دانہ دانہ دانائی ازمحمد احسن
پہلی کتاب۔۔۔پہلا لفظ ۔۔۔پہلے جملے اور پہلا خیال ۔۔۔
صفحہ 19۔۔۔۔
ایک بات۔۔۔سمجھنے والی بات۔۔۔سمجھ میں تو آ جاتی ہے مگر لازمی نہیں کہ دل میں بھی اُتر جائے۔ دل کی بات۔۔۔ دل میں تو اُتر جاتی ہے مگر لازمی نہیں کہ سمجھ میں بھی آ جائے ۔
دانہ دانہ دانائی میں درج مصنف نوٹ سےاقتباس ۔۔۔
جس طرح ایک چھوٹا سا دانہ اپنے اندر ایک پرشکوہ شجر کا مستقبل رکھتا ہے.. بلکہ پورے گلستان کا مستقبل رکھتا ہے.. اور اگر یوں کہا جائے کہ ایک دانے سے پورے سیارہْ زمین پر جنگلات کا نظام قائم کیا جا سکتا ہے تو غلط نہ ہو گا. ایسے ہی ہر خیال اپنے اندر دانائی کا مستقبل رکھتا ہے.. جو پنہاں رہتا ہے..مگر کیفیت طاری ہو جانے سے وہ خیال اپنا راز اُگل دیتا ہے.. علم وحکمت غرضیکہ دانائی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے.. اور پھر دانائی کہاں تک لے کر جا سکتی ہے؟ خدا جہاں تک چاہے.. اور جب خدا کی چاہت شامل ہو جائے تو بعض دفعہ وہ خود بھی بندے سے پوچھ لیتا ہے کہ.. بتا تیری رضا کیا ہے؟
دانہ دانہ دانائی... ایسے ہی خیالات و کیفیات کا مجموعہ ہے۔.
اِس کتاب کا کوئی موضوع نہیں... اور یہی اِس کا موضوع ہے. اِس کتاب میں عنوانات کو کسی بھی طرح اقسام میں ترتیب نہیں دیا گیا.. یہی اِس کی ترتیب ہے. جِس طرح غیر منقسم خیالات کا آنا جانا یا تانا بانا.. مختلف متنوع کیفیات کا طاری ہو جانا.. زندگی ہے.. اِسی طرح یہ کتاب ہے.. لہذا زندگی کی علامت ہے. جیسے جیسے اور جہاں جہاں مجھے دانے ملتے گئے، میں اُنہیں چُنتا گیا.. سنبھالتا گیا.. کبھی گھر میں تو کبھی سفر میں.. کبھی بازار میں تو کبھی قبرستان میں.. کبھی شادی میں تو کبھی مرگ میں.. اور کبھی شادئ مرگ میں.. کبھی دوستوں کے درمیاں تو کبھی تنہائئ سحر میں.. اور کبھی خوابوں میں۔اِک ذخیرہ بن گیا۔
پہلی کتاب۔۔۔پہلا لفظ ۔۔۔پہلے جملے اور پہلا خیال ۔۔۔
صفحہ 19۔۔۔۔
ایک بات۔۔۔سمجھنے والی بات۔۔۔سمجھ میں تو آ جاتی ہے مگر لازمی نہیں کہ دل میں بھی اُتر جائے۔ دل کی بات۔۔۔ دل میں تو اُتر جاتی ہے مگر لازمی نہیں کہ سمجھ میں بھی آ جائے ۔
دانہ دانہ دانائی میں درج مصنف نوٹ سےاقتباس ۔۔۔
جس طرح ایک چھوٹا سا دانہ اپنے اندر ایک پرشکوہ شجر کا مستقبل رکھتا ہے.. بلکہ پورے گلستان کا مستقبل رکھتا ہے.. اور اگر یوں کہا جائے کہ ایک دانے سے پورے سیارہْ زمین پر جنگلات کا نظام قائم کیا جا سکتا ہے تو غلط نہ ہو گا. ایسے ہی ہر خیال اپنے اندر دانائی کا مستقبل رکھتا ہے.. جو پنہاں رہتا ہے..مگر کیفیت طاری ہو جانے سے وہ خیال اپنا راز اُگل دیتا ہے.. علم وحکمت غرضیکہ دانائی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے.. اور پھر دانائی کہاں تک لے کر جا سکتی ہے؟ خدا جہاں تک چاہے.. اور جب خدا کی چاہت شامل ہو جائے تو بعض دفعہ وہ خود بھی بندے سے پوچھ لیتا ہے کہ.. بتا تیری رضا کیا ہے؟
دانہ دانہ دانائی... ایسے ہی خیالات و کیفیات کا مجموعہ ہے۔.
اِس کتاب کا کوئی موضوع نہیں... اور یہی اِس کا موضوع ہے. اِس کتاب میں عنوانات کو کسی بھی طرح اقسام میں ترتیب نہیں دیا گیا.. یہی اِس کی ترتیب ہے. جِس طرح غیر منقسم خیالات کا آنا جانا یا تانا بانا.. مختلف متنوع کیفیات کا طاری ہو جانا.. زندگی ہے.. اِسی طرح یہ کتاب ہے.. لہذا زندگی کی علامت ہے. جیسے جیسے اور جہاں جہاں مجھے دانے ملتے گئے، میں اُنہیں چُنتا گیا.. سنبھالتا گیا.. کبھی گھر میں تو کبھی سفر میں.. کبھی بازار میں تو کبھی قبرستان میں.. کبھی شادی میں تو کبھی مرگ میں.. اور کبھی شادئ مرگ میں.. کبھی دوستوں کے درمیاں تو کبھی تنہائئ سحر میں.. اور کبھی خوابوں میں۔اِک ذخیرہ بن گیا۔
محمد احسن۔۔۔
تاریخ،پیدائش۔۔۔24 مئی 1979
بمقام۔۔۔راولپنڈی
کتاب تعارف۔۔
٭1)دانہ دانہ دانائی۔201
٭2)انگلستان کے سو رنگ۔۔2013
احوالِ سفر۔۔2004 تا 2008
2013٭3)دیوسائی میں ایک رات۔۔
سفر کیا ۔۔جون 2013
٭4)نیوٹن۔۔۔ایک پُراسرار سائنسدان
تاریخ،پیدائش۔۔۔24 مئی 1979
بمقام۔۔۔راولپنڈی
کتاب تعارف۔۔
٭1)دانہ دانہ دانائی۔201
٭2)انگلستان کے سو رنگ۔۔2013
احوالِ سفر۔۔2004 تا 2008
2013٭3)دیوسائی میں ایک رات۔۔
سفر کیا ۔۔جون 2013
٭4)نیوٹن۔۔۔ایک پُراسرار سائنسدان
(مترجم واضافہ:محمد احسن)
۔۔اشاعت ۔4دسمبر 2014
۔۔اشاعت ۔4دسمبر 2014
٭5)چولستان میں ایک رات
سفرنامہ۔۔پنجاب،چولستان
سفر کیا۔۔۔۔ اپریل 2015
۔۔۔۔۔۔۔
انتسابِ کُتب ۔۔۔
٭1) دانہ دانہ دانائی ۔۔
ربِ ذوالجلال کے نام
کائنات جس کا خیال ہے ۔۔۔۔
اور وہ جو منبۂ خیال ہے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
٭2)انگلستان کے سو رنگ
امی جان کےنام
جنہوں نے مجھے آپے سے باہر کر کے
اِک کائنات میں دھکیل دیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔
٭3)دیوسائی میں ایک رات۔۔۔
میرے بابا
چیف میرین اِنجینئر محمد انور کے نام
اور اُن سمندروں کے نام
جن میں اُنہوں نے اپنی پوری زندگی گزار دی
۔۔۔۔
٭4)چولستان میں ایک رات
"اِک کائنات کے نام.. اِک کائنات کی جانب سے
سفرِ دشت….. سفرِ رُوح…..سفرِ کائنات
صحرا…فنائے لیلیٰ قَیس کی شبِ فراق کی علامت ہیں… یہ پیاسے بھی ہوتے ہیں… سراب بھی دکھاتے ہیں… اور سیراب بھی کر جاتے ہیں…خوبصورت چہرہ ہو، دریا ہو یا کسی شہر و بیابان کا حْسن، دونوں آوارہ گرد بناتے ہیں،محبوب کا ہر رْخ محبوب ہی ہوتا ہے…اور محبوب کا سایہ.. اور محبوب کی خوشبو جو کسی اورسے آ رہی ہو…
صحرا کشش رکھتے ہیں…ان کی راتیں سرد ہوتی ہیں.. چاندنی راتوں میں ریت کے ذرات چمکتے ہیں… اور اندھیری راتوں میں اِک کائنات مائل بہ وصل ہوتی ہے اور بے حجاب کائنات کیا ہوتی ہے؟
خدا نے پیغمبری عطا کرنے سے پہلے شہزاہ مصر موسیٰ کو صحرائے سِینا میں دھکیل دیا تھا… پھر اُن سے کوہ پیمائی بھی کروائی.. تب جلوہ طور نصیب ہوا…غارِ حرا کی کہانی بھی مختلف نہیں…وہ بھی ایک بندہ صحرائی و کوہستانی کی داستان ہے۔ کچھ تو ایسا ہے، بیابانوں میں جو شہروں میں نارمل زندگی بسر کرنے والوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں…
بظاہر صحرا نارمل زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہوتے ہیں مگر صحراوئں میں زندگی بہت پراسرار طریقوں سے موجود رہتی ہے۔صحرا کی رات مسافرِ شَب پر کیسی بِیتتی ہے؟ واصف علی واصف کہتے ہیںکہ’’شب بیدار صرف رات میں بیدار رہنا جانتا ہے، باقی کام رات خود کرتی ہے۔‘‘ اور اگر یہ رات صحرائے چولستان میں گزاری گئی ہو تو…؟ قصہ مختصر، یہ داستانِ لیلیٰ مجنوں ہے۔
کوہ نوَردوں کی ایک ٹِیم شمال کے کوہستانوں کی بجائے جہلم و راوی و چناب کے پار جنوب کے اِک صحرا میں جا پہنچتی ہے… صحرائی بستیوں کی خاک چھانتی ہے… اپنی خاک کو پہچاننے کی کوشش کرتی ہے… اَن دیکھی سمتوں میں جذب ہوتی ہے… اور تب ’’چولستان میں ایک رات‘‘ تخلیق ہوتی ہے۔یہ سفرنامہ اِسی کی رومانوی داستان ہے۔
٭5) نیوٹن… ایک پراسرار سائنسدان
سفرنامہ۔۔پنجاب،چولستان
سفر کیا۔۔۔۔ اپریل 2015
۔۔۔۔۔۔۔
انتسابِ کُتب ۔۔۔
٭1) دانہ دانہ دانائی ۔۔
ربِ ذوالجلال کے نام
کائنات جس کا خیال ہے ۔۔۔۔
اور وہ جو منبۂ خیال ہے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
٭2)انگلستان کے سو رنگ
امی جان کےنام
جنہوں نے مجھے آپے سے باہر کر کے
اِک کائنات میں دھکیل دیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔
٭3)دیوسائی میں ایک رات۔۔۔
میرے بابا
چیف میرین اِنجینئر محمد انور کے نام
اور اُن سمندروں کے نام
جن میں اُنہوں نے اپنی پوری زندگی گزار دی
۔۔۔۔
٭4)چولستان میں ایک رات
"اِک کائنات کے نام.. اِک کائنات کی جانب سے
سفرِ دشت….. سفرِ رُوح…..سفرِ کائنات
صحرا…فنائے لیلیٰ قَیس کی شبِ فراق کی علامت ہیں… یہ پیاسے بھی ہوتے ہیں… سراب بھی دکھاتے ہیں… اور سیراب بھی کر جاتے ہیں…خوبصورت چہرہ ہو، دریا ہو یا کسی شہر و بیابان کا حْسن، دونوں آوارہ گرد بناتے ہیں،محبوب کا ہر رْخ محبوب ہی ہوتا ہے…اور محبوب کا سایہ.. اور محبوب کی خوشبو جو کسی اورسے آ رہی ہو…
صحرا کشش رکھتے ہیں…ان کی راتیں سرد ہوتی ہیں.. چاندنی راتوں میں ریت کے ذرات چمکتے ہیں… اور اندھیری راتوں میں اِک کائنات مائل بہ وصل ہوتی ہے اور بے حجاب کائنات کیا ہوتی ہے؟
خدا نے پیغمبری عطا کرنے سے پہلے شہزاہ مصر موسیٰ کو صحرائے سِینا میں دھکیل دیا تھا… پھر اُن سے کوہ پیمائی بھی کروائی.. تب جلوہ طور نصیب ہوا…غارِ حرا کی کہانی بھی مختلف نہیں…وہ بھی ایک بندہ صحرائی و کوہستانی کی داستان ہے۔ کچھ تو ایسا ہے، بیابانوں میں جو شہروں میں نارمل زندگی بسر کرنے والوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں…
بظاہر صحرا نارمل زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہوتے ہیں مگر صحراوئں میں زندگی بہت پراسرار طریقوں سے موجود رہتی ہے۔صحرا کی رات مسافرِ شَب پر کیسی بِیتتی ہے؟ واصف علی واصف کہتے ہیںکہ’’شب بیدار صرف رات میں بیدار رہنا جانتا ہے، باقی کام رات خود کرتی ہے۔‘‘ اور اگر یہ رات صحرائے چولستان میں گزاری گئی ہو تو…؟ قصہ مختصر، یہ داستانِ لیلیٰ مجنوں ہے۔
کوہ نوَردوں کی ایک ٹِیم شمال کے کوہستانوں کی بجائے جہلم و راوی و چناب کے پار جنوب کے اِک صحرا میں جا پہنچتی ہے… صحرائی بستیوں کی خاک چھانتی ہے… اپنی خاک کو پہچاننے کی کوشش کرتی ہے… اَن دیکھی سمتوں میں جذب ہوتی ہے… اور تب ’’چولستان میں ایک رات‘‘ تخلیق ہوتی ہے۔یہ سفرنامہ اِسی کی رومانوی داستان ہے۔
٭5) نیوٹن… ایک پراسرار سائنسدان
(مترجم واضافہ: محمد احسن)
”آئزک نیوٹن… ایک پراسرار سائنسدان“
یہ کتاب اصل میں نیوٹن کی ظاہری اور پوشیدہ زندگی کے بارے میں لکھی گئی ایک مستند انگریزی کتاب کا اردو ترجمہ ہے جسے میں نے اپنے رنگ میں لکھا ہے۔ میں نے بہت سوچ سمجھ کر نیوٹن پر کام شروع کیا۔ جو احباب میری دوسری کتب کے انداز اور رموز سے آگاہ ہیں، وہ نیوٹن کی شخصیت کو بھی اُسی کھوج میں مبتلا پائیں گے جس کھوج میں ناچیز عرصہ دراز سے مبتلا ہے۔ نیوٹن معمولی انسان ہرگز نہیں، وہ دنیا بھر میں سب سے مشہور سائنسدان ہے اور اُس کی ریاضی اب بھی دنیائے سائنس پر راج کرتی ہے۔ آئن سٹائن نے نیوٹن کو اپنا مہا گرو مانا۔ نیوٹن نے اپنی تنہائیوں میں وہ کچھ پا لیا جسے تقریباً نروان ہی سمجھنا چاہیے… اب وہ کیا تھا، کتاب پڑھ کر اندازا ہو گا…محمد احسن۔۔ 4 دسمبر 2014
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد احسن کی تحاریر پڑھتے ہوئے میرا احساس از نورین تبسم۔۔۔۔
کائناتِ رب العالمین کا ایک بےوقعت ذرّہ ہونے کے باوجود انسان کو اشرف المخلوق کا شرف عطا کیا گیا۔اس شرف کی پہچان ہر انسان کا نصیب نہیں اور جسے اس پہچان کا علم عطا ہو جائے وہ اسے عیاں کرنے کا مجاز نہیں۔
عام انسان کے لیے اپنی پہچان اور اپنے اصل کی تلاش کے سفر پر نکلنا شرفِ انسانیت کی راہ کا پہلا قدم ہے۔ وہ سفر جس کے پہلے قدم پہلی منزل کی روشنی روز روشن کی طرح سب کو دکھانے کی نہ صرف اجازت اور تاکید ہے بلکہ اپنی اہلیت اور دائرۂ کار کے اندر رہتے ہوئے فرض بھی ہے۔۔۔ایسا فرض روح کی زکوٰاۃ کی مثل ہے تو کسی کی پیاس جانے بنا۔۔۔ فخروتکبر سے دور رہتے ہوئے سیراب کرنے کا قرض بھی ہے۔جو اگر وقت پر ادا نہ کیا جائے تو بہتا چشمہ ٹھہرے پانی کی ایسی بدبودار دلدل میں بدل جاتا ہے جس پر دکھائی دینے والے کنول رنگ سرابِ نظر کے سوا کچھ بھی نہیں۔
تلاش کے سفر میں قدم قدم پر راہ بر ملتے ہیں۔۔۔انسان اپنے جیسے انسان کی قربت سے سکون پاتا ہے اور اس کے لفظ سے روشنی حاصل کرتا ہے۔ہر بار یوں لگتا ہے کہ بس اب اس سے آگےاور کچھ نہیں۔۔۔کوئی نہیں ۔ لیکن ہوتا یوں ہے کہ پانے کے بعد تشنگی مزید بڑھ جاتی ہے۔ بقول غالب
چلتا ہوں تھوڑی دُور ہر اک تیز رَو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہُوں ابھی راہ بر کو مَیں
برسوں انسانی فطرت کے کچے پکے رنگوں میں بھٹکتے۔۔۔دن اور رات کے اسراروں سے اُلجھتے۔۔۔روحانیت اور تصوف کی بھول بھلیوں میں بقدر ظرف دانائی کے موتی چنتے ہوئے اچانک ایک نام ایک کردار نے اپنی طرف متوجہ کیا۔ تینتیس سال کی عمر میں اپنے احساسات اور تجرباتِ زندگی کو کتابی شکل میں محفوظ کرنے والے محمد احسن کی سال 2013 کے اواخر میں ایک ساتھ تین کتابیں شائع ہوئیں ۔۔۔
۔"انگستان کے سو رنگ،دیوسائی میں ایک رات اور دانہ دانہ دانائی "۔
ان میں سے ایک کتاب "انگلستان کے سو رنگ"کا پہلا ایڈیشن 2012 میں"کائنات" کےعنوان سے شائع ہوا۔چارسو صفحات کی اس کتاب میں تقریباً نو برس پہلے کی یاداشتیں اور بیش قیمت احساسات وجذبات رقم ہیں۔۔۔فاضل مصنف کے مطابق چالیس دن کی قلیل مدت میں لکھی اور اسی برس چھپ گئی۔
”آئزک نیوٹن… ایک پراسرار سائنسدان“
یہ کتاب اصل میں نیوٹن کی ظاہری اور پوشیدہ زندگی کے بارے میں لکھی گئی ایک مستند انگریزی کتاب کا اردو ترجمہ ہے جسے میں نے اپنے رنگ میں لکھا ہے۔ میں نے بہت سوچ سمجھ کر نیوٹن پر کام شروع کیا۔ جو احباب میری دوسری کتب کے انداز اور رموز سے آگاہ ہیں، وہ نیوٹن کی شخصیت کو بھی اُسی کھوج میں مبتلا پائیں گے جس کھوج میں ناچیز عرصہ دراز سے مبتلا ہے۔ نیوٹن معمولی انسان ہرگز نہیں، وہ دنیا بھر میں سب سے مشہور سائنسدان ہے اور اُس کی ریاضی اب بھی دنیائے سائنس پر راج کرتی ہے۔ آئن سٹائن نے نیوٹن کو اپنا مہا گرو مانا۔ نیوٹن نے اپنی تنہائیوں میں وہ کچھ پا لیا جسے تقریباً نروان ہی سمجھنا چاہیے… اب وہ کیا تھا، کتاب پڑھ کر اندازا ہو گا…محمد احسن۔۔ 4 دسمبر 2014
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد احسن کی تحاریر پڑھتے ہوئے میرا احساس از نورین تبسم۔۔۔۔
کائناتِ رب العالمین کا ایک بےوقعت ذرّہ ہونے کے باوجود انسان کو اشرف المخلوق کا شرف عطا کیا گیا۔اس شرف کی پہچان ہر انسان کا نصیب نہیں اور جسے اس پہچان کا علم عطا ہو جائے وہ اسے عیاں کرنے کا مجاز نہیں۔
عام انسان کے لیے اپنی پہچان اور اپنے اصل کی تلاش کے سفر پر نکلنا شرفِ انسانیت کی راہ کا پہلا قدم ہے۔ وہ سفر جس کے پہلے قدم پہلی منزل کی روشنی روز روشن کی طرح سب کو دکھانے کی نہ صرف اجازت اور تاکید ہے بلکہ اپنی اہلیت اور دائرۂ کار کے اندر رہتے ہوئے فرض بھی ہے۔۔۔ایسا فرض روح کی زکوٰاۃ کی مثل ہے تو کسی کی پیاس جانے بنا۔۔۔ فخروتکبر سے دور رہتے ہوئے سیراب کرنے کا قرض بھی ہے۔جو اگر وقت پر ادا نہ کیا جائے تو بہتا چشمہ ٹھہرے پانی کی ایسی بدبودار دلدل میں بدل جاتا ہے جس پر دکھائی دینے والے کنول رنگ سرابِ نظر کے سوا کچھ بھی نہیں۔
تلاش کے سفر میں قدم قدم پر راہ بر ملتے ہیں۔۔۔انسان اپنے جیسے انسان کی قربت سے سکون پاتا ہے اور اس کے لفظ سے روشنی حاصل کرتا ہے۔ہر بار یوں لگتا ہے کہ بس اب اس سے آگےاور کچھ نہیں۔۔۔کوئی نہیں ۔ لیکن ہوتا یوں ہے کہ پانے کے بعد تشنگی مزید بڑھ جاتی ہے۔ بقول غالب
چلتا ہوں تھوڑی دُور ہر اک تیز رَو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہُوں ابھی راہ بر کو مَیں
برسوں انسانی فطرت کے کچے پکے رنگوں میں بھٹکتے۔۔۔دن اور رات کے اسراروں سے اُلجھتے۔۔۔روحانیت اور تصوف کی بھول بھلیوں میں بقدر ظرف دانائی کے موتی چنتے ہوئے اچانک ایک نام ایک کردار نے اپنی طرف متوجہ کیا۔ تینتیس سال کی عمر میں اپنے احساسات اور تجرباتِ زندگی کو کتابی شکل میں محفوظ کرنے والے محمد احسن کی سال 2013 کے اواخر میں ایک ساتھ تین کتابیں شائع ہوئیں ۔۔۔
۔"انگستان کے سو رنگ،دیوسائی میں ایک رات اور دانہ دانہ دانائی "۔
ان میں سے ایک کتاب "انگلستان کے سو رنگ"کا پہلا ایڈیشن 2012 میں"کائنات" کےعنوان سے شائع ہوا۔چارسو صفحات کی اس کتاب میں تقریباً نو برس پہلے کی یاداشتیں اور بیش قیمت احساسات وجذبات رقم ہیں۔۔۔فاضل مصنف کے مطابق چالیس دن کی قلیل مدت میں لکھی اور اسی برس چھپ گئی۔
۔کتاب تعارف"دانہ دانہ دانائی،انگلستان کے سو رنگ اور دیوسائی میں ایک رات" از نورین تبسم۔
یہ کتب اپریل (2015) کے آخری دنوں میں ایک انمول دوست کی طرف سے اُس کے سب سے قیمتی تحفے کی صورت ملیں اور روح سرشار کر گئیں۔ایک ماہ کی قلیل مدت میں فاضل مصنف کی زندگی کے تقریباً تیس برسوں کی کتھا کو نہ صرف پڑھنے بلکہ سمجھنے کی سعی کرنا اور پھر اس پر اپنی رائے کا اظہار کرنا ہرگز قابلِ فخر نہیں بلکہ جلدبازی اور خودپرستی کی غمازی بھی کرتا ہے۔لیکن محبتیں چاہے جسم پر اُتریں یا روح کی تشنگی مٹائیں اُن کو محسوس کرنے میں دیر نہیں کرنا چاہیے۔ہماری چاہتیں تازہ پھول کی طرح ہوتی ہیں بےخبری کی تپش سے پل میں مرجھا بھی جاتی ہیں۔ یہ بھی حق ہے کہ زندگی میں سچی خوشی اور حقیقی علم وہی ہے جو ہمیں بغیر کسی شعوری جدوجہد کے اچانک اور بہت قریب سے حاصل ہوجائے اور یوں لگے جیسے وہ منظر وہ رنگ خاص ہماری ہی نظر کے لیے صرف ہمارے سامنے اُترتے ہیں ۔پھر اُن مناظر کو جتنی چابکدستی سے حسب استطاعت ذہن میں محفوظ کرلو۔۔۔دل میں رقم کر لو ۔۔۔ایک کلک سے عکس میں سمو لو اور یا لفظ کی صورت سفید کاغذ میں جذب کر دو وہ منظر وہ نظارہ ہمیشہ کے لیے ہمارے ساتھ اسی جگہ ٹھہر جاتا ہے۔۔
محمد احسن کی تحریر پڑھتےہوئے قاری سوچ سفر کے کئی مرحلوں سے گزرتا ہے اور ہر پڑاؤ یقین کا انوکھا رنگ ثبت کر کے پڑھنے والے کو شکرگزاری کے احساس سے مالامال کردیتا ہے۔
محمد احسن کی تحریر کی اہم بات لفظ کی روانی،خیال کی سچائی اور اپنا پن ہے۔۔۔اس کا "ماحول" یا اس کا "اورا" ہے۔ ایک بار قاری اس کے دائرے میں آ جائے تو خود بخود حقیقت کے ساتھ ساتھ مصنف کے تخیل کی دُنیا میں بھی سفر کرنے لگتا ہے۔جناب کی تحریر کی ایک خوبی اس کا تنوع ہے۔"انگلستان"اور"دیوسائی"۔کتابوں کے نام میں مقام کے نام کی وجہ سے کتاب کا مکمل تعارف ہوتے ہوئے بھی ان میں ہر ذوق اور ہرعمر کے پڑھنے والے کی دلچسبی برقرار رہتی ہے۔ یہ کتابیں اس کے علمی معیار پر آ کر باتیں کرتی ہیں۔ جو جس نظر سے دیکھتا ہے کتاب اسی انگ میں اس پر اپنے بھید کھولتی ہے۔
کچھ زبان وبیان کے بارے میں ۔۔۔
٭سائنسی تھیوریز اورعلم الفلکیات کو اردو زبان میں اس خوبی اور مہارت سےڈھالا کہ اردو کی معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا پڑھتے ہوئے اپنے آپ کو کچھ کچھ مفکر سمجھنے لگتا ہے اورعزتِ نفس کا ایک انوکھا احساس جنم لیتا ہے۔
وہیں ان سائنسی نظریات کا انتہائی آسان اردو پیرائے میں بیان قاری کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ دوسری طرف روحانیت اور تصوف کے پیچیدہ معاملات کو اتنی عاجزی اور انکساری سے بیان کرتے ہیں کہ ذہن پر پڑے ہوئے تشکیک کے پردے بہت حد تک ہٹتے محسوس ہوتے ہیں۔
یہ کتب بظاہر سفر داستان ہیں۔۔ وہ سفر جن کا معاشی مسائل میں گھرا انسان صرف خواب ہی دیکھ سکتا ہےلیکن صاحبِ سفر نے محنت اور دیانت کے زاد راہ کو ساتھ رکھتے ہوئے عام انسان کے خواب کو حقیقت کی راہ دکھائی ہے۔
٭جناب مستنصر حسین تارڑ سے جابجا عقیدت کے اظہار کے باوجود فاضل مصنف کاا اپنا رنگ اتنا مکمل ۔۔۔ گہرا۔۔۔ خوبصورت اور منفرد ہے کہ کہیں سے بھی پڑھنے والے کو کسی اور کے طرز تحریر کی جھلک نہیں ملتی۔
تفسیرِ دوستاں
محمد احسن کی تحریر کو "تفسیرِ دوستاں" کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا۔
اللہ سے دوستی ۔۔۔کائنات سے دوستی۔۔۔علم وآگہی سے دوستی۔۔۔فطرت سے دوستی۔۔۔ قدرت سے دوستی۔۔۔ معاشرے کی اقدار سے دوستی۔۔۔ وطن کی مٹی سے دوستی ۔۔۔ وطن کی مٹی کی مانوس مہک سے دوستی ۔۔۔ کسی قسم کے تعصب سے پاک اجنبی انسان اور اس کے شرف سے بےغرض دوستی ۔۔ اپنے پیارے اور قریبی رشتوں سے دوستی۔۔۔ اپنے اندر کے انسان سے دوستی۔۔۔ فکر وعمل کے باہمی ملاپ سے دوستی۔۔۔ ذہن ودل کے گداز سے دوستی۔۔۔روح وجسم کی پکار سے دوستی۔اپنے اندر اُٹھنے والے طوفانوں اور اُن کے اسباب سے دوستی۔ اپنی خامیوں کوتاہیوں کا برملا اظہار کرتے ہوئے اُن کو اپنائے رکھنے کی ہٹ دھرم انسانی فطرت سے دوستی۔ غرض کہ دوستی کا یہ سفر اولین صفحات سے شروع ہو کر آخری صفحے آخری لفظ تک قاری کو مسمرائز کیے رکھتا ہے۔
!حرفِ آخر
جناب محمد احسن کی ذہانت اورعلم کی گہرائی لاکھ قابل ستائش سہی لیکن اُن کو اپنے ماحول اور والدین کی طرف سے جذباتی اور مالی تعاون حاصل نہ ہوتا تو شاید روٹی روزی کا چکر اُنہیں دن کی روشنی میں تارے دکھا دیتا۔اور یہی ہمارے قابل ذہنوں کا شکوہ بھی ہے۔اس تلخ اور ناقدانہ سوچ سے مثبت پہلو یہ دکھائی دیا کہ زندگی میں اگر اصل اہمیت سکون کی ہے تو اس سے بھی بڑھ کر اہم سکون کی پہچان ہے۔انسان ساری زندگی رزقِ حلال کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔۔عمر کے قیمتی برس اپنے اہل وعیال کے لیے قربان کرتا ہے ۔پھر اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کے بچے بھی اسی مرحلے سے گزریں ۔۔۔سیلف میڈ بنیں تا کہ انہیں اپنے ہاتھ سے محنت کرنے کا شعور بیدار ہو اور یہی دیکھا گیا ہے کہ سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونے والے ماں باپ کی مشقت کی کمائی بےحسی کی حد تک لٹاتے ہیں۔ لیکن یہ کوئی پتھر پر لکیر کلیہ نہیں ۔ برسوں سمندروں کے سفر پر مٹی کی خوشبو سے دور رہنے والے چیف میرین انجنئیر محمد انور نے سکون حاصل کرنے کا عجیب گُر دریافت کیا۔ انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے "محمد احسن" کےسکون میں اپنا سکون ضم کر دیا ۔اعتماد کی یہ مثال نوجوان نسل کے لیے مشعل راہ ہے تو اُن کے والدین کے لیے بھی سوچ کے در کھولتی ہے۔ اہم بات ہے تو صرف تربیت اور ماحول کی جو ہم اپنے بچوں کو دیتے ہیں، ہم والدین کا المیہ یے کہ ہم بچپن میں اُن کی وہ سب جائز نا جائزخواہشیں پوری کرنا چاہتے ہیں جو ہماری اپنی ناآسودہ حسرتیں ہوتی ہیں۔ اور پھر جب وہ بڑے ہو جاتے ہیں تو اُن کی زندگی کے بڑے فیصلوں پر اپنے اختیار کو ایک قیمت کی طرح وصول کرتے ہیں۔ یوں ایک "جنریشن گیپ" پیدا ہو جاتا ہے ۔۔۔نہ بچے سکھی رہتے ہیں اور نہ ہی ماں باپ۔اور زیادہ خسارہ ماں باپ کے حصے میں آتا ہے کہ ساری عمر کی محنت کے بعد اپنے گھر میں بیٹھ کر بھی سکون کا سانس لینا نصیب نہیں ہوتا۔
محمد احسن کی زندگی کے 36 برس کا سفر مکمل ہونے پر۔
اللہ سے دعا ہے کہ ذہنی اور جسمانی صحت ،سکون اور ایمان والی زندگی کے ساتھ محمد احسن کوعلم ِنافع پانے اور بےغرض بانٹنے کی توقیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
نورین تبسم
چوبیس مئی 2015اسلام آباد
یہ کتب اپریل (2015) کے آخری دنوں میں ایک انمول دوست کی طرف سے اُس کے سب سے قیمتی تحفے کی صورت ملیں اور روح سرشار کر گئیں۔ایک ماہ کی قلیل مدت میں فاضل مصنف کی زندگی کے تقریباً تیس برسوں کی کتھا کو نہ صرف پڑھنے بلکہ سمجھنے کی سعی کرنا اور پھر اس پر اپنی رائے کا اظہار کرنا ہرگز قابلِ فخر نہیں بلکہ جلدبازی اور خودپرستی کی غمازی بھی کرتا ہے۔لیکن محبتیں چاہے جسم پر اُتریں یا روح کی تشنگی مٹائیں اُن کو محسوس کرنے میں دیر نہیں کرنا چاہیے۔ہماری چاہتیں تازہ پھول کی طرح ہوتی ہیں بےخبری کی تپش سے پل میں مرجھا بھی جاتی ہیں۔ یہ بھی حق ہے کہ زندگی میں سچی خوشی اور حقیقی علم وہی ہے جو ہمیں بغیر کسی شعوری جدوجہد کے اچانک اور بہت قریب سے حاصل ہوجائے اور یوں لگے جیسے وہ منظر وہ رنگ خاص ہماری ہی نظر کے لیے صرف ہمارے سامنے اُترتے ہیں ۔پھر اُن مناظر کو جتنی چابکدستی سے حسب استطاعت ذہن میں محفوظ کرلو۔۔۔دل میں رقم کر لو ۔۔۔ایک کلک سے عکس میں سمو لو اور یا لفظ کی صورت سفید کاغذ میں جذب کر دو وہ منظر وہ نظارہ ہمیشہ کے لیے ہمارے ساتھ اسی جگہ ٹھہر جاتا ہے۔۔
محمد احسن کی تحریر پڑھتےہوئے قاری سوچ سفر کے کئی مرحلوں سے گزرتا ہے اور ہر پڑاؤ یقین کا انوکھا رنگ ثبت کر کے پڑھنے والے کو شکرگزاری کے احساس سے مالامال کردیتا ہے۔
محمد احسن کی تحریر کی اہم بات لفظ کی روانی،خیال کی سچائی اور اپنا پن ہے۔۔۔اس کا "ماحول" یا اس کا "اورا" ہے۔ ایک بار قاری اس کے دائرے میں آ جائے تو خود بخود حقیقت کے ساتھ ساتھ مصنف کے تخیل کی دُنیا میں بھی سفر کرنے لگتا ہے۔جناب کی تحریر کی ایک خوبی اس کا تنوع ہے۔"انگلستان"اور"دیوسائی"۔کتابوں کے نام میں مقام کے نام کی وجہ سے کتاب کا مکمل تعارف ہوتے ہوئے بھی ان میں ہر ذوق اور ہرعمر کے پڑھنے والے کی دلچسبی برقرار رہتی ہے۔ یہ کتابیں اس کے علمی معیار پر آ کر باتیں کرتی ہیں۔ جو جس نظر سے دیکھتا ہے کتاب اسی انگ میں اس پر اپنے بھید کھولتی ہے۔
کچھ زبان وبیان کے بارے میں ۔۔۔
٭سائنسی تھیوریز اورعلم الفلکیات کو اردو زبان میں اس خوبی اور مہارت سےڈھالا کہ اردو کی معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا پڑھتے ہوئے اپنے آپ کو کچھ کچھ مفکر سمجھنے لگتا ہے اورعزتِ نفس کا ایک انوکھا احساس جنم لیتا ہے۔
وہیں ان سائنسی نظریات کا انتہائی آسان اردو پیرائے میں بیان قاری کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ دوسری طرف روحانیت اور تصوف کے پیچیدہ معاملات کو اتنی عاجزی اور انکساری سے بیان کرتے ہیں کہ ذہن پر پڑے ہوئے تشکیک کے پردے بہت حد تک ہٹتے محسوس ہوتے ہیں۔
یہ کتب بظاہر سفر داستان ہیں۔۔ وہ سفر جن کا معاشی مسائل میں گھرا انسان صرف خواب ہی دیکھ سکتا ہےلیکن صاحبِ سفر نے محنت اور دیانت کے زاد راہ کو ساتھ رکھتے ہوئے عام انسان کے خواب کو حقیقت کی راہ دکھائی ہے۔
٭جناب مستنصر حسین تارڑ سے جابجا عقیدت کے اظہار کے باوجود فاضل مصنف کاا اپنا رنگ اتنا مکمل ۔۔۔ گہرا۔۔۔ خوبصورت اور منفرد ہے کہ کہیں سے بھی پڑھنے والے کو کسی اور کے طرز تحریر کی جھلک نہیں ملتی۔
تفسیرِ دوستاں
محمد احسن کی تحریر کو "تفسیرِ دوستاں" کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا۔
اللہ سے دوستی ۔۔۔کائنات سے دوستی۔۔۔علم وآگہی سے دوستی۔۔۔فطرت سے دوستی۔۔۔ قدرت سے دوستی۔۔۔ معاشرے کی اقدار سے دوستی۔۔۔ وطن کی مٹی سے دوستی ۔۔۔ وطن کی مٹی کی مانوس مہک سے دوستی ۔۔۔ کسی قسم کے تعصب سے پاک اجنبی انسان اور اس کے شرف سے بےغرض دوستی ۔۔ اپنے پیارے اور قریبی رشتوں سے دوستی۔۔۔ اپنے اندر کے انسان سے دوستی۔۔۔ فکر وعمل کے باہمی ملاپ سے دوستی۔۔۔ ذہن ودل کے گداز سے دوستی۔۔۔روح وجسم کی پکار سے دوستی۔اپنے اندر اُٹھنے والے طوفانوں اور اُن کے اسباب سے دوستی۔ اپنی خامیوں کوتاہیوں کا برملا اظہار کرتے ہوئے اُن کو اپنائے رکھنے کی ہٹ دھرم انسانی فطرت سے دوستی۔ غرض کہ دوستی کا یہ سفر اولین صفحات سے شروع ہو کر آخری صفحے آخری لفظ تک قاری کو مسمرائز کیے رکھتا ہے۔
!حرفِ آخر
جناب محمد احسن کی ذہانت اورعلم کی گہرائی لاکھ قابل ستائش سہی لیکن اُن کو اپنے ماحول اور والدین کی طرف سے جذباتی اور مالی تعاون حاصل نہ ہوتا تو شاید روٹی روزی کا چکر اُنہیں دن کی روشنی میں تارے دکھا دیتا۔اور یہی ہمارے قابل ذہنوں کا شکوہ بھی ہے۔اس تلخ اور ناقدانہ سوچ سے مثبت پہلو یہ دکھائی دیا کہ زندگی میں اگر اصل اہمیت سکون کی ہے تو اس سے بھی بڑھ کر اہم سکون کی پہچان ہے۔انسان ساری زندگی رزقِ حلال کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔۔عمر کے قیمتی برس اپنے اہل وعیال کے لیے قربان کرتا ہے ۔پھر اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کے بچے بھی اسی مرحلے سے گزریں ۔۔۔سیلف میڈ بنیں تا کہ انہیں اپنے ہاتھ سے محنت کرنے کا شعور بیدار ہو اور یہی دیکھا گیا ہے کہ سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونے والے ماں باپ کی مشقت کی کمائی بےحسی کی حد تک لٹاتے ہیں۔ لیکن یہ کوئی پتھر پر لکیر کلیہ نہیں ۔ برسوں سمندروں کے سفر پر مٹی کی خوشبو سے دور رہنے والے چیف میرین انجنئیر محمد انور نے سکون حاصل کرنے کا عجیب گُر دریافت کیا۔ انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے "محمد احسن" کےسکون میں اپنا سکون ضم کر دیا ۔اعتماد کی یہ مثال نوجوان نسل کے لیے مشعل راہ ہے تو اُن کے والدین کے لیے بھی سوچ کے در کھولتی ہے۔ اہم بات ہے تو صرف تربیت اور ماحول کی جو ہم اپنے بچوں کو دیتے ہیں، ہم والدین کا المیہ یے کہ ہم بچپن میں اُن کی وہ سب جائز نا جائزخواہشیں پوری کرنا چاہتے ہیں جو ہماری اپنی ناآسودہ حسرتیں ہوتی ہیں۔ اور پھر جب وہ بڑے ہو جاتے ہیں تو اُن کی زندگی کے بڑے فیصلوں پر اپنے اختیار کو ایک قیمت کی طرح وصول کرتے ہیں۔ یوں ایک "جنریشن گیپ" پیدا ہو جاتا ہے ۔۔۔نہ بچے سکھی رہتے ہیں اور نہ ہی ماں باپ۔اور زیادہ خسارہ ماں باپ کے حصے میں آتا ہے کہ ساری عمر کی محنت کے بعد اپنے گھر میں بیٹھ کر بھی سکون کا سانس لینا نصیب نہیں ہوتا۔
محمد احسن کی زندگی کے 36 برس کا سفر مکمل ہونے پر۔
اللہ سے دعا ہے کہ ذہنی اور جسمانی صحت ،سکون اور ایمان والی زندگی کے ساتھ محمد احسن کوعلم ِنافع پانے اور بےغرض بانٹنے کی توقیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
نورین تبسم
چوبیس مئی 2015اسلام آباد
۔۔۔۔۔۔
محمداحسن کی کتابوں کے اوراق سے اُن کے آخری جملے۔۔۔
٭انگلستان کے سو رنگ۔۔۔ صفحہ 400۔۔
یہ سب پروٹوکول کی باتیں ہیں۔۔۔۔
آدابِ شاہی ۔۔۔۔اور بعض دفعہ۔۔۔آدابِ شہنشاہی۔۔
٭دانہ دانہ دانائی۔۔۔ صفحہ 104۔۔
ختم شد
کتاب ہو یا زندگی ۔۔۔"ختم شد" تو ناگزیر ہے۔۔۔
مگرکتاب ہو یا زندگی۔۔۔ اِک نئے نقطۂ نظر سے اِک نیا آغاز ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
یہ سب پروٹوکول کی باتیں ہیں۔۔۔۔
آدابِ شاہی ۔۔۔۔اور بعض دفعہ۔۔۔آدابِ شہنشاہی۔۔
٭دانہ دانہ دانائی۔۔۔ صفحہ 104۔۔
ختم شد
کتاب ہو یا زندگی ۔۔۔"ختم شد" تو ناگزیر ہے۔۔۔
مگرکتاب ہو یا زندگی۔۔۔ اِک نئے نقطۂ نظر سے اِک نیا آغاز ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
منتخب اقتباسات۔۔۔۔۔
انگلستان کے سو ر نگ۔۔
صفحہ181
صفحہ181
صفحہ۔236۔۔282
308
.
محمد احسن کے انگریزی زبان میں لکھے گئےفزکس اور فلکیات پر تحقیقی مقالات اور مضامین جن میں سے کچھ انگلستان کے اخبار میں شائع ہوتے رہے۔۔
۔https://subspaceresearch.wordpress.com/tag/ahsan/
Subspace Research is a mark of ‘one-man show’ who is a physicist, astronomer, graphic designer, mystic, and a musician all in one. In the core, these areas of art and science stem from One parent omnipresent knowledge base. Navigate through the pages for the articles.
والدہ محمد احسن۔۔۔ "بی بی صدیقہ زبیدہ بانو رحمتہ اللہ علیہ "
۔https://subspaceresearch.wordpress.com/tag/ahsan/
Subspace Research is a mark of ‘one-man show’ who is a physicist, astronomer, graphic designer, mystic, and a musician all in one. In the core, these areas of art and science stem from One parent omnipresent knowledge base. Navigate through the pages for the articles.
والدہ محمد احسن۔۔۔ "بی بی صدیقہ زبیدہ بانو رحمتہ اللہ علیہ "
اضافہ وضروری ترمیم ۔۔۔۔ محمد احسن
امی جی (والدہ محمد احسن ) پر ایکسپریس نیوز میگزین میں اشاعت شدہ آرٹیکل.۔۔ بتاریخ 20فروری 2011
کالم نگار:- ڈاکٹر ابو اعجاز رستم
سلسلہ:- پراسرار بندے
۔۔۔۔۔۔۔
محمد احسن ۔۔۔
٭ فیس بک پروفائل مسافرِشب
٭ فیس بک پیج۔۔
Kainat-by Muhammad Ahsan
ٹویٹر ۔۔۔
https://twitter.com/ahsan119
امی جی (والدہ محمد احسن ) پر ایکسپریس نیوز میگزین میں اشاعت شدہ آرٹیکل.۔۔ بتاریخ 20فروری 2011
کالم نگار:- ڈاکٹر ابو اعجاز رستم
سلسلہ:- پراسرار بندے
۔۔۔۔۔۔۔
محمد احسن ۔۔۔
٭ فیس بک پروفائل مسافرِشب
٭ فیس بک پیج۔۔
Kainat-by Muhammad Ahsan
ٹویٹر ۔۔۔
https://twitter.com/ahsan119
2 جولائی 2015
جواب دیںحذف کریںجناب محمد احسن کا پیامِ تشکر۔۔۔
مِس نورین تبسم آپ نے مجھ پر ایک ایسا کام کر دیا ہے کہ بعض دفعہ مَیں اپنے آپ کو ٹٹولتا ہُوں کہ ہُوں بھی کہ نہیں. ایسا کام تو "بعد میں" ہوا کرتا ہے.. وہ بھی اگر زندگی میں تھوڑا بہت کچھ کیا ہو.
اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ مَیں نے اردو ادب میں کیا خدمات انجام دی ہیں، یا زبردستی دلوائی گئی ہیں تو آپ کی تحقیق ایک گرانقدر خزانہ ہے.
آپ نے اِس ریسرچ میں ایک جگہ بجا تنقید کی ہے کہ اگر مصنف اپنے پاپاجی کی کمائی کی بجائے خود کما کر کتابیں پبلش کرواتے اور اپنے ہی کمائے ہوئے رزق سے سفر کرتے تو دن میں تارے نظر آ جاتے.
یہ بہت اہم تنقید ہے. اِس تنقید کے پیچھے کتابوں کے بارے میں عوام الناس کے رویے اور اَن پڑھ حکومتوں کے کرتوت عیاں ہیں جو لکھاریوں کو پروموٹ نہیں کرتے. شکر ادا کرنا چاہیے کہ مصنف نے کتابیں ہی تالیف کی ہیں.. لہو و لعب میں پیسہ برباد نہیں کیا. یا یوں کہیے کہ جو لہو و لعب کیے، اُنہیں ذرا لکھ بھی لیا.. یوں پاپاجی کی مزید رقم ٹھکانے لگی.
ایک بار پھر شکریہ کہ آپ نے بہت پراثر انداز میں بے روزگار مصنف کی حالاتِ زندگی بیان فرمائے... جو حکومتی کاغذات میں بے روزگار ہونے پر فخر محسوس کرتا ہے.
آپ نے لگی لپٹی رکھے بغیر عمدگی سے تحریر۔صاحبِ تحریر اور "حاملِ تحریر" کے بارے میں اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کیا۔ آپ کی بات کے جواب میں بس یہی کہوں گی کہ
حذف کریںیہ بلاگ کوئی ریسرچ ہرگز نہیں جیسا کہ اس میں لکھا بھی ہے دوسرے یہ کہ یہ آپ کی ذات پر کسی قسم کا لائق شکریہ جیسا احسان ہرگز نہیں ۔بلکہ بحیثیت ناظر ہر انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ حسب استطاعت زندگی کی ٹرین میں سفر کرتے ہوئے دیکھے جانے والے مناظر کو بعد میں آنے والوں کے لیے بیان کرے۔اور کسی تحریر کو پڑھنے کے بعد قاری کا لکھاری پر "قرض" ہے کہ اس لفظ کی خوشبو سے جو اس نے حاصل کیا اسے بانٹ دے۔
جناب محمد احسن کا اظہارِ خیال۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریںMuhammad Ahsan
4/20, 11:12pm
یہ سوال ذرا مشکل ہے بہترین کتاب والا سوال مجھے لاجواب کر دیتا ہے. مَیں اپنی ہر کتاب پر اپنے دل کی پوری کائنات کھول کر بیان کر دیتا ہوں، یوں کہ پھر میرے پاس کچھ نہیں بچتا. میری پہلی کتاب "انگلستان میں سو رنگ" کچھ ایسی جہتوں کے بارے میں ہے جو میرا خیال تھا کہ شاید مجھ سے بیان نہ ہو سکیں گی مگر ہو گئیں. "دیوسائی میں ایک رات" انہیں جہتوں کو سیروسیاحت میں لے گئیں۔
معلوم نہیں میرا اصلی رنگ کیا ہے... "انگلستان کے سو رنگ" میں مَیں نے اپنے کچھ ایسے سفر بیان کیے ہیں جن کا تعلق پوشیدہ کائنات سے ہے. وہی میری اصل پہچان ہے.
پہلی کتاب "انگلستان کے سو رنگ" ہے جسے احباب "داستانِ کائنات" کہتے ہیں. میں جو اِک کائنات کا ڈھنڈورا پیٹتا رہتا ہوں، وہ اسی کتاب میں آشکار ہے........ وہ کائنات "دیوسائی میں ایک رات" میں کسی اور رنگ سے ظاہر ہوئی ہے.
کائنات اور انگلستان کے سو رنگ میں املا کی غلطیوں کی درستگی اور پہلے سے موجود واقعات میں تھوڑا بہت اضافہ کیا ہے مگر وہ بھی صرف دو تین واقعات میں. باقی کوئی فرق نہیں ہے.
4/30, 3:29pm
"انگلستان کے سو رنگ" کا پیش لفظ بہت اہم ہے جسے پڑھے اور سمجھے بنا آگے پڑھنے کا سفر ذرا عجیب سے لگنے لگتا ہے۔
کتاب رائیٹر کا ہمزاد ہوتی ہے… بالکل اُسی طرح طاری ہوتی ہے....
5/23, 5:08pm
. دماغ کی میچورٹی کی عمر 40 ہے.. ابھی کچھ برس باقی ہیں
.. ہر شخص کی اپنی ترقی کی راہ متعین ہے.. اپنے مخصوس برس ہیں.
. میرا آغاز 33 برس کی عمر میں ہوا... یہی میں سمجھتا ہوں
33 برس کی عمر میں محض 40 دنوں میں کتاب کائنات لکھی.. اور اُسی برس چھپ گئی.
ویسے تو ماں ساتھ ہی ہوتی ہے... سپِرٹ گائیڈ کے طور پر جسے سورۃ طارق میں حافظ کہا گیا ہے
اور کتاب کائنات امی جی کے وصال کے تین برس بعد.. اُنہی کے تعاون سے لکھی گئی.. کیا عجب زمانہ تھا.
5/23, 5:35pm
میں کیا کہوں سوائے...
اِک لفظ کن کی امانت ہے میرے پاس
مگر یہ کائنات مجھے بولنے تو دے
اِک کائنات بن بیٹھا ہوں
اِک کائنات ملنے کے بعد
میں تو وصیت بھی کر چکا ہوں کہ میرے بعد میرے کتبے پر صرف ایک لفظ لکھوانا... کائنات..
۔۔۔۔
اس بلاگ کی اشاعت کے بعد جناب محمد احسن کا بےساختہ اظہار( کہ وہی اس بلاگ کے پہلے قاری بھی تھے)۔۔۔۔
5/25, 3:31pm
آپ نے تو میری پوری ہسٹری کھول کر رکھ دی.. ہر بات درست لکھی.درست تجزیہ کیا. میں ہرگز اس قابل نہ تھا کہ آپ جیسی اہلِ علم اپنا اتنا سارا وقت مجھے دے دیتیں. یہ سب اُسی خدا کی مہربانی ہے جس سے عجب طرز کی دوستی ہے.. کہ اُس نے آپ کے ذریعے مجھے سالگرہ کا بہترین تحفہ عنایت کر دیا.