اتوار, اکتوبر 06, 2024

"کتبہ"

"کتبہ"
جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر پر لگی تختی اگر مالکِ مکان کی شناخت ہے تو کتبہ یا لوح صاحبِ ِ قبر کی نشاندہی کرتے ہیں۔یہ سادہ سی بات اتنی سادہ ہرگز نہیں۔ گھرپر لگی تحتی مالکِ مکان کی حیثیت ( اسٹیٹس) کی ترجمان ہوتی ہے اور بعض اوقات تو کیا اکثراوقات اسے غیرمحسوس طور پر انسان کی زندگی کمائی کا حاصل اور فخر بھی کہا جا سکتا ہے ۔
لیکن دنیا کے منظر سے ہمیشہ کے لیے غائب ہونے کے بعد ملکیت کی علم بردار اس تختی اور قبر کے سرہانے لگے کتبے میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔غور کیا جائے تو روشنیوں سے آباد پکے گھر کی بیرونی دیوار پر لگی اس تختی کے بین روح جھنجھوڑ دیتے ہیں کہ "ہاں یہ وہی"معدوم" ہے جو کسی قبرستان کے دوردراز ویرانے میں مٹی کے مدفن میں "موجود" ہے۔ہم سانس لیتے انسان اپنی موت تو یاد رکھتے ہیں،قبر کے بارے میں بھی سوچتے ہیں لیکن کبھی اپنے اس کتبے کے بارے میں خواب تو خیال میں بھی نہیں سوچتے ۔ وہ کتبہ جس پر فقط ہمارا نام یا ہمارے لواحقین کی محبت وعقیدت اور اُن کا فہم ہی کنندہ ہو گا۔
کتبہ خواہ کسی ویران کھنڈر ہوتی قبر پر لگا ہو یا سجی سجائی قبر کا تاج، نامور شخصیات کی "آخری آرام گاہ" کا ثبوت دے یا گمنام انسان کو "نام" کی تکریم دے۔ہمیشہ باعثِ عبرت ،حسرت اور روح میں اُترنے والے سناٹے کو جنم دیتا ہے۔قصہ مختصر کتبہ انسان کی دنیا کہانی کی کتاب کا وہ آخری صفحہ ہے جس کے متن سے وہ خود لاعلم رہتا ہے۔

بلاگ مراقبۂ موت " سے اقتباس۔۔"

٭دور دور تک پھیلی قطاردرقطار قبروں میں رہنے والے زبانِ حال سے داستانِ زندگی کہتے تھے تو اُن کے سرہانے لگی تختیاں اپنوں کی محبت یا ان کی بےحسی کا نوحہ سناتی تھیں۔

٭ قبرستان میں قدم رکھتے ہی جہاں  وسعتِ نگاہ تک  قبور  کی دُنیا دِکھائی دیتی ہے  وہیں ان کے سرہانے لگے کتبے  اہلِ قبر کی زندگی کہانی سناتے  اور سوچ کے در کھولتے ہیں۔ کتبے کوکسی قبر کا  ایک روایتی تعارف  کہا جا سکتا ہے۔لیکن   نام ہی کی طرح  یہ وہ شناخت ہے جوہمارے   قرابت دار اپنے فہم اور  احساس کے  تحت ہی  طے کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں   ہمارا نام اگر  دنیا میں آمد کی  نوید  ہے تو ہمارا کتبہ ہمارے جانے  پر مہر ثبت کرتا ہے اور ہر دو کے رکھنے اور متن سے ہمارا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ جب ہم زندگی کتاب کے استعارے سے بات کریں  تو کتبے کو اس کے آخری باب "موت" کا انتساب کہا جا سکتا ہے ایسا انتساب جس  کے   رکھنے  کا صاحبِ کتاب سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ۔ 
٭ میں اہم تھا یہی وہم تھا۔
٭ آج زمین کے اوپر کل زمین کے نیچے۔
٭ کہانی ختم زندگی شروع۔
٭ عمر  کٹ ہی گئی۔
٭ زندگی خاک ہی تو تھی  سو خاک اُڑاتے گذری۔
 ٭بس یہی تو منزل تھی۔
٭ آج ہماری کل تمہاری
٭آج یہاں کل وہاں
 ٭اگر اور یقیناً کے بیچ کی کہانی
حرف آخر
صفحہ 275۔۔۔مرنے والوں کو کچھ فرق نہیں پڑتا کہ اُن کی قبر پر ایک تاج محل تعمیر ہوتا ہے۔۔۔یا وہ بارشوں میں دھنس کر ایک گڑھا بن جاتی ہےاور اُس میں کیڑے مکوڑے رینگتے ہیں اور یا اُس سے ٹیک لگا کر سائیں لوگ چرس کے سُوٹے لگاتے ہیں۔ بس یہ ہے کہ ییچھے رہ جانے والوں کو فرق پڑتا ہے۔ 

منسلک بلاگ۔انتساب سے کتبے تک

منسلک بلاگ ۔ منہ دِکھائی سے منہ دیکھنے تک


 

منگل, اکتوبر 01, 2024

" پیش لفظ ۔۔ جنگل کچھ کہتے ہیں "

"   پیش لفظ" ۔۔۔"جنگل کچھ کہتے  ہیں "

    منیرہ قریشی اور واہ کینٹ لازم وملزوم ہیں۔پینتیس برس پہلے ایک تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی جو اب ایک شجرِسایہ دار کی صورت نونہالِ وطن کی آبیاری میں سرگرم ِعمل ہے۔تعلیم کے فروغ کی کامیاب عملی کوشش کے بعد محترمہ منیرہ قریشی اب ایک لکھاری کے طور پر سامنے آئی ہیں۔اپنے تجربات،مشاہدات اور احساسات کو لفظوں  میں پرو کر کتابوں کی رنگارنگ مالا  ترتیب دی ہے۔

خودنوشت "یادوں کی تتلیاں" اگر جسم وجاں پر بیتے  حالات و واقعات کے موسموں کی کتھا ہے  تو "سلسلہ ہائے سفر" دیارِغیرکی فضاؤں میں حیرت وانبساط کے در کھولتے  تاثرات   کی   سرگوشیاں ہیں ۔

انشائیے "اِک پرِخیال"  اگر کھلی آنکھ سے دیکھے گئے معاشرتی مسائل پر خودکلامی ہے تو  "لمحے نے کہا" شاعری کی زبان میں اپنے جذبات کا اظہار ہے۔

نئی آنے والی کتاب" جنگل کچھ کہتے ہیں"لفظوں کے اس رنگارنگ گلدستے میں  ایک خوب صورت اضافہ ہے۔یہ اپنی نوعیت کا  ایک طویل مکالمہ ہے، شناسائی کا سلسلہ ہے جو نصف صدی    سے زائد کئی عشروں پر محيط ہے۔جیسا کہ       نام سے ظاہر ہے  یہ دوبدو بات چیت کی ایسی انوکھی داستان ہے کہ  قاری  خودبخود  اس   گفتگو میں شامل ہو جاتا ہے۔

اہم بات یہ  "جنگل کچھ کہتے ہیں "تخیل  کی انتہا پر جا کر دیوانہ وار رقص کرنے کا نام نہیں بلکہ اس میں  درختوں ، جنگلوں کےحوالے سے  نہ صرف ہمارے وطن بلکہ  باہر کے ممالک  کے  بہت سے ایسے دل سوز تاریخی واقعات  و سانحات  کا ذکر ہے جن کو  پڑھ کر قاری لمحے بھر کو دکھ اور تاسف کےجنگل میں بھٹک جاتا ہے تو  اگلے پل امید کی کرن اسے نئے  راستوں کی چھب دکھلا دیتی  ہے۔

جنگل کچھ کہتے ہیں بطور خاص رپورتاژ نہیں بلکہ فاضل  مصنفہ کےذہنی اور جسمانی سفر کا اپنی طرز کا ایک  منفرد سفرنامہ   ہے.  جس میں بچپن کی معصومیت دِکھتی ہے تو کبھی  لڑکپن کی حیرانی دم بخود کر دیتی ہے۔نوجوانی کی جذباتیت قدم روکتی ہے تو  ادھیڑ عمر کی تنقیدی نگاہ کہانیاں کہتی ہے۔کہیں کہیں گزرتی عمر کی چاپ سنتے ماضی اور حال کے تضادات اُداس بھی  کرتے ہیں۔تخيل  اور حقائق کے خوب صورت امتزاج سے گندھے لفظوں کی یہ مہک قاری کو   آخر تک اپنی گرفت میں لیے رکھتی ہے۔

 منیرہ قریشی  کی تمام تحاریر اُن کے بلاگ " خانہ بدوش" پر پڑھی جا سکتی ہیں۔

munirazafer.blogspot.com

  محترمہ پروین شاکر کا شعر آپ کے ادبی سفر  کے نام

خوشبو بتا رہی ہے کہ وہ راستے میں ہے 

موج ہوا کے ہاتھ میں اس کا سراغ  ہے

      نورین تبسم

اُردو بلاگر "کائناتِ تخیل"

noureennoor.blogspot.com 

یکم اکتوبر  2024

اسلام آباد

"کتبہ"

"کتبہ" جس طورانسانوں کی دنیا اور انسانوں کے ہجوم میں ہر آن اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح قبرستان بھی تیزی سے آبادہو رہے ہیں۔ گھر...