بدھ, مئی 06, 2015

کرنیں۔۔(2)۔۔محبت"

محبت روشنی ہے۔۔۔ اس کی تعریف بس یہی کہ روشنی کو کسی اور روشنی کی ضرورت نہیں ہوتی بقول شاعر ۔۔ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔لیکن جو روشنی اپنے وجود کو روشن نہ کر سکے وہ روشنی نہیں روشنی کا دھوکا یا محض سرابِ نظر ہی ہوا کرتی ہے۔
٭"کیا ہے محبت" ؟ اس کا جواب ہر ایک اپنی سمجھ کے مطابق دے گا اور ہر ایک کا جواب درست بھی ہو گا...۔کہ محبت ہر ایک پر اپنے انداز سے اترتی ہے... کوئی دے کر پا لیتا ہے اور کوئی پا کر بانٹ دیتا ہے۔ محبت صرف لین دین ہے۔۔کبھی انسان سے انسان کے درمیان ۔۔۔کبھی مخلوق اور خالق کے درمیان تو کبھی خالق سے مخلوق کے درمیان۔ اپنے خالق سے محبت کرو۔۔ وہ مخلوق کو تمہارے سامنے جھکا دے گا۔
٭محبت کی نہیں جاتی بس ہو جاتی ہے لیکن اس محبت کو سدا اپنے پاس اپنے ساتھ رکھنے کا ظرف کسی کسی کے پاس ہوتا ہے۔ ہم میں سے بہت سے تو محبت محبوب پر ایک احسان کے طور پر کرتے ہیں اور ویسی ہی گرم جوشی کی بےمعنی توقع بھی پال لیتے ہیں۔یہ جانے بغیر کہ دنیا کا کوئی بھی انسان محبت کا جواب دینے کا اہل نہیں.محبوب کا یہی تحفہ بہت کافی ہونا چاہیے کہ اس نے ہمیں دنیا کے اس سب سے سچے احساس کی مہک سے سرشار کیا جو ہر جذبے کی بنیاد ہے۔ 
٭محبت جسم وروح کے تال میل سے جڑا ایسا نغمہ ہے جو بسااوقات محبوب کی سمجھ میں بھی نہیں آتا۔ مُحب اپنی مستی میں اپنی دُنیا آپ تلاشتا ہے اور جیسا کہ وارث شاہ نے کہا کہ"رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی"۔ جسم کی محبت کے لیے ہزاروں تاویلات۔۔۔نفسیاتی تجزیے اور انسانی فطرت اور جبلت کے مستند دلائل دئیے جا سکتے ہیں لیکن روح کی روح سےاُنسیت ہر دلیل ہر تاویل اور ہر تجزیہ رد کر دیتی ہے۔بس اپنے من اپنی تنہائی میں اسے محسوس کرتی ہے۔لیکن یہ تنہائی جسم کی ناآسودگی کی طرح مایوسی پیدا نہیں کرتی بلکہ اپنی کائنات ِمحبت میں بلا شرکت غیرے ملکیت کا تفاخر پیدا کرتی ہے۔ محبوب کی ضرورت اور اس کے جواب سے آزاد کرتا محبت کا یہ جذبہ دُنیا میں انسان کو انسان کی طرف سے ملنے والا سب سے خوبصورت اور قیمتی تحفہ ہے۔۔۔جس کی روشنی اسے اپنی ذات کے حصار سے نکال کر کل عالم میں نمایاں کر دیتی ہے۔تنہائی سزا ضرور ہے پر صرف ان کے لیے جو اپنی ذات کے حصار میں قید ہو جائیں ۔انسان کو اللہ نے سوچ جیسی نعمت عطا کی ہے اس سے وہ ہر قید سے نجات پا سکتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اندر کی قید باہر کی آزادی پا کر بھی ختم نہیں ہوتی۔ یاد رکھو زندگی کی اصل خوشی تنہائی سے ہی نصیب ہوتی ہے۔ 
٭"محبتوں کےرشتوں کے نام نہیں... مقام ہوتے ہیں"اور ۔محبت کی اس خوشبو کا بھی کوئی نام نہیں ہوتا بس مقام ہوتا ہے۔۔۔کہیں دل میں ۔لیکن جس خوشبو کو ہم بےدھڑک سب کے سامنے کہہ سکیں۔ اس کو نام دے کر ہم اس کی تکریم کرنے کی ایک معمولی سی کوشش ضرور کر سکتے ہیں۔ بےمحابا محبت کے ساتھ بےغرض عزت محبت کی اصل حقیقت ہے۔۔۔عزت کی لذت صرف جسمانی احساس سے ہی مکمل ہوتی ہے چاہے وہ غارِحرا کی انجان تنہائی کی بات ہو یا سفر معراج کی نا قابل یقین ساعت ۔
٭محبت فرض نہیں بلکہ قرض بھی نہیں۔ محبتیں قرض کی صورت ملتی تو ہیں لیکن ہر کوئی اپنے ظرف کے مطابق انہیں ادا 
کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
٭ ایک دفعہ اعتراف محبت" آپ کو ایک طویل پل صراط پر چلنے سے نجات دے دیتا ہے۔ کوئی ہمارا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا 
اس کا فیصلہ ایک گھڑی میں ہو جاتا ہے اور ہم میں اپنا اصل پانے دیکھنے کی کتنی تاب ہے یہ بھی لمحوں میں طے ہو جاتا ہے۔ 
٭پیار کبھی اُلجھن نہیں بنتا بلکہ اُلجھے رشتے سنوار دیتا ہےشرط صرف ایک کہ اس کا سرا تلاش کر لو۔۔۔جو چیزتمہاری ہے وہ کسی اور کے کام کی بھی تو نہیں اب یہ تمہاری مرضی ہے اُسے جہاں چاہے رکھو۔۔۔" دل کے معبد میں یا زندگی کی اُلجھنوں کے سٹور میں"۔
٭تعلق آئینہ ہوتے ہیں جو ہمیں ہمارا اصل چہرہ دکھاتے ہیں اسی لیے ہم انہیں چھپا کر رکھتے ہیں کہ کہیں کسی اور کو یہ چہرہ نظر نہ آ جائے۔۔
٭محبت کی معراج اور اس کا خراج صرف آنکھ کا آنسو دے سکتا ہے۔ آنکھ کا وہ آنسو۔۔۔۔۔جو نہ صرف خالق کی قربت کا ثبوت ہے بلکہ اس کے بندے سے محبت کی چمک آنکھ میں آنسو کی نمی بن کر تیرنے لگتی ہے۔ آنسو اگر خالق سے وصال کی خواہش کا نام ہے تو اس کے بندے سے لمحہ بھر کا احساس مکمل زندگی کا ادھورا پن دے جاتا ہے۔
٭محبتیں چاہے جسم کی ہوں یا روح کی یا پھر علم کی اُن کو محسوس کرنے میں دیر نہیں کرنا چاہیے۔ یہ تتلی کی طرح ہوتی ہیں۔ پل میں اپنی چھپ دکھلا کر ہمیشہ کے لیے غائب ہو جاتی ہیں۔
٭محبت کبھی نہیں مرتی ۔ محبت کی خوش فہمی مر جاتی ہے۔ محبت ہر قسم کی توقع سے پاک ہوتی ہے ورنہ وہ محبت نہیں 
ضرورت یا ہوس ہے۔۔۔۔جو ہمیشہ دکھ دیتی ہے۔۔
٭ محبت  وہ خزانہ ہے جو یکساں طور پر سب کو ملے تو سَیری کی کیفیت پیدا ہوتی ہے ور نہ اگر کسی ایک پر ہی سارا لٹا دیا تو کوئی اس قابل نہیں ہوتا کہ اسے سہار سکے ۔اوربانٹے والا یوں تشنہ رہ جاتا ہے کہ دریاؤں کا پانی بھی اس کی پیاس نہیں بجھا سکتا ۔
٭ہر شے کا تضاد اس کا ساتھی ہے جو اس کی زندگی اور بقا کا ضامن بھی ہے۔ جیسےنفرت محبت۔۔۔یہ عجیب جڑواں بہنیں 
ہیں۔۔۔احساس کی ایک ہی کوکھ سے جنم لیتی ہیں۔۔۔ایک جیسا چہرہ رکھتی ہیں اور ہم ساری زندگی ان کی پہچان کی آنکھ مچولی کھیلتے رہتے ہیں۔ اللہ کے کرم سے آنکھ پر بندھی پٹی سرک جائے تو ان کے چہرے سے زیادہ اپنی نادانی شرمسار کر دیتی ہے۔ آنکھ کی نمی پل میں سب بھید کھول دیتی ہے۔اور محبت جیت جاتی ہے۔
٭انسان اپنی ذات اپنا وجود کبھی بھی کسی ایک کے ساتھ مکمل طور پر نہیں بانٹ نہیں سکتا ہاں اپنی صفات سب کے ساتھ بانٹی جا سکتی ہیں۔ اور رب کی ذات بلا شرکت غیرے سب اپنے پاس ۔۔۔اپنے ساتھ محسوس کرتے ہیں جبکہ وہ قادرِ مطلق اپنی صفات میں سے جس کو چاہے جو صفت عطا کردے۔
٭کہا جاتا ہے کہ رفاقت اور محبت کسی بھی کیسے بھی لمحے کو عذاب یا "گلاب" بنا دینے پر مکمل قادر ہے ۔۔۔۔درحقیقت یہ صرف سرابِ نظر ہے اور سب سے بہترین رفاقت اپنی ذات کی وسعت اور تنہائی ہے جس سے گھبرا کر ہم چھوٹی چھوٹی 
دنیاؤں میں چاہتیں اور رفاقتیں کھوجتے چلے جاتے ہیں۔ 
 ٭محبت انسان کا سنگھار ہے۔۔۔ماتھے کا وہ جھومر ہے جس کی چمک دیکھنے والی آنکھ کو مسحور کرتی ہے۔لیکن محبت کی عزت صاحبِ محبت پر فرض ہے۔ سونے چاندی کے زیور کی طرح جس نے اس محبت کو زمانے کی تو کیا اپنی نظر سے بھی بچا کر بھاری صندوقوں یا نامعلوم کوڈ والے لاکروں میں چھپا دیا وہ ہمیشہ ناآسودہ رہا۔جس نے اس محبت کو بانٹ دیا۔اس کی چمک مرتے دم تک روشنی بن کر دمکتی رہی۔محبت  کا زیور مال ومتاع کی صورت ہو یا علم کی مثل ہر حال میں دوسروں کے حوالے کر کے جانا پڑتا ہے۔ اپنی مرضی سے اپنی خوشی سے اپنی زندگی میں سب دے دو تو نہ صرف دوسروں کی آنکھ میں آسودگی کی چمک دیکھ لو گے بلکہ ایک بھاری بوجھ کے سرکنے سے راحت بھی محسوس کرو گے۔
!حرف آخر
اللہ ہم سب کو اپنی اپنی محبتوں کی پہچان عنایت کرے تاکہ ہم ابدی محبت کی خوشبو پانے کے قابل ہو سکیں۔
سال کے کسی بھی روز چاہے وہ ہمارا جنم دن ہو یا کوئی اور خوشی کا دن۔۔۔۔ یا پھر تنہائی اور مایوسی کی تپتی دوپہر۔ ہمیں ذرا دیر ٹھہر کر محبت کی خوشبو ضرور محسوس کرنا چاہیے۔نہ صرف اپنے آس پاس۔۔۔۔ بلکہ اپنے اندر بھی۔ وہ خوشبو جو غم روزگار یا گردش زمانہ کے دوران ہم سے دور ہوتی چلی جاتی ہےاور سخت جان بنا کر ہمیں بےحس کردیتی ہے۔

۔"دلوں کے احساس سانجھے ہوتے ہیں۔۔۔ بس اظہار کے انداز مختلف ۔۔۔ کسی کا آنسو کی صورت دِکھتا ہے تو کسی کا لفظ کی صورت اور کوئی دل میں جذب کر کے سب کی نظر سے بچا لیتا ہے لیکن ایسے دکھ کبھی روگ بھی بن جایا کرتے ہیں"۔


5 تبصرے:

  1. محبت کی خوشبو سے معطت خوبصورت کرنیں :)

    جواب دیںحذف کریں

  2. Akhtar Wasim Darسوموار, جنوری 18, 2016
    ۔۔۔۔ محبت کا لمس ھر شے کو جاودانی عطا کر دیتا ھے۔۔۔۔ اور نفرت کی اک نگاہ متحرک اور زندہ شے کو بھی بھسم کر دیتی ھے۔۔۔۔ محبت سورج کی کرنوں کی مانند ھے اور نفرت آگ کے شعلوں کی طرح۔۔۔۔۔ دونوں کے لمس میں حدت ھے لیکن دونوں کا اثر بالکل الگ۔۔۔۔۔۔
    http://noureennoor.blogspot.com/2016/01/Turmeric-haldi-growm-at-home.html

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات

    1. Noureen Tabassumسوموار, جنوری 18, 2016
      آپ نے محبت اور نفرت کی بہت اچھی مثال دی ۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ محبت ہو یا نفرت سارا کھیل "توازن" کا ہے، جو گر ذرا سا بھی بگڑ جائے تو زندگی بخش ساتھ زندگی چھین بھی لیتا ہے۔
      http://noureennoor.blogspot.com/2016/01/Turmeric-haldi-growm-at-home.html

      حذف کریں

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...