تھا جس کے پوتے پیر بخش خان نے اپنے علاقے کی دوسری طاقتور قوموں بشمول کلہوڑوں اور ابڑوں کو بیشتر مرتبہ علاقائی جنگوں میں شکستِ فاش دے کر اپنی طاقت کا سکہ جمایا ہوا تھا۔
۔1821میں خیرپور ریاست کے والی میرعلی مراد خان تالپور نے سردار پیر بخش کو اپنا بیٹا میروں کے پاس ضمانت کے طور پر بھیجنے کو کہا کیونکہ میروں کو بھٹوں کی طرف سے کسی بھی وقت امکانی بغاوت یا حملے کا اندیشہ رہتا تھا۔ مگر چونکہ بھٹوسردار کے دل میں ایسی کوئی بات نہیں تھی اس لئے پیر بخش خان نے کچھ عرصہ بعد اپنا بیٹا میر اللہ بخش خان کے پاس بھیج دیا جہاں وہ تقریباً پانچ سال تک نظر بندی میں رہا۔ 1842میں انگریزوں نے سندھ فتح کرنے کے بعد پیر بخش خان کے بیٹے دودو خان بھٹو کو اس علاقے میں بےانتہا جاگیر دی۔
بھٹو خاندان کی تاریخ میں واحد سردار دودو خان ہی تھا جس نے امن اور سکون کے ساتھ سرداری کی حالانکہ انگریز ی گماشتوں نے اس کوعلاقے کے دوسرے قومی سرداروں اور سرکش قوموں کے خلاف محاذ بنانے کی جان توڑ ترکیبیں بھی کیں مگر دودو خان نے پسگردائی میں رہنے والی قوموں بشمول چانڈیوں کے ساتھ بھی (جو کسی حد تک جنگجو تھے) محبت اور عزت بھرے معاملات قائم رکھے۔ دودو خان کا بیٹا خدا بخش ( جس کے نام پر بینظیر کے آبائی گاؤں گڑھی خدا بخش کی بنیاد پڑی) بہادر اور نفیس آدمی تھا مگر اپنے بیٹےغلام مرتضیٰ بھٹو (اول) کی کچھ کاروائیوں کے سبب برطانوی کلیکٹر کرنل مینھواسےجھوٹے سچےکیسوں میں پھنسا کر پریشان کرتا رہتا تھا جس کی وجہ سے ان دونوں کے درمیان آئے دن ان بن ہوتی رہتی تھی اور علاقے میں بھی کشیدگی کا سماں رہتا تھا۔
ایک دن جب خدابخش بھٹو اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کے لئے جیکب آباد گیا ہوا تھا تو کرنل مینھو کے آدمیوں نے موقع دیکھ کر اسے کلہاڑیوں سے زخمی کردیا جو بالاآخرزخموں کی تاب نہ لاکر چل بسا۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کے خاندان کا یہ پہلا قتل تھا جس نے کرنل مینھواورمرتضیٰ بھٹو کے درمیاں کشیدگی کو اور ہوا دی ۔ کرنل مینھو کی بیٹی کا مرتضیٰ کے ساتھ پسند کا سلسلہ تھا جسے وہ بھگا کراپنے گاؤں لے آیا۔ کرنل نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے اسے جھوٹے کیسوں میں پھنسانا چاہا مگرچونکہ لڑکی بالغ تھی اور اپنی مرضی سے گئی تھی اس لئے ہر مرتبہ عدالت مرتضیٰ کو بے گناہ قرار دے کر آزاد کر دیتی تھی مگر اس کے باوجود کرنل کسی نہ کسی طریقے سے اسے تنگ کرتا رہتا تھا۔ اپنے خلاف مسلسل انتقامی کاروائیوں سے پریشان ہوکر ایک دن مرتضیٰ بھٹو اپنے علاقے سے بھاگ کر پہلے کچھ عرصہ بہاولپور رہا بعد ازاں افغانستان کی طرف چلاگیا۔ اسی طرح غلام مرتضیٰ (اول) بھٹو خاندان کا پہلا جلاوطن سردار تھا جس کے خلاف ریاستی دہشت گردی کی کاروائیاں ہوتی رہیں۔
کئی سالوں کی جلاوطنی کے بعد مرتضیٰ کراچی واپس آیا جہاں کمشنر جیمس سر ایوان سے پرانی وابستگی کی بنا پر تعاون ملا اور اس نے کرنل مینھو کی اپنے علاقے سے بدلی کروائی بعد ازاں جب بھٹو اپنے گاؤں گڑھی خدابخش واپس آیا تو اس کا شاندار استقبال کیا گیا مگر ایک ماہ بعد اسے کھانے میں زہر دے کر ماردیا گیا ، یہ اس خاندان کا دوسرا قتل تھا۔
مرتضیٰ کی موت کے وقت اس کا بیٹا شاہنواز بھٹو ۔۔۔1888۔۔1957 (ذوالفقار علی بھٹو کا والد) ابھی نابالغ تھا اس لئے برطانوی حکومت نے اس کے چچا الہٰی بخش (ممتاز بھٹو کے دادا)کو اس کا مختار بنایا جس نے شاہنواز کی تعلیم اور زمین و جائیداد کا احسن طریقے سے خیال رکھا۔ 1908 میں جب شاہنواز بھٹو اپنی تعلیم مکمل کرکے گاؤں واپس آیا تو کچھ عرصہ بعدایک دن اپنے چچا الہٰی بخش کے ساتھ لاڑکانہ شہر کے ڈپٹی کلیکٹر سے ملاقات کرنے گیا جہاں سے شام ڈھلے واپسی پر دونوں روٹی کھا کر سوگئے اور صبح کو الہٰی بخش اپنے کمرے کے باتھ روم میں مردہ حالت میں پایا گیا۔ شاہنواز نے اپنے جواں سال چچا کی اچانک موت پر ڈائری میں تاثرات قلمبند کئے تھے کہ’ان کی عمر فطری موت مرنے کی نہیں تھی، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کودل کا دورہ پڑا ہوگا جبکہ بیشتر کو شک تھا کہ اس نے خودکشی کی ہوگی ۔ مگر میں ان دونوں باتوں پر اس لئے یقین نہیں کر سکتا کیونکہ چچا مضبوط دل اور سالم دماغ رکھنے والا آدمی تھا اس کو دل کا دورہ کیوں پڑتا یا وہ خو دکشی بھی کیوں کرتا ‘۔ الہٰی بخش کی موت کے بعد اس کے دو بیٹوں اور اہل وعیال کی ذمہ داری بھی شاہنواز بھٹو کے کندھوں پر آن پڑی جسے اس نے بڑے احسن نمونے سے نبھایا۔ شاہنواز بھٹو کو انگریز سرکار کی طرف سے "سر" کا خطاب بھی ملا۔اُس نے لکھی بائی سے شادی کی جو ایک ہندو خاندان سے تھیں۔ 
شاہنواز بھٹو کا بیٹا ذوالفقارعلی بھٹو 1970 کے عام انتخابات کے نتیجے میں برسرِاقتدار آیا اور پاکستان کا چوتھا صدر بنا۔ وہ دسمبر 1971ء تا 13 اگست 1973 تک اس عہدے پر فائز رہا۔۔ 14 اگست 1973ء کو نئے آئین کے تحت انہوں نے پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔چار سال بعد 1977 کےمتنازعہ انتخابات سے قطع نظرتاریخ میں ذوالفقارعلی بھٹو کا نام دوسری بار منتخب وزیرِاعظم کے طور پر محفوظ ہے۔ 5 جولائی 1977 کوچیف آف آرمی سٹاف جنرل محمد ضیا الحق نے مارشل لاء نافذ کر کے اُن کی حکومت برطرف کر دی۔۔ ستمبر 1977ء میں مسٹر بھٹو نواب محمد احمد خاں کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیے گئے۔ 18 مارچ 1978ء کو ہائی کورٹ نے انھیں سزائے موت کا حکم سنایا۔ 6 فروری 1979ء کو سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کی توثیق کر دی۔ 4 اپریل کو انھیں راولپنڈی جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی اولاد میں دو بیٹیاں بے نظیر اور صنم تھیں جبکہ میر مرتضیٰ اور شاہنواز نامی دو بیٹے تھے جنہیں بھٹو صاحب نے ضیا دورِ حکومت میں ہی افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ کی پناہ میں بھیج دیا تھا کیونکہ اسے خدشہ تھا کہ ضیا حکومت انہیں بھی مروادے گی۔ بینظیر بھٹو اس وقت اوکسفرڈ میں زیرِتعلیم تھی جبکہ صنم بھی پڑھ رہی تھی۔
میر مرتضیٰ اور شاہنواز دونوں نے ظاہر شاہ کی بھتیجیوں ناہید اور ریحانہ سے شادی کی جن میں سے دونوں کو ایک ایک بیٹی ہوئی میر مرتضیٰ کی بیٹی کا نام فاطمہ بھٹو اور شاہنواز کی بیٹی کا سسئی ہے۔ کچھ عرصہ بعد شاہنواز نے فرانس جاکر رہائش اختیار کرلی مگر 8جولائی1985 میں وہ فرانس کے شہر کینز میں واقع اپنے اپارٹمنٹ میں پراسرار طریقے سے مردہ پایا گیا ۔ اس وقت یہ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ اسے زہر دے کر مارا گیا ہے اور اس معاملے میں شک اس کی افغان نزاد بیوی پر کیا جارہا تھا جبکہ فرانسیسی پولیس اس سانحے کا سبب بھٹو خاندان کی جائیداد سے متعلق کوئی چکر بتاتی رہی مگر چونکہ اس قتل کی تفتیش آج تک صحیح طریقے سے نہیں ہوئی اس لئے قتل کے اصل واقعات راز ہی رہے۔
میر مرتضیٰ 18 ستمبر 1954میں پیدا ہوا جس نے اپنے والد کی شہادت کے بعد افغانستان میں ٹھکانہ بنا کر جنرل ضیا کے خلاف محاذ قائم کیا ۔ اسے وہاں پناہ اور تربیت کی بہتریں سہولتیں ملیں۔ اس نے پاکستان پیپلز پارٹی کی ملٹری ونگ الذوالفقار کی بنیادڈالی اور اپنی کاروایوں سے جنرل ضیا اور اس کی فوجی حکومت کے لئے عرصے تک خوف وہراس کا باعث بنارہا۔ جنرل ضیا کے ہیلی کاپٹر کی تباہی سے ہونے والی موت کو بھی کئی مبصریں الذوالفقار کے کھاتے میں ڈالتے رہے۔ 1993 میں میر مرتضیٰ واپس اپنے ملک آیا۔ 1995 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی بنیادوں پر مخالفت شروع کی مگرعملی سیاسی زندگی کی شروعات میں ہی اسے 20ستمبر 1996 میں کراچی ستر کلفٹن میں واقع اپنے گھر جاتے ہوئے چھ دوسرے ساتھیوں کے ساتھ شہید کردیا گیا۔اس کی مبینہ پولیس مقابلے میں اُس کی موت کا معمہ آج تک صیغۂ راز میں ہے۔المیہ یہی نہیں بلکہ اصل المیہ یہ ہے اس وقت اس کی بہن بےنظیر بھٹو پاکستان کی وزیرِاعظم تھیں.سیاسی اختلافات اور وراثتی مسائل سے قطع نظر دیکھنے والی آنکھوں کو آج بھی اس بہن کی بےقراری اور آنکھوں کے آنسو یاد ہیں جب خبر ملنے کے بعد وہ اسی وقت اسلام آباد سے کراچی ہسپتال اس کی میت کے پاس پہنچیں۔ 
ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بےنظیر بھٹو1953 میں پیدا ہوئی ریڈ کلف اور اوکسفرڈ میں تعلیم حاصل کی۔ اپنے والد کی شہادت کے بعد اس نے سب سے زیادہ صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کیں، جیل در جیل جاتی رہیں، ذہنی، جسمانی اور سیاسی تشدد کا شکار رہیں بعد ازاں جلاوطن بھی ہوئیں۔ 1986 میں واپس اپنے ملک آکر بکھری ہوئی پیپلز پارٹی کو متحد کیا۔ 1986 کے اواخر میں اپنی والدہ کے منتخب کردہ آصف علی زرداری سے شادی کے رشتے میں منسلک ہوئیں۔ ان کے بطن سےایک بیٹا بلاول 1987۔دو بیٹیاں بخت آور 1990 اور آصفہ 1993 پیدا ہوئیں ۔1988 میں جنرل ضیاءالحق کے طیارے کے حادثے کے تین ماہ بعد عام چناؤ میں جیت کر پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم بنیں۔ 1990میں بدعنوانیوں کے الزامات لگا کر اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے اُن کی حکومت برطرف کردی۔1993 میں بےنظیر بھٹو دوسری مرتبہ وزیرِ اعظم بنیں اور نومبر 1996 میں اُن کی پارٹی کی طرف سے مقرر کئے گئے صدر فاروق احمد لغاری نے اُن کی حکومت ختم کردی۔ اس کے بعد بےنظیر نے برطانیہ اور دبئی میں جلاوطنی کے دن گزارے ۔ اکتوبر 2007 کو برسوں کی جلاوطنی کے بعد پاکستان آئیں۔ انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا اور پھر27 دسمبر 2007 کی شام راولپنڈی میں ایک جلسے سے خطاب کے بعد واپس جاتے ہوئےدہشت گردی کے واقعے میں ایک بم دھماکے کے ساتھ ساتھ اُن کو بھی گولی مار کر قتل کردیا گیا۔ 
انتخاب۔۔۔بشکریہ آصف رضا موریو

"ایک زرداری سب پہ بھاری"

گو ہاتھ کو جُنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے رہنے دو ابھی ساغرومینا مِرے آگے آنکھوں دیکھی حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔8ستمب...