"ہنزہ کے انمول لمحے"۔۔۔کالم از جاویدچودھری
منگل 26 جولائی2016
بلتت سے خنجراب تک"۔کالم"جاوید چودھری
جمعرات 28 جولائی 2016
صبح کے چار بجے تک "ایگل نیسٹ"میں اندھیرا تھا، میں بالکونی میں بیٹھا تھا، میرے سامنے پہاڑ اندھیرے کی چادر اوڑھ کر لیٹے تھے، آسمان پر گہرا سکوت تھا، وادی میں چیری، سیب، خوبانی اور انجیر کے درختوں کے نیچے دریا بہہ رہا تھا، فضا میں خنکی تھی اور اس خنکی میں گرمیوں کی مٹھاس تھی، چار بج کر پانچ منٹ پر چوٹیاں سفید ہونے لگیں، راکا پوشی نے اندھیرے کے لحاف سے منہ باہر نکالا، دائیں بائیں دیکھا اور پھر دوسری آٹھ چوٹیاں بھی لحافوں سے باہر آنے لگیں۔ ’’لیڈی فنگر‘‘ میری دائیں جانب پیچھے کی طرف تھی، میں نے گردن گھما کر دیکھا، لیڈی فنگر کا سفید کلس بھی اندھیرے کا طلسم توڑ کر باہر آ چکا تھا، اس کے ہمسائے میں برف کا سفید گنبد تھا، اس کی چاندی بھی چمک رہی تھی۔
اب وہاں برف کی چاندی تھی، خنک ہوا تھی، لیڈی فنگر کا سفید کلس تھا، راکاپوشی کے بدن سے سرکتی چادر تھی، انجیر، خوبانی، سیب اور چیری کے درختوں کے نیچے بہتا دریا تھا، دور نگر کی مسجد سے فجر کی نماز کا بلاوا تھا ’’ایگل نیسٹ‘‘ کی بالکونی تھی، ہنزہ کا سویا ہوا قصبہ تھا،ال تت فورٹ کا اداس واچ ٹاور تھا، بلتت فورٹ کے دکھی جھروکے تھے اور وقت میں گھلتا ہوا وقت تھا اور پھر وہ لمحہ آگیا جس کی تلاش میں صدیوں سے لوگ یہاں آ رہے ہیں، ایگل نیسٹ کی ان چٹانوں پر بیٹھ رہے ہیں، رات کو دن میں بدلتے دیکھ رہے ہیں، میں نے کھلی آنکھوں سے راکا پوشی کی چوٹیوں کو سفید ہوتے، پھر اس سفیدی کو سونے میں ڈھلتے اور پھر اس سونے کو چمکتے دیکھا، وہ لمحہ مقدس تھا، انمول تھا، میں نے دوبارہ لیڈی فنگر کی طرف دیکھا، لیڈی فنگر کا بالائی سرا دیے کی جلتی بتی بن چکا تھا اور لیڈی فنگر اب لیڈی فنگر نہیں رہی تھی، وہ موم بتی بن چکی تھی، میرے اندر سے آواز آئی ’’اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکلا ’’بے شک، بے شک‘‘۔
میں جمعہ کی صبح ہنزہ پہنچا، میرا بیٹا شماعیل دو ہفتے پہلے یہاں سے ہو کر آیا تھا، اسلام آباد گلگت فلائیٹ پی آئی اے کی بہت بڑی مہربانی ہے، یہ اس پوشیدہ زمین کا چمکدار دنیا سے واحد فضائی رابطہ ہے، یہ فلائیٹ دنیا کی خوبصورت لیکن خطرناک ترین فضائی روٹ ہے، جہاز گلگت ائیر پورٹ پر لینڈنگ سے پہلے ایسی تکون میں داخل ہوتا ہے جہاں دنیا کے تین بڑے پہاڑی سلسلے آپس میں ملتے ہیں، یہ جگہ پونجی کہلاتی ہے، اس جگہ ہمالیہ، کوہ ہندو کش اور قراقرم آپس میں ملتے ہیں چنانچہ گلگت کی لینڈنگ دنیا کی خطرناک ترین لینڈنگز میں شمار ہوتی ہے۔
میں گلگت سے گاڑی لے کر ہنزہ روانہ ہوگیا، پاکستان نے چین کی مدد سے حال ہی میں شاہراہ قراقرم دوبارہ تعمیر کی، یہ سڑک انسانی معجزے سے کم نہیں، آپ کو سلیٹی رنگ کے خشک پہاڑوں کے درمیان موٹروے جیسی رواں سڑک ملتی ہے، یہ سڑک ہنزہ کو گلگت سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر لے آئی ہے، ہمارے بائیں جانب گہرائی میں دریا بہہ رہا تھا، دریا کے اوپر اترائیوں پر کھیت اور باغ تھے، ان کے اوپر سلیٹی رنگ کے خشک پہاڑ تھے اور ان کے درمیان ماضی کی شاہراہ ریشم اور آج کی قراقرم ہائی وے بہہ رہی تھی۔
منگل 26 جولائی2016
بلتت سے خنجراب تک"۔کالم"جاوید چودھری
جمعرات 28 جولائی 2016
صبح کے چار بجے تک "ایگل نیسٹ"میں اندھیرا تھا، میں بالکونی میں بیٹھا تھا، میرے سامنے پہاڑ اندھیرے کی چادر اوڑھ کر لیٹے تھے، آسمان پر گہرا سکوت تھا، وادی میں چیری، سیب، خوبانی اور انجیر کے درختوں کے نیچے دریا بہہ رہا تھا، فضا میں خنکی تھی اور اس خنکی میں گرمیوں کی مٹھاس تھی، چار بج کر پانچ منٹ پر چوٹیاں سفید ہونے لگیں، راکا پوشی نے اندھیرے کے لحاف سے منہ باہر نکالا، دائیں بائیں دیکھا اور پھر دوسری آٹھ چوٹیاں بھی لحافوں سے باہر آنے لگیں۔ ’’لیڈی فنگر‘‘ میری دائیں جانب پیچھے کی طرف تھی، میں نے گردن گھما کر دیکھا، لیڈی فنگر کا سفید کلس بھی اندھیرے کا طلسم توڑ کر باہر آ چکا تھا، اس کے ہمسائے میں برف کا سفید گنبد تھا، اس کی چاندی بھی چمک رہی تھی۔
اب وہاں برف کی چاندی تھی، خنک ہوا تھی، لیڈی فنگر کا سفید کلس تھا، راکاپوشی کے بدن سے سرکتی چادر تھی، انجیر، خوبانی، سیب اور چیری کے درختوں کے نیچے بہتا دریا تھا، دور نگر کی مسجد سے فجر کی نماز کا بلاوا تھا ’’ایگل نیسٹ‘‘ کی بالکونی تھی، ہنزہ کا سویا ہوا قصبہ تھا،ال تت فورٹ کا اداس واچ ٹاور تھا، بلتت فورٹ کے دکھی جھروکے تھے اور وقت میں گھلتا ہوا وقت تھا اور پھر وہ لمحہ آگیا جس کی تلاش میں صدیوں سے لوگ یہاں آ رہے ہیں، ایگل نیسٹ کی ان چٹانوں پر بیٹھ رہے ہیں، رات کو دن میں بدلتے دیکھ رہے ہیں، میں نے کھلی آنکھوں سے راکا پوشی کی چوٹیوں کو سفید ہوتے، پھر اس سفیدی کو سونے میں ڈھلتے اور پھر اس سونے کو چمکتے دیکھا، وہ لمحہ مقدس تھا، انمول تھا، میں نے دوبارہ لیڈی فنگر کی طرف دیکھا، لیڈی فنگر کا بالائی سرا دیے کی جلتی بتی بن چکا تھا اور لیڈی فنگر اب لیڈی فنگر نہیں رہی تھی، وہ موم بتی بن چکی تھی، میرے اندر سے آواز آئی ’’اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکلا ’’بے شک، بے شک‘‘۔
میں جمعہ کی صبح ہنزہ پہنچا، میرا بیٹا شماعیل دو ہفتے پہلے یہاں سے ہو کر آیا تھا، اسلام آباد گلگت فلائیٹ پی آئی اے کی بہت بڑی مہربانی ہے، یہ اس پوشیدہ زمین کا چمکدار دنیا سے واحد فضائی رابطہ ہے، یہ فلائیٹ دنیا کی خوبصورت لیکن خطرناک ترین فضائی روٹ ہے، جہاز گلگت ائیر پورٹ پر لینڈنگ سے پہلے ایسی تکون میں داخل ہوتا ہے جہاں دنیا کے تین بڑے پہاڑی سلسلے آپس میں ملتے ہیں، یہ جگہ پونجی کہلاتی ہے، اس جگہ ہمالیہ، کوہ ہندو کش اور قراقرم آپس میں ملتے ہیں چنانچہ گلگت کی لینڈنگ دنیا کی خطرناک ترین لینڈنگز میں شمار ہوتی ہے۔
میں گلگت سے گاڑی لے کر ہنزہ روانہ ہوگیا، پاکستان نے چین کی مدد سے حال ہی میں شاہراہ قراقرم دوبارہ تعمیر کی، یہ سڑک انسانی معجزے سے کم نہیں، آپ کو سلیٹی رنگ کے خشک پہاڑوں کے درمیان موٹروے جیسی رواں سڑک ملتی ہے، یہ سڑک ہنزہ کو گلگت سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر لے آئی ہے، ہمارے بائیں جانب گہرائی میں دریا بہہ رہا تھا، دریا کے اوپر اترائیوں پر کھیت اور باغ تھے، ان کے اوپر سلیٹی رنگ کے خشک پہاڑ تھے اور ان کے درمیان ماضی کی شاہراہ ریشم اور آج کی قراقرم ہائی وے بہہ رہی تھی۔
میں دو گھنٹے میں ہنزہ پہنچ گیا۔ہنزہ48 دیہات اور قصبوں کی خوبصورت وادی ہے، یہ وادی اسماعیلی کمیونٹی اور طلسماتی حسن کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔
ہنزہ آج سے اڑھائی ہزار سال پہلے چین کے سفید ہنوں نے آباد کیا اور یہ ہنوں کی وجہ سے ہنزہ کہلایا، دریا کے ایک کنارے پر ہنزہ ہے اور دوسرے کنارے پر نگر۔ یہ دونوں شہر دو بھائیوں کی ملکیت تھے، یہ دونوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، یہ پیاس صدیوں تک چلتی رہی، نگر کے لوگ ہنزہ کے لوگوں پر حملے کرتے رہے اور ہنزہ کے سپاہی نگر کی کی فصلیں، باغ اور جانور اجاڑتے رہے، یہ دشمنی آج تک قائم ہے، آج بھی نگر کے لوگ ہنزہ کے لوگوں کو پسند نہیں کرتے اور ہنزہ کے لوگ نگر کے باسیوں کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں، ہنزہ کے حکمرانوں نے نگر کے حملہ آوروں اور شاہراہ ریشم سے گزرتے قافلوں پر نظر رکھنے کے لیے 1100 سال پہلے دریا کے کنارے خوبصورت قلعہ تعمیر کیا، یہ قلعہ ال تت فورٹ کہلاتا ہے، مقامی زبان میں ال تت اِدھر کو کہتے ہیں اور بلتت اُدھرکو، ال تت کی تعمیر کے تین سو سال بعد بلتت کا قلعہ بھی تعمیر کیا گیا، یہ قلعہ آج بھی وادی کے دوسرے کنارے پر پہاڑوں کے دامن میں موجود ہے، بادشاہ گرمیوں اور سردیوں کے مطابق اپنی رہائش گاہ تبدیل کرتے رہتے تھے۔
ہنزہ کے بادشاہ میر کہلاتے تھے، ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں 1972ء میں پہلے نگر کو پاکستان میں شامل کیا گیا اور پھر 1974ء میں ہنزہ بھی پاکستان کا حصہ بن گیا، یہ دونوں شہر اس سے قبل آزاد ریاستیں تھیں، حکومت نے شمولیت کے بدلے نگر اور ہنزہ کے حکمران خاندانوں کو خصوصی مراعات دیں، دونوں کو اسلام آباد میں پانچ پانچ کنال کے پلاٹس، وظیفہ اور خصوصی اسٹیٹس دیا گیا، نگر کے حکمران آہستہ آہستہ کاروباری دنیا میں گم ہو گئے جب کہ ہنزہ کا حکمران خاندان سیاست میں آگیا ، میر غضنفر علی خان اس وقت گلگت بلتستان کے گورنر ہیں، ان کے صاحبزادے سلیم خان والد کی خالی نشست پر صوبائی اسمبلی کاالیکشن لڑ رہے ہیں، اسلام آباد کی پوش سڑک مارگلہ روڈ پر ہنزہ ہاؤس 30 سال سے گزرنے والوں کو ہنزہ کی عظمت رفتہ کی یاد دلاتا ہے، خاندان کے پاس پرانی کاروں کا خوبصورت بیڑہ بھی ہے، یہ لوگ جب اپنی پرانی قیمتی کاروں میں سڑک پر نکلتے ہیں تو لوگ ان کی سرخ رنگ کی نمبر پلیٹ اور اس پر ہنزہ ون اور ہنزہ ٹو دیکھ کر رک جاتے ہیں، آغا خان فاؤنڈیشن نے ہنزہ میں بےتحاشہ کام کیا۔
فاؤنڈیشن نے پورا ال تت گاؤں دوبارہ بنا دیا، ال تت گاؤں کی پرانی گلیوں اور قدیم ساخت کے مکانوں میں تاریخ بکھری پڑی ہے، ال تت فورٹ کا شکوہ بھی دل میں اتر جاتا ہے، بادشاہ کہاں بیٹھتا تھا، ملکہ کہاں رہتی تھی، درباری کہاں آتے تھے، قیدیوں کو زیر زمین قید خانے میں کس طرح رکھا جاتا تھا، شاہی خاندان کے واش روم کی غلاظت قید خانے میں قیدیوں پر کیوں گرائی جاتی تھی، قیدیوں کو قلعے کی کس دیوار سے پھینک کر سزائے موت دی جاتی تھی اور حملے کے دوران شاہی خاندان کو کس کمرے میں چھپا دیا جاتا تھا اور انھیں کس طرح سرنگ سے گزار کر پانی کے تالاب تک لایا جاتا تھا،یہ ساری کہانیاں ہوش ربا ہیں، ال تت گاؤں کے درمیان تالاب ہے، یہ تالاب گلیشیئر کے ٹھنڈے پانی سے لبالب بھرا تھا، گاؤں کے نوجوان اور بچے تالاب میں نہا رہے تھے، خواتین انگور کی بیلوں کے نیچے بیٹھی تھیں اور بوڑھے تھڑوں پر بیٹھ کر جوانی کے قصے سنا رہے تھے، قلعے کے ساتھ چھوٹا سا گھریلو ریستوران تھا،ریستوران کا سارا اسٹاف خواتین پر مشتمل تھا، یہ خواتین گاؤں سے تعلق رکھتی تھیں، میں دو گھنٹے ریستوران میں بیٹھا رہا، کھانا تازہ اور دیہاتی تھا، خاتون نے بتایا ریستوران آغا خان فاؤنڈیشن نے بنایا، اسٹاف کو ٹریننگ ’’سرینا‘‘ نے دی اور یہ وادی کا مقبول ترین ریستوران ہے۔
ایگل نیسٹ ہنزہ کا خوبصورت ترین مقام ہے، یہ لیڈی فنگر کے سائے میں انتہائی بلندی پر واقع ہے، یہ جگہ ریٹائرڈ فوجی جوان علی مدد کے پردادا کی تھی، علی مدد نے 1990ء کی دہائی میں اس جگہ ایک کمرہ بنایا اور اس پر ’’ایگل نیسٹ‘‘ لکھ دیا، اس کمرے نے پوری چوٹی کو ’’ایگل نیسٹ‘‘ کا نام دے دیا، یہ ہوٹل اب 41 کمروں کا خوبصورت ’’ریزارٹ‘‘ بن چکا ہے، یہ وادی کی ’’پرائم لوکیشن‘‘ ہے، آپ کو یہاں سے ہنزہ اور نگر کی وادیاں بھی دکھائی دیتی ہیں اور ہنزہ کی گیارہ چوٹیاں بھی، یہ ہوٹل بنانا اور اس ہوٹل کے گرد گاؤں آباد کرنا انسانی معجزہ ہے اور علی مدد اس معجزے کا ’’آرکی ٹیکٹ‘‘ ہے، یہ رات تک اپنے ہوٹل میں اس طرح پھرتا رہتا ہے جس طرح خوش حال دادا اپنی صحت مند آل اولاد کے درمیان خوش خوش پھرتا ہے، علی مدد نے اس مشکل جگہ سڑک بھی پہنچائی،پانی بھی اور زندگی کی دوسری سہولتیں بھی، یہ کوششیں بارآور ثابت ہوئیں اور یہ ہوٹل اب ہنزہ کا ’’آئی کان‘‘ بن چکا ہے۔
دنیا کے خواہ کسی بھی کونے سے کوئی مسافر آئے وہ ’’ایگل نیسٹ‘‘ ضرور پہنچتا ہے، ہوٹل میں کمرہ خوش نصیبی سے ملتا ہے، آپ یہاں سے لیڈی فنگر اور راکا پوشی کے سارے رنگ دیکھ سکتے ہیں، وہ چٹان بھی ایگل نیسٹ ہوٹل کے ساتھ ہے جہاں سے11 چوٹیاں نظر آتی ہیں، یہ تمام چوٹیاں 6 ہزار میٹر سے زیادہ بلند ہیں،یہ دنیا میں اس نوعیت کا واحد مقام ہے، آپ دس منٹ کی کوشش کے بعد دنیا کی اس چھت پر پہنچ جاتے ہیں جہاں سے آپ دائرے میں گھوم کر گیارہ برفیلی چوٹیاں دیکھ سکتے ہیں، یہ مقام طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت سیاحوں کی ’’عبادت گاہ‘‘ بن جاتا ہے، لوگ صبح کے وقت یہاں سے سورج کو گیارہ چوٹیوں پر دستک دیتے دیکھتے ہیں۔۔۔
ایگل نیسٹ ہوٹل ہنزہ۔۔۔ طلوعِ صبح
دریا اور گلیشیئروں کے گدلے پانی عطاء آباد پہنچ کر صاف ہو جاتے ہیں، آپ جوں ہی عطاء آباد پہنچتے ہیں، جھیل کا سبز پانی آپ کے قدم روک لیتا ہے اور آپ بے اختیار جھیل کے کنارے رک جاتے ہیں، یہ پانی پانی نہیں شیشہ ہے اور اس شیشے میں پہاڑوں کا عکس پورے منظر کو میلوں تک پھیلی پینٹنگ بنا دیتا ہے، حکومت نے چین کی مدد سے جھیل کے ساتھ ساتھ پانچ ٹنلز بنائیں، سڑک ان ٹنلز کے اندر سے گزرتی ہے، یہ ٹنلزسات کلومیٹر لمبی ہیں اور یہ پاکستان میں اس نوعیت کا پہلا تجربہ ہے، یہ تجربہ کامیاب رہا، حکومت کو یہ تجربات مستقبل میں بھی جاری رکھنے چاہئیں، ٹنل ٹیکنالوجی پوری دنیا میں عام ہو چکی ہے، ناروے نے دنیا کی پہلی تیرتی ہوئی زیر آب سرنگ بنانے کا اعلان کیا ہے، اس سرنگ کا حجم 4 ہزار فٹ گہرا اور 3ہزار فٹ چوڑا ہو گا، اس سرنگ کی تعمیر سے سفر 21 گھنٹے سے کم ہو کر 11 گھنٹے رہ جائے گا، ہم بھی اس ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، پورے ملک کو آپس میں جوڑ سکتے ہیں، ہم چوبیس گھنٹوں کے سفر کو آٹھ دس گھنٹوں تک لا سکتے ہیں۔
۔
ہنزہ آج سے اڑھائی ہزار سال پہلے چین کے سفید ہنوں نے آباد کیا اور یہ ہنوں کی وجہ سے ہنزہ کہلایا، دریا کے ایک کنارے پر ہنزہ ہے اور دوسرے کنارے پر نگر۔ یہ دونوں شہر دو بھائیوں کی ملکیت تھے، یہ دونوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، یہ پیاس صدیوں تک چلتی رہی، نگر کے لوگ ہنزہ کے لوگوں پر حملے کرتے رہے اور ہنزہ کے سپاہی نگر کی کی فصلیں، باغ اور جانور اجاڑتے رہے، یہ دشمنی آج تک قائم ہے، آج بھی نگر کے لوگ ہنزہ کے لوگوں کو پسند نہیں کرتے اور ہنزہ کے لوگ نگر کے باسیوں کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں، ہنزہ کے حکمرانوں نے نگر کے حملہ آوروں اور شاہراہ ریشم سے گزرتے قافلوں پر نظر رکھنے کے لیے 1100 سال پہلے دریا کے کنارے خوبصورت قلعہ تعمیر کیا، یہ قلعہ ال تت فورٹ کہلاتا ہے، مقامی زبان میں ال تت اِدھر کو کہتے ہیں اور بلتت اُدھرکو، ال تت کی تعمیر کے تین سو سال بعد بلتت کا قلعہ بھی تعمیر کیا گیا، یہ قلعہ آج بھی وادی کے دوسرے کنارے پر پہاڑوں کے دامن میں موجود ہے، بادشاہ گرمیوں اور سردیوں کے مطابق اپنی رہائش گاہ تبدیل کرتے رہتے تھے۔
ہنزہ کے بادشاہ میر کہلاتے تھے، ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں 1972ء میں پہلے نگر کو پاکستان میں شامل کیا گیا اور پھر 1974ء میں ہنزہ بھی پاکستان کا حصہ بن گیا، یہ دونوں شہر اس سے قبل آزاد ریاستیں تھیں، حکومت نے شمولیت کے بدلے نگر اور ہنزہ کے حکمران خاندانوں کو خصوصی مراعات دیں، دونوں کو اسلام آباد میں پانچ پانچ کنال کے پلاٹس، وظیفہ اور خصوصی اسٹیٹس دیا گیا، نگر کے حکمران آہستہ آہستہ کاروباری دنیا میں گم ہو گئے جب کہ ہنزہ کا حکمران خاندان سیاست میں آگیا ، میر غضنفر علی خان اس وقت گلگت بلتستان کے گورنر ہیں، ان کے صاحبزادے سلیم خان والد کی خالی نشست پر صوبائی اسمبلی کاالیکشن لڑ رہے ہیں، اسلام آباد کی پوش سڑک مارگلہ روڈ پر ہنزہ ہاؤس 30 سال سے گزرنے والوں کو ہنزہ کی عظمت رفتہ کی یاد دلاتا ہے، خاندان کے پاس پرانی کاروں کا خوبصورت بیڑہ بھی ہے، یہ لوگ جب اپنی پرانی قیمتی کاروں میں سڑک پر نکلتے ہیں تو لوگ ان کی سرخ رنگ کی نمبر پلیٹ اور اس پر ہنزہ ون اور ہنزہ ٹو دیکھ کر رک جاتے ہیں، آغا خان فاؤنڈیشن نے ہنزہ میں بےتحاشہ کام کیا۔
فاؤنڈیشن نے پورا ال تت گاؤں دوبارہ بنا دیا، ال تت گاؤں کی پرانی گلیوں اور قدیم ساخت کے مکانوں میں تاریخ بکھری پڑی ہے، ال تت فورٹ کا شکوہ بھی دل میں اتر جاتا ہے، بادشاہ کہاں بیٹھتا تھا، ملکہ کہاں رہتی تھی، درباری کہاں آتے تھے، قیدیوں کو زیر زمین قید خانے میں کس طرح رکھا جاتا تھا، شاہی خاندان کے واش روم کی غلاظت قید خانے میں قیدیوں پر کیوں گرائی جاتی تھی، قیدیوں کو قلعے کی کس دیوار سے پھینک کر سزائے موت دی جاتی تھی اور حملے کے دوران شاہی خاندان کو کس کمرے میں چھپا دیا جاتا تھا اور انھیں کس طرح سرنگ سے گزار کر پانی کے تالاب تک لایا جاتا تھا،یہ ساری کہانیاں ہوش ربا ہیں، ال تت گاؤں کے درمیان تالاب ہے، یہ تالاب گلیشیئر کے ٹھنڈے پانی سے لبالب بھرا تھا، گاؤں کے نوجوان اور بچے تالاب میں نہا رہے تھے، خواتین انگور کی بیلوں کے نیچے بیٹھی تھیں اور بوڑھے تھڑوں پر بیٹھ کر جوانی کے قصے سنا رہے تھے، قلعے کے ساتھ چھوٹا سا گھریلو ریستوران تھا،ریستوران کا سارا اسٹاف خواتین پر مشتمل تھا، یہ خواتین گاؤں سے تعلق رکھتی تھیں، میں دو گھنٹے ریستوران میں بیٹھا رہا، کھانا تازہ اور دیہاتی تھا، خاتون نے بتایا ریستوران آغا خان فاؤنڈیشن نے بنایا، اسٹاف کو ٹریننگ ’’سرینا‘‘ نے دی اور یہ وادی کا مقبول ترین ریستوران ہے۔
ایگل نیسٹ ہنزہ کا خوبصورت ترین مقام ہے، یہ لیڈی فنگر کے سائے میں انتہائی بلندی پر واقع ہے، یہ جگہ ریٹائرڈ فوجی جوان علی مدد کے پردادا کی تھی، علی مدد نے 1990ء کی دہائی میں اس جگہ ایک کمرہ بنایا اور اس پر ’’ایگل نیسٹ‘‘ لکھ دیا، اس کمرے نے پوری چوٹی کو ’’ایگل نیسٹ‘‘ کا نام دے دیا، یہ ہوٹل اب 41 کمروں کا خوبصورت ’’ریزارٹ‘‘ بن چکا ہے، یہ وادی کی ’’پرائم لوکیشن‘‘ ہے، آپ کو یہاں سے ہنزہ اور نگر کی وادیاں بھی دکھائی دیتی ہیں اور ہنزہ کی گیارہ چوٹیاں بھی، یہ ہوٹل بنانا اور اس ہوٹل کے گرد گاؤں آباد کرنا انسانی معجزہ ہے اور علی مدد اس معجزے کا ’’آرکی ٹیکٹ‘‘ ہے، یہ رات تک اپنے ہوٹل میں اس طرح پھرتا رہتا ہے جس طرح خوش حال دادا اپنی صحت مند آل اولاد کے درمیان خوش خوش پھرتا ہے، علی مدد نے اس مشکل جگہ سڑک بھی پہنچائی،پانی بھی اور زندگی کی دوسری سہولتیں بھی، یہ کوششیں بارآور ثابت ہوئیں اور یہ ہوٹل اب ہنزہ کا ’’آئی کان‘‘ بن چکا ہے۔
دنیا کے خواہ کسی بھی کونے سے کوئی مسافر آئے وہ ’’ایگل نیسٹ‘‘ ضرور پہنچتا ہے، ہوٹل میں کمرہ خوش نصیبی سے ملتا ہے، آپ یہاں سے لیڈی فنگر اور راکا پوشی کے سارے رنگ دیکھ سکتے ہیں، وہ چٹان بھی ایگل نیسٹ ہوٹل کے ساتھ ہے جہاں سے11 چوٹیاں نظر آتی ہیں، یہ تمام چوٹیاں 6 ہزار میٹر سے زیادہ بلند ہیں،یہ دنیا میں اس نوعیت کا واحد مقام ہے، آپ دس منٹ کی کوشش کے بعد دنیا کی اس چھت پر پہنچ جاتے ہیں جہاں سے آپ دائرے میں گھوم کر گیارہ برفیلی چوٹیاں دیکھ سکتے ہیں، یہ مقام طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت سیاحوں کی ’’عبادت گاہ‘‘ بن جاتا ہے، لوگ صبح کے وقت یہاں سے سورج کو گیارہ چوٹیوں پر دستک دیتے دیکھتے ہیں۔۔۔
ایگل نیسٹ ہوٹل ہنزہ۔۔۔ طلوعِ صبح
آنکھوں کے سامنے برف پوش چوٹیاں اندھیرے کا نقاب الٹ کر سامنے آتی ہیں، پھر ان کے رخساروں پر سورج کا سنہرا پن اترتا ہے، پھر یہ سنہرا پن چمکنے لگتا ہے اور پھر پوری وادی میں نیا دن طلوع ہو جاتا ہے، یہ جگہ غروب آفتاب کے وقت ایک بار پھر مقدس ہو جاتی ہے، آپ اگر یہاں کھڑے ہوں تو سورج آپ کی نظروں کے سامنے اپنی کرنیں سمیٹے گا اور سونے کے لیے راکا پوشی کے برفیلے غاروں میں گم ہو جائے گا، صبح اور شام ایگل نیسٹ کے دو خوبصورت انمول وقت ہیں، یہ لائف ٹائم تجربہ ہیں اور میں دو دن یہ لائف ٹائم تجربہ کرتا رہا یہاں تک کہ میں کل سوموار کی صبح گلگت آنے سے پہلے بھی بالکونی میں بیٹھ کر راکا پوشی پر صبح صادق کو اترتے دیکھتا رہا، وادی میں اس وقت روحوں کے قہقہے اور فرشتوں کے پروں کی آوازیں آ رہی تھیں اور زندگی وقت کی تال پر رقص کر رہی تھی۔
وہ ایک انمول لمحہ تھا۔
ال تت قلعے سے ہنزہ اور اس کے پہاڑی سلسلے۔
وہ ایک انمول لمحہ تھا۔
ال تت قلعے سے ہنزہ اور اس کے پہاڑی سلسلے۔
بلتت سے خنجراب تک"۔"
بلتت فورٹ ہنزہ کا دوسرا قلعہ ہے، یہ قلعہ شہر کے بالائی حصے میں پہاڑوں کے دامن میں پناہ گزین ہے، آپ کو محل تک پہنچنے کے لیے گلیوں کے اندر چڑھائی چڑھنا پڑتی ہے اور یہ ہم جیسے شہریوں کے لیے جان جوکھوں کا کام ہے لیکن آپ اگر سانس سنبھال کر محل تک پہنچ جائیں تو آپ کو وہاں مایوسی نہیں ہوتی، محل آپ کو مبہوت کر دیتا ہے، محل کی پچھلی دیوار کے ساتھ ماضی میں گلیشیئر ہوتا تھا، ماضی کے حکمرانوں نے پچھلی دیواروں کے ساتھ قدرتی فریج بنا رکھے تھے، گلیشیئر کی ٹھنڈی ہوائیں برفیلے غاروں سے ہوتی ہوئیں چھوٹے چھوٹے کمروں تک پہنچتی تھیں اور یہ ان کمروں کو فریج کی طرح ٹھنڈا کر دیتی تھیں، میر آف ہنزہ ان کمروں میں کھانے کی اشیا اسٹور کرتے تھے، اس قسم کا ایک کمرہ مین کچن کے ساتھ بھی تھا، میں نے اندرہاتھ ڈال کر دیکھا، وہ آج بھی دوسرے کمروں کی نسبت ٹھنڈا تھا، میر آف ہنزہ کے بیڈ روم میں ایک تنور نما گڑھا تھا، گائیڈ نے بتایا یہ تنور میر کی ’’وائن کیبنٹ‘‘ تھی، بادشاہ یہاں اپنی شراب اسٹور کرتا تھا، یہ ’’تنور‘‘ بھی قدرتی فریج تھا، یہ گرم مشروب کو ٹھنڈا رکھتا تھا، بادشاہ کی نشست کے سامنے ’’ریمپ‘‘ تھا، فریادی اور عوامی نمایندے ریمپ کے آخری سرے پر کھڑے ہوتے تھے۔
ریمپ کے نیچے سوراخ تھا، سوراخ پر لکڑی کا دروازہ تھا، فریادی بادشاہ سے مخاطب ہونے سے پہلے دروازہ اٹھا کر سوراخ میں نذرانہ ڈالتا تھا، یہ نذرانہ عموماً گندم، جو اور خشک خوبانیوں کی صورت میں ہوتا تھا، بادشاہ نذرانے کی وصولی کے بعد فریادی کو بولنے کا اشارہ کرتا تھا، ریمپ کے ساتھ پرانے زمانے کے پیمانے رکھے تھے، یہ پیمانے ناپ تول کے کام آتے تھے، بادشاہ بعض اوقات نذرانہ ناپنے اور تولنے کا حکم بھی جاری کر دیتا تھا اگر نذرانہ دینے والی کی استطاعت سے کم ہوتا تھا تو بادشاہ ناراض ہوجاتا تھا یوں فریادی کو خالی ہاتھ لوٹنا پڑ جاتا تھا،محل کے نیچے بڑے بڑے گودام تھے، یہ نذرانے ان گوداموں میں پہنچ جاتے تھے اور بادشاہ اور اس کے اسٹاف کے کام آتے تھے، ہنزہ کے لوگ اس زمانے میں پتھر کے برتنوں میں کھانا پکاتے تھے، محل کے شاہی باورچی خانے میں قدیم زمانے کے توے، کڑاہیاں اور دیگچیاں رکھی ہیں، یہ پتھر کی بنی ہیں اور یہ پرانے زمانے کے لوگوں کی ہنرمندی کی ضامن ہیں، وہ لوگ کدو کے جگ، گلاس اور صراحیاں بناتے تھے، یہ مارخور اور یاک کے سینگھوں کے پیمانے، کپ اور پیالے بھی تیار کرتے تھے، یہ چیزیں بھی وہاں رکھی ہیں، قلعہ انسانی صناعی کا زندہ ثبوت ہے، یہ انتہائی بلند چٹانوں پر پتھروں اور لکڑیوں کی مدد سے بنایا گیا، قلعے کے ایک طرف وادی ہے۔
یہ وادی قلعے کی چھت سے شاہراہ ریشم تک صاف دکھائی دیتی ہے جب کہ دوسری طرف گلیشیئر اور پہاڑ ہیں چنانچہ یہ قلعہ دونوں طرف سے محفوظ تھا، قلعے کے گرد اونچی نیچی گلیوں میں بلتت کا گاؤں آباد ہے، آغا خان فاؤنڈیشن نے گلیوں، گاؤں اور قلعہ تینوں پر کروڑوں روپے خرچ کیے، تزئین و آرائش کی اور سیاحوں کے لیے ان میں کشش پیدا کر دی، گلیوں میں چھوٹی چھوٹی دکانیں بھی ہیں، دکاندار ان دکانوں میں تازہ پھل، خشک میوہ جات اور ہنزہ کی جڑی بوٹیاں فروخت کرتے ہیں، گھر پرانے اور روایتی ہیں، گلیشیئر کا پانی چھوٹی بڑی نالیوں کے ذریعے تمام محلوں اور گھروں سے گزرتا ہے، لوگ یہ پانی پیتے بھی ہیں اور اس سے کھیتی باڑی بھی کرتے ہیں، صحنوں میں انجیر، خوبانی، آلو بخارے اور چیری کے درخت ہیں، چھتوں سے انگور کی بیلیں لٹک رہی ہیں، یہ لوگ کھیتوں میں آلو کاشت کرتے ہیں، ہنزہ کا آلو ہمارے پنجاب کے آلوؤں سے مختلف ہے، گاؤں میں ہنزہ کے روایتی کھانوں کے چند ریستوران بھی ہیں، آپ ان ریستورانوں میں یاک کی پنیر سے بنے کھانے کھا سکتے ہیں، بلتت کے لوگ بہت اچھے، ہنس مکھ اور مہربان ہیں، یہ اپنی دل آویز مسکراہٹ سے آپ کا دل موہ لیتے ہیں۔
خنجراب میری اگلی منزل تھا، یہ پاکستان اور چین کا مشترکہ بارڈر ہے، یہ اٹھارہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے، چاروں طرف برف پوش پہاڑ ہیں، پہاڑوں کے درمیان بے شمار چشمے ہیں، یہ چشمے جمع ہو کر دریا بنتے ہیں اور یہ دریا گلگت کی طرف سفر شروع کردیتا ہے، یہ درہ ہزاروں سال سے برصغیر پاک وہند اور چین کے درمیان زمینی رابطہ ہے، یہ چھ ماہ برف میں دفن رہتا ہے، یہ شدید برفباری کی وجہ سے تین ماہ آمد و رفت کے لیے بند کر دیا جاتا ہے، چین نے کاشغر سے گلگت تک خوبصورت سڑک بنا کر دونوں ملکوں کو آپس میں جوڑ دیا یوں ماضی کا مشکل سفر حال میں آسان ہو گیا، میں اتوار کی صبح خنجراب روانہ ہوا، ہنزہ سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر عطاء آباد جھیل تھی، یہ قدرتی جھیل جنوری 2010ء میں پورا پہاڑ دریا میں گرنے سے معرض وجود میں آئی، پہاڑ پر عطاء آباد کا اندھیرا گاؤں تھا، گاؤں میں صرف دو گھنٹے کے لیے سورج کی روشنی پڑتی تھی، روشنی کی کمی کی وجہ سے گاؤں کی آبادی بہت کم تھی، یہ گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گیا لیکن یہ جاتے جاتے جھیل کو عطاء آباد کا نام دے گیا۔
بلتت فورٹ ہنزہ کا دوسرا قلعہ ہے، یہ قلعہ شہر کے بالائی حصے میں پہاڑوں کے دامن میں پناہ گزین ہے، آپ کو محل تک پہنچنے کے لیے گلیوں کے اندر چڑھائی چڑھنا پڑتی ہے اور یہ ہم جیسے شہریوں کے لیے جان جوکھوں کا کام ہے لیکن آپ اگر سانس سنبھال کر محل تک پہنچ جائیں تو آپ کو وہاں مایوسی نہیں ہوتی، محل آپ کو مبہوت کر دیتا ہے، محل کی پچھلی دیوار کے ساتھ ماضی میں گلیشیئر ہوتا تھا، ماضی کے حکمرانوں نے پچھلی دیواروں کے ساتھ قدرتی فریج بنا رکھے تھے، گلیشیئر کی ٹھنڈی ہوائیں برفیلے غاروں سے ہوتی ہوئیں چھوٹے چھوٹے کمروں تک پہنچتی تھیں اور یہ ان کمروں کو فریج کی طرح ٹھنڈا کر دیتی تھیں، میر آف ہنزہ ان کمروں میں کھانے کی اشیا اسٹور کرتے تھے، اس قسم کا ایک کمرہ مین کچن کے ساتھ بھی تھا، میں نے اندرہاتھ ڈال کر دیکھا، وہ آج بھی دوسرے کمروں کی نسبت ٹھنڈا تھا، میر آف ہنزہ کے بیڈ روم میں ایک تنور نما گڑھا تھا، گائیڈ نے بتایا یہ تنور میر کی ’’وائن کیبنٹ‘‘ تھی، بادشاہ یہاں اپنی شراب اسٹور کرتا تھا، یہ ’’تنور‘‘ بھی قدرتی فریج تھا، یہ گرم مشروب کو ٹھنڈا رکھتا تھا، بادشاہ کی نشست کے سامنے ’’ریمپ‘‘ تھا، فریادی اور عوامی نمایندے ریمپ کے آخری سرے پر کھڑے ہوتے تھے۔
ریمپ کے نیچے سوراخ تھا، سوراخ پر لکڑی کا دروازہ تھا، فریادی بادشاہ سے مخاطب ہونے سے پہلے دروازہ اٹھا کر سوراخ میں نذرانہ ڈالتا تھا، یہ نذرانہ عموماً گندم، جو اور خشک خوبانیوں کی صورت میں ہوتا تھا، بادشاہ نذرانے کی وصولی کے بعد فریادی کو بولنے کا اشارہ کرتا تھا، ریمپ کے ساتھ پرانے زمانے کے پیمانے رکھے تھے، یہ پیمانے ناپ تول کے کام آتے تھے، بادشاہ بعض اوقات نذرانہ ناپنے اور تولنے کا حکم بھی جاری کر دیتا تھا اگر نذرانہ دینے والی کی استطاعت سے کم ہوتا تھا تو بادشاہ ناراض ہوجاتا تھا یوں فریادی کو خالی ہاتھ لوٹنا پڑ جاتا تھا،محل کے نیچے بڑے بڑے گودام تھے، یہ نذرانے ان گوداموں میں پہنچ جاتے تھے اور بادشاہ اور اس کے اسٹاف کے کام آتے تھے، ہنزہ کے لوگ اس زمانے میں پتھر کے برتنوں میں کھانا پکاتے تھے، محل کے شاہی باورچی خانے میں قدیم زمانے کے توے، کڑاہیاں اور دیگچیاں رکھی ہیں، یہ پتھر کی بنی ہیں اور یہ پرانے زمانے کے لوگوں کی ہنرمندی کی ضامن ہیں، وہ لوگ کدو کے جگ، گلاس اور صراحیاں بناتے تھے، یہ مارخور اور یاک کے سینگھوں کے پیمانے، کپ اور پیالے بھی تیار کرتے تھے، یہ چیزیں بھی وہاں رکھی ہیں، قلعہ انسانی صناعی کا زندہ ثبوت ہے، یہ انتہائی بلند چٹانوں پر پتھروں اور لکڑیوں کی مدد سے بنایا گیا، قلعے کے ایک طرف وادی ہے۔
یہ وادی قلعے کی چھت سے شاہراہ ریشم تک صاف دکھائی دیتی ہے جب کہ دوسری طرف گلیشیئر اور پہاڑ ہیں چنانچہ یہ قلعہ دونوں طرف سے محفوظ تھا، قلعے کے گرد اونچی نیچی گلیوں میں بلتت کا گاؤں آباد ہے، آغا خان فاؤنڈیشن نے گلیوں، گاؤں اور قلعہ تینوں پر کروڑوں روپے خرچ کیے، تزئین و آرائش کی اور سیاحوں کے لیے ان میں کشش پیدا کر دی، گلیوں میں چھوٹی چھوٹی دکانیں بھی ہیں، دکاندار ان دکانوں میں تازہ پھل، خشک میوہ جات اور ہنزہ کی جڑی بوٹیاں فروخت کرتے ہیں، گھر پرانے اور روایتی ہیں، گلیشیئر کا پانی چھوٹی بڑی نالیوں کے ذریعے تمام محلوں اور گھروں سے گزرتا ہے، لوگ یہ پانی پیتے بھی ہیں اور اس سے کھیتی باڑی بھی کرتے ہیں، صحنوں میں انجیر، خوبانی، آلو بخارے اور چیری کے درخت ہیں، چھتوں سے انگور کی بیلیں لٹک رہی ہیں، یہ لوگ کھیتوں میں آلو کاشت کرتے ہیں، ہنزہ کا آلو ہمارے پنجاب کے آلوؤں سے مختلف ہے، گاؤں میں ہنزہ کے روایتی کھانوں کے چند ریستوران بھی ہیں، آپ ان ریستورانوں میں یاک کی پنیر سے بنے کھانے کھا سکتے ہیں، بلتت کے لوگ بہت اچھے، ہنس مکھ اور مہربان ہیں، یہ اپنی دل آویز مسکراہٹ سے آپ کا دل موہ لیتے ہیں۔
خنجراب میری اگلی منزل تھا، یہ پاکستان اور چین کا مشترکہ بارڈر ہے، یہ اٹھارہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے، چاروں طرف برف پوش پہاڑ ہیں، پہاڑوں کے درمیان بے شمار چشمے ہیں، یہ چشمے جمع ہو کر دریا بنتے ہیں اور یہ دریا گلگت کی طرف سفر شروع کردیتا ہے، یہ درہ ہزاروں سال سے برصغیر پاک وہند اور چین کے درمیان زمینی رابطہ ہے، یہ چھ ماہ برف میں دفن رہتا ہے، یہ شدید برفباری کی وجہ سے تین ماہ آمد و رفت کے لیے بند کر دیا جاتا ہے، چین نے کاشغر سے گلگت تک خوبصورت سڑک بنا کر دونوں ملکوں کو آپس میں جوڑ دیا یوں ماضی کا مشکل سفر حال میں آسان ہو گیا، میں اتوار کی صبح خنجراب روانہ ہوا، ہنزہ سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر عطاء آباد جھیل تھی، یہ قدرتی جھیل جنوری 2010ء میں پورا پہاڑ دریا میں گرنے سے معرض وجود میں آئی، پہاڑ پر عطاء آباد کا اندھیرا گاؤں تھا، گاؤں میں صرف دو گھنٹے کے لیے سورج کی روشنی پڑتی تھی، روشنی کی کمی کی وجہ سے گاؤں کی آبادی بہت کم تھی، یہ گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گیا لیکن یہ جاتے جاتے جھیل کو عطاء آباد کا نام دے گیا۔
دریا اور گلیشیئروں کے گدلے پانی عطاء آباد پہنچ کر صاف ہو جاتے ہیں، آپ جوں ہی عطاء آباد پہنچتے ہیں، جھیل کا سبز پانی آپ کے قدم روک لیتا ہے اور آپ بے اختیار جھیل کے کنارے رک جاتے ہیں، یہ پانی پانی نہیں شیشہ ہے اور اس شیشے میں پہاڑوں کا عکس پورے منظر کو میلوں تک پھیلی پینٹنگ بنا دیتا ہے، حکومت نے چین کی مدد سے جھیل کے ساتھ ساتھ پانچ ٹنلز بنائیں، سڑک ان ٹنلز کے اندر سے گزرتی ہے، یہ ٹنلزسات کلومیٹر لمبی ہیں اور یہ پاکستان میں اس نوعیت کا پہلا تجربہ ہے، یہ تجربہ کامیاب رہا، حکومت کو یہ تجربات مستقبل میں بھی جاری رکھنے چاہئیں، ٹنل ٹیکنالوجی پوری دنیا میں عام ہو چکی ہے، ناروے نے دنیا کی پہلی تیرتی ہوئی زیر آب سرنگ بنانے کا اعلان کیا ہے، اس سرنگ کا حجم 4 ہزار فٹ گہرا اور 3ہزار فٹ چوڑا ہو گا، اس سرنگ کی تعمیر سے سفر 21 گھنٹے سے کم ہو کر 11 گھنٹے رہ جائے گا، ہم بھی اس ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، پورے ملک کو آپس میں جوڑ سکتے ہیں، ہم چوبیس گھنٹوں کے سفر کو آٹھ دس گھنٹوں تک لا سکتے ہیں۔
سست بارڈر پاکستان کا آخری ٹاؤن ہے یہاں امیگریشن اور کسٹم کے دفاتر ہیں، یہ ہنزہ سے دو گھنٹے کے فاصلے پر ہے جب کہ خنجراب کے لیے سست سے مزید دو گھنٹے سفر کرنا پڑتا ہے، یوں یہ سفر چار گھنٹوں پر محیط ہو جاتا ہے، سست غریبانہ، کم آباد اور گندہ سا گاؤں ہے، حکومت کو اس گاؤں پر خصوصی توجہ دینی چاہیے، کیوں؟ کیونکہ یہ چین کی طرف سے آنے والے مسافروں کے لیے پاکستان کا پہلا تعارف ہے اور ہمیں کم از کم اپنا تعارف ضرور ٹھیک کر لینا چاہیے، پاکستان کا آخری واش روم بھی ’’سست‘‘ میں ہے، یہ سہولت اس کے بعد کسی جگہ موجود نہیں حتیٰ کہ میں نے خنجراب میں سیکڑوں لوگوں، خواتین اور بچوں کو خوار ہوتے دیکھا، یہ غفلت غیر انسانی ہے۔
حکومت کو اس کا فوری نوٹس لینا چاہیے، سست سے چڑھائی میں اضافہ ہو جاتا ہے، سڑک بل کھاتی جاتی ہے، اوپر چڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ یہ اس درے میں پہنچ جاتی ہے جو ہزاروں سال طالع آزماؤں، سیاحوں اور تاجروں کی توجہ کا مرکز رہا، یہ درہ شاہراہ ریشم کی گزر گاہ تھا، چین کے پاس ریشم بنانے کا فن تھا، چینیوں نے یہ فن دنیا سے ہزاروں سال خفیہ رکھا، یہ خفیہ طریقے سے ریشم کے کیڑے پالتے تھے، انھیں شہتوت کے پتوں میں ککون بنانے کا موقع دیتے تھے اور آخر میں ککون سے ریشم کا دھاگہ نکال کر اس کا کپڑا بُن لیتے تھے، یہ کپڑا درہ خنجراب پار کر کے دنیا تک پہنچتا تھا، یہ عمل اس وقت تک خفیہ رہا جب تک یورپ کے دو پادری اپنی دستی چھڑیوں میں ریشم کے چند کیڑے چھپا کر چین سے فرار ہونے میں کامیاب نہیں ہو گئے۔
یہ کیڑے جوں ہی چین سے نکلے دنیا پر ریشم کا راز افشا ہوگیا، ریشمی کپڑا ہزاروں سال اس درے کے ذریعے دنیا تک پہنچتا رہا، ریشم کا راز بھی یہیں سے باہر نکلا، درہ خنجراب قدرت کا خوبصورت معجزہ ہے، آپ جوں ہی درے میں داخل ہوتے ہیں آپ کو چاروں اطراف برف پوش پہاڑ نظر آتے ہیں، پہاڑوں کے درمیان ایک وسیع وادی ہے، وادی میں درجنوں چشمے بہہ رہے ہیں، یہ چشمے پہاڑوں کی چوٹیوں اور گلیشیئرز سے نکلتے ہیں، وادی کو سڑک دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔
خنجراب کے شروع میں پاکستان کی سیکیورٹی پوسٹ ہے، پوسٹ کے ساتھ چین اور پاکستان کے جھنڈے لگے ہیں، پاکستانی پوسٹ سے چند سو میٹر کے فاصلے پر چین کی پوسٹ ہے، یہ دونوں پوسٹیں دونوں ملکوں کی نفسیات، معیشت اور اعتماد کو ظاہر کرتی ہیں، پاکستانی پوسٹ غریبانہ، شرمیلی اور پریشان حال ہے جب کہ چین کی پوسٹ انتہائی خوبصورت، بااعتماد اور باوقار ہے، چینی پوسٹ کے سامنے ہمارا صرف ایک سپاہی کھڑا تھا جب کہ چین کی طرف 8 آفیسرز لائن میں کھڑے تھے، ہماری سائیڈ پر ایک باریک سی رسی سرحد کی نشاندہی کر رہی تھی، جب کہ چین کی طرف 8 آفیسرز لائن میں کھڑے تھے۔۔۔۔ یہ کیڑے جوں ہی چین سے نکلے دنیا پر ریشم کا راز افشا ہوگیا، ریشمی کپڑا ہزاروں سال اس درے کے ذریعے دنیا تک پہنچتا رہا، ریشم کا راز بھی یہیں سے باہر نکلا، درہ خنجراب قدرت کا خوبصورت معجزہ ہے، آپ جوں ہی درے میں داخل ہوتے ہیں آپ کو چاروں اطراف برف پوش پہاڑ نظر آتے ہیں، پہاڑوں کے درمیان ایک وسیع وادی ہے، وادی میں درجنوں چشمے بہہ رہے ہیں، یہ چشمے پہاڑوں کی چوٹیوں اور گلیشیئرز سے نکلتے ہیں، وادی کو سڑک دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں