پیر, جولائی 16, 2018

" ووٹ کس کو دیں "

پانچ سال ایک شاندارجمہوریت کے مزے لُوٹنے کے بعد بالاآخر وہ دن آ ہی گیا جب ہمارے سر پر سہرا سجنے والا ہے وہ کمی کمین جونام نہاد جمہوریت کے دور میں فُٹبال کی طرح ادھر اُدھر لُڑھکتا رہا اب محفل کا دُلہا بننے جا رہا ہے۔۔۔ خواہ ایک روز کا کیوں نہ ہو۔ سب بڑے اس کوشش میں ہیں  کہ   لفاظی کی لیپا پوتی کر کے کسی  طرح اُس  کوسنواردیں،کوئی ایسا جادوئی سنگھارمل جائے جو وقتی طوراُس کے جسم پر لگے انمنٹ داغ چُھپا ڈالے اور وہ کچھ پل کے لیے سب بُھلا کراُن کی من پسند دُلہن بیاہ لے جائے۔ اب یہ تو بعد کی بات ہے کہ اس کمی کمین کو دُلہن کا دیدار نصیب ہوتا ہے یا ہمیشہ کی طرح اُسے منہ دکھائی میں آئینہ ملتا ہے اور راہزن خوابوں کی شہزادی لے کر چمپت ہوتے ہیں۔ وقت بہت کم ہے اور جو ہونا ہے وہ تو ہونا ہی ہے اُس سے فرار ممکن نہیں۔اب فیصلہ ہمارا ہے کہ کبوتر کی طرح بلی کو دیکھ کرآنکھیں موند لیں یا اپنے آپ کو   مومن جان کر بےتیغ میدان میں کود پڑیں کہ مرنا مقدر ہے تو کیوں نا کسی کو مار کر مرا جائے،شہادت تو مل ہی جائے گی۔دونوں باتیں غورطلب ہیں کہ ہم نہ  توکبوتر ہیں اورنہ مومن۔ ایک عام انسان،عام عوام ہیں، معمولی پڑھے لکھے یا پھر اُن اسباق کے پڑھے ہوئے جو زندگی نے روح وجسم پر ثبت کیے،بڑے لوگوں کی نظر میں جاہل کہ ہمارے پاس تعلیم نہیں جو شعور عطا کرے ،دُنیا کی عظیم قوموں کے سامنے تہذیب واخلاق کی اعلیٰ قدروں سے ماورا بےترتیب لوگوں کا ہجوم۔ان باتوں کو دل پر لے لیا تو واقعی ہم خس وخاشاک ہیں۔لیکن ہم زندہ ہیں سانس لے رہے ہیں،سوچتے ہیں یہی ہماری بقا کا راز ہے۔ بات صرف اپنے آپ کو پہچاننے کی ہے سب سے پہلے عقیدت کی عینک اُتار کر کھلی آنکھوں سے حالات کا جائزہ لیا جائے ،تاریخ پر نظر دوڑائی جائے کیونکہ حال میں رہنمائی ماضی سے ہی مل سکتی ہے اور ماضی یہ بتاتا ہے کہ قیامِ پاکستان سے دو طبقات چلے آرہے ہیں حاکم اور محکوم۔حاکم اپنی بات منواتا آیا ہے اور محکوم کبھی اتنی جرات نہیں کر سکا کہ انکار کرے،حاکم نے ہمیشہ دھوکا ہی دیا ہے۔ اس لیے اگر آئندہ بھی ایسا ہی ہونا ہے تو کم از کم ایک فیصلہ ہم کر سکتے ہیں کہ اگر جال پرانا ہے تو نئے شکاری کو آزمایا جائے شاید اُس کے پاس مارنے کے نئے سامان ہوں یا اُمید کی موہوم سی کرن کہ وہ شکاری نہ ہو۔تاریخ میں ہمارے قائد 'قائدِ اعظم محمد علی جناح کی ذات تقویت دیتی ہےکہ قائد وہ ہے جو اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرے۔
 بحیثیت پاکستانی ہم  ایک جان لیوا مرض میں مبتلا ہیں۔ سب سے پہلے شناخت خطرے میں ہے کہ قوم ہیں یا ہجوم ،نہ صرف معاشی بلکہ اخلاقی طور پربھی دیوالیہ پن کی طرف گامزن۔ جس مسیحا کی طرف رجوع کیا اُس کی دوا نے بہتری کی بجائے ابتری کا سامان ہی پیدا کیا۔اب پھر دوا کی ایک خوراک ملنے والی ہے۔۔۔شاید فیصلہ ہمارا ہے یا پھرایک خوش فہمی ہمیشہ کی طرح۔ جو بھی ہے اب یہ دیکھنا ہے کہ اپنے آپ کو پُراُمید رکھتے ہوئے نئے عزم سے پھر وہی خوش رنگ دوا استعمال کی جائے جس کی پیکنگ مضبوط اور کمپنی مستند ہے۔۔۔ شاید اس بار وہ کوئی جادو دکھا دے یا پھر مایوسی کا شکار ہو کر اپنے آپ کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیں۔۔۔ کہ جب فنا ہی مقدر ہے تو کیا علاج کیا بھروسہ۔ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ اپنی قوت ِارادی کے بل بوتے پر اپنی دوا خود تجویز کریں کہ اب تو ہم بھی اپنا علاج کرنے کے قابل ہو چکے ہیں اور بخوبی جانتے ہیں کہ دوا کی تبدیلی ہی بہترین حل ہے۔بظاہر ان میں سے ہر فیصلہ درست اور منطقی ہے۔
لیکن ہم ایک بات بھول رہے ہیں کہ شفا اللہ کے پاس ہے۔ ہم تو شفا کےمعنی سے ہی واقف نہیں تو علاج کیا کریں گے۔ اور جب اللہ نے واضح کہہ دیا کہ جان بچانا افضل ہےچاہے جو بھی طریق ہو تو اللہ کے حُکم کے مطابق وہ دوا کیوں نہ استعمال کی جائے جس کی پیکنگ مستند نہیں جس کے خواص سے بھی ہم ناواقف ہیں اور جو اس سے پہلے استعمال بھی نہیں کی ۔یہ نہ سوچیں کہ یہ ہمارے دُکھوں کا مداوا ہے۔ بس یہ ذہن میں رہے کہ ہم نہیں جانتے شفا کیا ہے۔ شفا صرف ایک بیماری کے ختم  ہو جانے  میں ہے یا تمام بیماریوں سے نجات پا کر ہمیشہ کے سکون میں  ہے۔تو نئی دوا بھی یہ سوچ کر استعمال کریں کہ سابقہ دواؤں کے برعکس شاید آرام دے سکے۔ باقی رب کی رضا ہے کہ ہمارے لیے کیا بہتر ہے؟ اوراس دوا کا کیا ردِعمل ہو؟۔راز کی بات یہ ہے کہ ابھی حالات اُس نہج پر نہیں پہنچے کہ مردار کھانے کی نوبت آ جائے اس لیے بہتری کی اُمید رکھتے ہوئے یہ آخری بازی دل سے کھیلیں کہ ہارے بھی تو بازی مات نہیں۔نئی دوا جُگنو کی چمک کی مانند ہوتی ہے جو منزل کا پتہ تو نہیں دیتی پر ایک پل کو راستہ ضرور روشن کر دیتی ہے۔
" ووٹ کس کو دیں "
ووٹ یہ سوچ کر کبھی نہ دینا کہ شاید اس بارتبدیلی کی یہ لہر تمہیں بہا کر تخت تک لے جائے گی۔۔۔اونچے محلوں کے دروازے تمہارے لیے کُھل جائیں گے۔۔۔کلف لگے کپڑے پہنے، اکڑی گردنوں والے بڑے لوگ تمہیں ساتھ بٹھا کر کھانا کھلائیں گے۔۔۔ اپنی لمبی لمبی گاڑیوں میں ذرا سا سفر طے کرا دیں گے۔۔۔ تمہارے بچے اُن کے بچوں کےساتھ تعلیمی اداروں میں پڑھ سکیں گے۔۔۔ کبھی کوئی بڑا تمہارے گھر آ کر ایک وقت کی چٹنی روٹی کھائے گا ۔ یہ تبدیلی تمہارے دفتروں کے دھکے یا برسوں پرانے مقدمے  ختم  کرنے کے لیے نہیں۔ یہ نہ سوچنا کہ بوڑھے اب عزت سے پنشن وصول کریں گے۔۔۔ہسپتالوں میں وی آئی پیز کی طرح آؤبھگت ہو گی۔۔۔زندگی میں ایک بار   ہی کبھی  کسی عام شہری کو 
ہوائی جہازوں میں سفر نصیب ہو گا۔۔۔ایک فلاحی ریاست کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو گا۔
ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ پھر جب مایوسی ہی ہے تو کیا کریں چُپ کر کے اپنا تماشا دیکھیں۔۔۔اشرافیہ کو لعن طعن کر کے دل کا غبار نکالیں۔ نہیں ! اگر تبدیلی کا نعرہ ہے تو اُس پر یہ سوچ کر یقین کرلو کہ واقعی ہمیں تبدیلی چاہیے۔۔۔ نجات چاہیے ایک فرسودہ نظام سے۔ کسی نے تبدیلی کا نام تو لیا ہے۔۔۔نام کی حد تک انصاف کو اوّلیت تو ملی ہے۔۔اپنے وطن کے نام کو سربلند رکھنے کے عزم کا اظہار تو ہے۔
دھرتی ماں جس کی عزت وآبرو کی دھجیاں سالوں سے اُڑائی جارہی تھیں اور وہ سب بھلا کر پھر بھی اپنے بچوں کی سیوا میں لگی ہوئی تھی۔ جس کے کرم کا دستر خوان بہت وسیع ہے۔'اُس ماں' کی عظمت کا حق ادا کرنے کے لیے پہلا قدم تو اُٹھایا گیا ہے یہی بہت ہے۔ ہمارا کیا ہے۔۔۔ ہم تو چیونٹی کی طرح نسلوں سے محنت کیے جارہے ہیں۔۔۔ سو کرتے رہیں گے۔ بس ماں سلامت رہے وہ باقی تو ہمارا حوصلہ جوان۔

۔" ماں کے بغیر گھر قبرستان بن جاتا ہے اور دھرتی ماں کے بغیر گھر بن تو جاتے ہیں لیکن جیسے پانی پر بنے ڈانواں ڈول یا پھر فلک بوس ( سکائی سکریپرز) مٹی کے لمس سے ناآشنا"۔
آخری بات
فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے یا شاید فیصلہ کرنے کی خوش فہمی ۔جو بھی ہے ایک پل کوٹھہر کر اپنا فرض ضرور ادا کریں صرف وطن کی خاطر۔

1 تبصرہ:

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...