منگل, اکتوبر 19, 2021

برکہ۔ ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔ از قلم شاہین کمال

برکہ۔
ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔
جب مکہ میں یہ خبر عام ہوئی تو اس شام شہر میں کہرام بپا تھا کہ مکہ کا وجہیہ و دانا ، صاحب فہم و فراست اور رحم دل سپوت اب نہیں رہا ۔ بطحاء کی آغوش نے ہاشم کے صاحب زادے کو سمیٹ لیا۔ وہ جوان رعنا نوشہ عبداللہ لحد میں آسودہ خواب ہوگیا۔ عبداللہ بن عبد المطلب کا کل ترکہ تھا، پانچ اونٹ، بکریوں کا ایک ریوڑ اور ایک حبشی کنیز جن کا نام برکہ تھا ۔جب عبداللہ نے اپنی عروس آمنہ کے ساتھ اپنی جنت بسائی تو اس خوب صورت گھرانے کی خدمت پر مامور برکہ تھی۔
برکہ جن کا آبائی وطن حبشہ تھا۔ نام برکہ بنت ثعلبہ بن عمرو بن حصن بن مالک بن سلمہ بن عمرو بن نعمان اور کنیت ام ایمن۔ انہیں کم عمری میں مکہ کی غلام منڈی عبداللہ نے مول لیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عبد المطلب اور آمنہ بنت وہب کی شادی کے بعد یہ اس گھرانے کی خدمت پر مامور تھیں۔ حضرت عبداللہ شادی کے فوراً بعد ہی شام کے تجارتی سفر پر روانہ ہو گئے تھے پر آپ کی زندگی نے وفا نہ اور واپسی کے سفر میں یثرب میں بیمار ہوگئے یوں دیار غیر میں آسودہ خاک ہوئے۔ اس دل دوز گھڑی میں برکہ ہی تھیں جنہوں بی بی آمنہ کی دل داری اور دیکھ بھال کی۔ یہ برکہ کی بلند بختی تھی کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مہد سے لحد تک ان کے ساتھ رہیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں جلوہ افروز ہوئے تو برکہ وہ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی گود میں لیا۔ اس وقت برکہ کی عمر تیرہ سال تھی اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش و پرداخت پر معمور تھیں۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم، بی بی حلیمہ سعدیہ کے پاس مستقلاً مکہ واپس آ گئے تو آپ کی دیکھ ریکھ کی پوری زمہ داری برکہ کے سپرد تھی۔ وہی کھلاتی، پلاتی، نہلاتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھیلتیں۔ جب بی بی آمنہ بنت وہب نے مدینہ سے واپسی کے سفر میں ابواء کے مقام پر داعی اجل کو لبیک کہا تو اس لق و دق بیابان میں اس چھ سالہ یتیم کے سر پر شفقت کا ہاتھ دھرے گم سم دادا اور ممتا بھرا دل رکھنے والی انا کے کہ علاؤہ تیسرا اور کوئی نہ تھا۔ بی بی آمنہ کے وصال کے بعد ام ایمن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ بن گئیں۔ یہ فضیلت صرف ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حاصل ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش باسعادت سے لے کر وصال پر ملال تک ان کے ساتھ رہیں۔ آپ حضور اکرم کی دیکھ بھال میں اس شدت سے مصروف تھیں کہ اس فریضے کو پوری جاں فشانی سے نبھانے کی خاطر آپ نے شادی بھی نہیں کی۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نکاح حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ہوا تو آپ نے برکہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آزاد کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش تھی کہ اب برکہ بھی شادی کر لیں اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اصرار پر آپ کی شادی حارث بن خزرج کے خاندان میں عبید بن زید سے ہوئی پر ان کی عمر نے وفا نہ کی۔ ان سے ایک اولاد حضرت ایمن ہوئے، انہی کے سبب برکہ کی کنیت ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا پڑی۔ میاں کے انتقال کے بعد وہ اپنے بیٹے کے ساتھ دوبارا مکہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر تشریف لے آئیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبوت کے منصب پر فائز ہوئے تو برکہ اسلام قبول کرنے والی دوسری عورت تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دلی خواہش تھی کہ ام ایمن کی دوبارہ شادی ہو، سو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےکہا کہ جس کو یہ بات خوش کرے کہ وہ ایک جنتی بی بی سے شادی کرے ،اسے چاہیے کہ وہ ام ایمن سے نکاح کرے اور اس ترغیب و محبت کی بنا پر حضرت زید بن حارثہ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام اور چہیتے صحابی تھے انہوں نے اپنا نام پیش کر دیا جبکہ دونوں کی عمروں میں بہت فرق تھا۔ حضرت زید بن حارثہ سے ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی دوسری اولاد اسامہ بن زید جو نامور صحابی رسول اور جری اور کم عمر سپہ سالار تھے پیدا ہوئے۔ حضرت اسامہ بن زید کو محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی کہا جاتا ہے۔ ام ایمن اور حضرت زید بن حارثہ کا بیس برس کا ساتھ رہا، اس دوران حضرت زید نے مزید نکاح بھی کئے مگر باقی بیویوں کو طلاق دے دی اور پھر جنگ موتہ میں حضرت زید بن حارثہ کی شہادت تک ام ایمن ہی ان کی واحد بیوی تھیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بہت اکرام کرتے تھے اور لوگوں سے آپ کا تعارف بحثیت میری ماں کے بعد ماں کے طور پر کراتے اور ان کے گھر کو اپنا گھرانہ شمار کرتے۔ ام ایمن نے جب مدینہ منورہ ہجرت کی تو اسی سفر دشوار میں ان کے ساتھ ایک معجزہ پیش آیا۔ ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا روزے سے تھیں اور گرمی اور پانی کی عدم دستیابی کے سبب جب جاں بلب ہوئی تو آسمان سے ایک ڈول نازل ہوا جس کی رسی کا دوسرا سرا نظر نہ آتا تھا۔ اس ڈول میں دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا پانی تھا۔ آپ نے اسی پانی روزہ افطار کیا اور دل بھر کر پانی پیا اور بچے ہوئے پانی کو اپنے جسم پر بہا دیا۔ ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ اس کے بعد انہیں گرمی اور پیاس نے کبھی نہیں ستایا اور وہ گرم ترین دنوں میں بھی آرام سے روزہ رکھا کرتی اور کعبہ کا طواف کرتیں۔
مدینہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزآنہ ان کے گھر تشریف لے جایا کرتے تھے اور احوال کے استفسار پر کہ" اے میری ماں آپ کیسی ہیں؟"
ام ایمن کا جواب ہوتا کہ" جب تک اسلام کے حالات اچھے ہیں میں اچھی ہوں۔"
اللہ اللہ !! کیا زہد و تقویٰ اور کیا استقامت کہ ضیعفی کا عالم مگر زبان شکوہ شکایت سے
نا آشنا۔ طبقات ابن سعد کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو دو بار جنت کی بشارت دی۔
ام ایمن ہر غزوہء میں حصہ لیتی رہیں۔ وہ غزوات میں پانی پلانے اور زخمیوں کی تیمارداری کی خدمت انجام دیتی۔ غزوہء احد میں جب بھگدڑ مچی تو وہ تلوار سونت کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب رہیں اور بھاگتے ہوئے مجاہدین کو عار دلا کر واپس میدان جنگ کی طرف پلٹایا۔ غزوہء حنین میں آپ نے اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ شرکت کی اور اس غزوہء میں حضرت ایمن شہید ہوئے۔
ام ایمن نے اپنے تمام پیاروں، میاں، دونوں بیٹے یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدائی تک کا صدمہ سہا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد وہ بالکل خاموش رہنے لگیں تھیں۔ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کی مزاج پرستی و دل داری کے لیے برابر آپ کے گھر جایا کرتے تھے۔ ایک ملاقات پر جب وہ گریاں کناں تھیں تو حضرت ابو بکر صدیق نے انہیں تسلی دی اور کہا کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اللہ تعالٰی کے پاس بہترین چیز موجود ہے۔ ام ایمن نے کہا میں اس حقیقت سے آگاہ ہوں مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کی وجہ سے اب وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے اور یہ غم بہت بڑا صدمہ ہے۔ یہ سن کر دونوں صحابہ کرام بھی رونے لگے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت پر بہت دلگیر تھیں،کسی نے سبب پوچھا تو کہا کہ عمر کے جانے سے اسلام کمزور ہو گیا ہے۔
آپ نے طویل عمر پائی تقریباً سو برس اور آپ کا انتقال حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ابتدائی دور میں ہوا، حضرت عمر فاروق کی شہادت کے فقط بیس دن کے بعد ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال ہوا اور آپ جنت البقیع میں مدفون ہیں۔
حوالہ جات۔
سیرا الصحابیات، مولوف، مولانا سعید انصاری۔
الاستیعاب، کتاب کنی النساء، ام ایمن خادمہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سنین ابن ماجہ، کتاب الاطعمتہ
مسلم (2/341)
ارحیق المختوم۔ مولانا صفی الرحمن مبارک پوری
شیخ عمر سلیمان کا لیکچر۔

از قلم شاہین کمال۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...