یقین اور بےیقینی کی ناہموار ڈھلانوں پر بےسمت سفر کرتے ہوئے زندگی کا طویل رستہ کبھی کبھی جی ٹی روڈ پر رات کے اندھیرے میں ٹرک کے پیچھے جگمگاتی روشنیوں کی رہنمائی میں نامعلوم منزل کی اؐمید میں دھیرے دھیرے آگے بڑھنے کا ہےاور پھر دن کے اجالے میں اپنی نادانی اور حماقت پر مسکرانے اور جھنجھلانے کا ہے جب پتہ چلتا ہے کہ وہ روشن چمکتی بتیاں تو محض خاص قسم کے رنگ برنگے کاغذی اسٹیکر تھے جو رات کی تاریکی میں درمیانی فاصلہ خطرناک حد تک کم ہونے کے کسی ممکنہ حادثے سے بچنے کی خاطر چسپاں کیے جاتے ہیں۔
آج کے ترقی یافتہ دور کو گلوبل ولیج کہا جاتا ہےجب انسان اپنے گھر کے ایک گوشے میں بیٹھ کر ساری دُنیا گھوم لیتا ہے۔ وقت کے ایک ہی لمحے میں ہزاروں میل بسنے والے چہروں کو نگاہوں سے چھو لیتا ہے۔ آواز سے محسوس کرسکتا ہے اور اپنے دل کی آواز کسی کے دل تک بخوبی پہنچا دیتا ہے۔دورِجدید کی تیزرفتار ٹیکنالوجی کی بدولت زمینی فاصلے صرف خواہش اور وسائل کے محتاج ہیں۔ انسان خواہ ذہنی طور پر کتنا ہی آگے کیوں نہ نکل جائے اسے اپنی ضروریات کے لیے گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔
شیرشاہ سوری کی بنائی گئی جرنیلی سڑک جسے انگریزی میں گرینڈ ٹرنک روڈ یا مختصراً "جی ٹی روڈ" کہا جاتا ہے۔اس کی مخصوص پہچان وہ بھاری بھرکم ٹرک ہیں جو اگر ٹریفک کے بہاؤ میں خلل ڈالتے ہیں تو اپنے رنگوں سے نظروں کو اپنی طرف مائل بھی کرتے ہیں۔چمکتے دمکتے شوخ رنگوں سے سجے ٹرک اگر نئی نویلی دُلہن کی طرح مہکتے ہیں تو وقت کی گرد میں اٹے اُجڑے ٹرک سفرِمسلسل کی کہانی کہتے ملتے ہیں۔گردشِ دوراں اُن کی خوبصورتی نچوڑکرظاہری طور پر بےحیثیت بنا بھی دے لیکن اُن کی قدروقیمت اُن کے چلتے رہنے کی وجہ سے کم نہیں ہوتی۔ایسے بوسیدہ تھکے ہوئے ٹرکوں کی اصل کشش اُن کے عارضی رنگ کی زندگی میں نہیں بلکہ اُن پر موتی کی صورت لکھے لفظ میں ملتی ہے۔ وہ لفظ جو لکھنے والے یا تو اپنی ذہنی استعداد کے مطابق لکھتے ہیں یا پھر اُن سے لکھوائے جاتے ہیں۔
شیرشاہ سوری کی بنائی گئی جرنیلی سڑک جسے انگریزی میں گرینڈ ٹرنک روڈ یا مختصراً "جی ٹی روڈ" کہا جاتا ہے۔اس کی مخصوص پہچان وہ بھاری بھرکم ٹرک ہیں جو اگر ٹریفک کے بہاؤ میں خلل ڈالتے ہیں تو اپنے رنگوں سے نظروں کو اپنی طرف مائل بھی کرتے ہیں۔چمکتے دمکتے شوخ رنگوں سے سجے ٹرک اگر نئی نویلی دُلہن کی طرح مہکتے ہیں تو وقت کی گرد میں اٹے اُجڑے ٹرک سفرِمسلسل کی کہانی کہتے ملتے ہیں۔گردشِ دوراں اُن کی خوبصورتی نچوڑکرظاہری طور پر بےحیثیت بنا بھی دے لیکن اُن کی قدروقیمت اُن کے چلتے رہنے کی وجہ سے کم نہیں ہوتی۔ایسے بوسیدہ تھکے ہوئے ٹرکوں کی اصل کشش اُن کے عارضی رنگ کی زندگی میں نہیں بلکہ اُن پر موتی کی صورت لکھے لفظ میں ملتی ہے۔ وہ لفظ جو لکھنے والے یا تو اپنی ذہنی استعداد کے مطابق لکھتے ہیں یا پھر اُن سے لکھوائے جاتے ہیں۔
تعلیم وادب کا معیار کسی معاشرے کے مہذب ہونے کی پہلی سیڑھی ہے یہ ٹوٹے پھوٹے بےربط جملے یا بےوزن اور بظاہر عامیانہ اشعار کےلکھنے والے اگرچہ ادب یا اعلیٰ تعلیم سے بےبہرہ ہوتے ہیں لیکن معاشرے میں عام فرد کی ذہنی سطح کی بخوبی ترجمانی کرتے ہیں اور اکثر ان لفظوں اور جملوں کی گہرائی کسی ادب کی کتاب سے بڑھ کر محسوس ہوتی ہے۔ کتاب کسی بھی لکھنے والے کی خاص ذہنی صلاحیت کو سامنے لاتی ہے تو نامعلوم افراد کی طرف سے لکھے گئے یہ مختصرجملے جو سفر کرتے ہوئے بس کچھ ہی لمحوں کواچانک نظروں کے سامنے آتے ہیں اکثر بہت خاص سبق دے جاتے ہیں۔
" وقت سے پہلے نہیں نصیب سے زیادہ نہیں "
"دیکھ پیارے زندگی ہماری"
"موت سے دوستی سڑک سے یاری"
"ہم تیرے بن جی نہ سکے"
......
٭ٹرک آرٹ (سلائیڈ شو۔۔ایکسپریس نیوز)۔۔۔
" وقت سے پہلے نہیں نصیب سے زیادہ نہیں "
"دیکھ پیارے زندگی ہماری"
"موت سے دوستی سڑک سے یاری"
"ہم تیرے بن جی نہ سکے"
......
٭ٹرک آرٹ (سلائیڈ شو۔۔ایکسپریس نیوز)۔۔۔
Deewan e Transport
جواب دیںحذف کریںhttp://pakistaniat.com/2009/02/15/rickshaw-bus-poetry/