۔" اولاد ہمیشہ ماں باپ کی ترجیحِ اول ہوتی ہے لیکن ماں باپ زندگی میں کسی بھی مقام پر اولاد کی ترجیح کبھی بھی نہیں ہوتے"۔
۔ سورہ الاحقاف(46)۔۔آیت 15۔۔"اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی تاکید کی، کہ اسے اس کی ماں نے تکلیف سے اٹھائے رکھا اور اسے تکلیف سے جنا، اور اس کا حمل اور دودھ کا چھڑانا تیس مہینے ہیں، یہاں تک کہ جب وہ اپنی جوانی کو پہنچا اور چالیس سال کی عمر کو پہنچا، تو اس نے کہا اے میرے رب مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر انعام کی اور میرے والدین پر اور میں نیک عمل کروں جسے تو پسند کرے اور میرے لیے میری اولاد میں اصلاح کر، بے شک میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور بے شک میں فرمانبرداروں میں ہوں"۔
عورت اور مرد جب ماں اور باپ کے رشتے سے آشنا ہوتے ہیں تو اُن کی ہر خوشی ، ہر غم کا محور اُن کی اولاد ہوتی ہے۔اولاد کے بچپن سے جوانی تک کے سفر میں اُن کی ساری خواہشات اور اُمیدیں اپنے بچوں سے شروع ہو کر اُنہی پر ختم ہوتی ہیں۔ کاروبارِزندگی کی محنت ومشقت کا ماحاصل اولاد ٹھہرتی ہے تو ہر دعا کا آٖغاز اور اختتام بھی بچوں کی صحت وسلامتی سے ہوتا ہے۔یہ اولاد ہی ہے جس کی اندھی محبت میں حلال وحرام کا فرق مٹا کر ہمیشہ کے خسارے کا سودا کرتا ہے۔اور یہی اولاد جب بڑی ہو جاتی ہے تو اُس کی اپنی زندگی کا چکر بھی اِسی طرح جاری و ساری رہتا ہے۔یہ سلسلہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا کہ یہ فطرتِ انسان ہے۔لیکن ماں باپ کے جوانی سے بُڑھاپے تک کے سفر میں اولاد کی خوشی اور غم کا مرکز کبھی بھی کہیں بھی ماں باپ ہرگز نہیں ہوتے۔اولاد کی فطرت میں یہ بات ڈالی ہی نہیں گئی۔کیا کسی چیز کا فطرت میں نہ ہونا انسان کی خامی کہی جا سکتی ہے ؟۔ نہیں ! ایسا ہرگز نہیں کبھی بھی نہیں۔ اللہ نے انسان کو اشرف المخلوق کا درجہ عطا کیااور سب سے بڑھ کر اُسے سوچنے،سمجھنے کی صلاحیت عطا کی۔ہم جتنا بھی سوچیں،غور کریں تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ یہ دستورِ زمانہ ہے،یہی زندگی کا چکر بھی ہے۔بات دراصل یہ ہے کہ بچے کی پرورش اور دیکھ بھال ماں باپ کی ذمہ داری کے سوا کچھ بھی نہیں اور اسے ذمہ داری سے بڑھ کر"امانت" کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا۔ایسی امانت جو اللہ کی طرف سے عطا کی گئی ۔اپنے جیسے انسان سے کسی صلے کی امید رکھنا خام خیالی کے سِوا کچھ بھی نہیں ۔
زندگی دائرے میں سفر کرنے کا نام ہے۔ہر دور کے اپنے اقدار اور اپنا زاویۂ نگاہ ہوتا ہے اور ہر شخص اپنے زمانے کو موجودہ زمانے سے بہتر گردانتا ہے۔ بڑے چھوٹے کی عزت وتکریم سے پرے آج کل برابری کا چلن ہے۔اپنی عزت اپنے ہاتھ کے مصداق بچوں کے ساتھ چلنے کے لیے اُن کی سطح پر آنا پڑتاہے ورنہ گونگے بہرے بن کر بس دیکھے جائیں ۔کچھ برا لگے تو آنکھیں بن کر لیں۔ آج کے دور میں بچے والدین کو زندگی برتنا سکھاتے ہیں اور بڑے حیران ہو کر بس یہ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ اگر وہ اتنے ہی نالائق تھے تو ۔انہوں نے اپنے بچوں کو کیسے اس مقام تک پہنچا دیا جہاں وہ دُنیا کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کر سکتے ہیں۔
٭اولاد آزمائش ہے۔۔۔ ایسی آزمائش جو موجود ہو تو آزمائش اور نہ ہو تو بھی آزمائش ۔
٭ ماں باپ توبہتے چشمے کی طرح ہوتے ہیں جبکہ بچے اپنے اپنے ظرف کے برتنوں میں غرض کی ٹونٹیاں لگائے اس آبِ حیات کو سمیٹنے کی لاحاصل سعی ہی کرتے رہ جاتے ہیں۔
٭یہ صرف ماں باپ ہی ہیں جو اگر دنیا میں ہماری پہلی سانس کا وسیلہ ہیں تو دنیا میں اپنی آخری سانس تک ہمارے منتظر رہتے ہیں۔ ماں باپ کے جانے کے بعد ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ جب کوئی بھی آپ کی واپسی کا منتظر نہیں ہوتا۔۔۔ گھر میں اور نہ دنیا میں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں