انسان کی زندگی کہانی رات اور دن کی آنکھ مچولی کے مابین بھاگتےگزرتی ہے۔دن کے کھاتے میں گر ہار جیت کے برابر امکانات ہوتے ہیں تو رات نام ہی شکست کا ہے۔۔۔رات ڈھلتے ہی انسانی قوٰی زوال پذیر ہونے لگتے ہیں یوں رات زندگی سے دور کرتے ہوئے بناوٹ کی موت کا نام ہی تو ہے۔رات بےیقینی بھی ہے کہ کوئی نہیں جانتا آنے والی صُبح کا سورج کیا پیغام لے کر آئے۔
وہ رات!!! دو زندگیوں کی بقا کی رات تھی۔۔۔دونوں بہت قریب ہوتے ہوئے،ایک دوسرے کو محسوس کر کے بھی آنے والے وقت سے انجان،اپنی ذات کی تنہائی میں درد کی منازل طے کرتے تھے۔وہ زندگی بخش رات تھی لیکن موت کا خوف ہر چند منٹوں بعد رگِ جاں کی ساری توانائی نچوڑ لیتا۔نظریں گھڑی کی سوئی پر اٹک جاتیں، کبھی یوں لگتا جیسے وقت ٹھہر گیا ہو پھر اچانک کوئی جھنجھوڑ کر رکھ دیتا۔نیند تھی اور نہ ہی خواب۔اہم یہ ہے کہ خوف بھی نہ تھا۔۔۔۔ان ہونی کا خوف۔یاد تھی تو بس ایک بات کہ وقت سے پہلے کسی سے کچھ بھی نہیں کہنا اور یہ وقت کیا تھا؟ کب تھا؟ کون جانتا تھا۔۔۔سب اندازے تھے یا حساب کتاب کے پیمانے؟۔اس سمے اگر کوئی دوست تھا تو کتاب میں پڑھے گئے لفظ تھے جو ساری کہانی کی اصل سے آگاہ کیے ہوئے تھے تو دوسری طرف کلام اِلٰہی کا ورد ڈھلتی رات کی تنہائی میں دل کو تسکین دیتا تھا۔
اس رات کا اہم سبق یہ ملا کہ زندگی ہوش وحواس کو ممکن حد تک قابو میں رکھنے سے سمجھ میں آتی ہے۔ہم ساری دُنیا کو جاننے کے جتنے دعوے کر لیں،جب تک اپنی ذات کے اسرار سے واقف نہیں ہوں گے ہمیشہ بند گلی میں سفر کرتے رہیں گے۔
انسان اپنی زندگی میں جتنا اپنے آپ سے،اپنے رویے سے سیکھتا ہے اُتنا کسی اور کے تجربے سے کبھی نہیں سمجھ سکتا،ہماری مشکل ہی یہ ہے کہ ہم اپنے ذہن ودل پر دستک دئیے بغیر اُن ان جان مہربانوں کی تلاش میں بھٹکتے ہیں جو ہمارے درد کا درماں بن سکیں ۔اسی لیے کبھی سکون نہیں پاتے نہ قرار میں اور نہ ہی بےقراری میں ۔
یہ نصف صدی کے قصے میں گزرنے والی ہزاروں بےنام راتوں اور دنوں کے باب میں سے ایک ایسی رات کا احوال تھا جس کے ہر پل کا منظر آج بھی ذہن میں اُجالے بکھیرتا ہے۔۔۔۔ اجالے!!! شاید اس لیے بھی کہ اس رات کی اذیت کا ثمر ایک مکمل اور کامیاب شخصیت کی صورت ماں کے ساتھ ہے۔۔۔ ماؤں کو اپنے بچے ویسے بھی پیارے ہوتے ہیں۔اللہ صورت کی زیبائی کے ساتھ سیرت میں بھی سچائی اور گہرائی عطا کرے آمین۔
منسلک پوسٹ۔۔۔۔دردِ زہ ۔
اس رات کا اہم سبق یہ ملا کہ زندگی ہوش وحواس کو ممکن حد تک قابو میں رکھنے سے سمجھ میں آتی ہے۔ہم ساری دُنیا کو جاننے کے جتنے دعوے کر لیں،جب تک اپنی ذات کے اسرار سے واقف نہیں ہوں گے ہمیشہ بند گلی میں سفر کرتے رہیں گے۔
انسان اپنی زندگی میں جتنا اپنے آپ سے،اپنے رویے سے سیکھتا ہے اُتنا کسی اور کے تجربے سے کبھی نہیں سمجھ سکتا،ہماری مشکل ہی یہ ہے کہ ہم اپنے ذہن ودل پر دستک دئیے بغیر اُن ان جان مہربانوں کی تلاش میں بھٹکتے ہیں جو ہمارے درد کا درماں بن سکیں ۔اسی لیے کبھی سکون نہیں پاتے نہ قرار میں اور نہ ہی بےقراری میں ۔
یہ نصف صدی کے قصے میں گزرنے والی ہزاروں بےنام راتوں اور دنوں کے باب میں سے ایک ایسی رات کا احوال تھا جس کے ہر پل کا منظر آج بھی ذہن میں اُجالے بکھیرتا ہے۔۔۔۔ اجالے!!! شاید اس لیے بھی کہ اس رات کی اذیت کا ثمر ایک مکمل اور کامیاب شخصیت کی صورت ماں کے ساتھ ہے۔۔۔ ماؤں کو اپنے بچے ویسے بھی پیارے ہوتے ہیں۔اللہ صورت کی زیبائی کے ساتھ سیرت میں بھی سچائی اور گہرائی عطا کرے آمین۔
منسلک پوسٹ۔۔۔۔دردِ زہ ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں