سفر زندگی ہے اور زندگی سفر کرنے کا نام ہے۔سفرِ زندگی کی بہت سی جِہت ہیں۔یہ اندرونی بیرونی دونوں طور پر ہمارے جسم وجاں پر وارد ہوتا ہے۔ سفر ذہنی ہوتا ہے تو جسمانی بھی۔ ذہنی سفر جب تک جسم پر نہ اُترےکبھی اِس کی گہرائی کی شدت کا اندازہ نہیں ہو سکتا ۔اسی طرح جسمانی سفر انسان کو ذہنی طور پر ایسی منزلوں سے روشناس کراتا ہے جن کا جسمانی حوالے سے تصور بھی ممکن نہیں۔
ریل کا سفر زندگی کے یادگار تجربات میں سے ایک ہے۔یہ ایک الگ ہی دنیا کی کہانی ہے۔ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم سے لے کر سفر مکمل ہونے تک انسان سوچ سفر کی بہت سی منازل طے کرتا ہے۔یہ سفر ایک نہ بھولنے والا رومانس ہی نہیں حقائقِ زندگی کا ایک انمٹ باب بھی ہے۔ ریل کا سفر پلیٹ فارم سے شروع ہو جاتا ہے۔ پلیٹ فارم کبھی کسی کا نہ ہوا۔۔۔
لوگ آتے ہیں بیٹھتےہیں انتظار کرتے ہیں اور اپنی مطلوبہ گاڑی پر روانہ ہو جاتے ہیں۔زندگی میں سفر کے کسی بھی مقام پر پہنچنے کے لیےسواری اور پلیٹ فارم لازم وملزوم ہیں۔جتنا تیزرفتار سفر کا وسیلہ ہو گا اتنی ہی اہمیت کا حامل اُس کا پلیٹ فارم بھی ہو گا۔سفر کے آغاز کے لیے قدموں تلے زمین کا پلیٹ فارم ہی کافی ہوتا ہے بس اُس پر اعتماد اور یقین کے ساتھ قدم رکھا جائے۔بعض اوقات پلیٹ فارم کے بغیر کسی طور بھی گھسِٹ گھسِٹ کرسفر تو طے ہو جاتا ہے بےہنگم بےترتیب ہی سہی۔
زندگی ریل گاڑی کے بند ڈبے میں سفر کرنے کا نام ہے جس میں ہمارے رشتے ہماری ضروریات کا خیال رکھتے ہیں تو ہمارے تعلقات ہماری حسیات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ایک لمحے کی دوستی پہلی نظر کا پیار کبھی تو چلتی ٹرین کے منظر کی طرح ہوتا ہے اچھا تو لگا پر گزر گیا اور کبھی تصویر کے کلک کی طرح یادوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ رہ گیا۔
سرپٹ دوڑتی زندگی کی گاڑی منزل کے قریب آتی جاتی ہے،آخری اسٹیشن کی بتیاں دکھائی دینے لگتی ہیں،نادان مسافر سامان باندھنے اور زادِ سفر مضبوطی سے تھامے رکھنے کی بجائے مُڑ مُر کر نظر کو چھو جانے والے منظروں کو دیکھتا ہے جو پلک جھپکنے تک آنکھ میں ٹھہرے تھے تو کبھی اُن رفقاء کی طرف خالی خالی نظروں سے دیکھتا چلا جاتا ہے جن کا ساتھ کتنا ہی دل کے قریب نہ ہو،وہ پانی پر بنے نقش سے زیادہ پائیدار ہرگز نہیں۔وقت مٹھی میں بند ریت کی طرح سرکتا ہے اور انجان ہتھیلی میں رہ جانے والے قیمتی احساس کو سنبھالنے کی بجائے دسترس سے نکل جانے والے بےوقعت لمحوں کے سوگ میں ماتم کناں ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔
ریل کا سفر زندگی کے یادگار تجربات میں سے ایک ہے۔یہ ایک الگ ہی دنیا کی کہانی ہے۔ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم سے لے کر سفر مکمل ہونے تک انسان سوچ سفر کی بہت سی منازل طے کرتا ہے۔یہ سفر ایک نہ بھولنے والا رومانس ہی نہیں حقائقِ زندگی کا ایک انمٹ باب بھی ہے۔ ریل کا سفر پلیٹ فارم سے شروع ہو جاتا ہے۔ پلیٹ فارم کبھی کسی کا نہ ہوا۔۔۔
لوگ آتے ہیں بیٹھتےہیں انتظار کرتے ہیں اور اپنی مطلوبہ گاڑی پر روانہ ہو جاتے ہیں۔زندگی میں سفر کے کسی بھی مقام پر پہنچنے کے لیےسواری اور پلیٹ فارم لازم وملزوم ہیں۔جتنا تیزرفتار سفر کا وسیلہ ہو گا اتنی ہی اہمیت کا حامل اُس کا پلیٹ فارم بھی ہو گا۔سفر کے آغاز کے لیے قدموں تلے زمین کا پلیٹ فارم ہی کافی ہوتا ہے بس اُس پر اعتماد اور یقین کے ساتھ قدم رکھا جائے۔بعض اوقات پلیٹ فارم کے بغیر کسی طور بھی گھسِٹ گھسِٹ کرسفر تو طے ہو جاتا ہے بےہنگم بےترتیب ہی سہی۔
زندگی ریل گاڑی کے بند ڈبے میں سفر کرنے کا نام ہے جس میں ہمارے رشتے ہماری ضروریات کا خیال رکھتے ہیں تو ہمارے تعلقات ہماری حسیات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ایک لمحے کی دوستی پہلی نظر کا پیار کبھی تو چلتی ٹرین کے منظر کی طرح ہوتا ہے اچھا تو لگا پر گزر گیا اور کبھی تصویر کے کلک کی طرح یادوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ رہ گیا۔
سرپٹ دوڑتی زندگی کی گاڑی منزل کے قریب آتی جاتی ہے،آخری اسٹیشن کی بتیاں دکھائی دینے لگتی ہیں،نادان مسافر سامان باندھنے اور زادِ سفر مضبوطی سے تھامے رکھنے کی بجائے مُڑ مُر کر نظر کو چھو جانے والے منظروں کو دیکھتا ہے جو پلک جھپکنے تک آنکھ میں ٹھہرے تھے تو کبھی اُن رفقاء کی طرف خالی خالی نظروں سے دیکھتا چلا جاتا ہے جن کا ساتھ کتنا ہی دل کے قریب نہ ہو،وہ پانی پر بنے نقش سے زیادہ پائیدار ہرگز نہیں۔وقت مٹھی میں بند ریت کی طرح سرکتا ہے اور انجان ہتھیلی میں رہ جانے والے قیمتی احساس کو سنبھالنے کی بجائے دسترس سے نکل جانے والے بےوقعت لمحوں کے سوگ میں ماتم کناں ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔
زندگی کی گاڑی بھی عجیب ہے ۔ جب ذمہ داریوں کے تھکا دینے والے مشکل پلیٹ فارم عبور کر کے آسودگی کے آخری پلیٹ فارم پر پہنچتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ زندگی توراستے میں ہی کہیں ختم ہو گئی تھی پر سفر ابھی باقی ہے ۔وہ جو راستے میں سنبھالی گئیں ناتمام خواہشیں اور خواب تھے اب دل میں کبھی کرچیاں اُن کی اصلیت کی ٹیس دیتی ہیں ۔ یہ نہیں کہ آسودگی کے اس وسیع پلیٹ فارم میں کہیں کوئی کجی ہے ۔بلکہ اب تو دُور دُور تک شفاف آسمان نئی منزلوں نئے راستوں کی نوید سُناتا ہے تو کہیں مخملی زمینیں قدم بوسی کی اجازت چاہتی ہیں ۔اپنے ساتھ گزارنے اور اسباب ِ دُنیا فتح کے لیے وقت ہی وقت ہے۔لیکن !!! نہیں ہے تو بس مہلتِ زندگی نہیں ۔کوئی ہے جو چپکے چپکے بس ایک ہی راگ الاپے جا رہا ہے۔۔۔
" اب عمر کی نقدی ختم ہوئی اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے"
بلاگ سے انتخاب۔۔۔۔
باقی نہیں،بس یہ ہوا کہ ہر پڑاؤ پر سامان میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔اب جب طوق گلےتک آن پہنچے تو سوچنا پڑ گیا کہ اگلے کسی بھی اسٹیشن پر اترنا پڑ گیا توکس بوجھ سےکس طور جان چھوٹے گی اور کیا سامان ساتھ رہ جائے گا۔حد ہو گئی۔۔۔۔زندگی خواہ کتنی ہی بےکار اور لاحاصل ہی کیوں نہ گذرے،واپسی کی گھٹیاں سنائی دینے لگیں تو اُداسی اور مایوسی کی دُھول یوں قدموں سے لپٹتی ہے جیسے کچھ سانسیں اُدھار کی ملنے سےنہ جانے عظمت وکامیابی کا کون سا ماؤنٹ ایورسٹ سر کیا جا سکے گا۔
بلاگ سے انتخاب۔۔۔۔
"میرے پچاس سال"
"پچاس برس کی رام کہانی"
پچاس برس کا سفر کیا ہے گویا سرپٹ بھاگتی زندگی کی ریل گاڑی پچاس اسٹیشنوں پر پل بھر کر رُکی ہو۔بہت سوں کی تو یاد بھیباقی نہیں،بس یہ ہوا کہ ہر پڑاؤ پر سامان میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔اب جب طوق گلےتک آن پہنچے تو سوچنا پڑ گیا کہ اگلے کسی بھی اسٹیشن پر اترنا پڑ گیا توکس بوجھ سےکس طور جان چھوٹے گی اور کیا سامان ساتھ رہ جائے گا۔حد ہو گئی۔۔۔۔زندگی خواہ کتنی ہی بےکار اور لاحاصل ہی کیوں نہ گذرے،واپسی کی گھٹیاں سنائی دینے لگیں تو اُداسی اور مایوسی کی دُھول یوں قدموں سے لپٹتی ہے جیسے کچھ سانسیں اُدھار کی ملنے سےنہ جانے عظمت وکامیابی کا کون سا ماؤنٹ ایورسٹ سر کیا جا سکے گا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں