عقائدومذاہب کے فلسفے سے قطع نظر دُنیا کا ہر انسان دل میں ضرور اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ انسان صرف ایک بار ہی جنم لیتا ہے اور پھر ایک بار ہی کبھی واپس نہ آنے کے لیے مر بھی جاتا ہے۔اس آنے جانے میں گر اُس کی مرضی کا کوئی دخل نہیں تو درمیانی مدت پر بھی اس کا بس نہیں چلتا۔مرد ہو یا عورت سب بلاتخصیص اس فارمولے پر پورا اُترتے ہیں لیکن عورت جب ماں بنتی ہے تووہ ایک طرح سے اس کا نیا جنم ہی ہے۔دُنیا میں آنے والا بچہ اگر اپنی نئی زندگی کا آغاز کرتا ہے تو ماں کا روپ عورت کی ایک نئی شناخت ہے اس کے دوسرے حوالے سب کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں۔بعد کی بات ہے کہ وہ اپنے آپ کو کہاں تک اس رشتے کا اہل ثابت کرتی ہےیا فرار کی راہیں تلاش کرتی ہے۔وہ رشتہ جو اس کے وجود کا اٹوٹ انگ ہےاس سے فرار کا فریب تو کھایا جا سکتا ہے جبکہ حقیقت میں ایسا ممکن نہیں۔
ماں بننے کے عمل کے دوران نہ صرف اس کے جسمانی خدوخال یکسر بدل جاتے ہیں بلکہ نومولود کی طرح اُس کے ذہن کی سلیٹ بھی بالکل کوری ہوتی ہے۔پچھلے تمام نقش،سارا علم وفضل بلکہ تمام تر جہالت بھی کن فیکون" کے فیصلے کے بعد پلک جھپکتے غائب ہو جاتی ہے۔یہ نئے جنم کی کھلی کہانی اتنی پوشیدہ اتنی پُراسرار ہوتی ہے کہ دیکھنے والے تو دور کی بات عورت کو خود بھی اس کا ادراک نہیں ہو پاتا۔ایک کٹر بنیاد پرست کی طرح وہ اپنے ایک ہی جنم کے عقیدے سے پیچھے نہیں ہٹتی۔ ظاہری نشانیوں سے کچھ کچھ اُلجھتے ہوئے اور شرمندگی اور خفت کے احساس کوچھپاتے ہوئے وہ آخری حد تک اپنے پہلے جنم کو فوقیت دینا چاہتی ہے۔شاید بچے کے اس کے جسم سے الگ ہو کر سانس لینے کے بعد واقعی عورت کی روح پہلے والے وجود میں واپس آجاتی ہے۔عجیب بات ہے کہ بچہ مکمل شناخت ہو کر بھی اپنے حصے کے رزق کے لیے اس کی طرف دیکھتا ہے اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اسے دینے کی پابند ہو جاتی ہے کہ دُنیا کے پاک اور شفاف ترین رزق کی یہ سرسراہٹ اُسے کسی کل چین نہیں لینے دیتی۔
خالقِ کائنات کے ودیعت کردہ وصف کے بعد عورت ماں بن کر بچے کو اپنی آغوش میں لیتی ہے تو اُس کا ایک نیا رنگ سامنے آتاہے۔۔۔وہ روپ جس سے وہ خود بھی ناواقف ہوتی ہے۔ماں دنیا کے کسی حصے میں ہو، اس رشتے کے تقدس سے کتنی ہی دُور کیوں نہ ہو،چاہے وہ خود بھی اس جذبے کو نہ پہچانتی ہو، شعوری طور پراس سے انکار بھی کرتی ہو لیکن مامتا کا جذبہ سانجھا ضرور ہوتا ہے۔
ماں اور بچے کا بھی عجیب تعلق ہے۔ بچے کی پہلی سانس کی ڈور ماں کے لمس سے جُڑی ہےتو بچہ ہر ہر سانس میں ماں کو دیکھتا ہے اس کی دنیا ماں سے شروع ہو کر ماں پر ہی ختم ہوتی ہے۔ جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا جاتا ہے دنیا اس کے سامنے پر پھیلانے لگتی ہے اور ماں کا وجود ڈھلتے سائے کی مانند دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ ماں اسے چھوڑ کر چلی جاتی ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ماں کا وجود ایک غیرمرئی پیکر میں ڈھل جاتا ہے۔۔۔ایک ایسا پرزہ جو ماہ وسال کی مشین میں آراستہ کر دیا گیا اور اب ایک خودکار نظام کے تحت اپنا کام جاری رکھتا ہے۔ چاہے کوئی مخالفت میں وزنی دلائل ہی کیوں نہ دے لیکن یہ اٹل حقیقت ہے کہ بچہ جیسے ہی گود سے اترتا ہے دنیا کی رنگینی اور ہماہمی اسے آگے سے آگے سفر پر مجبور کر دیتی ہے، یوں جیسے کہ اس کے پاؤں میں پہیے لگ جاتے ہیں،ایک بےچینی اس کی روح میں گھر کر لیتی ہے اور وہ تلاش کے سفر پر نکل جاتا ہے۔دوسری طرف ماں جس کی زندگی کے سب رنگ اس نقش کو تصویر کرنے کی نذر ہو جاتے ہیں اور سچ تو یہی ہے کہ دنیا کی کسی قسم کی ترغیب اور آرائش اس کے وجود سے وہ نشان نہیں مٹا سکتی۔عام انسان کی طرح ماں بھی رفعتوں کےان دیکھے آسمان چھونے کی خواہشوں میں اپنے مدار سے نکلنے کی لاحاصل جستجو کا شکار ہوجاتی ہے۔۔۔ اپنی ذات کی پہچان کے لیے دنیا سے اپنا حصہ لینے کے لیے بہت دوڑبھاگ کرتی ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ وہ اس تعلق سے دامن چھڑا بھی لے اور عزت وترقی کے بامِ عروج کو چھو بھی جائے پراس کے دل کی دنیا وہیں ٹھہر جاتی ہے جہاں اس ساتھ سے راہِ فرار اختیار کی تھی۔انتہائی نادان ہے وہ عورت جو اپنے اس روپ کو نہیں پہچانتی اور شش وپنج کی کیفیت اُسے زندگی کے ہر رشتے پر اعتبار واعتماد سے محروم رکھتی ہے۔
حرفِ آخر
ماں عورت کے وجود پر تقدیر کے ان منٹ قلم سے ثبت ہونے والی ایسی مہر ہے جس سےاس محدود فانی عمر میں بری الذمہ ہوا جا سکتا ہے اور نہ ہی ابدی لامحدود زندگی میں کنارہ کشی ممکن ہے۔ اللہ ہم سب کو علم وعقل کے ساتھ بروقت عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
ماں بننے کے عمل کے دوران نہ صرف اس کے جسمانی خدوخال یکسر بدل جاتے ہیں بلکہ نومولود کی طرح اُس کے ذہن کی سلیٹ بھی بالکل کوری ہوتی ہے۔پچھلے تمام نقش،سارا علم وفضل بلکہ تمام تر جہالت بھی کن فیکون" کے فیصلے کے بعد پلک جھپکتے غائب ہو جاتی ہے۔یہ نئے جنم کی کھلی کہانی اتنی پوشیدہ اتنی پُراسرار ہوتی ہے کہ دیکھنے والے تو دور کی بات عورت کو خود بھی اس کا ادراک نہیں ہو پاتا۔ایک کٹر بنیاد پرست کی طرح وہ اپنے ایک ہی جنم کے عقیدے سے پیچھے نہیں ہٹتی۔ ظاہری نشانیوں سے کچھ کچھ اُلجھتے ہوئے اور شرمندگی اور خفت کے احساس کوچھپاتے ہوئے وہ آخری حد تک اپنے پہلے جنم کو فوقیت دینا چاہتی ہے۔شاید بچے کے اس کے جسم سے الگ ہو کر سانس لینے کے بعد واقعی عورت کی روح پہلے والے وجود میں واپس آجاتی ہے۔عجیب بات ہے کہ بچہ مکمل شناخت ہو کر بھی اپنے حصے کے رزق کے لیے اس کی طرف دیکھتا ہے اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اسے دینے کی پابند ہو جاتی ہے کہ دُنیا کے پاک اور شفاف ترین رزق کی یہ سرسراہٹ اُسے کسی کل چین نہیں لینے دیتی۔
خالقِ کائنات کے ودیعت کردہ وصف کے بعد عورت ماں بن کر بچے کو اپنی آغوش میں لیتی ہے تو اُس کا ایک نیا رنگ سامنے آتاہے۔۔۔وہ روپ جس سے وہ خود بھی ناواقف ہوتی ہے۔ماں دنیا کے کسی حصے میں ہو، اس رشتے کے تقدس سے کتنی ہی دُور کیوں نہ ہو،چاہے وہ خود بھی اس جذبے کو نہ پہچانتی ہو، شعوری طور پراس سے انکار بھی کرتی ہو لیکن مامتا کا جذبہ سانجھا ضرور ہوتا ہے۔
ماں اور بچے کا بھی عجیب تعلق ہے۔ بچے کی پہلی سانس کی ڈور ماں کے لمس سے جُڑی ہےتو بچہ ہر ہر سانس میں ماں کو دیکھتا ہے اس کی دنیا ماں سے شروع ہو کر ماں پر ہی ختم ہوتی ہے۔ جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا جاتا ہے دنیا اس کے سامنے پر پھیلانے لگتی ہے اور ماں کا وجود ڈھلتے سائے کی مانند دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ ماں اسے چھوڑ کر چلی جاتی ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ماں کا وجود ایک غیرمرئی پیکر میں ڈھل جاتا ہے۔۔۔ایک ایسا پرزہ جو ماہ وسال کی مشین میں آراستہ کر دیا گیا اور اب ایک خودکار نظام کے تحت اپنا کام جاری رکھتا ہے۔ چاہے کوئی مخالفت میں وزنی دلائل ہی کیوں نہ دے لیکن یہ اٹل حقیقت ہے کہ بچہ جیسے ہی گود سے اترتا ہے دنیا کی رنگینی اور ہماہمی اسے آگے سے آگے سفر پر مجبور کر دیتی ہے، یوں جیسے کہ اس کے پاؤں میں پہیے لگ جاتے ہیں،ایک بےچینی اس کی روح میں گھر کر لیتی ہے اور وہ تلاش کے سفر پر نکل جاتا ہے۔دوسری طرف ماں جس کی زندگی کے سب رنگ اس نقش کو تصویر کرنے کی نذر ہو جاتے ہیں اور سچ تو یہی ہے کہ دنیا کی کسی قسم کی ترغیب اور آرائش اس کے وجود سے وہ نشان نہیں مٹا سکتی۔عام انسان کی طرح ماں بھی رفعتوں کےان دیکھے آسمان چھونے کی خواہشوں میں اپنے مدار سے نکلنے کی لاحاصل جستجو کا شکار ہوجاتی ہے۔۔۔ اپنی ذات کی پہچان کے لیے دنیا سے اپنا حصہ لینے کے لیے بہت دوڑبھاگ کرتی ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ وہ اس تعلق سے دامن چھڑا بھی لے اور عزت وترقی کے بامِ عروج کو چھو بھی جائے پراس کے دل کی دنیا وہیں ٹھہر جاتی ہے جہاں اس ساتھ سے راہِ فرار اختیار کی تھی۔انتہائی نادان ہے وہ عورت جو اپنے اس روپ کو نہیں پہچانتی اور شش وپنج کی کیفیت اُسے زندگی کے ہر رشتے پر اعتبار واعتماد سے محروم رکھتی ہے۔
حرفِ آخر
ماں عورت کے وجود پر تقدیر کے ان منٹ قلم سے ثبت ہونے والی ایسی مہر ہے جس سےاس محدود فانی عمر میں بری الذمہ ہوا جا سکتا ہے اور نہ ہی ابدی لامحدود زندگی میں کنارہ کشی ممکن ہے۔ اللہ ہم سب کو علم وعقل کے ساتھ بروقت عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
بہت پُرمغز اور خوبصورت لکھا ہے ۔ ماشاء اللہ آپ ہمیشہ ہی پُرمغز اور خوبصورت لکھتی ہیں اسی لئے میں تبصرہ کرنے میں کنجوسی کرتا ہوں لیکن لفظ ”ماں“ نظر آ جائے تو میں ایک کمزور بچہ بن جاتا ہوں ۔ اور میرے ہاتھ از خود چلنے لگتے ہیں ۔ انتہائی بدقسمت ہے وہ مرد جس نے ماں کی عظمت بلکہ عورت کی عظمت کو نہ سمجھا ۔ عورت بطور ماں ۔ بہن بیوی اور بیٹی ایک ایسا تحفہ ہے کہ جس نے اس کی قدر نہ کی میرے نظریہ کے مطابق وہ خوار ہوا ۔ مجھے نہیں یاد کہ 8 سال اور بعد کی عمر میں کبھی میری ماں نے مجھے چُوما ہو یا گود میں بٹھایا ہو لیکن جوان ہو کر بھی اور بچوں کا باپ بن کر بھی میں نے ہر دم محسوس کیا وہ زبان جس نے میرے سامنے میری کبھی تعریف نہ کی اُس کا دل میرے ساتھ دھڑکتا تھا ۔
جواب دیںحذف کریںبہت خوب لکھا
جواب دیںحذف کریںیہ میری پوسٹ "مامتا" کی تائید ہوئی
سدا مسکرائیں
"عورت چاہے ماں ہے یا بیوی۔۔۔ وہ کبھی بھی ناقدری کا آسیب خود پر مسلط نہ ہونے دے۔۔۔اولاد کی طرف سے یا شوہر کی طرف سے۔ کہ اس کا سراسر نقصان اس کی اپنی ذات کو پہنچتا ہے "
جواب دیںحذف کریںیہ بہت اھم بنیادی اور کمال کی بات کی ھے
"جوتی"
حذف کریںhttp://noureennoor.blogspot.com/2014/01/Aurat.html